ابو سعد اعظمی
مشہور فلسطینی کاتب ادہم شرقاوی جو قس بن ساعدہ کے نام سے بھی معروف ہیں، ایک حساس ودرد مند دل رکھتے ہیں۔ان کی عمر پچاس سے بھی کم ہے لیکن اس قلیل عرصہ میں ان کے قلم گہر بار سے تیس سے زائد اہم کتابیں شائع ہوکر تحریکی دنیا میں قبول عام حاصل کرچکی ہیں۔۲۰۱۲ء میں ’احادیث الصباح‘ کے عنوان سے ان کی اولین تحریری کاوش منظر عام پر آئی تھی۔ان کی چند اہم کتابیں یہ ہیں: لیطمئن قلبی،عندما التقیت عمر بن الخطاب، تاملات قصیرۃ جدا، مع النبی،حدیث الصباح، حدیث المساء، یُحکی أن،واذا الصحف نشرت، نبأ یقین، الی المنکسرۃ قلوبہم، رسائل من الصحابۃ، أضغاث أقلام،وتلک الایام، عن وطن من لحم ودم وغیرہ۔
یکم اپریل ۲۰۲۱ء میں ان کی مشہور زمانہ کتاب ’رسائل من القرآن ‘دار کلمات، کویت سے شائع ہوئی تو ناشر نے اپنا احساس ان الفاظ میں رقم کیا کہ:
اے خداوند تعالیٰ!
جب تو نے ابراہیمؐ کو حکم دیا کہ لوگوں میں حج کی منادی کردو تو ابراہیمؐنے عرض کیا، اے مالک حقیقی!میں لوگوں تک اپنی بات کیسے پہنچاسکتا ہوں جب کہ میری آواز ان تک نہیں پہنچ سکتی۔اللہ تعالیٰ نے فرمایا: تم آواز لگاؤ، پہنچانا ہماری ذمہ داری ہے۔ پھر اللہ تعالیٰ نے ابراہیمؐ کی آواز روئے زمین کے ہرگوشہ تک پہنچادی۔
اے اللہ!یہ کتاب ایک کمزور وناتواں بندے کی پکار ہے، اس کی آواز بہت کمزور ہے۔تیری محبت اور تیری چاہت میں اس نے یہ گہار لگائی ہے۔اے اللہ! اس کی ترسیل کا سامان کرکے اس کی عزت افزائی فرما۔
۷؍اکتوبر ۲۰۲۳ء سے طوفان اقصیٰ کا آغاز ہوا تو متعدد ایسے اسباب پیدا ہوئے جس سے اس کتاب نے عرب دنیا میں ہلچل پیدا کردی اور متعدد بین الاقوامی زبانوں میں اس کے ترجمہ کی اشاعت کا اہتمام کیا گیا۔عالم عرب کے نوجوان طبقہ میں اس کتاب کو غیر معمولی مقبولیت حاصل ہوئی اور دیکھتے ہی دیکھتے اسے سب سے زیادہ فروخت ہونے والی کتاب کا درجہ حاصل ہوگیا۔
برادرم ابو الاعلیٰ سید سبحانی جو اردو زبان کا اعلیٰ ذوق رکھتے ہیں، ترجمہ نگاری سے طبعی مناسبت ہے اور اس سے قبل بھی انہوں نے بعض اہم کتابوں کارواں اردو ترجمہ کیا ہے۔انہوں نے اسے اردو زبان میں منتقل کرنے کا بیڑہ اٹھایا اور بہت ہی سلیس،رواں اور شستہ زبان میں اسے اردو کا قالب عطا کیا۔ تحریک سے وابستگی، فکری مناسبت اور قرآن سے شغف نے ان کے کام میں اصل کا پرتو ڈال دیا اور اردو قارئین کے لیے ایک انمول تحفہ پیش کرنے کی سعادت انہیں نصیب ہوئی۔
