کتاب: جمع وتدوین قرآن

مستشرقین اور معاصر مسلم محققین کے جمع وتدوین قرآن پر اشکالاتکا تحقیقی مطالعہ

ابوسعد اعظمی ،علی گڑھ

جمع وتدوین قرآن ایک ایسا حساس موضوع ہے جس پر گذشتہ صدی میں اردو وعربی میں کئی وقیع کتابیں شائع ہوچکی ہیں۔ مستشرقین کو بھی اس موضوع سے خصوصی دلچسپی رہی ہے۔ درحقیقت مستشرقین آج بھی قرآن کریم کو اللہ کی نازل کردہ کتاب تسلیم کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں۔ جمع وتدوین قرآن کے حوالہ سے مستشرقین کے جو اشکالات ہیں اور انہوں نے قرآن کی حقانیت کو چیلنج کرنے کی جو مذموم کوششیں کی ہیں اس کے مطالعہ سے اندازہ ہوتا ہے کہ معروضیت کا دعویٰ کرنے والے یہ مستشرقین جب اسلامی موضوعات پر بحث وتحقیق کرتے ہیں تو معروضیت کے ساتھ کھلواڑ کرتے ہیں اور طے شدہ اہداف ونتائج پیش کرنے کے لیے مسلمہ حقائق کا یکسر انکار کر دیتے ہیں۔
زیر تعارف کتاب اظہار تشکر، تقریظ، تعارف اور تقدیم کے علاوہ دس قیمتی ابواب پر مشتمل ہے۔آخر میں کتابیات نقل کی گئی ہیں۔ کتاب حواشی اور حوالہ جات سے مزین ہے ۔ بحث وتحقیق کے جدید اصول کی کارفرمائی ہر صفحہ پر نظر آتی ہے۔ فاضل مصنف نے اپنے تعارفی کلمات میں واضح کیا ہے کہ اگر چہ نبی کریم ﷺ کتابت کے ذریعہ محفوظ رکھنے کا باقاعدہ اہتمام فرمارہے تھے مگر حفظ وکتابت میں سے حفظ ہی کو بنیادی ومرکزی حیثیت دی گئی تھی۔(ص۲۲)
تدوین قرآن کے سلسلہ میں بالعموم تین نقطہ ہائے نظر ملتے ہیں۔۱- نبی کریم ﷺ نے اپنی زندگی ہی میں قرآن کریم کو مدون کردیا تھا۔۲-نبی کریم ﷺ نے اگرچہ کتابت قرآن کا اہتمام تھا لیکن و ہ ان کی زندگی میں مختلف اشیاء پر لکھا ہوا موجود تھا لیکن یکجا مدون نہیں تھا۔۳- حضرت ابوبکر صدیقؓ نے خاص حالات کی وجہ سے قرآن کریم کی تدوین کا اہتمام کیا۔فاضل مصنف کا احساس ہے کہ جب تک نبی کریم ﷺ کی ذات اقدس باحیات تھی اس وقت تک نسخ اور نزول قرآن کا امکان موجود تھا۔اس طرح قرآن کریم حیات نبوی میں مکمل نہیں ہوسکتا تھا، جب حیات نبوی میں مکمل نہیں ہوسکتا تھا تو لامحالہ دو گتوں کے درمیان کتابی صورت میں بھی مدون نہیں کیا جاسکتا تھا۔(ص۲۲)آگے تدوین قرآن کے مراحل پر روشنی ڈالتے ہوئے لکھتے ہیں کہ ’’عہد صدیقی میں قرآن کریم کی تدوین تو عمل میں آگئی مگرعہد عثمانی تک معاشرہ میں ان صحف صدیقی کے بجائے اکابر صحابہ کرام ہی کو معاشرہ میں دین کے دیگر پہلوؤں کے ساتھ ساتھ قرآن کی حوالے سے بھی مرکزی حیثیت اور سند حاصل رہی۔خلیفہ سوم حضرت عثمانؓ نے اپنے عہد میں صحابہ کرام کے اتفاق سے صحف صدیقی ہی کو معاشرہ میں رائج فرماکر اکابر صحابہ کے شرف صحابیت کے بجائے مصحف کی بنیادی ومرکزی حیثیت قائم فرمادی ، اس طرح اب لوگوں کو اس مصحف جس کو تاریخ میں ’’مصحف عثمانی‘‘ کہتے ہیں، کا پابند بنادیا گیا، اب فرد کی حیثیت ثانوی ٹھیر گئی۔ عہد نبوی سے عہد عثمانی تک مصحف قرآنی کی حفاظت کی داستان کا یہی خلاصہ ہے‘‘۔(ص۲۳-۲۴)
