کتاب: جامع اردو کتابیات سیرت

اردو میں سیرت النبی ﷺ پر دس ہزار سے زائد کتابوں کا اشاریہ

عبد المتین منیری ،بھٹکل

برصغیر کے ایک چوٹی کے محقق ودانش ور نے اردو میں سیرت النبی ﷺ کی کتابوں پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھا ہے کہ ” عرب ممالک میں سیرت النبی پر یقیناً بہت قابل ذکر کام ہوا ہے۔ درجنوں اور سینکڑوں کتابیں لکھی گئیں لیکن یہ بات میں پھر دہراؤں گا کہ کمیت اور کیفیت کے اعتبار سے وہ کام کم از کم میری ناچیز رائے میں برصغیر میں ہونے والے کام کے برابر نہیں ہے۔ جتنی جدت اور تنوع یہاں کے کام میں ہے اتنی جدت اور تنوع وہاں نہیں ہے۔(ڈاکٹر محمود احمد غازی، محاضرات سیرت ص: ۶۸۶)
ڈاکٹر غازی مرحوم کی یہ رائے حقیقت اور گہرے مشاہدے پر مبنی ہے۔ لیکن یہ بات کتنے تعجب کی ہے کہ برصغیر میں اسلام کو داخل ہو کر چودہ سو سال کا عرصہ گزر گیا لیکن یہاں خاص طور پر شمالی ہند میں سیرت النبی ﷺ پر پہلی کتاب اسلام کی آمد کے ایک ہزار سال بعد یعنی آج سے کوئی ساڑھے تین سو سال قبل فارسی زبان میں لکھی گئی۔
اردو میں سیرت نویسی کا اصل دور جس پر اردو زبان کو ناز ہے اور جس کی وجہ سے اردو زبان دوسری زبانوں پر فائق ہے، اس کا آغاز سرسید احمد خان کے خطبات احمدیہ اور سید امیر علی کے اسپرٹ آف اسلام سے ہوتا ہے، یہ دراصل روایتی سیرت نویسی سے ہٹ کر سیرت النبی کی شمولیت اور مستشرقین کے نبی اکرم ﷺ کی شخصیت پر اعتراضات کے دفاع کی راہ میں سنگ میل ہیں، ان دونوں مصنفین کےبہت سے افکار وخیالات سے اختلاف کے باجود اس میں شک نہیں کہ انیسویں صدی کے اواخر میں ان دونوں شخصیات نے ہمارے سامنے سیرت نگاری کا ایک نیا اسلوب رکھا جو زبان وبیان کے اعتبار سے سادہ، اسلوب کے اعتبار سے دل نشین، دلائل کے اعتبار سے مؤثر اور اپنی پیشکش کے اعتبار سے انتہائی عالمانہ اور ادیبانہ تھا۔ یہ اسلوب جب متعارف ہوا تو پھر شبلی اور سید سلیمان سلمان منصورپوری نے اس اسلوب کو غیر معمولی بلندیوں تک پہنچا دیا اور اس سے وہ قدیم اسلوب متروک ہو گیا جس پر لوگ پہلے سیرت لکھا کرتے تھے جس میں زیادہ بیان معجزات کا اور ان امور کا ہوتا تھا جن کا تعلق روحانیات سیرت سے ہے۔ جس کا سیرت اور تاریخی واقعات سے نسبتاً کم تعلق ہوتا تھا۔ برصغیر میں سیرت پر بیسویں صدی میں جن حضرات نے قلم اٹھایا انہوں نے سیرت پاک کے ایسے ایسے نئے پہلو روشن کیے ہیں جو صرف برصغیر کے اہل علم ہی کا خاصہ تھا۔ دنیائے اسلام کے دوسرے علاقوں میں سیرت پاک کے اتنے عمیق ، گہرے اور وسیع مطالعہ کی مثالیں نہیں ملتیں۔ شاید ابتدائی صدیوں میں برصغیر کے مسلمانوں سے جو تقصیر سر زد ہوئی تھی، اللہ کی مشیت نے اس کی تلافی کرنے کی توفیق عطا فرمائی اور برصغیر کے لوگوں نے انیسویں صدی میں، اور اس سے کہیں زیادہ بیسویں صدی میں اس تقصیر کی تلافی کی اور سیرت پاک کے ایسے ایسے پہلو قارئین کے سامنے رکھے جن کی طرف گزشتہ تیرہ سو سال میں محققین اور سیرت نگاروں کی توجہ نہیں ہوئی تھی۔دور جدید میں مطالعہ سیرت کے بہت سے ایسے پہلو سامنے آئے جن کو دیکھ کر یہ خیال آتا ہے کہ حقیقی معنوں میں سیرت پر کام کا آغاز تو اب ہوا ہے۔ اور اب تحقیق کی ایک نئی دنیا، تحقیق کا ایک نیا سمندر اور تحقیق کا ایک نیا عالم دریافت ہوا ہے (محاضرات سیرت) بیسویں صدی کے اس دور میں عسکریات سیرت پر ، یعنی سیرت النبی کے عسکری پہلو پر، رسول اللہ ﷺ کی حکمت حربی پر اور مختلف جنگوں میں استعمال کیے گئے طریقوں پر جو وسیع تحقیق ہوئی ہے وہ ماضی میں نہیں ہوئی تھی۔ پھر ایک بڑی خاص بات یہ ہے کہ عسکریات سیرت پر جن حضرات نے قلم اٹھایا ہے وہ عسکریات کے میدان کے شہسوار ہیں۔ جن کی پوری زندگیاں اسی میدان میں گزریں اور جس مہارت اور بصیرت کے ساتھ وہ عسکریات سیرت کا اندازہ کر سکتے ہیں، وہ اوروں کے لیے بڑا دشوار ہے۔ اسی طرح سے اداریات سیرت ، یعنی سیرت کے ادارتی اور انتظامی پہلوؤں پر ماضی کے محققین نے یقیناً قابل قدر کام کیا ہے۔
ڈاکٹر محمود غازی کے بقول سیرت نگاری میں بیسویں صدی کا نصف آخر ڈاکٹر محمد حمیداللہ کا زمانہ ہے، جو اس دور کے مجدد علوم سیرت کہے جاسکتے ہیں۔ یہ عجیب اتفاق ہے کہ علم سیرت کا جب آغاز ہوا تو جلد ہی اس کے تین حصے یا شعبے ہو گئے ۔ ایک حصہ خاص سیرت کے واقعات یا حوادث پر مبنی تھا۔ دوسرا حصہ غزوات کی تحقیق پر اور تیسرا حصہ اسلام کے بین الاقوامی قانون پر مبنی تھا۔ ڈاکٹر حمیداللہ نے ان تینوں موضوعات پر بہت تفصیل سے نہایت محققانہ انداز میں لکھا ہے اور ان تینوں موضوعات پر ان کی کتابیں بڑی خاصے کی چیزیں ہیں۔
یہ کتنا عجیب اتفاق ہے کہ اردو میں مستند سیرت نویسی کا آغاز قاضی بدر الدولۃ مدراسی نائطی سے ہوا اور اس میدان میں بیسویں صدی کا اختتام آپ کے پوتے ڈاکٹر محمد حمید اللہ پر ہوتا ہے۔
۱۸۴۶ء میں جب اردو میں سیرت کی پہلی کتاب چھپی تھی تواس پر اب پاؤنے دو سوسال گزر رہے ہیں، یہ عرصہ زبانوں کی تاریخ میں کوئی اتنا بڑا عرصہ شمار نہیں ہوتا، اگر عربی و فارسی زبان سمیت آپ دوسری زبانوں کا جائزہ لیں تو محسوس ہوگا کہ کمیت اور کیفیت دونوں لحاظ سے اردو زبان سیرت نگاری میں دنیا کی تمام زبانوں سے آگے ہے، جو اس کے بولنے والوں کے لیے بڑے شرف کی بات ہے، اس عرصے میں جن بزرگوں نے اس زبان کو علم وادب کی دنیا میں اتنی بلندی تک لے جانے کے لیے اپنی عمریں صرف کیں۔تو سوچنے کی بات ہے کہ ہمارا عمومی انداز سے ان کے کاموں پر صرف چند جملوں میں فخریہ کلمات کہنا کیوں کر کافی ہوگا اور دو چار کتابوں کا تذکرہ کرنے سے ان کا حق کیسے ادا ہوگا؟ ہمارے دوست ڈاکٹر سید عزیز الرحمن صاحب نے ان سیرت نگاروں سےاحسان مندی کے ثبوت میں برسوں کی محنت سے اردو میں کتابیات سیرت کا جامع ترین اشاریہ آپ کے سامنے پیش کیا ہے، جس پر وہ تمام اردو داں اہل قلم و قارئین کے شکریے کےمستحق ہیں۔
اردو میں اشاریہ سازی کوئی نئی بات نہیں ہے، اس روایت کا آغاز سر عبدالقادر کے مجلے مخزن سے ۱۹۰۶ء میں ہوا تھا، پھر زمانہ کان پور، الہلال کلکتہ اور معارف اعظم گڑھ سے ہوتے ہوئے یہ روایت اردو میں بہت مستحکم ہوگئی، لاہور سے جناب محمد شاہد حنیف کا (۵۴) مجلات کا اشاریہ جو ایک لاکھ پندرہ ہزار تراسی عناوین پر مشتمل ہے اس صنف کا نقطہ عروج سمجھا جاتا ہے۔
ڈاکٹر سید عزیز الرحمن صاحب کا تیار کردہ اشاریہ اردو دنیا میں کوئی نیا کام نہیں ہے، اس سے پہلے بھی کئی ایک اشاریے اس نوعیت کے شائع ہوکر اہل علم سے داد و تحسین حاصل کر چکے ہیں۔ لیکن ان ضخیم سے ضخیم اشاریوں میں اندراجات کبھی تین ساڑھے تین ہزار سے زائد کتب سے آگے نہ بڑھ سکے۔اب جو اشاریہ اس وقت ہمارے ہاتھوں میں ہے وہ ان اشاریوں سے کئی گنا بڑا ہے، اس کی دو جلدوں میں دس ہزار پینتالیس کتابوں کا اندراج ہے، جو گزشتہ تیار شدہ اشاریوں سے کئی گنا زیادہ ہے۔
