کتاب: کامیابی کی قرآنی علامتیں

حصولِ کامرانی کی متعدد علامتوں میں سے ایک جاہلوں سے اعراض بھی ہے

نام کتاب: کامیابی کی قرآنی علامتیں
تصنیف: ڈاکٹر محمد طارق ایوبی
ناشر: ہدایت پبلشرز اینڈ ڈسٹری بیوٹرس، نئی دہلی
سن اشاعت:۲۰۲۳ء
صفحات:۱۷۶
قیمت:۲۰۰ روپے
ابو سعد اعظمی ،علی گڑھ

کامیابی کی آرزو فطری ہے۔ ہر شخص دنیا میں کامیاب ہونا چاہتا ہے، لیکن اس کے لیے کچھ اوصاف کا پایا جانا ضروری ہے۔ قرآن کریم نے سورہ بقرہ (۳-۵) آل عمران(۱۳۴-۱۳۵) انفال(۲-۴) رعد(۲۰-۲۲) مومنون (۱-۱۱) فرقان(۶۳-۷۶) ذاریات(۱۷-۱۹) اور الدہر (۷-۱۰) وغیرہ میں متعدد ایسی خصوصیات بیان کی ہیں جو اگر کسی ایک شخص میں مجتمع ہوجائیں اور انسان عملی زندگی میں ان پر عمل پیرا ہو تو وہ حقیقی طور پر کامیاب ہوگا۔ مومن کے مطلوبہ اوصاف، مومن قرآن کے آئینہ میں وغیرہ ایسے موضوعات ہیں جن پر عربی اور اردو میں متعدد تصانیف قلم بند کی گئی ہیں۔ ڈاکٹر محمد طارق ایوبی کی زیر تعارف کتاب ’’کامیابی کی قرآنی علامتیں‘‘ بھی اسی سلسلہ کی ایک کڑی ہے۔راقم سطور کے پیش نظر اس کا دوسرا ایڈیشن ہے۔ اس میں مقدمہ طبع ثانی، پیش لفظ، حرف تقدیم اور مقدمہ کے علاوہ کامیابی کی قرآنی علامتیں،اللہ کے محبوب بندوں کی خصوصیات،انفاق مومن کا ایک امتیازی وصف، حقیقی کامیابی کے لیے اعمال نفاق سے اجتناب لازم ہے اور ہدایت وفلاح کے قرآنی نقوش کے عناوین سے پانچ قرآنی مقالات شامل ہیں۔ پہلے اور دوسرے مقالہ میں سورۃ المومنون کی ابتدائی گیارہ آیات اور سورۃ الفرقان ۶۳-۷۷ کی روشنی میں کامیابی کی قرآنی علامتیں اور اللہ کے محبوب بندوں کی خصوصیات کا تعارف کرایاگیا ہے۔ تیسرے مقالے میں انفاق کی اہمیت وفضیلت، اس کے ثمرات اور معاشرہ پر اس کے مثبت اثرات کا جائزہ پیش کیاگیا ہے۔ چوتھے مقالے میں نفاق کی شناعت، منافقانہ کردار اور منافقین کے اوصاف کی قرآن وحدیث کی روشنی میں صراحت ہے۔ آخری مقالہ میں ہدایت وفلاح کے قرآنی نقوش کے عنوان سے ان تمام آیات کا موضوعی مطالعہ کرنے کی کوشش کی گئی ہے جن میں اہل ایمان کے اوصاف بیان ہوئے ہیں اور انہیں اجر عظیم کی بشارت دی گئی ہے۔
فاضل مصنف نے اپنے مقدمہ میں کتاب کا مقصد یہ بیان کیا ہے کہ ’’اس کتاب کا مقصد قرآن کریم کی روشنی میں تزکیہ نفس اور اصلاح ظاہر وباطن ہے۔ یہ بات معلوم ہے کہ قرآن مجید کا اصل موضوع ہی تزکیہ ہے۔ وہ انفرادی واجتماعی تزکیہ کے لیے اتارا گیا ہے، وہ رہبانیت کو پسند نہیں کرتا، اس نے ربانیت کی تعلیم دی ہے، تزکیہ کوئی پر اسرار شے یا کوئی معمہ نہیں ہے۔نبی کریم ﷺ ساری زندگی صحابہ کرام کا تزکیہ فرماتے رہے اور ان کو عمل بالقرآن کی تلقین فرماتے رہے‘‘۔ (ص۵-۶)
