کتاب: مسکراتا کون ہے؟

انشائیہ نگار محمد اسد للہ کے طنزیہ مضامین اور انشائیوں کا بہترین انتخاب

0

محمد انس

طنزیہ و مزاحیہ ادب یوں تو تفریح ِ طبع کا ایک اہم ذریعہ ہے مگر اسی کے ساتھ وہ ضرر رساں بھی ہے؛ طنز کے تیر جس پر چلتے ہیں وہ اسے مشتعل بھی کرتے ہیں، کسی کا مذاق اڑایا جائے، اس کے عیبوں کی نشاندہی کی جائے تو وہ اسے گراں گزرتی ہے۔ ظرافت میں یہ سب ہوتا ہے لیکن اس کے افادی پہلو کی طرف اشارہ کرتے ہوئے مشہور مزاح نگار رشید احمد صدیقی کہتے ہیں: یہ ظرافت کے مقاصد میں شامل نہیں ہے بلکہ اس کا مقصد اصلاحِ احوال ہے۔ ظرافت اچھے برے کا احساس پیدا کرکے ہمیں برائیوں سے پرہیز کرنے اور بہتر زندگی کی طرف راغب کرنے کی کوشش ہے۔
زیرِ تبصرہ کتاب ’مسکراتا کون ہے‘ بھی اسی قسم کی ایک کوشش نظر آ تی ہے۔ اسے توصیف احمد نے مرتب کیا ہے۔اس کتاب میں معروف انشائیہ نگار محمد اسد للہ کے طنزیہ و مزاحیہ مضامین اور انشائیوں کا ایک انتخاب پیش کیا گیا ہے۔ اس میں ہنستی مسکراتی ہوئی ۳۴ ظریفانہ تحریریں ہیں۔ کتاب کے سر ورق پر لکھا ہے ’محمد اسد للہ کی شگفتہ نگارشات‘
مرتب نے ۲۹ صفحات پر مشتمل اپنے پیش لفظ میں مصنف کے متعلق معلومات کے علاوہ ان کی ظرافت کا تنقیدی جائزہ بھی پیش کیا ہے۔ وہ لکھتے ہیں:
محمد اسد اللہ بنیادی طور پر انشائیہ نگار ہیں۔ بھارت میں انشائیہ نگاری میں طنزیہ و مزاحیہ تخلیقات کو شامل کیا جاتا ہے۔ اس لیے انہوں نے اپنے ادبی سفر کی ابتدا اسی قسم کے مضامین سے کی ہے۔ ان میں بھی انشائیے کی بنیادی خوبیاں مثلاً نکتہ آ فرینی، بے تکلفی، گہری بات کو آسان اور سہل طریقے سے پیش کرنا اور ایسے اسلوب کو بروئے کار لانا جس میں نثر اور شاعری کا ملا جلا آہنگ ہو، اس قسم کی ان کی تحریریں ان کے مجموعے ’پر پرزے‘ میں موجود ہیں۔( ص۱۸)
‘مشہور ادیب و شاعر روؤف خیر نے کتاب کے ابتدائی صفحات میں محمد اسد اللہ کے متعلق اپنے خیالات کا اظہارکیا ہے۔ انہوں نے ان مضامین کے حوالے سے محمد اسد اللہ کی ظرافت کا بہترین تجزیہ کیا ہے، وہ لکھتے ہیں:
محمدا سد اللہ انشائیہ اور طنز و مزاح میں ڈبل رول ادا کرتے ہیں۔ وہ ادبی سواری میں منزلِ ’اوراق‘ کی طرف تنہا سفر کرتے ہوئے بھی دو ٹکٹ خرید لیتے ہیں۔ اسد اللہ اور انشائیہ بھارت میں لازم و ملزوم سمجھے جاتے ہیں۔
شیرِ انشائیہ محمد اسد اللہ
محمد اسداللہ ان چند ادیبوں میں شمار کیے جاتے ہیں جنہوں نے ڈاکٹر وزیر آغا کی انشائیہ نگاری کی تحریک سے وابستگی اختیار کی اور اس صنف کے فروغ کے لیے نہ صرف معیاری انشائیے لکھے بلکہ اپنی تنقیدی اور تحقیقی کاوشوں کے ذریعے بھی اس ادبی تحریک کے لیے مفید و کارآمد ثابت ہوئے۔ محمد اسد اللہ کے انشائیوں میں بھی طنز و مزاح وافر مقدار میں پایا جاتا ہے۔ بحیثیت انشائیہ نگار یہ ان کی ایک امتیازی خوبی شمار کی جاتی ہے۔