مرتب نے اپنے اس اشاریے میں صرف مطبوع کتابوں ہی کا احاطہ کیا ہے،اتنی محنت اور جفاکشی کے باوجود مرتب کا کہنا ہے کہ ” پاکستان سے باہر دنیائے اردو کے کام سے ہماری کم واقفیت اور نارسائی ہے ، اس لیے اس قدر اہتمام کے باوجود ہم گزارش کریں گے کہ اس فہرست کے نام ”جامع اردو کتابیات سیرت ” میں "جامع” کو محض اسم تصور کیجیے” ۔
اس اشاریے کی تیاری میں مرتب نے پاکستان کے نو اہم کتب خانے اور لائبریریاں چھان ماری ہیں اور سیرت کے موضوع پرسترہ اشاریوں کا ورق در ورق کھولا ہے۔ مرتب نے براہ راست سیرت کے موضوع سے تعلق رکھنے والے مواد کے ساتھ ساتھ مندرجہ ذیل مواد کو بھی اس اشاریے میں شامل کرنے کا اہتمام کیا ہے۔اہل بیت اطہار کے حوالے سے موجود کتب کے نام جس قدر بھی فہرستوں میں موجود تھے، انہیں شامل کیا گیا ہے کیونکہ آل و اولاد سیرت کا ایک اہم عنوان ہے۔
سیرت نگاری کے حوالے سے تحریر ہونے والی کتب بھی اس فہرست کا حصہ بنی ہیں۔ ان میں کتب سیرت کی مطبوع فہرستیں بھی شامل ہیں۔ نیز ان میں شخصی حوالے سے جائزے بھی شامل ہیں، یعنی کسی ایک شخصیت کی سیرتی خدمات کا جائزہ وغیرہ ۔ساتھ ہی حرمین کے سفر نامے بھی اس فہرست میں شامل کیے گئے ہیں اور انہیں سیرت ہی کا ایک موضوع تصور کیا گیاہے۔ لیکن اس کے تحت عازمین حج کی رہ نمائی کے لیے تحریر ہونے والی کتب اور کتابچے شامل نہیں ہیں۔
کہنا چاہیے کہ اس اشاریے نے اردو داں اہل علم اور محبان رسول اکرمﷺ کی ذمہ داریاں بہت بڑھا دی ہیں۔ یہ مصنف کے لیے بڑی خوش بختی کی بات ہے کہ آپ خود سیرت النبی ﷺ کے موضوع پر ایک جامع اور نادر کتب خانہ رکھتے ہیں، ان شاءاللہ اگر جد وجہد کا یہ سلسلہ جاری رہا تو پھر آپ کا کتب خانہ اپنے موضوع پر سیرت النبی ﷺ سے مختص عظیم ترین کتب خانوں میں سے ایک ہوگا۔ اس کے ساتھ یہ بات بھی محسوس ہوتی ہے کہ اگر کتابیں دستیاب نہ ہوں تو پھر اشاریہ کتابوں کے ناموں کی صرف ایک فہرست بن کر رہ جاتا ہے، لیکن اس کے ساتھ کتابیں بھی فراہم ہوجائیں تو پھر ہمہ خرما ہمہ ثواب کی مانند ہے، اس سے اشاریہ کی افادیت کئی گنا بڑھ جائے گی۔ چند سال قبل تک شاید یہ کام مشکل محسوس ہو رہا تھا، لیکن آج کے ڈیجیٹل دور میں ایسا کوئی کتب خانہ بنانا زیادہ مشکل کام نہیں ہے جس میں اردو میں سیرت پر لکھی گئی اسکین شدہ کتابیں محفوظ کی جائیں۔ اس کے بعد ایک اہم کام باقی رہتا ہے الف بائی ترتیب پر ان کتابوں کا موضوعاتی اشاریہ، اگر اس کی بنیاد ابھی سے ڈالی جائے اور اس کے لیے اسکالروں کو مشغول کیا جائے تو اس سے اتنا تو فائدہ ہوگا کہ کسی متعینہ مقصد وہدف کے ساتھ کتابیں ان کے مطالعے میں آجائیں گی، ورنہ بلا کسی ہدف کے کتابوں کا مطالعہ زیادہ فائدہ مند نہیں ہوا کرتا۔ ہمیں امید ہے کہ اس اشاریے کے بعد ان دو اہم منصوبوں کے بارے میں بھی سوچا جاسکے گا۔ اللہ کی ذات سے امید ہے کہ یہ بابرکت کام پورا ہونے کے لیے صرف ارادے اور ایک علمی منصوبے کی دیر ہے۔ اس سے فرق نہیں پڑتا کہ ان منصوبوں کی تکمیل پر کتنے سال لگتے ہیں، منصوبہ پورا کرنے کے لیے ایک سے زیادہ نسلوں کو کام کرنا بھی پڑے تو یہ گھاٹے کا سودا نہیں ہے۔ہم ڈاکٹر عزیز الرحمن اور زوار اکیڈمی کی اس انمول پیش کش پر دل کی گہرائیوں سے ہدیہ تبریک پیش کرتے ہیں۔
***