مولانا مجیب الرحمن عتیق ندوی نے اپنے پیش لفظ میں صراحت کی ہے کہ’’قرآن مجید اور اسوۂ نبوی میں اس (تزکیہ)کے حصول کا مکمل نظام ومنہج موجود ہے، افسوس کہ لوگوں نے تزکیہ کو اس نظام ومنہج میں سمجھنے اور اختیار کرنے کے بجائے نسبتوں میں تلاش کیا،تو افراط وتفریط میں معمہ وچیستاں بن گیا، اور نوبت بایں جا رسید کہ محض چند خاص شکلوں اور مظاہر کا نام تزکیہ پڑگیا‘‘۔ (ص۱۱)
قرآن کریم نے تزکیہ کی جو گائیڈ لائن فراہم کی ہے مصنف اسی کی روشنی میں تزکیہ کا سفر طے کرنے کے داعی ہیں۔اس ضمن میں جو لوگ افراط وتفریط کا شکار ہیں مصنف ان پر گرفت کرتے ہوئے لکھتے ہیں: ’’جو اثرات آیات قرآنی کے مرتب ہوسکتے ہیں، جو ثمرات تلاوتِ قرآن اور فہم قرآن کے حاصل ہوسکتے ہیں، جو تاثیر قرآن مجید میں رکھی گئی ہے وہ دنیا کی کسی کتاب کا حصہ نہیں، اس کو سمجھنے کی کوشش نہ کرنا، اس کو پسِ پشت ڈالنا اور اس سے رہنمائی نہ لینا انتہائی خطرناک روش ہے۔آج دین کی تشریح کچھ اس طرح کی جاتی ہے، اصلاح کو اس قدر مشکل بناکر پیش کیا جاتا ہے کہ لوگ بدکتے ہیں، جب تک نسبتیں نہ ہوں، وابستگی نہ ہو اور کسی سے خاص تعلق نہ ہو تب تک کوئی اعتبار نہیں کیا جاتا‘‘۔ (ص۲۰-۲۲)
پہلے مقالہ میں سورۃ المومنون کی ابتدائی گیارہ آیات کی تشریح اور اس میں درج مومن کی صفات و خصوصیات کا جائزہ پیش کرتے ہوئے واضح کیا گیا ہے کہ ’’کامیابی در حقیقت آخرت کی کامیابی ہے، دنیا کی عیش وعشرت نہ انبیاء کا طریقہ رہا اور نہ ان کا پسندیدہ عمل، خود آپ ﷺ کے صحابہ کا فقر و زہد بھی اختیاری تھا۔اس لیے کفار ومشرکین کی دنیا داری اور چمک دمک دیکھ کر ان کو کامیاب تصور کرنا لاعلمی اور کامیابی کے اصل معنی ومفہوم سے ناواقف ہونے کی دلیل ہے‘‘۔ (ص۴۰)
کامیاب اہل ایمان کا سب سے پہلا وصف نماز میں خشوع کی عمر بن الخطابؓ،عبد اللہ بن عمرؓ،مجاہدؒ، ابن قیمؒ، غزالیؒ، قرطبی اور اشرف علی تھانویؒ کے حوالہ سے توضیح کی گئی ہے۔اس کے بعد لغویات سے اجتناب ، زکوٰۃ کی ادائیگی، شرم گاہ کی حفاظت، امانت داری وایفائے عہد، نماز کی پابندی پر تفصیلی گفتگو کرتے ہوئے واضح کیا ہے کہ جو مومنین ان صفات سے متصف ہوں گے وہی لوگ جنت کے حقیقی وارث ہوں گے۔