کتاب : رہنمائے ترجمہ قرآن (مولانا محمد امانت اللہ اصلاحی کے افادات کی روشنی میں)

ترجمہ قرآن اور فہم قرآن کا ملکہ پیدا کرنے کے لیے ایک بہترین اور عمدہ کتاب

ابوسعد اعظمی

قرآنیات کے میدان میں مدرسۃ الاصلاح کو ایک امتیازی حیثیت حاصل ہے۔اس کے نصاب تعلیم میں قرآن کریم کو اس کا حقیقی مقام عطا کرنے کی شعوری کوشش کی گئی ہے۔یہی وجہ ہے کہ ہر زمانے میں یہاں کے فضلاء نے اس میدان میں کارہائے نمایاں انجام دیے ہیں۔مدرسۃ الاصلاح کے فارغین نے مختلف مدارس میں تدریس قرآن کے ذریعہ اس کے حقیقی پیغام سے روشناس کرایا اور طلبا کے اندرقرآن فہمی کے صحیح ذوق کی آبیاری کی۔ تحریک اسلامی سے وابستہ متعدد اصلاحی شخصیات نے دروس قرآن کے ذریعہ اس کے پیغام سے عوام الناس کو متعارف کروایا اور ان کے سامنے دین کا حقیقی تصور پیش کیا۔انہوں نے اگرچہ کتابیں تصنیف نہیں کیں اور اس طرف ان کی توجہ نہ کے برابر رہی لیکن جو افراد کار انہوں نے تیار کیے وہ بھی کسی دولتِ بے بہا سے کم نہیں۔ ایسا بھی نہیں کہ قرآنیات پر لکھنے والے اصلاحی فضلاء کی تعداد معدودے چند ہو، البتہ یہ احساس بجا ہے کہ متعدد ایسی اصلاحی شخصیات گزری ہیں جنہوں نے اپنی قلمی صلاحیت کے ساتھ انصاف نہیں کیا۔
مولانا امانت اللہ اصلاحیؒ (-۲۰۱۹ء)فکر فراہی کے امین، اختر احسن اصلاحی کے شاگرد رشیداور شیدائے قرآن تھے۔اختر احسن اصلاحیؒ سے انہوں نے جتنا استفادہ کیا ہے کسی اور نے نہیں کیا۔ان کی حیثیت ایسے سر بمہر خزانہ کی تھی جن کی قرآنی بصیرت سے ارباب علم نے فائدہ تو اٹھایا لیکن اپنے مخصوص مزاج اور دعوت وتبلیغ سے خصوصی تعلق نیز عمر عزیز کا ایک بڑا حصہ نائجیریا میں گزارنے کی وجہ سے ان کی جد وجہد اور تبلیغی کاوشوں کا علمی حلقوں میں کماحقہ تعارف نہیں ہوسکا۔ان کی عظمت کے لیے بعض اصلاحی فضلاء کی یہ شہادت کافی ہے کہ وہ مولانا اختر احسن اصلاحی کی علمی جانشین تھے۔واضح رہے کہ وہ مولانا کے خاص شاگرد تھے اور قرآنی اسرار ورموز کی باریکیوں کا فہم ان سے حاصل کیا تھا۔ان کی طالب علمانہ زندگی بھی مثالی تھی اور مسجد اشاعت اسلام میں ضعیفی اور ناتوانی کی عمر میں جنہیں ان کو دیکھنے کا اتفاق ہوا وہ بھی نما ز سے ان کے شغف اور تلاوت وتدبر قرآن کے انہماک کی شہادت دیں گے۔مسجد سے ان کے تعلق کی خوبصورت عکاسی ان کے برادر خورد مولانا عنایت اللہ سبحانی کے الفاظ میں ملاحظہ ہو:’’ان کی بیماری وناتوانی، اور اس پر مسجد کے لیے بے تابی کو دیکھ کر دوسروں کو ان پر ترس آتا، مگر خود ان کو اپنے اوپر کبھی ترس نہیں آیا۔کتنی ہی بار ایسا ہوا کہ وہ گھر سے مسجد جاتے ہوئے، یا مسجد سے گھر آتے ہوئے راستہ میں اپنے آپ کو سنبھال نہیں سکے، وہ زمیں پر گر پڑے، اور چوٹ کھاگئے مگر اس سے وہ ہمت نہیں ہارے، کبھی دل شکستہ نہیں ہوئے۔وہ اسی طرح افتاں وخیزاں مسجد جایا کرتے ،جس سے دیکھنے والوں کا ایمان تازہ ہوجاتا، انہیں اندازہ ہوتا کہ نماز باجماعت کی لذت وحلاوت کیا چیز ہوتی ہے اور جسے یہ لذت وحلاوت مل جاتی ہے، اس کے اندر باقاعدہ روحانیت آجاتی ہے۔(ص۱۶)
