کتاب :قرآن مجید بحیثیت ماخذِ سیرت

سیرتِ نبوی کا مطالعہ صرف قرآنی آیات کی روشنی میں

ابوسعد اعظمی

کتاب کا نام:قرآن مجید بحیثیت ماخذِ سیرت
مصنف : محمد عمر اسلم اصلاحی
ناشر : البلاغ پبلیکیشنز، نئی دہلی
سن اشاعت:۲۰۱۹ء
صفحات:۳۳۵
قیمت:۳۵۰روپے
قرآن مجید کی طرح اولین شارحِ قرآن نبی اکرم ﷺ کی زندگی کے اتنے گوشے ہیں کہ قیامت تک اس پر غور وفکر کا سلسلہ جاری رہے گا۔ہر دور میں اہل قلم نے سیرت کے مختلف پہلوؤں کو اجاگر کرکے اس کے پیغام کو عام کرنے کی کوشش کی ہے اور اسے اپنے لیے ذریعہ نجات تصور کیا ہے۔لیکن قرآن مجید جو سیرت نبوی ﷺ کا اولین ماخذ ہے اور جس کی طرف حضرت عائشہؓ نے بایں الفاظ اشارہ کیا ہے کہ ’’کان خلقہ القرآن‘‘ اور وصال نبوی کو انتہائی بلیغ الفاظ میں یہ کہہ کر تعبیر کیا گیا کہ آج ہمارے درمیان سے چلتا پھرتا قرآن رخصت ہوگیا۔پتہ نہیں کیوں اس کو بحیثیت ماخذ استعمال کرکے سیرت کی تدوین کی کوشش کم نظر آتی ہے۔مصنفِ کتاب مولانا محمد عمر اسلم اصلاحی اس کمی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں، ’’موضوع کے انتخاب کے وقت یہ خوش فہمی تھی کہ سیرت کی کتابوں میں اس پر خاصا مواد مل جائے گا لیکن جب کتبِ سیرت کا اس حیثیت سے مطالعہ شروع کیا تو نہ صرف یہ کہ بڑی مایوسی ہوئی بلکہ میری الجھن میں بھی اضافہ ہوگیا کہ مواد کہاں سے لاؤں گا‘‘(ص۹)۔زیر تعارف کتاب ’’قرآن مجید بحیثیت ماخذ سیرت‘‘ میں اسی خلا کو پر کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔
مولانا عمر اسلم اصلاحی مدرسۃ الاصلاح سرائے میر میں قرآن وحدیث اور ادب کے استاذ ہیں ۔تدریس کے ساتھ ساتھ قلم کا اچھا ذوق ہے۔مدرسۃ الاصلاح کے ترجمان سہ ماہی نظام القرآن کے مدیر ہیں ۔آپ کی متعدد تصانیف منظر عام پر آچکی ہیں اور اہل علم نے انہیں قدر کی نگاہ سے دیکھا ہے۔زیر تعارف کتاب اس سے قبل سلسلہ وار مضامین کی شکل میں سہ ماہی نظام القرآن میں شائع ہوچکی ہے جس کی طرف کتاب کے پیش لفظ میں اشارہ کیا گیا ہے۔کتاب میں دو باب ہیں (۱) آپ ﷺ کی ذات، شخصیت اور رسالت ونبوت (۲)انوار نبوت اور دعوت وکردار۔مولانا ابوالکلام آزاد کی ایک قیمتی تحریر بطور مقدمہ شاملِ کتاب ہے۔اپنی اس تحریر میں قرآن کریم بحیثیت ماخذ سیرت پر روشنی ڈالتے ہوئے مولانا ابوالکلام آزاد رقم طراز ہیں، ’’اگر دنیا سے تاریخِ اسلام کی ساری کتابیں معدوم ہوجائیں اور دنیا نے جو کچھ چھٹی صدی عیسوی کے ایک ظہور دعوت کی نسبت سنا ہے وہ سب کچھ بھلادے،اور صرف قرآن ہی دنیا میں باقی رہے جب بھی آنحضرت ﷺ کی شخصیت مقدسہ اور آپ کی سیرت وحیات کے براہین وشواہد مٹ نہیں سکتے۔صرف ایک قرآن ہی اس کے لیے بس کرتا ہے کہ وہ ہمیشہ دنیا کو بتلادے کہ اس کا لانے والا کون تھا۔۔۔ (ص۱۴)
