سالک ادیب بونتیؔ،عمری
کتاب ’شعاعِ سخن‘ جناب دانش حماد جاذب کا شعری مجموعہ ہے ۔صاحبِ مجموعہ سے میری شناسائی 2005ء میں ہوئی، درمیان میں کسی سبب رابطہ منقطع ہوگیا پھر2011ء میں دوبارہ رابطہ ممکن ہوا الحمدللہ، اور اس رابطےکی بنیاد صرف اور صرف اردو شعر وادب تھی۔ یوں ہماری شناسائی کم وبیش پندرہ سالوں پر مشتمل ہے، جامعہ دارالسلام عمرآباد میں جب میرا داخلہ ہوا تب دانش عالمیت میں تھے ان کی تخلیقات سالار اور راشٹریہ سہارا میں شائع ہوتی تھیں اور ہمیں دیکھ کر بہت خوشی ہوتی تھی۔ اس وقت مجھے شعر وادب کا کوئی شعورنہیں تھا ۔ایک وہ دن تھا اور آج کا دن کہ میں جاذبؔ کی شاعری پر لب کشائی کرنے جا رہا ہوں۔۔۔زہےنصیب
جاذب ایک مصروف تاجر ہونے کے ساتھ ساتھ بڑے مخلص علم دوست ہیں۔ اس نسبت سے میں جاذب کی تقریباً ہر تخلیق کا پہلا قاری اور پہلا سامع رہا ہوں۔ میں نے موصوف کی شاعری کو گرتے سنبھلتے اور ڈوب کر ابھرتے ہوئے بہت قریب سے دیکھا ہے۔ دکان میں ایک طرف حساب وکتاب کی ڈائری اور دوسری جانب اردو ادب کی تاریخ، شاعری، مضامین، تنقید اور آپ بیتیوں پر مشتمل ضخیم کتابیں بہت کچھ بیان کرتی ہیں۔ میرےعلم کےمطابق موصوف نے دورانِ سفر ہی بیشتر اشعار کہے ہیں۔ بعض غزلیں تو میرے شریکِ سفر ہوتے ہوئے بھی کہی گئی ہیں۔
آمدم برسر مطلب جئینت گڑھ مغربی سنگھ بھوم کا وہ علاقہ ہے جسے شعر وادب کے حوالے سے کبھی دیکھا ہی نہیں گیا اس کی دو بنیادی وجوہات ہیں، پہلی وجہ ماحول ہے جہاں سلیقے سے اردو بولنے والے خال خال بھی نظر نہ آئیں گے جبکہ دوسری بڑی وجہ تنگ ذہنی کے شکار افراد ہیں جو غزل گوئی کو تختہ فتویٰ بنانے میں عار محسوس کرنا تو کجا الٹا فخر محسوس کرتے ہیں۔ ایسے ماحول میں جاذب نے نہ صرف یہ کہ شعر گوئی کی جسارت کی بلکہ آئندہ نسل کے لیے سرِراہ ایک ایسا چراغ روشن کر دیا جس کی روشنی دیرینہ ہوگی ان شاءاللہ
زیرِ نظر مجموعہ جاذب کی ابتدائی شاعری پر مشتمل ہے جس میں موصوف نے سخن کی مختلف اصناف پر طبع آزمائی کی ہے اور کسی حذف کے بغیر مکمل کاوشوں کو ’شعاعِ سخن‘ کی لڑی میں پرو دیا ہے۔
کتاب کی ابتدا سورہ فاتحہ کے منظوم ترجمے سے ہوتی ہے، نہایت آسان اور سلیس انداز میں ’ایاک نعبدوا ویاک نستعین‘ کی ترجمانی کرتے ہوئے یہ دو مصرعے دیکھیں:
جھکا ہے عبادت میں سر صرف تیری
تجھی سے طلب ہر مدد ہر دعا ہے
محاسنِ سخن:
جاذب کی شاعری پر کچھ لکھنا مجھ جیسےکم مایہ شخص کےبس کی بات ہرگزنہیں تاہم اپنی بساط پر محسوسات کورقم کردینامیں دوستی کافرض سمجھتاہوں۔جاذب کی شاعری میں تشبیہات وتمثیلات کاایک خوبصورت سنگم نظرآتاہے جسےپڑھ کرقاری جھوم اٹھےگاکیونکہ اس میں اُسےاپنی مماثلت نظرآئےگی بطورِثبوت چنداشعارملاحظہ فرمائیں:
سرخ لب ان کےپنکھڑی گویا
چیرہ کھلتا گلاب ہوجیسے
شعرمیں موصوف نے استادجگرسےاستفادہ کیاہےتاہم یہ امرقابلِ ستائش ہےکہ استفادےکوبرقراررکھتےہوئے تشبیہ کوتمثیل کااپناپیرہن عطاکیاہے … آگےکہتےہیں
مہ جبیں پرہےاس طرح گیسو
ریشمی اک حجاب ہو جیسے
گیسو کو بطورِ حجاب برتنا پھر حجاب کوریشم سے نسبت دے کر شاعر نے سخن کوایک نئی خوشبومیں بسادیاہے ۔
یہ شعردیکھیں
پہلے لگتا ہے یہ پھر سوکھ کے جھڑ جاتا ہے
عشق تو پیڑ کے پتوں کی طرح ہوتا ہے
اردو شعروادب میں لفظ ’عشق‘ کو بے شمار انداز میں برتا، پرکھا اور آزمایاگیاہے لیکن جاذب نےجس سلیقہ شعاری سےعشق کوپیڑکےپتوں سےتشبیہ دی ہے اس کی مثال کم ہی نظرآتی ہے ساتھ ہی سوکھنےکاوصف لاکر تمثیل کونہایت پراثربنادیاگیاہے جس سےقاری محظوظ ہوئےبغیرنہیں رہ سکتا۔
جاذب کےیہاں استعارےبھی بڑےپرکیف پیرائے میں ملتےہیں مثلاً یہ شعر
چوری سے ایسے آیا خبر تک نہیں ہوئی
آکروہ میرے دل میں ٹھکانہ بنا گیا
چوری سےآنا اورچور کی طرح آنےمیں مضمرادب کو جاذب نےخوب سمجھاہے
تشبیہِ تمثیل کےیہ دواشعارنذرِقارئین؛
برستی ہو،گرجتی ہو، جو ساون جھوم کے آئے
چمکتی برق کی جیسی امڈتی اک گھٹا ہو تم
تری آنکھیں ہیں بالکل جھیل سی،گیسوگھنےبادل
تری باتوں میں جادوہےکہ دلکش دلرباہوتم
موصوف حافظِ قرآن ہیں اور جامعہ دارالسلام، عمرآباد سے عالمیت بھی کی ہے بنابریں شعری سفرمیں انہوں نےہمیشہ یہ کوشش کی ہےکہ تقدس کےعناصربھی سخن کےدامن میں ہوں جوسرمایہ نجات بن سکیں اور جب یہ جذبہ کارفرماہوتاہے توتلمیح پرمشتمل کیاہی خوبصورت شعرہوتاہے:
بیوی، مکان وباغ مہاجر کو دے دیا
انصار کا وہ جذبہ ایثار بہت خوب
یہی وصف موصوف کی ذاتی زندگی سےبھی ظاہرہوتاہے… ماشاءاللہ
دانش جاذب نے شاعری میں مروج موضوعات کوبھی ہاتھ لگایاہےمعاًتفردکی قابلِ تحسین کوشش بھی کی ہےجوبالعموم اِس عمرکےتخلیق کاروں کےیہاں بآسانی کم ہی میسرہوتےہیں:
پیارکی سوادؤں پر بھاری
اک ادا روٹھنا منانا ہے
ایک شعریوں ہوتاہے کہ:
کہہ دیاسب حال میں نے آپ کو
الجھنوں کی اک کہانی رہ گئی