راقم کے پیش نظر اس کتاب کا اردو ترجمہ ہے۔اس کا مقدمہ ڈاکٹرمحمد عنایت اللہ اسد سبحانی نے تحریر کیا ہے۔اس مختصرتحریر میں انہوں نے فلسطین کی قربانیوں کا حوالہ دیتے ہوئے یہ واضح کیا ہے کہ ان کے اندر یہ بلند صفات (یہ حوصلہ، یہ عزیمت،یہ ایثار وقربانی، یہ جاں بازی وسرفروشی)وہیں سے پیدا ہوئیں جہاں سے رسول اکرم ﷺ اور آپ کے صحابہ کرام کے اندر پیداہوئی تھیں۔یہ قرآن پاک کا اعجاز تھا کہ اس نے صحابہ کرام کو مس خام سے کندن بنادیا تھا، اوران کی رگوں میں محبت الٰہی کی بجلیاں دوڑادی تھیں۔ فلسطینی مجاہدین کی طاقت وعزیمت کا راز بھی یہی قرآن پاک ہے۔یہی قرآن پاک ہے جس نے ان کے جوانوں اور نوجوانوں کو ان کے بوڑھوں، بچوں اور عورتوں کو ایمان ویقین کی لذت سے سرشار کردیا۔(ص۶)
پوری کتاب شہ پاروں سے پر ہے، ان سے اقتباس کا انتخاب بھی مشکل امر ہے۔جو حقائق نقل کیے گئے ہیں اور آیات کریمہ کا انطباق جس طرح انسانی زندگی پر کیا گیا ہے وہ بے نظیر ہے۔چند اقتباسات پیش کیے جاتے ہیں جن سے مصنف کے زاویہ نظراور ان کی قرآنی بصیرت کا اندازہ کیا جاسکتاہے۔
سورہ اعراف:۲۱ سے حاصل شدہ درس پیش کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
حضرت آدم اور حضرت حوا علیہم السلام کے وہم وگمان میں بھی یہ بات نہیں تھی کہ ایک شخص اللہ کی قسم کھاکر جھوٹ بول سکتا ہے لیکن ابلیس نے ایسا کرڈالا! البتہ اس واقعہ میں نصیحت کی بات یہ ہے کہ اس نے دھوکہ دینے کے لیے چیزوں کے نام تبدیل کردیے تھے۔اس نے معصیت کے درخت کا نام ہمیشگی کا درخت رکھ دیا تھا!اسی ابلیس کے راستے پر آج کے تمام ابلیس چل رہے ہیں! انہوں نے شراب کو روح کو فرحت بخشنے والا مشروب قرار دے ڈالا، عریانیت کو فیشن بناڈالا، فحاشی کو تہذیب گردانا اور زنا کو کھلے پن کی علامت قراردے دیا! لہٰذا، یاد رکھو، یہ نام چاہے جتنے بھی خوش نما رکھ لیں، ان کے دھوکے میں ہرگز نہ آنا!(ص۱۸)
سورہ توبہ:۹۲ سے حاصل ہونے والے درس کو ان الفاظ میں بیان کرتے ہیں:
۔۔۔ایک سچے مومن کا یہی حال ہوتا ہے، اس کے اوپریہ تصور ہی شدید گراں گزرتا ہے کہ اس کے اور اللہ کے درمیان موجود اطاعت وبندگی کے دروازے بند ہوجائیں!یہ خالص اللہ کی اطاعت کا معاملہ تھا اور اس کے لیے انہوں نے جسم وجان سے پوری کوشش کرڈالی، اگرچہ کسی وجہ سے وہ اپنے مقصد میں کامیاب نہیں ہو سکے۔ تصور کیجیے، ان سے کوئی گناہ سرزد ہوگیا ہوتا اور اس کی وجہ سے انہیں اللہ سے دور ہوجانے کا خدشہ ہوتا، تو ان پر کیا گزرتی؟ (ص۲۹)
سورہ ق:۱۸ کی تشریح میں رقم طراز ہیں:
فرشتے صرف وہی باتیں نہیں نوٹ کرتے ہیں جو تم زبان سے نکالتے ہو، فرشتے وہ باتیں بھی نوٹ کرتے ہیں جو تم سوشل میڈیا پر لکھتے بولتے ہو۔ یاد رکھو، کلمہ طیبہ حسنات کے رجسٹر میں جائے گا اور کلمہ خبیثہ سیئات کے رجسٹر میں جائے گا اور جو کچھ اس رجسٹر میں درج ہوجائے گا، وہ تمہاری موت کے بعد بھی باقی رہے گا۔اگر تم اپنے پیچھے صدقہ جاریہ چھوڑ کر نہیں جارہے ہو تو کم از کم اپنے پیچھے کوئی جاری رہنے والی برائی بھی نہ چھوڑ کر جاؤ!(ص۴۱)
سورہ ملک :۲۳ کی تشریح میں لکھتے ہیں:
افسوس ہے لوگوں پر!
