کتاب: سیرت نبوی ﷺ قرآن کی روشنی میں

آیاتِ قرآنی میں تذکرہ سیرت سے متعلق عمدہ خطبات کا مجموعہ

ابو سعد اعظمی

مایہ ناز مفسر قرآن اور ممتاز ادیب وصحافی مولانا عبدالماجد دریاآبادی (۱۸۹۲-۱۹۷۷ء) علمی دنیا میں کسی تعارف کے محتاج نہیں ہیں۔ وہ ایک باکمال اور توفیق یافتہ اہل قلم تھے۔ اللہ تعالیٰ نے ان کو علم کی دولت، قلم کی امانت اور وقت کی قدر کرنے جیسی نعمتوں سے مالا مال کیا تھا۔ ایک طرف انہوں نے قرآنیات اور اسلامیات کے باب میں بیش بہا خدمات انجام دیں تو دوسری طرف صحافت، فلسفہ، نفسیات، ترجمہ نگاری، سوانح نویسی اور ادب کے دیگر گوشوں کو بھی بھرپور نوازا۔ اصلاً ان کی حیثیت ادیب وانشا پرداز ہی کی تھی اور نقادوں نے بھی ان کی اس حیثیت کو تسلیم کیا ہے، لیکن ان کی علمی زندگی کا سب سے اہم باب قرآنی علوم کی خدمت ہے۔ ان کی تفسیر قرآن جو تفسیر ماجدی کے نام سے اہلِ علم میں معروف ہے. اس کے علاوہ قرآنیات کے موضوع پر ان کی چند اہم کتابوں کے نام یہ ہیں: حیوانات قرآنی، ارض القرآن، اعلام القرآن یا قرآنی شخصیات وغیرہ۔ قرآنیات پر مشتمل اور سیرت نگاری کے باب میں ان کی اہم اور قرآنی سیرت نگاری کا اولین نقش ان کی کتاب ‘‘سیرت نبوی ﷺ قرآن کی روشنی میں’’ ہے۔ ذیل میں اسی کتاب کا تعارفی مطالعہ پیش کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔
مذکورہ کتاب دراصل ان نو خطبات کا مجموعہ ہے جنہیں مولانا عبدالماجد دریاآبادیؒ نے جنوری ۱۹۵۸ء میں مدراس میں پیش کیا تھا، گویا خطبات مدراس کا ہی یہ ایک زریں سلسلہ ہے۔یہ کتاب کل نو خطبات پر مشتمل ہے۔ان کے عناوین بالترتیب درج ذیل ہیں:
۱- ظہور کی پیش خبریاں ۲- نام، نسب، وطن، زمانہ ۳- فضائل، خصائص، مشاغل ۴- رسالت وبشریت ۵- ہجرت ۶- غزوات ومحاربات ۷- معاصرین ۸- معجزات ودلائل ۹- خانگی اور ازدواجی زندگی
پہلے خطبہ میں قرآن کریم کے حوالہ سے ظہور نبوی سے متعلق پیشن گوئیوں کو جمع کیا گیا ہے اور واضح کیا گیا ہے کہ اہل کتاب ایک نبی موعود کے انتظار میں صدیوں سے چلے آرہے تھے اور قرآن مجید نے حضرت ابراہیمؑ کی زبان سے تو اس ظہور مبارک کے لیے دعا صراحت سے نقل کی ہے۔ یہ دعا تنہا حضرت ابراہیمؑ کی نہ تھی بلکہ مبارک وقت میں ایک مبارک جگہ دو مقدس بندوں کی زبان سے مل کر نکلی تھی۔ قرآن سے یہ اطلاع بھی ملتی ہے کہ ظہور نبوی کی پیش خبریاں اگلے صحیفوں میں آچکی ہیں۔ اس کے بعد مصنف نے توریت وانجیل سے نمونے پیش کرکے یہ واضح کیا ہے کہ تحریفات کے باوجود اب بھی ان میں بشارت نبوی سے متعلق پیشن گوئیاں موجود ہیں۔