تدوین قرآن کے استشراقی منہج پر روشنی ڈالتے ہوئے لکھتے ہیں ’’استشراقی منہاج میں تحریر کو حفظ پر فوقیت دی جاتی ہے، جس کی وجہ سے استشراقی فکر کے رد میں لکھی گئی تحریروں میں قرن اول میں قرآن کریم کی کتابت اور اس کی تدوین کو شد ومد سے ثابت کرنے کی کوشش کی جاتی رہی ہے‘‘۔ (ص۳۵) فاضل مصنف کا احساس ہے کہ سرسید احمد خاں اردو مصنفین میں پہلے شخص ہیں جنہوں نے قرآن کریم کی حقانیت کو ثابت کرنے کے لیے احادیث کی معتبر کتابوں میں موجود جمع وتدوین قرآن سے متعلق روایات پر عدم اطمینان کا اظہار کیا اور یہ موقف پیش کیا کہ قرآن کریم کی تدوین عہد نبوی ہی میں ہوگئی تھی۔(ص۳۶)جمع وتدوین سے متعلق مستشرقین کے شبہات پر روشنی ڈالتے ہوئے لکھا ہے کہ ’’مستشرقین کے پیش کردہ شکوک وشبہات سے بعض مسلم محققین متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکے۔ قرآن کریم کی عہد نبوی میں تدوین ثابت کرنے کے لیے انہوں نے کتب صحاح کی روایات صحیحہ پر شبہات کا اظہار کردیا‘‘۔ (ص۴۴)
باب اول میں عہد نبوی میں کیفیت نزولِ وحی اور جمع قرآن کی حقیقت پر تفصیلی گفتگوکی گئی ہے۔اس ضمن میں وحی کا مفہوم اور اس کی اقسام، نزول قرآن،ما أنا بقاری کی وضاحت، ادواتِ کتابت، کاتبین وحی، حفاظت قرآن اور اس کے ذرائع وغیرہ کے ذیلی عناوین سے علمی گفتگو کی گئی ہے۔ دوسرا باب کتابت قرآن اور اس کا تاریخی پس منظر کے عنوان سے ہے۔اس میں جزیرۃ العرب کا پس منظر، سلسلہ تعلیم وتعلم اور درس وتدریس، اہل عرب میں متداول ادواتِ کتابت، قرآن کریم کی کتابت کے اختیار شدہ ادوات کی خصوصیات وغیرہ پر روشنی ڈالی گئی ہے۔اس سیاق میں رائج شدہ اس قول کی حقیقت کا بھی تنقیدی جائزہ پیش کیا گیا ہے کہ کیا مکہ میں صرف سترہ افراد ہی لکھنا پڑھنا جانتے تھے اور انہوں نے دلائل سے اس کی نفی کرتے ہوئے واضح کیا ہے کہ بلاذری کی نقل کردہ فہرست ادھوری ہے۔(ص۸۷-۸۸) اس کے بعد انہوں نے عناوینِ کتابت، ادواتِ کتابت، مصحف کی حقیقت، ورق کی وضاحت وغیرہ کے حوالے سے علمی گفتگو کرتے ہوئے آخر میں جزیرۃ العرب کی علمی حالت سے متعلق معتدل نقطۂ نظر پیش کیا ہے۔باب سوم عہد صدیقی میں تدوین قرآن کے محرکات وعوامل کے عنوان سے ہے۔اس باب میں فتنۂ ارتداد کا عمومی جائزہ پیش کرتے ہوئے تاریخ کی روشنی میں اس کے اسباب ومحرکات پر بھی روشنی ڈالی گئی ہے۔اس ضمن میں فتنۂ ارتداد اور شہدائے جنگ، معرکہ یمامہ کا آغاز واختتام اور فتنۂ ارتداد کے اثرات کو بھی اجاگر کیا گیا ہے۔
