کتاب؛ خود نوشت افکار سرسید
سرسید کے نظریاتی ارتقاء کے پیش نظر ابتدائی اور آخری مراحل کی موازنہ شدہ بہترین تصنیف
عبدالعلیم الاعظمی
سرسید احمد خان برصغیر کی ان عبقری شخصیات میں سے ہیں جنہوں نے اپنے علمی، ادبی اور ملی کارناموں کی وجہ سے برصغیر خاص طور پر ہند و پاک میں گہرے نقوش چھوڑے ہیں۔ سرسید مرحوم کے افکار و نظریات پر بہت کچھ لکھا جاچکا ہے اور لکھا جارہا ہے؛ بلکہ سرسید کے افکار و نظریات ہمیشہ سے علمی حلقوں میں زیر بحث رہے ہیں اور مخالف و موافق ہر طرح کی آراء پائی جاتی رہی ہیں۔ سرسید کی زندگی اور ان کے افکار و نظریات کا گہرائی سے مطالعہ کرنے کے بعد یہ بات ہویدا ہوتی ہے کہ سرسید کے نظریات میں ارتقاء ہوتا رہا ہے، ابتداء میں سرسید جن نظریات کے سخت حامی یا ناقد تھے، زندگی کے اخیر مراحل میں معاملہ اس کے برعکس بھی ہوا ہے۔ اسی لیے ایک بڑا طبقہ سرسید کے مرجوح نظریات کو بھی سرسید کے اصل نظریات باور کرواکے اپنے موقف کی دلیل کے طور پر پیش کرتا ہے۔ سرسید مرحوم کے افکار و نظریات پر بحث اور نقد و تبصرہ کرتے ہوئے علمی حلقوں میں ایک اور بھی چیز کا سامنا بکثرت کرنا پڑتا ہے، جب سرسید کے مذہبی، سیاسی اور اسی طرح بعض تعلیمی نظریات پر نقد و تبصرے ہوتے ہیں تو ایک مخصوص طبقہ سرسید کے ملی کارناموں خصوصا تعلیمی تحریک اور علی گڑھ مسلم یونیورسٹی جیسے لازوال کارناموں کو پیش کرکے سرسید کے ان نظریات پر نقد و نظر سے صرف نظر کرنا چاہتا ہے یا بالفاظ دیگر ان بے مثال کارناموں کی آڑ میں ان گمراہ کن نظریات کو جواز فراہم کرنے کی ناکام کوشش کرتا ہے۔ اس طرح کی صورت حال میں سرسید کے افکار و نظریات پر خود ان کی اپنی تحریروں کی معنویت بڑھ جاتی ہے، ثانوی مآخذ کے بجائے براہ راست سرسید کی تحریروں اور نگارشات سے ان کے افکار و نظریات کو سمجھنا ناگزیر ہوجاتا ہے۔ ڈاکٹر ابو سلمان شاہجہانپوری نے سرسید مرحوم کے نظریات کی تقسیم اور اس کے اثرات کو بہت ہی اختصار اور خوبصورتی کے ساتھ بیان کیا ہے، وہ لکھتے ہیں :
” سرسید احمد خاں نے زبان، ادب، صحافت، تعلیم، سیاست اور اصلاحِ قومی کی تاریخ میں گہرے نقوش ثبت کیے تھے، جو بعد کی تاریخ کے ہر دور میں روشن سے روشن تر ہوتے رہے ہیں، لیکن سرسید نے جتنے عظیم کارنامے انجام دیے تھے، ویسی ہی ان سے بڑی غلطیاں بھی سرزد ہوئی تھیں۔ اس لیے لازم ٹھیرا کہ ان سے اتنا ہی شدید اختلاف کیا جائے۔ سب سے زیادہ ان کے مذہبی عقائد موضوع بحث بنے اور اس سے کم ان کے تعلیمی افکار اور سیاسی نظریات پر نقد کیا گیا۔ بلاشبہ اگر ان کے مذہبی عقائد کو اختیار کرلیا جائے تو مذہبی عقائد و ایمانیات کا پورا نظام درہم برہم ہوجائے۔ اگر ان کے سیاسی افکار کو بیسویں صدی میں مسلمان اپنا نصب العین قرار دے لیتے تو آزادی کا خواب کبھی شرمندہ تعبیر نہ ہوسکتا تھا، اگر ان کی دعائیں شرف قبولیت حاصل کرلیتیں تو آج بھی اہل وطن کے سروں پر برٹش استعمار کا سورج چمک رہا ہوتا، اور اگر ان کے تعلیمی افکار کو مطمح نظر قرار دے لیا جاتا تو برطانوی اقتدار کے دفتری نظام کو چلانے اور اسے مستحکم کرنے والی مسلمان نام کی ایک غلام قوم محکومانہ زندگی گزار رہی ہوتی۔ ” ( صفحہ 19/)
زیر نظر کتاب "خود نوشت افکار سر سید” سرسید کی کتابوں،خطبات، مختلف رسائل و جرائد میں شائع شدہ ان کے مضامین و مقالات سے کشید کردہ ان کے افکار و نظریات کو ان کی اپنی تحریروں میں پیش کرنے کی ایک کامیاب کوشش ہے۔ یہ کتاب در اصل اس سلسلے کی دوسری کتاب ہے، پہلی کتاب "خود نوشت حیات سرسید” ہے، جس میں فاضل مرتب جناب ضیاء الدین لاہوری نے سرسید کی تحریروں سے ان کے افکار و نظریات کو جمع کیا ہے۔ اس کتاب کو مرتب کرنے کے لیے فاضل مرتب کو سرسید کی تمام تحریروں،خطبات اور مضامین و مقالات کا باریک بینی سے مطالعہ کرنا پڑا۔ فاضل مرتب نے اس کتاب میں بہت ہی احتیاط سے کام لیا ہے، حوالہ جات اصل ماخذ سے دیے گئے ہیں، ان میں بھی سرسید کی کتابوں کی اولین اشاعت کو پیش نظر رکھا گیا ہے۔ اسی طرح سرسید کے بعض افکار و نظریات بدلتے رہیں ہیں، فاضل مرتب نے اس میں دونوں طرح کے نظریات نقل کرتے وقت تحریر کی تاریخ لکھنے کا بھی اہتمام کیا ہے۔ ان خصوصیات اور احتیاط کی وجہ سے اس کتاب کی اہمیت و افادیت مزید بڑھ جاتی ہے۔
زیر نظر کتاب 248/ صفحات اور 4/ ابواب پر مشتمل ہے، پہلا باب "مذہبی معتقدات” ہے، اس میں معجزات، کرامات، ملائکہ، جنات، شیاطین، تمام انبیاء کے معجزات، عذاب الٰہی، قیامت، آخرت، جزاء و سزا، بدعات، اوہام خواب اور سابقہ شریعت کے احکام کے تعلق سے بحث کی گئی ہے۔
دوسرا باب” تہذیبی و تمدنی خیالات” ہے، اس میں طریقہ معاشرت، غلام و لونڈی، عائلی مسائل جیسے کثرت ازدواج اور مسئلہ طلاق وغیرہ سے بحث کی گئی ہے۔ تیسرا باب ” تعلیمی نظریات” ہے، اس میں تعلیم کی زبان، مشرقی و مغربی علوم،ٹیکنکل تعلیم، تعلیم نسواں اور مدارس وغیرہ پر بحث کی گئی ہے۔ چوتھا باب "سیاسی و تاریخی افکار” ہیں، اس میں مملکت کے مسائل جیسے خلافت، دارالاسلام اور دارالحرب اور اسلامی سزائیں وغیرہ پر بحث کی گئی ہے اور آخر میں سرسید کے اپنے دور کی سیاست کے تعلق سے جمہوریت، نیشن اور کانگریس وغیرہ کے تعلق سے بھی بحث کی گئی ہے۔
بلاشبہ مرتب نے جس احتیاط اور دیانت کے ساتھ سرسید کے افکار و نظریات کو انہیں کی تحریروں کی صورت میں جمع کیا ہے، یہ اپنے آپ میں ایک اہم کارنامہ ہے، اور سرسید کے افکار و نظریات کو سمجھنے اور جاننے کے لیے ایک بہترین کتاب ہے؛ یہی وجہ ہے کہ مذکورہ کتاب کہ انہیں خصوصیات کو دیکھتے ہوئے ڈاکٹر سلمان شاہجہانپوری نے اس کو بعض اعتبار سے الطاف حسین حالی کی "حیات جاوید” پر فوقیت دی ہے، وہ لکھتے ہیں :