یہ ممکن ہی نہیں کہ کوئی شخص تخلیقی صلاحیت سےمملوہو اور اس کی تخلیقات گردشِ ایام کی چھاپ سےمبراہوں، یہ فطری امرہےکہ کسی بھی شاعر وادیب کاقلم حالات کی ترجمانی کرتاہےبلکہ کامیاب ہونےکےلیےبگڑےماحول کو کبھی آنکھ اورکبھی آئینہ دکھانابھی ناگزیرہے…. چنداشعاربطورِثبوت جاذبؔ کی شاعری سے ملاحظہ ہوں :
فتنہ پرور نصاب نے سب کو
دے دیا ہے سبق عداوت کا
ایک شعراورملاحظہ کیجیے:
روز اک ٹکڑی نئی ہوتی ہے ملت کی مری
ہر کوئی چاہے فقط قوم کا رہبر ہونا
جاذب کےیہاں تغزل کابھی ایک خوبصورت باب موجودہے بطورِمثال دو اشعار:
نئی خوشبو جو پھیلی ہے محبت کی مہکنے دو
مہکتے ہیں اگر جذبات میں دو دل مہکنے کو
کبھی تخیل یہ مصرعےلےآتاہے:
پیار کی سو اداؤں پر بھاری
اک ادا روٹھنا منانا ہے
تغزل کےساتھ مذکورہ شعرسہلِ ممتنع کی بھی بڑی پیاری مثال ہے۔جاذب کےیہاں منظرنگاری کابھی ایک ایک حسین گلدستہ موجودہے جو لف ونشر کابھی آئینہ دارہےیہ دواشعاردیکھیں:
شام جواں ہے،بزم حسیں ہے،محفل کی رعنائی دیکھ
جشن میں ڈوبا ایک جہاں ہے بجتی ہےشہنائی دیکھ
اک شام چانددیکھنے وہ بام پرچڑھے
ہوتی رہی دو چاند کی تکرار بہت خوب
شعاعِ سخن میں قاری حسن وعشق پرمشتمل تخلیقات سےبھی روبروہوگا ۔۔۔کچھ اس طرح:
دستِ افسوس مَلا عشق کا سودا کرکے
مجھکو معلوم تھا سودے میں خسارہ ہوگا
اف یہ نازک ادا یہ شوخی حضور
مجھکو بھانے لگا ہے شعار آپ کا
زیرِنظرمجموعہ کاایک حصہ منظومات کامرقع ہےجس کی ساری مشمولات قابلِ تعریف ہیں ۔نظم "پان،لنجستان کاآدمی نامہ،چاندکی شہزادی اورصاحب جی” کافی دلچسپ نظمیں ہیں۔
دانش حمادکی شاعری کامطالعہ کرنےکےبعدایک حساس اورسنجیدہ قاری کےلیے”جاذبیت” کارنگ عکس درعکس نمودار ہونےلگتاہے اورشاعری کاوہ صفحہ جھلملاتاہوا سامنےآتاہےجوجاذب کوانفرادیت کی دہلیزتک پہنچانےمیں یقیناً بہت اہم رول ادا کرےگا جس کو راقم الحروف’جاذبیت‘ سےتعبیرکرتاہے،چندایک مثالیں قارئین کی عدالت میں:
دل جیتنے کی اُن سےمری شرط لگی ہے
وہ جیت گئے اور مری ہار بہت خوب
معنئی زندگی ہے کیا جاذب!
ہر مصیبت سے جوجھتے رہنا
اُن پہ الزامِ جفا میں نہ لگاؤں ہرگز
کیاہُوا دل جو یہ کم ظرف اگرٹوٹ گیا
اس طرح کےاشعار کسی بھی تخلیق کارکےلیےماحصل کی حیثیت رکھتی ہیں اور میرےمحدودتجربےکےمطابق یہی وہ وصف اور رنگ ہے جی فی الحقیقت تخلیق کی رعنائی اور تخلیق کار کاقدمتعین کرتاہے۔
میں امیدکرتاہوں کہ دانش حماد جاذب کایہ اولین شعری مجموعہ اردو شعروادب کےقارئین کےلیےایک خوبصورت تحفہ ثابت ہوگا۔۔ ان شاءاللہ
***
***
ہفت روزہ دعوت – شمارہ 14 جنوری تا 20 جنوری 2024