شرم گاہ کی حفاظت کے حوالہ سے فاضل مصنف کا احساس ملاحظہ ہو: ’’ہم نے بچشم خود مغرب ومشرق کے تصورات کے حامل اداروں میں رہ کر دیکھا ہے، آج نکاح میں تاخیر اور تعلیمی اداروں اور گھروں میں بے مہالا اختلاط نے زنا یا مقدمات زنا کو جس طرح فروغ دیا ہے، اس کا اندازہ وہ نہیں کرسکتا جس نے دنیا نہ دیکھی ہو یا جو احساس کی دولت سے بے بہرہ ہو، اس پر مستزاد موبائل، انٹرنیٹ اور تربیت کے فقدان نے اس حمام میں سب کو برہنہ کردیا ہے۔ اگر کوئی واقعی فلاح حقیقی کا طلب گار ہے تو اسے شرم گاہوں کی بہر معنی حفاظت کا عادی بننا پڑے گا، شرم گاہوں کی حفاظت کے لیے ضروری ہے کہ نکاح آسان تھا اسے آسان بنایا جائے‘‘۔ (ص۵۸)
امانت داری اور ایفائے عہد کے ضمن میں اپنے تاثرات ان الفاظ میں بیان کرتے ہیں کہ ’’ان دونوں خصوصیات میں پوری حیات انسانی اور اس کے دونوں حصوں یعنی حقوق اللہ اور حقوق العباد کی رعایت کرنے اور خالق ومخلوق سے کیے ہوئے عہد وپیمان کو پورا کرنے کا حکم دے دیا گیا، بلکہ یوں کہیے کہ اس اجمالی حکم میں حیات انسانی کی تمام تفصیلات کو سمیٹ دیا گیا‘‘۔ (ص۵۹)ان صفات میں نماز کا دوبار ذکر ہے۔ ایک بار نماز میں خشوع اختیار کرنے کی تاکید ہے اور دوسری بار نماز کی حفاظت کا تذکرہ۔ فاضل مصنف کے الفاظ میں ’’اس سے معلوم ہوتا ہے کہ نماز اصل ہے، یہی دین کی روح اور دینداری اور تمام اخلاق واعمال کے تزکیہ کا اصل آلہ ہے، گویا نماز قوام ایمان ہے، اس کے بغیر دیگر اعمال کے اچھے ہونے کا تصور عبث ہے‘‘۔(ص۶۳)
اس کے بعد سورہ فرقان(۶۳-۷۷) میں مذکور عباد الرحمن کے اوصاف کا جائزہ ’’اللہ کے محبوب بندوں کی خصوصیات‘‘ کے عنوان سے پیش کیا گیا ہے۔ عبدیت وبندگی، میانہ روی، جاہلوں سے اعراض، قیام لیل، رجوع وانابت، بخل واسراف سے اجتناب، شرک، قتل ناحق اور زنا کی ممانعت، توبہ، جھوٹی گواہی، لغوسے پرہیز، غور وتدبر، احساس ذمہ داری اور حسن انجام یہ وہ عناوین ہیں جن کے تحت ان اوصاف کو اجاگر کیا گیا ہے۔
جاہلوں سے اعراض کے قرآنی حکم کی حکمت آشکارا کرتے ہوئے لکھتے ہیں:’’اگر اس قرآنی ہدایت پر عمل کیا جائے تو وطن عزیز میں ہمارے لیے بڑی آسانیاں پیدا ہوجائیں، یہاں کے ایک طبقہ اور بالخصوص میڈیا کا طرز عمل بالکل مشرکین مکہ جیسا ہے، وہ جان بوجھ کر ایسی باتیں کرتے ہیں جس سے مسلمان طیش میں آئے، جھلائے، احتجاج کرے، پھر ان کو فساد کرنے کا موقع ملے، مگر مومن کو مکہ کے ماحول میں یہ ہدایت دی گئی کہ اپنے کام سے کام رکھے، تبلیغ کرتا رہے اور لغویات سے گریز کرے‘‘۔ (ص۷۳) بخل واسراف سے اجتناب کے قرآنی حکم کی آج مسلم معاشرہ میں جس طرح پامالی اور خلاف ورزی ہورہی ہے اس پر فاضل مصنف نے گہرے کرب ودرد کا اظہار کیا ہے۔