اس کتاب میں جہاں ان کے ظریفانہ مضامین شامل ہیں وہیں ایسی تخلیقات بھی موجود ہیں جو اپنے اندر ایک عمدہ انشائیہ کی خوبیاں لیے ہوئے ہیں۔ ایسے مضامین میں ’بخار، دوسرا کان، سوتن، شادی کے بعد، عید کی شاپنگ اور پتلی گلی اور منہ چھپا کے جیو‘ قابلِ ذکر ہیں۔
اس کتاب کے ایک مضمون ’آہ مولانا‘ میں ہمارے تعلیمی اداروں کی اس صورتِ حال کا مذاق اڑایا گیا ہے جہاں آزاد بھارت کے پہلے وزیرِ تعلیم کی پہچان اب دھندلی ہو چلی ہے۔ اسی طرح ’شادی کے بعد‘ نام کے مضمون میں شادی ہونے کے بعد حالات کس تیزی سے بدلتے ہیں اور ان کی وجہ سے کس طرح مضحکہ خیز صورت حال پیدا ہوتی ہے اس کا نقشہ دلچسپ انداز میں کھینچا گیا ہے۔ ’ڈاکٹر بنے تھے یگانہ‘ پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کرنے والوں کی سہل پسندی اور علم و ادب سے بے گانگی پر طنز ہے۔ مہمانوں کا سیلاب بدلتی ہوئی قدروں کا دلچسپ بیان ہے۔ ’ منہ چھپا کے جیو‘ اور ’عید کی شاپنگ اور ‘پتلی گلی‘ کورونا کے زمانے میں اچانک بدلنے والی صورتِ حال کو پیش کرتے ہیں۔
‘مسکراتا کون ہے’ کی شگفتہ تحریروں میں تنوع اور نیا پن موجود ہیں۔ اس کتاب کے چند دیگر قابلِ ذکر مضامین درج ذیل ہیں۔ اردو کی سپاری، چچا چھکن اور موبائیل خر وہ افسانہ کہ آشفتہ بیانی مانگے، گاؤں کے راستے، ایک گدھے کا خطبۂ صدارت، باقی سب خیریت ہے، میں ذرا جلدی میں ہوں وغیرہ۔
محمد اسداللہ نے سماج، سیاست اور ادب کو خاص طور پر طنز کا نشانہ بنایا ہے۔ اس سلسلے میں ان کا مشاہدہ اور طنز کرنے کی صلاحیت قابلِ داد ہے۔ اس کا اندازہ درج ذیل اقتباسات سے لگایا جا سکتا ہے:
ہمارے گھر کا صدر دروازہ بیڈ روم سے اتنی دوری پر واقع ہے جتنا کسی شیخی باز آدمی کی باتیں حقیقت سے دور ہوا کرتی ہیں۔ (کاش نہ لگواتے کال بیل)
میں انہیں اپنا دشمن بھی نہیں کہہ سکتا کہ اس آدمی کو سوائے عقل کے کسی سے دشمنی آتی ہی نہیں۔ (میاں چپاتی)
دورانِ مطالعہ آپ کسی چیز پر فلک شگاف قہقہہ لگانا چاہیں تو یہ ’ناچیز‘ حاضر ہے۔ (پیش لفظ)
اب آدمی تلاشِ روزگار میں لوکل ٹرین اور سٹی بس کے دھکے کھاتا ہے اور بے تکان جیتا ہے۔ آج کل دانے دانے پر ہی نہیں بس اور ٹرین کے دھکوں پر بھی ہمارا نام لکھا ہواہے۔ (مہمانوں کا سیلاب)
لوگ صاحب سے اتنا نہیں ڈرتے جس قدر اس کے چمچے سے گھبراتے ہیں کہ وہ باس کو ان کے خلاف نہ جانے کب کیا گھول کر پلادے۔ (چمچوں کے بارے میں)
سب کے منہ پر ماسک چڑھے ہیں گویا اپنے کرتوت کے سبب انسان کسی کو منہ دکھانے کے قابل نہیں رہا۔ ہمارے لیے تو یہ مفید ثابت ہوا کہ اسے پہن کر ہم قرض داروں کے سامنے دندناتے پھرتے ہیں ۔ (منھ چھپا کے جیو)
یہ ہلکے پھلکے مضامین نہ صر ف تفریح طبع بلکہ باذوق قارئین کے لیے ذہنی آسودگی کا بھی ذریعہ ہیں۔ یہ کتاب فخر الدین میموریل کمیٹی،لکھنو کے تعاون سے منظرِ عام پر آئی ہے۔ اس کا سر ورق بامعنی اور کتاب خوبصورت ہے۔ قیمت بھی مناسب ہے۔ اسے الفاظ پبلیکیشنز کامٹی سے حاصل کیا جا سکتا ہے۔

 

***

 


ہفت روزہ دعوت – شمارہ 13 جولائی تا 19 جولائی 2025