باب اول و دوم کے بعض اہم ذیلی عناوین اس طرح ہیں:حضرت محمد ﷺ کا تعارف،آپ ﷺ کی بعثت،مزاج رسالت محمدی،رسالت محمدی ﷺ کی تائید،آپ ﷺ کے اخلاق واوصاف،امتیازات وخصائص ختم الرسل،رسول ﷺ کو اذیت دینے والوں کا انجام،سید المرسلین پر کافروں اورمنافقوں کے اعتراضات اور اللہ کا جواب،اللہ کا اپنے رسول سے وعدہ، معراج نبوی، آپ ﷺ کی ہجرت اور رفقائے ہجرت کا مقام و مرتبہ، فریضۂ شہادت حق، دعوت، ارکان دعوت، توحید، الوہیت، ربوبیت، اقامتِ دین، اطاعتِ رسول، دعوت کے تدریجی مراحل وغیرہ۔
فاضل مصنف نے متعدد آیات قرآنیہ کے حوالہ سے نبی کریم ﷺ کا جامع تعارف اس طرح پیش کیا ہے کہ آپ ﷺ حضرت اسماعیلؑ کی نسل کی سب سے محترم شخصیت ہیں،آپ کوئی مافوق البشر ہستی نہیں ہیں بلکہ عام انسانوں کی طرح ایک انسان ہیں اور ان میں اور عام انسانوں میں فرق صرف یہ ہے کہ عام انسانوں پر وحی نہیں آتی اور آپ ﷺ پر وحی آتی ہے۔آپ کسی نفع وضرر کے مالک نہیں اور نہ غیب داں ہیں۔آپ محض مُذَکِّر ہیں مسیطر نہیں، آپ امت کے انتہائی ہمدرد وغم گسار ہیں اور ہمیشہ امت کی ہدایت کے لیے فکر مند رہتے ہیں،آپ انسانیت کے محسن اعظم ہیں ،آپ خود بھی موحد ہیں اور توحید کے داعی ہیں (ص۲۴-۳۲)۔
قرآن کریم میں بعثت نبوی ﷺ کے مقاصد کا بھی تفصیلی جائزہ پیش کیا گیا ہے،مصنف کی نظر میں اس کا خلاصہ یہ ہے کہ آپ اللہ کے پیغام کو اس کے بندوں تک پہنچادیں اور اس میں کوئی کوتاہی نہ کریں،اس پیغام میں جو احکام وقوانین ہیں ان کو نہایت شفقت، ہمدردی اور توجہ کے ساتھ ہر استعداد کے لوگوں کی صلاحیت کے مطابق ان کے دل ودماغ میں اتار دینے کی کوشش کریں،اس کے ساتھ ساتھ نفس کو غلط میلانات ورجحانات سے موڑ کر نیکی اور خدا ترسی کے راستے پر ڈالنے کی سعی کریں جس کا دوسرا نام تزکیہ ہے۔حق وباطل کے درمیان فیصلہ کریں ،تانا شاہی اور ڈکٹیٹر شپ ختم کرکے شورائی نظام کا قیام عمل میں لائیں تاکہ ہر ایک کی عزت نفس کی ضمانت فراہم ہو۔رسول کی بعثت ہی اس لیے ہوتی ہے کہ حق کا غلبہ ہو اور باطل نابود ہو۔اسی طرح مختلف آیات کے حوالہ سے مخالفت کے اسباب کا ذکر کرکے یہ واضح کردیا گیاہے کہ دین اسلام غالب ہوکر رہے گا اور دنیا نے بھی دیکھ لیا کہ محض ۲۳ سال میں اسلام کا ہلالِ نو بدرِ کامل بن گیا۔