وہ سمجھتے ہیں کہ مال ودولت ہی اللہ کی ایک ایسی نعمت ہے جس پر شکر ادا کرنا چاہیے! وہ یہ بھول جاتے ہیں کہ ان کے پاس آنکھیں ہیں، جبکہ دنیا میں نہ جانے کتنے اس سے محروم ہیں! وہ یہ بھول جاتے ہیں کہ ان کے پاس ہاتھ ہیں، جن سے وہ لین دین کرتے ہیں، حالانکہ دنیا میں نہ جانے کتنے لوگ ہاتھوں سے محروم ہیں! وہ یہ بھول جاتے ہیں کہ ان کے پاس پیر ہیں، ورنہ دنیا میں نہ جانے کتنے لوگ چلنے پھرنے سے محروم ہیں! ، میرے پروردگار، تمام تعریفیں، تمام حمد وثنا تیرے ہی لیے ہیں!(ص۴۷)
ص۱۶۱ پر خوبصورت استدلال کرتے ہوئے دعا کی تاکید ان الفاظ میں کی ہے:
حضرت موسیؐ مدین پہنچے تو وہاں نہ تو ان کے پاس گھر تھا، نہ ہی کوئی ذریعہ معاش اور نہ ہی کوئی بیوی۔انہوں نے ایک نیکی کا کام کیا اور درخت کے نیچے جاکر چھاؤں میں بیٹھ گئے اور پھر آسمان کی طرف دونوں ہاتھ اٹھاکر دعا فرمائی: پروردگار، جو خیربھی تو مجھ پر نازل کردے میں اس کا محتاج ہوں۔ اور اللہ کی قدرت کا کرشمہ دیکھیے کہ سورج غروب ہونے سے پہلے پہلے ان کے پاس گھر بھی تھا،ذریعہ معاش بھی تھا اور بیوی بھی تھی!جب بھی کوئی نیکی کا کام کرو، اِس دعا کا ضرور اہتمام کرو!(ص۱۶۱)
سورۂ ہود:۱۱۴ کا یہ سبق ملاحظہ ہو جو قاری کے اندر انابت کی کیفیت پروان چڑھاتا ہے اور اللہ سے اس کا تعلق استوار کرتا ہے۔ رقم طراز ہیں:
گنہ گاروں کی گریہ وزاری اللہ کے نزدیک اطاعت شعاروں کی دعاؤں سے زیادہ محبوب ہے کیونکہ اطاعت شعار بندوں سے تو شیطان مایوس بھی ہوسکتا ہے لیکن گنہ گار تو ایک مستقل معرکہ میں ہے۔
وہ گناہ کرکے ٹوٹ جاتا ہے اور پھر اپنے آپ کو اطاعت کے لیے تیار کرلیتا ہے۔ وہ گناہوں سے ٹھوکر کھاکر گر جاتا ہے اور پھر عبادتوں کے سہارے کھڑا ہوجاتا ہے!جب تک تم گناہ کررہے ہو اور تم کو اس کا احساس بھی ہے اور شرمندہ ہوکر اللہ کی طرف رجوع بھی کررہے ہو، اُس وقت تک مطمئن رہو کہ تم خیر کے راستے پر ہو۔(ص۱۰۰)
یہ چند مثالیں ہیں، ان سے زیادہ کی گنجائش نہیں ہے۔کتاب کے آخر میں بعض علمی مباحث بھی درج ہوگئے ہیں۔مثلاً نبی کریم ﷺ کی امیت کے حوالہ سے لکھتے ہیں:
’’بعض لوگ قرآنی نصوص کی عجیب وغریب تاویل کرتے ہیں تاکہ نبی ﷺ کے اُمی (ان پڑھ) ہونے کی نفی کرسکیں، چنانچہ کوئی قرآن میں مذکور ام القری کا حوالہ دے کر اُمی کی نسبت ام القری سے کرتا ہے اور کوئی کہتا ہے کہ آپؐ اُمی نہیں تھے، اس وقت کی عرب قوم اُمی تھی، اور قوم کی طرف نسبت کرکے آپ کو بھی اُمی کہہ دیا گیا، حالانکہ اس اجتہاد کی ضرورت نہیں تھی، کیونکہ اُمی ہونا آپؐ کی شخصیت کا کوئی منفی پہلو نہیں تھا۔۔۔‘‘۔(ص۲۷۳)