دوسرا خطبہ نام، نسب، وطن اور زمانہ کے عنوان سے ہے۔ قرآن کی چار سورتیں (فتح، محمد، آل عمران، احزاب) میں اسم مبارک "محمد” کا ذکر آیا ہے۔ حضرت عیسیٰؑ کی زبان سے پیش خبری کے ضمن میں لفظ "احمد” آیا ہے۔ اس کے علاوہ متعدد سورتوں میں آپ ﷺ کے صفاتی نام وارد ہوئے ہیں مثلاً نذیر، بشیر، منذر، مبشر، شاہد، داعی الی اللہ، سراج منیر، مزمل، مدثر، النبی الامی، مذکر، رحمۃ للعالمین، خاتم النبیین وغیرہ ۔ قرآنی آیات جن میں یہ صفاتی نام وارد ہیں انہیں بھی نقل کیا گیا ہے۔ کچھ نام براہ راست تو نہیں ہیں لیکن قرآنی آیات سے مستنبط کیے جاسکتے ہیں مثلاً مصطفی، مجتبی، مطاع، صادق، امین، مبلغ، مزکی، مرسل وغیرہ۔ اس کے علاوہ النبی اور الرسول کا اطلاق اس کثرت سے ہوا ہے کہ اس کا احاطہ آسان نہیں۔ لفظ عبد تو اپنے لغوی مفہوم میں عام ہے لیکن نبی کریم ﷺ کی تکریم وتشریف خصوصی کے موقع پر اس کثرت سے آیا ہے کہ اگر اسے ایک لقب خصوصی قرار دیا جائے تو کچھ بے جا نہ ہوگا۔ سورۃ الجن میں آپ کے لیے عبداللہ بھی استعمال ہوا ہے۔ روؤف اور رحیم، اللہ اور رسول دونوں کے لیے استعمال ہوئے ہیں۔ البتہ اللہ کے لیے معرفہ اور رسول کے لیے نکرہ مستعمل ہے۔نسب کے ذکر میں سورہ ضحیٰ کے حوالہ سے آپ کی یتیمی اور دعائے ابراہیمی کے حوالہ سے آپ ﷺ کا شاخ اسماعیل سے ہونے کو واضح کیا گیا ہے۔ سورہ ابراہیم میں وارد دعائے ابراہیمی کی روشنی میں آپ کے وطن کی تعیین کی گئی ہے۔ زمانہ کی تعیین کے ضمن میں یہ واضح کیا گیا ہے کہ آپ ﷺ کا عہد نزول توریت ہی کے نہیں نزول انجیل کے بعد کا ہے۔ آپ ﷺ کے اصحاب تک کے اوصاف توریت وانجیل میں موجود ہیں۔ قرآن نے حضرت عیسیٰؑ کا ذکر کیا ہے۔ اس سے واضح ہوتا ہے کہ آپ کا زمانہ عیسیٰ علیہ السلام کے بعد کا ہے اور وہ بھی ان سے متصل نہیں بلکہ ایک فترہ ہے۔ سورہ قریش سے یہ اشارہ ملتا ہے کہ وہ زمانہ تھا جب قریش کی سرداری معاصر عرب قبیلوں میں مسلم ہوچکی تھی، بلکہ قریش کی بین الاقوامی حیثیت ہمسایہ ملکوں میں مانی جاتی تھی۔ سورہ فیل سے واضح ہوتا ہے کہ آپ ﷺ کی ولادت ابرہہ کے خانہ کعبہ پر لشکر کشی کے کچھ ہی وقفے بعد کا ہے اور سورہ نصر سے آپ ﷺ کے زمانہ وفات کا تعیین کیا جاسکتا ہے۔
تیسرا خطبہ فضائل، خصائص، مشاغل کے عنوان سے ہے۔ قرآن کریم سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ ﷺ کوئی فوق البشر یا فرشتہ نہیں تھے بلکہ محض بشر تھے جیسے دنیا میں بشر ہوا کرتے ہیں۔آپ کا تعلق رسالت کے اسی زریں سلسلہ سے تھا جو اس سے پہلے دنیا میں آتے رہے تھے۔قرآن نے وقت قیامت کے علم کی نفی بھی آپ ﷺ کی ذات سے کرائی ہے بلکہ آپ کی غیب دانی، مالکیت خزائن الٰہی اور آپ کی ملکیت ان سب کی پر زور نفی کی گئی ہے، یہاں تک کہ دنیاوی علوم وفنون سے بھی آپ کی یکسر ناشناسی ظاہر کردی گئی۔ قرآن نے آپ ﷺ کی امیت یا حرف ناشناسی کی بھی صاف صراحت کردی ہے۔قرآن کریم میں متعدد مقامات پر آپ ﷺ کے لیے تنبیہ بھی موجود ہے اور ان کا تذکرہ ایسے ہی ہے جیسے کہ خالق اپنی محبوب ترین اور مکرم ترین مخلوق سے کر سکتا ہے۔ نساء، انفال، توبہ ،احزاب، عبس وغیرہ میں انہیں ملاحظہ کیا جا سکتا ہے۔