مزاج نبوی کی تشریح کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ تمام ہی انبیاء کا مشن عدل کا قیام،نیک برتاؤ،فیاضانہ سلوک،ہمدردانہ رویہ، رواداری ،خوش خلقی،عفو ودرگزر، باہمی مراعات،ایک دوسرے کا پاس ولحاظ،حقوق کی ادائیگی اور ایثار جیسے مکارم اخلاق کا فروغ اور بخل، زنا، برہنگی، عریانی، جوا، شراب، بدزبانی، بدکلامی، عریاں تصاویر کی نمائش، رقص وسرود،عیش وطرب،حد سے تجاوز اور حقوق کی پامالی جیسے رذائل اخلاق کی بیخ کنی رہاہے۔نبی کریم ﷺ کی نبوت ورسالت کا مزاج بھی یہی ہے (ص۷۷)۔ مزیدبرآں نبی کریم ﷺ کے اخلاق واوصاف پر روشنی ڈالتے ہوئے وہ تحریر کرتے ہیں کہ آپ ﷺ کے اندر جو شرافت اور کریم النفسی تھی اس سے مقابلہ کے لیے منافقین اور معاندین کے پاس کوئی ہتھیار نہیں تھا۔امت کے تئیں آپ ﷺ کی انتہائی دردمندی بھی آپ کے عظیم خلق میں شامل ہے۔آپ ﷺ کو دیگر افراد کے بالمقابل اللہ تعالی کی طرف سے جو امتیازات وخصوصیات عطا ہوئی تھیں اس کا بھی مختلف آیات کریمہ کے تناظر میں تفصیلی جائزہ پیش کیا گیا ہے (ص:۱۳۷-۱۵۷)اور احترام رسول کے تقاضوں کو واضح کیا گیا ہے۔فریضۂ شہادت حق کے ذکر پر کتاب کا پہلا باب تقریبا دو سو تیس(۲۳۰) صفحات پر مشتمل ہے ۔
دوسرے باب میں دعوت کا تعارف کراتے ہوئے مصنف نے اس بات پر روشنی ڈالی ہے کہ انبیاء کرام کی بعثت کا بنیادی مقصد امت کی تعلیم واصلاح رہا ہے،اس لیے ان کی دعوت میں ایک معلم کی شفقت اور ایک داعی کی دل سوزی وغم گساری بہت واضح طور سے نظرآتی ہے۔رسول کی دعوت حقیقی زندگی کی دعوت ہوتی ہے،اس دعوت سے انسان کو نور بصیرت حاصل ہوتا ہے اور جو اس کو قبول کرلیتا ہے اس کا دل آئینۂ تجلیات یزدانی اور مصدرِ انوارِ الٰہی بن جاتا ہے۔ ارکانِ دعوت کے سب سے اہم رکن توحید پر گفتگو کرتے ہوئے مصنف نے اسے دو قسموں میں تقسیم کیا ہے(۱) توحید الوہیت (۲) توحید ربوبیت اور توحید ربوبیت کی اہمیت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں،’’ توحید ربوبیت کا معاملہ توحیدِ الوہیت سے بھی زیادہ نازک اور اہم ہے۔کیوں کہ اللہ تعالیٰ کا یہی وصف ہے جس میں ہر عقیدہ ومسلک اور ہر نظریہ ومذہب میں بڑی بے اعتنائی پائی جاتی ہے۔بہت سے مسلمان بھی ہیں جن کے یہاں توحید ربوبیت کا تصور بہت کمزور ہے،عقیدتاً تو وہ بلاشبہ اللہ تعالی ہی کو اپنا معبودبھی مانتے ہیں اور رب بھی لیکن عملاً ربوبیت کو انہوں نے متعدد ہستیوں اور شخصیات کے درمیان تقسیم کررکھا ہے۔تصورِ ربوبیت کے بغیر نہ ایمان معتبر ہے اور نہ عمل۔ربوبیت کا یہ تصور تمام شعبہ ہائے حیات میں بھی ضروری ہے اور زندگی کے تمام مراحل میں بھی ضروری ہے۔مختلف آیات کے حوالہ سے واضح کیا گیا ہے کہ داعی اعظم ﷺکو سب سے زیادہ توحید کی دعوت پر توجہ دینے کاحکم ہوا ہے کہ یہی خلاصۂ تخلیق کائنات ہے ،اسی لیے اس دعوت کو سب سے اچھی دعوت قرار دیا گیا ہے(حم السجدۃ:۴۱؍۳۳) اور اسی لیے دعوتِ توحید کو صراط مستقیم کی دعوت کہا گیا ہے (المومنون:۲۳؍۷۳)‘‘ (ص:۲۶۶-۲۷۸)۔