اسی طرح شرک کی حقیقت واضح کرنے کے بعد اپنے درد کو اس انداز میں الفاظ کا قالب عطا کیا ہے:’’آج اکثریت نے توحیدکو صرف عبادات میں اور مسجد میں قید کردیا ہے، باقی سارے معاملات میں باطل کی بالا دستی کو قبول کرلیا ہے، جس کے نتیجہ میں پوری دنیا میں مسلمان پست وذلیل اور کمزور ہیں، جب تک مکمل دین کی طرف رجوع نہیں کرتے، تب تک اللہ کی طرف سے نصرت کی امید کرنا خام خیالی ہے‘‘۔ (ص۷۹)
سورہ فرقان میں اہل ایمان کا ایک وصف یہ بھی نمایاں کیا گیا ہے کہ وہ اللہ کی آیات کو یوں ہی سن کر نہیں گزر جاتے بلکہ اس میں غور وتدبر کرتے ہیں۔ اس ضمن میں حالات حاضرہ کی عکاسی کرتے ہوئے فاضل مصنف رقم طراز ہیں: ’’حقیقت یہ ہے کہ قرآن میں غور و تدبر کرنے، اس سے رشتہ جوڑنے اور اس سے دور رکھنے والے دو الگ الگ انتہا پر ہیں، ایک گروہ عام پڑھے لکھے لوگوں کو یہ کہہ کر قرآن پڑھنے اور سمجھنے سے روکتا ہے کہ وہ اس کو سمجھ نہ سکیں گے اور گمراہی کی طرف چلے جائیں گے، دوسرے طبقے کی ضد ہے کہ ہر آدمی ایسا تدبر کرنے لگے کہ خود ہی قرآن سمجھنے لگے، اور مجتہد بن جائے، یہ انتہا پسندی کے دو الگ الگ کنارے ہیں۔ قرآن مجید کا گہرا فہم حاصل کرنے کے لیے تفقہ فی الدین کی ضرورت ہے اور اس کا مطالبہ ایک جماعت سے ہے، مگر قرآن سے نصیحت حاصل کرنے اور عبرت لینے کا مطالبہ ساری دنیا سے ہے‘‘۔ (ص۸۸)
اس کتاب کا تیسرا مقالہ ’’انفاق مومن کا ایک امتیازی وصف‘‘ کے عنوان سے ہے۔اس میں قرآن واحادیث کی روشنی میں انفاق کی اہمیت وفضیلت، اس کے ثمرات، انفاق کی مختلف قسمیں اور معاشرہ پر اس کے مثبت اثرات کو بہت تفصیل سے قلم بند کیا گیا ہے۔ خلاصۂ کلام کے طور پر واضح کیا گیا ہے کہ انفاق مومن کا خاص وصف ہے جبکہ بخل نفاق کی علامت ہے۔
اس کتاب کا چوتھا مقالہ ’’حقیقی کامیابی کے لیے اعمال نفاق سے اجتناب لازم ہے‘‘ کے عنوان سے ہے۔ مصنف نے لکھا ہے کہ ’’یہاں دراصل ان منافقانہ اعمال ومظاہر کا ذکر کرنا مقصود ہے جن کی مذمت قرآن کرتا ہے، جن سے بچنا ایمان کی سلامتی کے لیے لازم ہے، جو بھی عملی نفاق کا مرتکب ہوگا وہ عام معنی میں منافق ہوگا، کیونکہ منافق کہتے ہی اس کو ہیں جس کے ظاہر وباطن میں تضاد ہو، زبان سے دعوی کچھ ہو لیکن دل میں کچھ اور ہو‘‘۔