 

***

 اگر اشاریہ کے ساتھ کتابیں دستیاب نہ ہوں تو پھر یہ محض کتابوں کے ناموں کی ایک فہرست بن کر رہ جاتا ہے، لیکن اس کے ساتھ کتابیں بھی فراہم ہوجائیں تو پھر ہمہ خرما ہمہ ثواب کی مانند ہے، اس سے اشاریہ کی افادیت کئی گنا بڑھ جائے گی۔ چند سال قبل تک شاید یہ کام مشکل محسوس ہو رہا تھا، لیکن آج کے ڈیجیٹل دور میں ایسا کوئی کتب خانہ بنانا زیادہ مشکل کام نہیں ہے جس میں اردو میں سیرت پر لکھی گئی اسکین شدہ کتابیں محفوظ کی جائیں۔ اس کے بعد ایک اہم کام باقی رہتا ہے الف بائی ترتیب پر ان کتابوں کا موضوعاتی اشاریہ، اگر اس کی بنیاد ابھی سے ڈالی جائے اور اس کے لیے اسکالروں کو مشغول کیا جائے تو اس سے اتنا تو فائدہ ہوگا کہ کسی متعینہ مقصد وہدف کے ساتھ کتابیں ان کے مطالعے میں آجائیں گی، ورنہ بلا کسی ہدف کے کتابوں کا مطالعہ زیادہ فائدہ مند نہیں ہوا کرتا۔


ہفت روزہ دعوت – شمارہ 29 ستمبر تا 05 اکتوبر 2024