آپ ﷺ کے فضائل قرآن میں اس کثرت سے ہیں کہ ہر غیر جانبدار اور انصاف پسند طالب علم یہ کہنے پر مجبور ہوجاتا ہے کہ ایسی پاکیزہ نفس اور جامع اخلاق زندگی بے شک اس قابل تھی کہ اسے ساری نوع انسانی کے سامنے بطور نمونہ ونظیر کے پیش کی جائے ۔مصنف نے متعدد قرآنی آیات بھی اس ضمن میں پیش کی ہیں۔ آپ رحمۃ للعالمین ہیں،آپ کی اطاعت مخلوق پر واجب ہی نہیں بلکہ مترادفِ اطاعتِ الٰہی ہے۔ اس لیے آپ کا ہر قدم اور عمل امت کے لیے واجب النظیر ہے۔ قرآن سے آپ کی عادت مبارکہ پر بھی روشنی پڑتی ہے کہ ہدایت خلق کی فکر آپ کو کتنی مشقت وتعب میں ڈالے ہوئے ہے۔ آپ کو جن غیر معمولی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا ان کی طرف بھی اشارہ ہے۔ اور آپ کے استقامت اور ثبات قلب اور ثبات قدم کی جو دولت عنایت ہوئی اس کی بھی صراحت ہے۔ اس طرح اسراء ومعراج، آپ کے اخلاق حسنہ بالخصوص نرم خوئی، افراط شفقت اور دلسوزی، عبادات سے شغف وغیرہ کا دلکش پیرائے میں تذکرہ ملتا ہے۔ حتی کہ آپ ﷺ کی خانگی زندگی کے بعض معاملات پر بھی روشنی ملتی ہے۔ فاضل مصنف نے اس ضمن میں کثرت سے آیات قرآنیہ کو نقل کرکے ان فضائل وخصائص کا احاطہ کیا ہے۔
چوتھا خطبہ رسالت وبشریت کے عنوان سے ہے۔ مصنف کا یہ کہنا بجا ہے کہ پیغمبروں اور ہادیوں کی شخصیتوں پر دنیا کی تاریخ میں برابر یہ ظلم عظیم ہوتا رہا ہے کہ جہاں ایک طرف منکروں اور معاندوں نے ان کے کمالات کی طرف سے یکسر اپنی آنکھیں بند کرلیں اور تکذیب وانکار کو اپنا شعار بنایا وہیں دوسری طرف ماننے والوں نے بھی عقیدت میں وہ غلو کیاکہ ایلچی کو بادشاہی اور بندہ کو خدائی ہی کے تخت پر بٹھا کر دم لیا۔قرآن نے اسی شب گمرہی بلکہ اس کی جڑ سے بچانے کے بالواسطہ اور براہ راست دونوں طریقے پرزور صورت میں اختیار کیے ہیں۔ سورہ نساء، آل عمران، احقاف، یوسف، نمل، انبیاء وغیرہ میں اس کا بار بار اعادہ ہوا ہے۔ اس تکرار سے مقصود مخاطبین کو رسول اللہ ﷺ کی بشریت اور وفات سے خوب خوب مانوس کر دینا ہے۔ اور ایک جگہ تو انتہا یہ ہے کہ اس خاص وصف کے لحاظ سے رسول مقبول اور کفار معاندین کو بالکل ایک ہی صف میں رکھ دیا گیا ہے ‘‘انک میت وانہم میتون’’۔ قرآن نے واضح کر دیا ہے کہ عبدیت (انبیاء) کے لیے ننگ وعار کی وجہ نہیں بلکہ فخر ومباہات کی بات ہے۔ قرآن کریم نے حضور ﷺ کے مادی اجزائے جسم اور شکل وشمائل کے اہم جزئیات کا بھی اپنے صفحات میں ذکر کر دیا ہے، مثلاً متعدد سورتوں میں آپ کی زبان،قلب، چشم وبصر اور چہرہ وغیرہ کا تذکرہ کیا گیا ہے۔ اسی طرح آپ ﷺ کا اٹھنا، بیٹھنا، چلنا، پھرنا، کھانا، پینا، نماز اور عام عبادتوں کا بھی تذکرہ متعدد آیات میں ملتا ہے۔