(ص۱۱۸) نفاق کے تعلق سے شاہ ولی اللہؒ کی تحریر کا خلاصہ نقل کرنے کے بعد مصنف لکھتے ہیں:’’اصل شیٔ یہ ہے کہ قرآن کے آئینے میں اپنی تصویر دیکھی جائے، ہر عمل کا جائزہ لیا جائے، کتاب وسنت کے معیار پر پرکھا جائے، انفرادی اعمال ہوں یا اجتماعی، قومی مصالح ہوں یا بین الاقوامی مسائل، حکومتوں کے مواقف کی تائید ہو یا مخالفت، حکمرانوں کے مواقف ہوں یا قوانین سب کو کتاب وسنت کی روشنی میں پرکھا جائے اور دیکھا جائے کہ کہیں کوئی قول وعمل اس قول وعمل اور کردار سے مطابقت تو نہیں رکھتا جس کو قرآن نے منافقین کے اعمال وکردار میں شمار کیا ہے‘‘۔ (ص۱۱۹)فاضل مصنف نے منافقین کے کردار کا تفصیلی جائزہ پیش کرتے ہوئے کثرت سے قرآنی آیات نقل کی ہیں ۔
اس کتاب کا آخری مقالہ ’’ہدایت وفلاح کے قرآنی نقوش‘‘ کے عنوان سے ہے۔ قرآن کریم نے جابجا اہل ایمان کے اوصاف وخصوصیات کا تذکرہ کیا ہے اور آخرت کی کامیابی کو ہی اصل کامیابی قرار دیتے ہوئے اس کے لیے مسابقت کی دعوت دی ہے۔ اس باب میں اس طرح کی آیات کی نشاندہی کرتے ہوئے ان کا سادہ مفہوم پیش کیا گیا ہے جس سے اہل ایمان کے اوصاف کا ایک حسین مرقع سامنے آجاتا ہے۔
ڈاکٹر محمد طارق ایوبی ندوی علمی وتحریکی حلقوں میں معروف ہیں۔ایک درجن سے زائد کتابوں کے مصنف، مترجم و مرتب ہیں۔ عالم اسلام اور بالخصوص قضیہ فلسطین ان کی دلچسپی کا خصوصی موضوع ہے۔ حال ہی میں ’’قضیہ فلسطین قرض اور فرض‘‘ کے عنوان سے ان کی کتاب شائع ہوچکی ہے۔اللہ تعالیٰ نے جرأت وحمیت اور اسلامی غیرت سے نوازا ہے۔ مسلمانوں کے عروج اور ان کے عہد رفتہ کی بحالی کے آرزو مند ہیں اور ان کی کوشش ہے کہ نئی نسل کی ایسی ایمانی اور روحانی تربیت ہو جس سے وہ سخت سے سخت حالات میں بھی اسلامی کردار کا حقیقی نمونہ پیش کرسکیں۔ زیر تعارف کتاب میں تزکیہ نفس کے قرآنی وسائل کا ذکر کرتے ہوئے کہیں کہیں مروجہ وسائل تزکیہ اور ان کی خامیوں پر ان کا کرب اور احساس بھی الفاظ کے پیکر میں ڈھل گیا ہے جو قابل مطالعہ ہے۔
***

 

***

 بخل واسراف سے اجتناب کے قرآنی حکم کی آج مسلم معاشرہ میں جس طرح پامالی اور خلاف ورزی ہورہی ہے اس پر فاضل مصنف نے گہرے کرب ودرد کا اظہار کیا ہے۔اسی طرح شرک کی حقیقت واضح کرنے کے بعد اپنے درد کو اس انداز میں الفاظ کا قالب عطا کیا ہے:’’آج اکثریت نے توحیدکو صرف عبادات میں اور مسجد میں قید کردیا ہے، باقی سارے معاملات میں باطل کی بالا دستی کو قبول کرلیا ہے، جس کے نتیجہ میں پوری دنیا میں مسلمان پست وذلیل اور کمزور ہیں، جب تک مکمل دین کی طرف رجوع نہیں کرتے، تب تک اللہ کی طرف سے نصرت کی امید کرنا خام خیالی ہے‘‘۔


ہفت روزہ دعوت – شمارہ 28 جنوری تا 3 فروری 2024