پچاس سے زائد صفحات پر مشتمل چوتھے اور پانچویں باب میں تدوینِ قرآن بعہد صدیقی کے منہج کا تحقیقی جائزہ پیش کرتے ہوئے ان تمام اشکالات کو رفع کرنے کی کوشش کی گئی ہے جو تدوین قرآن سے متعلق روایات کے مطالعہ سے قاری کے ذہن میں آتی ہیں۔ فاضل مصنف نے حارث محاسبی کے حوالہ سے صراحت کی ہے کہ عہد صدیقی میں قرآن کریم کا لکھنا کوئی نیا کام نہیں تھا یہ تو نبی کریم ﷺکے عہد اور ان کے حکم سے لکھا جارہا تھا مگر پارچوں اور شانے کی ہڈیوں وغیرہ پر تحریری طور پر متفرق صورت میں تھا۔حضرت ابو بکر صدیقؓ نے ان کو یکجا کردیا تو گویا یہ ایسا ہوا کہ قرآن کے جو اوراق نبی کریمؐ کے حجرہ مبارک میں منتشر صورت میں تھے ان کو جمع کرنے والے نے ایک ڈور سے باندھ دیا ہو تاکہ ان میں سے کوئی چیز ضائع نہ ہو۔ روایت تدوین پر گفتگو کرتے ہوئے مصنف نے تدوین قرآن کا مقصد عدم تواتر کو قرار دیا ہے نہ کہ اس کے ضائع ہونے کا خدشہ کیونکہ وہ تو عہد نبوی ہی میں تحریری صورت میں موجود تھا۔(ص۱۵۲) آگے لکھتے ہیں کہ حضرت عمرؓ کے قول ’’فیذہب کثیر من القرآن‘‘ سے عام طور پر یہ سمجھا جاتا ہے کہ قرآن ضائع ہوجانے کا خطرہ تھا جب کہ حقیقت یہ نہیں۔ حضرت عمرؓ کے اس قول سے مراد قرآن کے ضائع ہوجانے کا نہیں بلکہ حاملین قرآن کی شہادت کے خدشہ کا اظہار مقصود تھا۔ (ص۱۵۳)
اس سیاق میں دو گواہوں کی شرط اور اس کی حکمت پر روشنی ڈالتے ہوئے اس اشکال کو بھی رفع کرنے کی کوشش کی گئی ہے کہ دوگواہوں سے تواتر ثابت نہیں ہوتا۔اس کے بعد تدوین قرآن، سبع احرف، عہد صدیقی میں قرآن کس پر لکھا گیا، صحف اور مصحف میں فرق نیز صحف صدیقی اور صحف امام وغیرہ عناوین سے علمی گفتگو کی گئی ہے۔البتہ ص۱۵۸ اور ۱۶۶ پر نسخ قرآن کے حوالہ سے جو بات کہی گئی ہے وہ بڑی خطرناک ہے۔ لکھتے ہیں’’اگر قرآن کریم کو نسخ وبدل کے ساتھ مدون کیا جاتا تو اس بات کا قوی امکان تھا کہ قرآن کریم آج موجود قرآن سے بھی ضخیم ہوتا اور مسلمان اس کو اونٹوں پر اٹھاکر پھر رہے ہوتے۔ اسی کے ساتھ ساتھ دین میں اختلاف اور اختلاط کا بھی پیدا ہوجانا یقینی امر تھا‘‘۔ (ص۱۶۱)گویا مصنف کے الفاظ میں قرآن کریم کی بہت سی آیات تھیں جو پہلے قرآن کے طور پر نازل ہوئیں لیکن منسوخ ہوجانے کی وجہ سے اب وہ قرآن کا حصہ نہیں ہیں۔اس قول کو تسلیم کرنے کی صورت میں قرآن کی حقانیت اور حفاظت پر جو ضرب پڑتی ہے شاید مصنف کو اس کا صحیح ادراک نہیں ہوسکا ہے۔واقعہ یہ ہے کہ جن روایات میں سورہ احزاب کے سورہ بقرہ کے مثل ہونے یاحضرت عائشہؓ کے گھر میں بکری کا کچھ حصہ کھاجانے جیسی بات نقل ہوئی ہے محدثین اور جمع وتدوین پر لکھنے والوں نے اس کی صحت سے متعلق کلام کیا ہے اور ان کو تسلیم کرنے کی صورت میں اعتراضات کا ایک وسیع باب وا ہو جاتا ہے۔