زیر تعارف کتاب کے آغاز میں ’’شیدائے قرآن مولانا محمد امانت اللہ اصلاحی‘‘ کے عنوان سے مولانا عنایت اللہ سبحانی کی گراں قدر تحریر شامل ہے۔اس میں مولانا کے تقویٰ، طہارت اور قرآن سے شغف کی انتہائی دلکش اور سحر انگیز اسلوب میں تصویر کشی کی گئی ہے جو قاری کو بار بار پڑھنے پر آمادہ کرتی ہے اور قلب وذہن پر اپنے اثرات ثبت کرجاتی ہے۔کاش کہ قرآن سے یہی شغف اور تعلق ہمارا بھی استوار ہوجائے۔
مولانا امانت اللہ اصلاحیؒ نے تدبر قرآن اور تفہیم القرآن کے ریویو کے درمیان قرآن مجید کے ترجمہ وتفسیر سے متعلق بہت سے قیمتی افادات رقم کرادیے تھے جیسا کہ مقدمہ کتاب میں وضاحت ہے۔ ڈاکٹر محی الدین غازی لکھتے ہیں:
’’یہ وضاحت ضروری ہے کہ اس کتاب کی تیاری میں بنیاد کی حیثیت عم محترم مولانا محمدامانت اللہ اصلاحیؒ کے افادات کو حاصل ہے جنہیں تفہیم القرآن اور تدبر قرآن کے ریویو کے دوران نوٹ کرنے کا موقعہ ملا۔ اللہ تعالیٰ نے مولانا مرحوم کو توفیق اور ہمت دی اور انہوں نے ضعیفی کے باجود قرآن مجید کے ترجمہ وتفسیر سے متعلق بہت سے قیمتی افادات رقم کرادیے‘‘
(رہنمائے ترجمہ قرآن ، ص۲۸)
اس کتاب کے مطالعہ سے مولانا امانت اللہ اصلاحی کی قرآنی بصیرت کا اندازہ ہوا۔ واقعہ یہ ہے کہ مختلف تراجم کا تقابلی مطالعہ آسان کام نہیں۔اس کے لیے زبان وبیان پر گرفت، نحو وصرف اور بلاغت کی باریکیوں کا علم اور اسالیب کلام کا فہم انتہائی ضروری ہے۔مولانا امانت اللہ اصلاحی نے جو ملاحظات درج کرائے ہیں اور مختلف تراجم میں جس سقم اور نقص کی نشاندہی کی ہے اس سے ان کے قرآنی ذوق کی شہادت ملتی ہے۔اس کتاب میں کل ۱۶۳ عناوین کے تحت تراجم کے تقابلی مطالعہ کی مثالیں پیش کی گئی ہیں۔سب کی طرف اجمالی اشارہ بھی اس مختصر مضمون میں ممکن نہیں۔واضح رہے کہ یہ افادات کتابی صورت میں شائع ہونے سے قبل مجلہ حیات نو بلریا گنج اور ماہنامہ الشریعہ پاکستان میں قسط وار شائع ہوچکے ہیں۔اسی طرح اس کی ہر قسط اشاعت سے قبل مولانا امانت اللہ اصلاحی کی نگاہ سے گزرچکی ہے۔اس کتاب میں مصنف کا منہج یہ ہوتا ہے کہ وہ پہلے اس مخصوص آیت یا لفظ کو نقل کرتے ہیں، اس کے بعد اردو مفسرین قرآن کے تراجم سے ان کے ترجمے نقل کرتے ہیں پھر ان ترجموں کی کمیوں کو اجاگر کرتے ہیں،اس کے بعد امانت اللہ اصلاحی نے اس آیت کا مناسب ترین ترجمہ کیا ہے اسے نقل کرتے ہیں پھر اس سے ملتی جلتی دیگر آیات کو نقل کرکے اس کا مفہوم واضح کرتے ہیں۔جہاں ضرورت ہوتی ہے عرب علماء ومفسرین کی آراء بھی نقل کرتے ہیں۔بعض مقامات پر اپنے موقف کی تائید میں کلام عرب سے بھی استدلال کیا ہے۔چند مثالیں پیش کی جاتی ہیں جن سے مولانا امانت اللہ اصلاحی کی گہری بصیرت اور عمیق تدبر وتفکر کا اندازہ بآسانی کیا جاسکتا ہے۔