اسی طرح قرآن کریم میں معرب الفاظ ہونے کی توجیہ (ص۲۷۷-۲۷۸) اور فی جذوع النخل اورعلی جذوع النخل میں معنوی فرق کو بھی بہت عمدہ طریقے سے واضح کیا گیا ہے۔
سوشل میڈیا پراس وقت یہ کتاب چھائی ہوئی ہے۔ڈاکٹر سبحانی کا یہ تبصرہ بالکل بجا ہے کہ ’’اس کتاب کو پڑھتے ہوئے ذہن تھکتانہیں، بلکہ بسا اوقات تھکا ہوا ذہن بھی اس کتاب کے چند جملے پڑھ کر تازہ دم ہوجاتا ہے اور دینی غیرت وحمیت سے سرشار ہوجاتا ہے(ص۷)۔ متعدد عرب صارفین نے بھی اس کتاب سے متعلق اپنے احساسات وتاثرات ٹیوٹر پر عربی میں رقم کیے ہیں۔چند اقتباسات کے تراجم ملاحظہ ہوں:
’’ایک خوبصورت کتاب جو دلوں کے تاروں کو چھیڑتی ہے، روح کو تقویٰ ،ایمان اور یقین کی غذا فراہم کرتی ہے۔ بعض آیات کی فاضل مصنف نے ایسی دل نشیں تشریح کی ہے کہ قاری کو محسوس ہوتا ہے کہ وہ پہلی بار اسے سن رہا ہے۔ یہ پیغام باد صبا کے نسیم جھونکوں کی طرح روح پر اثر انداز ہوتا ہے اور اسے گہری نیند، غم وحزن اور ہر قسم کی منفی سوچ سے دور کردیتا ہے۔کتاب کی سب سے بڑی خاصیت یہ ہے کہ بہت سادہ، سہل اور آسان عبارت میں قرآنی تعلیمات کو پیش کیا گیا ہے۔ایسا محسوس ہوتا ہے کہ یہ خدائی پیغام نیند سے بیدار کرنے ہی کے لیے نازل ہوا ہے تاکہ کائنات کا وسیع نظروں سے مشاہدہ کیا جائے۔مجھے یقین ہے کہ ا س کتاب کے مطالعہ سے آپ کی زندگی میں ضرور مثبت تبدیلی پید اہوگی‘‘۔
ایک دوسرے صارف کا احساس ملاحظہ ہو:
’’اس کتاب کے افکار کلی طور پر آیات قرآنیہ سے مستنبط ہیں۔اس میں عام انسانوں سے متعلق موضوعات زیر بحث آئے ہیں۔یہ موضوعات حساس بھی ہیں اور گہرے بھی ۔اس کا اسلوب بہت دلکش ہے۔کتاب کے مطالعہ سے مخلوقات کی تخلیق، ان کے احوال، اقتصادی اور انسانی مسائل وبحران سے متعلق غور وفکر کی صلاحیت نشو ونما پاتی ہے جن سے انبیاء کرام کو بھی مفر نہیں۔قرآن کریم میں مذکور انبیاء کرام اور سابقہ اقوام کے تجربات کی روشنی میں ادہم شرقاوی نے صبر، ایمان باللہ، اللہ کے ساتھ حسن ظن، احترام انسانیت، رحمت، رواداری اور تذکیری پیغامات کی ترسیل کی ہے‘‘۔
ایک صارف نے کتاب کی خصوصیت پر اس انداز سے روشنی ڈالی ہے:
’’اس کتاب کی خاصیت یہ ہے کہ اس کے متعدد صفحات میں ادہم شرقاوی نے بہت خوبصورتی سے ایسے جملے ٹانک دیے ہیں جو قاری کو احساس دلاتے ہیں کہ وہ براہ راست ان آیات کا مخاطب ہے اور اللہ پر اس کے یقین واعتماد میں مزید اضافہ ہو جاتا ہے۔۔۔یہ ایک ایسی کتاب ہے جو مایوس دلوں میں امید کی کرن پیدا کرتی ہے۔اللہ سے اس کا رشتہ جوڑتے ہوئے اس کا اعتماد بحال کرتی ہے اور یہ احساس پیدا کرتی ہے کہ اللہ کی معیت اختیار کرو، اللہ تمہارے ساتھ رہے گا، اللہ کو یاد کرو، اللہ تمہیں یاد رکھے گا۔اپنے قلب کا رشتہ اسباب سے توڑ کر اللہ سے استوار کرلو‘‘۔
بعض صارفین نے اسے فیس بک کی پوسٹ سے مشابہ قرار دیتے ہوئے اس پر نقد بھی کیا ہے۔ایک صارف کا احساس ملاحظہ ہو:
’’کتاب کا نقص یہ ہے کہ اس میں کہیں کہیں تکرار کا احساس ہوتا ہے۔ بعض آیات کے سیاق میں ضعیف احادیث سے استناد کیا گیا ہے یا شاذ تفسیر بیان کی گئی ہے۔قصۂ یوسف وزلیخا اور سامری وجبرئیل کے واقعہ میں اس کا مشاہدہ کیا جاسکتا ہے۔مصادر کا ذکر نہیں کیا گیا ہے۔یہ فیس بک پوسٹ سے مماثلت رکھتی ہے،اس کے صفحات مزید کم ہوسکتے تھے‘‘۔
عربی متن کی طرح اردو ترجمہ بھی سلیس اور رواں ہے، اور اس کے مطالعہ سے اصل کا گمان ہوتا ہے۔ برادرم ابوالاعلیٰ اس عظیم کاوش کے لیے مبارک باد کے مستحق ہیں۔ یہ کتاب ہند وپاک میں ایک ساتھ شائع ہوئی ہے اور شائقین علم اس کی زبردست پذیرائی کررہے ہیں۔
***
***
پہلی مرتبہ کتاب ’رسائل من القرآن دار کلمات، کویت سے شائع ہوئی تو ناشر نے اپنا احساس ان الفاظ میں رقم کیا کہ:
اے خداوند تعالیٰ!جب تو نے ابراہیمؐ کو حکم دیا کہ لوگوں میں حج کی منادی کردو تو ابراہیمؐنے عرض کیا، اے مالک حقیقی!میں لوگوں تک اپنی بات کیسے پہنچاسکتا ہوں جب کہ میری آواز ان تک نہیں پہنچ سکتی۔اللہ تعالیٰ نے فرمایا: تم آواز لگاؤ، پہنچانا ہماری ذمہ داری ہے۔ پھر اللہ تعالیٰ نے ابراہیمؐ کی آواز روئے زمین کے ہرگوشہ تک پہنچادی۔اے اللہ!یہ کتاب ایک کمزور وناتواں بندے کی پکار ہے، اس کی آواز بہت کمزور ہے۔تیری محبت اور تیری چاہت میں اس نے یہ گہار لگائی ہے۔اے اللہ! اس کی ترسیل کا سامان کرکے اس کی عزت افزائی فرما۔
۷؍اکتوبر ۲۰۲۳ء سے طوفان اقصیٰ کا آغاز ہوا تو متعدد ایسے اسباب پیدا ہوئے جس سے اس کتاب نے عرب دنیا میں ہلچل پیدا کردی اور متعدد بین الاقوامی زبانوں میں اس کے ترجمہ کی اشاعت کا اہتمام کیا گیا۔عالم عرب کے نوجوان طبقہ میں اس کتاب کو غیر معمولی مقبولیت حاصل ہوئی اور دیکھتے ہی دیکھتے اسے سب سے زیادہ فروخت ہونے والی کتاب کا درجہ حاصل ہوگیا۔
ہفت روزہ دعوت – شمارہ 07 جولائی تا 13 جولائی 2024