"ضیاء الدین لاہوری کی حیثیت اس عہد کے تمام مؤلفوں اور مصنفوں سے قطعی مختلف ہے۔ ان کے پیش نظر کسی نصابی کتاب کی تالیف نہیں تھی۔ سرسید کے بارے میں اپنے افکار و خیالات کو تالیف کردینے کے شوق میں انہوں نے قلم نہیں اٹھایا۔ تعلیم و تدریس کی کوئی ضرورت اس مشقت کے لیے ان کی دامن کش نہیں ہوئی تھی۔ ان کا مقصد سرسید کی عظمت کی تلاش اور اس عہد میں اس کی معنویت کی دریافت تھی۔ اس کے لیے انہوں نے اپنی زندگی کے تقریباً پچیس برس، اپنی عمر کا بہترین حصہ، اور اعلی ذہنی و فکری صلاحیتیں سرسید پر غور و فکر اور تحقیق میں صرف کیا ہیں۔ اس سلسلے میں ان کی تگ و دو کا میدان پاکستان سے انگلستان تک وسیع رہا ہے اور انہوں نے سرسید کی تصنیفات و تالیفات اور مطبوعات کے علاوہ ان کے دستیاب مخطوطات کے ایک ایک حرف کا مطالعہ کیا ہے اور اپنی پسند اور اپنے خیال کے مطابق ایک تالیف کا کارنامہ انجام نہیں دیا بلکہ اس کا ایک ایک لفظ سرسید کے اپنے بیانات و تحریرات سے اخذ کرکے حوالے کے ساتھ درج کرکے سرسید کی خود نوشت کے ہر دو پہلوؤں سوانح و افکار کا ایک عجیب و حسین مرقع تیار کردیا ہے۔ تالیفی حیثیت سے "حیات جاوید” کے بعد یہ سب سے زیادہ مستند اور جامع کتاب ہے اور "خود نوشت” کی حیثیت سے حیات جاوید پر اس کی اہمیت موفق ہے۔ انہوں نے غلط اور صحیح سے بحث نہیں کی، جو کچھ ہے سرسید کی اپنی تقریر و تحریر اور الفاظ و بیان میں ہے۔ خدمات کے ہر گوشے اور خوب و زشت پر ان کی اپنی گواہی ہے اور سرسید جیسی عظیم علمی و عملی اور جامع جہات شخصیت کے بارے میں جو کچھ سوچا جاسکتا ہے وہ سب "خود نوشت” میں موجود ہے۔ "(صفحہ 20/21)
برصغیر کی علمی و سیاسی تاریخ میں مہارت رکھنے والی ابو سلمان شاہجہانپوری جیسی عبقری شخصیت کے مذکورہ بالا الفاظ سے اس کتاب کی اہمیت و افادیت مزید اجاگر ہوجاتی ہے۔کتاب کا اولین نقوش پاکستان میں شائع ہوا تھا، ہندوستان میں ایک طویل عرصہ بعد یہ کتاب شائع کرنے کا شرف شعور حق نئی دلی کو حاصل ہورہا ہے، کتاب کی پہلی جلد یعنی خود نوشت حیات سرسید بھی مذکورہ مکتبہ سے شائع ہوئی تھی، اب یہ اسی سلسلے کی دوسری کڑی ہے۔ کتاب کے شروع میں ناشرِ کتاب مولوی یٰسین پٹیل فلاحی صاحب کی تحریر ہے، جس میں انہوں نے بہت ہی اختصار مگر جامعیت کے ساتھ سرسید مرحوم کے مذہبی افکار اور برصغیر میں اس کے اثرات سے بحث کی ہے۔ بلاشبہ یہ کتاب اس لائق ہے کہ اس کا مطالعہ کیا جائے۔ کتاب، شعور حق نئی دلی سے یا مذکورہ نمبر (9319437171 ) پر رابطہ کرکے حاصل کی جاسکتی ہے۔
***
***
ہفت روزہ دعوت – شمارہ 29 دسمبر تا 04 جنوری 2024