’’اندادا ‘‘ کے ترجمہ کے حوالہ سے لکھتے ہیں کہ قرآن مجید میں اندادا کا لفظ کئی جگہ آیا ہے اور عام طور سے تمام مترجمین اس کا ترجمہ ہم سر، برابر اور شریک کا کرتے ہیں۔البتہ بعض مترجمین کہیں کہیں مد مقابل یا مقابل کا ترجمہ بھی کردیتے ہیں، اس سے ایک تو لفظ کا مفہوم محدود ہوجاتا ہے، کیونکہ ہم سر میں جو وسعت ہے وہ مقابل میں نہیں ہے۔دوسرے یہ کہ لفظ مشرکین کے عام رویہ کے مطابق نہیں ہے۔قابل غور بات یہ ہے کہ جن لوگوں نے کہیں کہیں مقابل اور مد مقابل کا ترجمہ کیا ہے، انہوں نے خود اکثر جگہ ہم سر اور شریک کا ترجمہ کیا ہے‘‘(ص۲۳۰) اس کے بعد انہوں نے مولانا مودودی، اشرف علی تھانوی اور شاہ عبد القادر کا ترجمہ نقل کیا ہے۔ اول الذکر دونوں حضرات نے اس کا ترجمہ سورۃ البقرۃ ۲۸ میں بالترتیب مد مقابل یا مقابل سے کیا ہے۔
بسا اوقات آیت کریمہ میں وارد الفاظ کا لحاظ نہ کرنے کی وجہ سے ترجمہ میں سقم پیدا ہوجاتا ہے۔ کبھی ایک ہی لفظ جو متعدد آیات میں وارد ہے اس کا ترجمہ ہر جگہ الگ کردیا جاتا ہے حالانکہ وہ ہر جگہ ایک ہی معنی میں مستعمل ہوتا ہے۔ مولانا امانت اللہ اصلاحی نے مولانا سید ابو الاعلیٰ مودودی اور مولانا امین احسن اصلاحی کے تراجم سے اس کی متعدد مثالیں نقل کی ہیں۔چند مثالیں ملاحظہ ہوں:
’یولج ‘کا ترجمہ
اس ذیلی عنوان کے تحت فاضل مرتب لکھتے ہیں کہ ’’ایلاج‘‘ کا معنی داخل کرنا ہوتا ہے ،قرآن مجید میں رات اور دن کے حوالے سے یہ فعل پانچ آیتوں میں ذکر ہوا ہے۔ان آیتوں کا مفہوم یہ ہے کہ اللہ رات کو دن میں اور دن کو رات میں داخل کرتاہے۔ان پانچ آیتوں میں سے ایک کا ترجمہ صاحب تفہیم القرآن نے داخل کرنے کے بجائے نکالنا کیا ہے، یہ ترجمہ درست نہیں ہے‘‘۔(ص۳۰۱-۳۰۲)
مذکورہ ترجمہ کیوں صحیح نہیں ہے اس کی انہوں نے تین وجوہات نقل کی ہیں ۔
جنوب کا ترجمہ
اس عنوان کے تحت لکھتے ہیں کہ’’۔۔۔عربی میں پیٹھ کے لیے ظہر اور پہلو کے لیے جنب آتا ہے۔سورہ توبہ آیت ۳۵ میں دونوں الفاظ ایک ساتھ ذکرکیے گئے ہیں۔ تمام مترجمین نے یہاں جنوب کا ترجمہ پہلو یا کروٹ اور ظہور کا ترجمہ پیٹھ کیا ہے۔ اس آیت کے علاوہ دو اور مقامات(السجدۃ، ۱۶؛ الحج:۳۶) پر جنوب کا لفظ آیا ہے ،مذکورہ بالا آیت کی طرح وہاں بھی مترجمین نے عام طور سے پہلو اور کروٹ ترجمہ کیا ہے، تاہم صاحب تفہیم نے اوپر والی آیت میں جنوب کا ترجمہ پہلو کرنے کے باوجودان دونوں آیات میں جنوب کا ترجمہ پیٹھیں کیا ہے، یہ ترجمہ درست نہیں ہے۔تینوں مقامات پر جنوب کا ترجمہ پہلو ہی ہونا چاہیے۔(ص۳۰۷-۳۰۸)
سلقوکم بالسنۃ کا مطلب
اس عنوان کے تحت فاضل مرتب مولانا مودودی کے ترجمہ میں سقم کی نشاندہی کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