پانچواں خطبہ ہجرت کے عنوان سے ہے۔ یہ خطبہ قدرے مختصر ہے۔ کفار کی اذیت جب ناقابل برداشت حد تک پہنچ گئی تو آپ ﷺ کو ہجرت کا حکم ہوا۔کفار کی اذیتوں کا تذکرہ بھی قرآن کریم میں تفصیل سے ہے۔آپ ﷺ کو قید میں ڈالنے اور جلا وطن کرنے کے مشورے ہوئے، قتل کردینے کی سازش رچی گئی۔ سیرت کی کتابوں میں اس کی تفصیلات ملتی ہیں۔ قرآن نے ایجاز وجامعیت کے ساتھ ان منصوبوں کی طرف اشارہ کیا ہے۔آپ ﷺ کی مظلومیت اور بے سروسامانی کا اندازہ اس بات سے کیا جاسکتا ہے کہ اتنے لمبے سفر میں مسلسل رفیق آپ ﷺ صرف ایک صاحب کو رکھ سکے۔سورہ توبہ میں ہجرت کی ساری تفصیلات موجود ہیں۔
چھٹا خطبہ غزوات ومحاربات کے عنوان سے ہے۔ اس ضمن میں جن غزوات کا تذکرہ قرآن کریم میں ہے اس کی طرف اشارہ کیا گیا ہے۔اس کی تفصیل اس طرح ہے۔
غزوہ بدر، احد اور غزوہ بدر ثانیہ کی تفصیلات سورہ آل عمران و انفال میں موجود ہیں۔غزوہ بنی نضیرکی تفصیل سورۃ الحشر میں ہے۔بنی قینقاع کی طرف حشر میں ضمناً اشارہ ہے۔بنو قریظہ کا سورہ انفال و احزاب میں ذکر ہے۔ غزوہ احزاب کی روداد سورہ احزاب میں مذکور ہے۔صلح حدیبیہ اور غزوہ خیبر کاسورہ فتح میں ذکر کیا گیا ہے۔فتح مکہ کی سورہ فتح اور نصر وغیرہ میں بشارت ہے۔غزوہ حنین اورغزوہ تبوک کا سورہ توبہ میں ذکر ہے۔
ساتواں خطبہ معاصرین کے عنوان سے ہے، اس میں آپ ﷺ کا منصب نبوت، پیغام، مخاطبین اور ان کے طرز عمل اور رد عمل پر روشنی ڈالی گئی ہے۔ سب سے پہلے قرآنی آیت کی روشنی میں آپ ﷺ کی منصبی حیثیت اور پیغام کو واضح کیا گیا ہے۔ پھر الگ الگ عناوین کے تحت آپ کے معاصرین میں مشرکین، یہود ونصاریٰ، منافقین اور مومنین کے طرز عمل، ان کا اصرار وانکار، اس کی وجہ، ان کے اعتراضات واشکالات، ان کے اتہامات، اسلام اور پیغمبر اسلام کے تئیں ان کا معاندانہ رویہ ان سب پر تفصیل سے قرآنی آیات کے تناظر میں روشنی ڈالی گئی ہے۔ اس ضمن میں ان کے اوصاف وکمالات اور ان کے مکر وفریب کو بھی اجاگر کیا گیا ہے۔ یہ کتاب کا سب سے طویل خطبہ ہے جو تقریباً سو صفحات پر مشتمل ہے۔
آٹھواں خطبہ معجزات ودلائل کے عنوان سے ہے۔ معجزہ تقریباً ہر نبی کی زندگی کا ایک لازمی جزء رہا ہے۔ حضرت نوح، ابراہیم، ہود، صالح، یونس، شعیب، لوط ، موسیٰ اور عیسیٰ علیہم السلام کے معجزات تو قرآن مجید میں بھی صراحت سے مذکور ہیں۔ نبی کریم ﷺ کا سب سے بڑا معجزہ وہ کتاب ہے جو آپ پر نازل ہوئی، یہ اور معجزات کی طرح ہنگامی نہیں بلکہ مستقل اور دائمی ہے۔ اس کتاب نے خود بار بار اس دعویٰ اور تحدی کے ساتھ اپنے آپ کو پیش کیا میں کلام بشر نہیں جس کی مثال اور نظیر ممکن نہیں۔اگر کسی کو اس کے منزل من اللہ ہونے کے باب میں کچھ بھی شبہ ہے تو وہ ان کی ساری سورتوں کی نہ سہی دس سورتوں کی اور اسے بھی جانے دیں ایک ہی سورت کا جواب ذرا تیار کر لائیں اور اس کے لیے انہیں قیامت تک کی مہلت ہے۔اہل علم میں یہ بحث شروع سے رہی ہے کہ قرآن کا اعجاز کس پہلو سے ہے؟ فصاحت و بلاغت، نظم کلام، پیشن گوئیاں، غیب سے متعلق اخبار، احکام کی جامعیت اور بلندئ تعلیمات کو مختلف گروہوں نے معجزہ قرار دیا ہے۔لیکن قرآن ان تمام پہلووں پر حاوی ہے۔ (بنی اسرائیل، ہود اور بقرہ میں قرآن جیسا کلام پیش کرنے کا چیلنج موجود ہے)۔