’’شریعت الٰہی کی پابندی‘‘ کے ذیلی عنوان کے تحت لکھتے ہیں کہ در اصل شریعت الٰہی کی پابندی میں سب سے بڑی رکاوٹ زخارفِ دنیا سے بے پناہ محبت ہے۔اسی لیے اللہ تعالی نے اپنے رسول کو یہ ہدایت دی کہ تم سب سے پہلے ان کا زاویہ نظر بدلنے کی کوشش کرو،انہیں بتاؤ کہ یہ جہان رنگ وبو چند روزہ ہے،اصل زندگی آخرت کی زندگی ہے۔اس لیے کہ جن کا زاویہ نظر بدل جاتا ہے ان کے کردار میں صالح تبدیلی آجاتی ہے چنانچہ وہ اپنے پَل پَل کا جائزہ لیتے ہیں اور بارگاہ رب العزت میں دست بدعا رہتے ہیں (آل عمران:۳؍۱۹۱-۱۹۴) اس کے بعد سورہ نساء کے حوالے سے ایسے۷۳ معاشرتی اصول و آداب کا ذکر کیا گیا ہے جو شریعت الٰہی کا اہم جز ہیں اور خلاصۂ کلام کے طور پر اقامت دین اور ملی اتحاد کو شریعت الٰہی کی سب سے اہم ہدایت کے طور پر بیان کیا گیا ہے (ص۲۸۱-۲۹۱)۔
امربالمعروف اور نہی عن المنکر پر ان الفاظ میں گفتگو کرتے ہیں کہ، ’’امربالمعروف اور نہی عن المنکر نبی کریم ﷺ کی اللہ کی طرف سے لائی ہوئی بہت اہم اور بنیادی تعلیم ہے۔اسے تھوڑی سی وسعت دی جائے تو تین اوامر: عدل،احسان،ایتائے ذی القربی اور تین منہیات: فحشاء،منکر اور بغی بنتے ہیں جس کا ذکر اللہ تعالی نے سورہ نحل کی آیت؍ ۹۰ میں کیا ہے۔ اگر ان اوامر ومنہیات کا خیال رکھا جائے تو سماج سے وہ برائی ختم ہوسکتی ہے جس کو ختم کرنے کے لیے ہی اللہ کے رسول ﷺ کی بعثت ہوئی تھی‘‘ (ص ۲۹۳-۳۰۰)۔ آخر میں قرآنی آیات کی روشنی میں ملی اتحاد، اطاعتِ رسول اور دعوت کے تدریجی مراحل کے ذکر پر کتاب کا خاتمہ ہوجاتا ہے۔
سیرت پر موجود بیش بہا لٹریچر میں ابن ہشام کی سیرت نبویہ، قاضی العیاض کی الشفا اس لحاظ سے اہم ہے کہ ان کے متعدد مباحث میں آیات قرآنیہ سے استفادہ کی مثالیں ملتی ہیں۔ مولانا عبدالشکور کی کتاب مختصر سیرت نبویہ جس کا پورا نام سیرۃ الحبیب الشفیع من الکتاب العزیز الرفیع ہے ،بھی اس سمت میں ایک قابل قدر کوشش ہے۔اسی طرح علامہ شبلی اور سید سلیمان ندوی کی تالیف کردہ سیرۃالنبی کی اہمیت اس لحاظ سے بھی خوب ہے کہ ان حضرات نے مختلف مباحث میں قرآن کریم سے استفادہ کیا ہے۔ مصر کے مشہور عالم محمد عزہ دروزہ کی سیرۃ الرسول جو دو جلدوں میں تقریباً سات سو صفحات پر مشتمل ہے وہ بھی قرآن کی روشنی میں سیرت کو قلم بند کرنے کی ایک اچھی کاوش ہے۔
۳۳۵ صفحات پر مشتمل مولانا محمد عمر اسلم اصلاحی کی اس کتاب میں کلی طور پر قرآن کریم سے استفادہ کیا گیا ہے، اس لیے کہیں کہیں ایک ہی آیت کی مختلف عناوین کے تحت تکرار بھی نظر آتی ہے۔ یہ کتاب بلاشبہ اساتذہ وطلبہ اور عام قارئین سب کے لیے مفید ہے اور خاص طور سے قرآن کریم کی روشنی میں سیرت نبوی ﷺ کا مطالعہ کے شائقین کے لیے افادیت سے بھرپور ہے۔

 

***

 


ہفت روزہ دعوت – شمارہ 31 دسمبر2023 تا 06 جنوری 2024