’’مذکورہ بالا آیت میں سلقوکم بالسنۃ حداد کا ترجمہ عام طور سے تیز زبانی، زبان درازی اور طعنے دینا کیا گیا ہے۔صاحب تفہیم نے سلقوکم کا ترجمہ استقبال کرنا کیا ہے، اور تفسیر میں بڑے تپاک سے استقبال کرنا لکھا ہے۔انہیں یہ غلط فہمی غالباً تفسیر طبری کی ایک عبارت سے ہوئی ہے جس میں ابن عباس کے حوالے سے استقبلوکم کا لفظ روایت کیا گیا ہے۔لغت کی رو سے سلق کا مطلب استقبال کرنا اور وہ بھی تپاک سے کرنا کسی صورت میں نہیں ہوسکتا ہے۔ صاحب تفہیم نے تفسیری حاشیے میں دوسرا مفہوم بھی ذکر کیا ہے، جو عام رائے کے مطابق ہے اور وہی صحیح مفہوم ہے۔(ص۳۱۲-۳۱۳)
سورۃ المجادلۃ آیت ۱۳ کے حوالے سے گفتگو کرتے ہوئے فاضل مرتب لکھتے ہیں کہ آیت کریمہ میں وارد اذ لم تفعلوا میں اذ برائے ظرف ہے اور جملہ ظرفیہ ماضی کا مفہوم ادا کررہا ہے، حسب قواعد ترجمہ ہوگا:’’جب تم نے نہیں کیا‘‘۔یہی ترجمہ عام طور سے مترجمین نے کیا ہے۔۔۔جب کہ مولانا مودودی نے اذ لم تفعلوا کا ترجمہ کیا ہے، ’’اگر تم ایسا نہ کرو‘‘ یہ ترجمہ کسی طرح درست نہیں ہے، غالب گمان یہ ہے کہ اس آیت کا ترجمہ کرتے ہوئے دوسری آیت کے ان لم تفعلوا سے اشتباہ ہوگیا ہے، جو قرآن مجید میں دوسرے مقام پر آیا ہے۔ (ص۳۷۰)
اس کے علاوہ اس کتاب میں جابجا مولانا امین احسن اصلاحی کے ترجمہ میں موجود سقم کی بھی نشاندہی کی گئی ہے۔ القاء اور القی ساجدا(ص۲۶۳-۲۷۲) کے حوالے سے بڑی عمدہ گفتگو کی گئی ہے ۔اسی طرح لاول الحشر، قعید،اخذ عزیز مقتدر، مخلفون، فہم یوزعون، مریب ، بما عہد عندک، استکبر عن وغیرہ کے ترجمہ میں مولانا امانت اللہ اصلاحی کی قرآنی بصیرت پوری طرح جلوہ گر نظر آتی ہے اس کو اجاگر کیا گیا ہے۔ اِنّ اور أنّ ، ایقن اور استیقن، لما اور اذا، مصدق لہ اور مصدق بہ،مَقام اور مُقام،سقی اور اسقاء، مدّہ اور مدّ لہ،ولد اور ابن،وزع اور اوزع،تعجیل اور استعجال میں فرق کو واضح کیا گیا ہے۔مختلف قرآنی مفردات پر اظہار خیال کیا گیا ہے۔کتاب میں ۱۶۳ ذیلی عناوین کے تحت ترجمہ، اسلوب، الفاظ کی عدم رعایت وغیرہ کی وجہ سے تراجم میں جو تسامح پیدا ہوتا ہے اس کی نشاندہی کرکے غور وفکر کی دعوت دی گئی ہے۔
اس کتاب کا مطالعہ بالخصوص طلبا واساتذہ کے لیے اس لحاظ سے یکساں مفید ہے کہ اس سے ان کے اندر غور وفکر اور قرآنی آیات کے مناسب ترین ترجمہ تک رسائی کے ساتھ ساتھ ترجمہ قرآن اور فہم قرآن کا ملکہ بھی پیدا ہوگا۔

 

***

 کتاب میں مصنف کا منہج یہ ہے کہ وہ پہلے کسی مخصوص آیت یا لفظ کو نقل کرتے ہیں، اس کے بعد اردو مفسرین قرآن کے تراجم سے ان کے ترجمے نقل کرتے ہیں پھر ان ترجموں کی کمیوں کو اجاگر کرتے ہیں،اس کے بعد امانت اللہ اصلاحی نے اس آیت کا مناسب ترین ترجمہ کیا ہے اسے نقل کرتے ہیں پھر اس سے ملتی جلتی دیگر آیات کو نقل کرکے اس کا مفہوم واضح کرتے ہیں۔جہاں ضرورت ہوتی ہے عرب علماء ومفسرین کی آراء بھی نقل کرتے ہیں۔بعض مقامات پر اپنے موقف کی تائید میں کلام عرب سے بھی استدلال کیا ہے۔چند مثالیں پیش کی جاتی ہیں جن سے مولانا امانت اللہ اصلاحی کی گہری بصیرت اور عمیق تدبر وتفکر کا اندازہ بآسانی کیا جاسکتا ہے۔


ہفت روزہ دعوت – شمارہ 18 اگست تا 24 اگست 2024