نواں خطبہ خانگی اور ازدواجی زندگی کے عنوان سے ہے۔ قرآن کریم میں اکثر پیغمبروں کے ساتھ ان کے اہل وعیال کا بھی ذکر آیا ہے۔ نبی کریم ﷺ کے اہل بیت کا بھی قرآن کریم میں ذکر ہے اور آپ ﷺ کی خانہ داری اور ازدواجی زندگی قرآن کریم میں بیان کی گئی ہے۔ بلکہ آیات قرآنیہ میں صراحت ہے کہ آپ ﷺ کی متعدد ازواج تھیں۔ان کا مقام ومرتبہ عام مومنات سے بلند وبرتر تھا اور ان کی ذمہ داریاں بھی بڑھی ہوئی تھیں۔ ان کے لیے شریعت کی عام پابندیوں کے ساتھ ساتھ کچھ احکام خصوصی بھی تھے۔ قرآن کریم میں اس پہلو کو بھی نمایاں کیا گیا ہے کہ آپ ﷺ کی معیشی وخانگی زندگی جنت کی نہیں اسی خاکی دنیا کی زندگی تھی۔ جو نوع بشری کے ہر فرد کے لیے نمونہ کا کام دے سکتی تھی۔ پیچیدگیاں اس میں وہی پیش آتی تھیں جو ہر انسان کو اپنی ازدواجی زندگی میں پیش آ سکتی ہیں۔ اس کا دوسرا پہلو یہ ہے کہ حسن معاشرت ومعیشت گویا آپ ﷺ پر ہی ختم تھا۔عین ناگواری کے وقت بھی رفق وملاطفت کا سر رشتہ ہاتھ سے چھوٹنے نہ پایا۔ مومن کا اپنے اہل خانہ کے ساتھ طرز عمل کیا ہو اس پہلو کی بھی نشاندہی ہے۔ افترا پردازی سے کوئی ماحول خالی نہیں ہے۔ واقعہ افک کے ذکر نے امت کے لیے بڑی سے بڑی بدنامی کے بوجھ کو بھی اٹھا لینا آسان کردیا۔
مختصر یہ کہ یہ کتاب سیرت کا قرآنی مرقع ہے۔ اگرچہ اس میں واقعات کی تفصیلات نہیں ہیں لیکن جزئیات کا اس قدر احاطہ ہے کہ اس کی روشنی میں سیرت کا ایک حسین مرقع تیار ہوجاتا ہے۔کاش مصنف کو اس پر نظر ثانی اور منصوبے کے مطابق نبی کریم ﷺ کی مکی اور مدنی تعلیمات کے اضافہ کا موقع بھی ملا ہوتا تو اس کی افادیت مزید بڑھ جاتی۔بہر حال نقش اول کی حیثیت سے کتاب میں جو کچھ بھی ہے اس کی افادیت بھی کم نہیں ہے۔مولف اس عظیم کام کے لیے مبارکباد کے مستحق ہیں۔
***

 

یہ بھی پڑھیں

***

 یہ کتاب سیرت کا قرآنی مرقع ہے۔ اگرچہ اس میں واقعات کی تفصیلات نہیں ہیں لیکن جزئیات کا اس قدر احاطہ ہے کہ اس کی روشنی میں سیرت کا ایک حسین مرقع تیار ہوجاتا ہے۔کاش مصنف کو اس پر نظر ثانی اور منصوبے کے مطابق نبی کریم ﷺ کی مکی اور مدنی تعلیمات کے اضافہ کا موقع بھی ملا ہوتا تو اس کی افادیت مزید بڑھ جاتی۔بہر حال نقش اول کی حیثیت سے کتاب میں جو کچھ بھی ہے اس کی افادیت بھی کم نہیں ہے۔مولف اس عظیم کام کے لیے مبارکباد کے مستحق ہیں۔


ہفت روزہ دعوت – شمارہ 21 جنوری تا 27 جنوری 2024