اس کے بعد سورہ توبہ کی مفقود آیات کے قصہ کی وضاحت کرتے ہوئے ابو خزیمہ کی شخصیت کی تعیین اورمختلف حوالوں سے اس پر وارد شدہ اشکالات کا ازالہ کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔اس ضمن میں بذریعہ خبر واحد سورہ توبہ کی آیات کا اثبات کیوں کر صحیح ہوسکتا ہے اس شبہ کا بھی ازالہ کیا گیا ہے۔ آخر میں تدوین قرآن کی شرعی حیثیت پر گفتگو کرتے ہوئے اس کے فوائد وثمرات بیان کیے گئے ہیں۔
باب ششم جو قدرے مختصر ہے اس میں شرفِ صحابیت اور قرأت وکتابت کا باہمی ربط واضح کیا گیا ہے۔ قرأت وکتابت کے باہمی ربط وتعلق پر تفصیلی گفتگو کرتے ہوئے خلاصہ کلام ان الفاظ میں پیش کیا گیا ہے کہ’’قرأت وکتابت اور ان کے درمیان باہمی ربط کی درج بالا بحث کو پیش نظر رکھتے ہوئے رچرڈ بیل اور دیگر مستشرقین کے اس اعتراض کی کوئی وقعت نہیں رہتی کہ اگر قرآن تحریری صورت میں موجود تھا تو حفاظ وقراء کی شہادت سے اس کے ضائع ہوجانے کا خدشہ کیوں تھا۔(ص۲۰۷) اس کے بعد قراء قرآن کی حقیقت، معارضہ قرآن اور شرف صحابہ کی اہمیت و عہد صحابہ میں عرضہ اخیرہ کا شیوع کے عنوان سے وقیع گفتگو کی گئی ہے۔
باب ہفتم میں عہد عثمانی میں صحف صدیقی کی ترویج کے اسباب و وجوہات کا جائزہ پیش کیا گیا ہے۔اس ضمن میں عہد عثمانی میں جمع قرآن سے متعلق روایت پر جو اشکالات وارد ہوتے ہیں ان کا ازالہ کرتے ہوئے عہد عثمانی میں جمع قرآن کے مراحل پر تفصیلی اظہار خیال کیا گیا ہے اوراختلاف قراء کی روایت پر بھی روشنی ڈالی گئی ہے۔فاضل مصنف لکھتے ہیں’’عہد عثمانی میں قرآن کریم کا متن پہلی بار تیار نہیں ہوا، اس لحاظ سے متن قرآن کی عہد نبوی میں عرضہ اخیرہ میں تعیین ہوچکی تھی ، مگر وحی کا سلسلہ عرضہ اخیرہ کے بعد بھی جاری رہا۔۔۔عہد صدیقی میں اکابر صحابہ کے اتفاق سے سرکاری طور پر اس کی توثیق کا اعلانِ عام کیا گیا۔اس طرح عہد نبوی اور صدیقی میں اکابر صحابہ کو حفظ وتحریر کی صورت میں منسوخ شدہ حصہ وحی تو معلوم تھا، مگر سرکاری طور پر منظور شدہ ایسا مصحف جو منسوخ شدہ حصہ سے الگ ہو، عہد صدیقی میں ہی مدون ہوا۔حضرت عثمانؓ نے جمع مصحف کے لیے یہ طریقہ کار اختیار کیا کہ رسم قرآنی لغت قریش کے مطابق ہوسکے۔اس طرح عہد صدیقی میں نص قرآن کی توثیق اور عہد عثمانی میں لغت قریش کے لحاظ سے رسم قرآنی کی تعیین عمل میں آئی‘‘۔(ص۲۳۳-۲۳۴)
اس کے بعد سورہ احزاب کی آیت کے مفقود ہونے کا مسئلہ، جمع صدیقی وعثمانی میں فرق، مصحف عثمانی کی حیثیت، انتشار مصاحف عثمانیہ اور کیا حضرت عثمان جامع قرآن نہیں ہیں وغیرہ عناوین سے قابل قدر مواد جمع کیا گیا ہے۔
باب ہشتم جمع وتدوین قرآن اور نسخ قرآن وقرأت کے عنوان سے ہے۔فاضل مصنف نے روایتی نقطہ نظر کا سہارا لیتے ہوئے نسخ کی تین قسمیں بیان کی ہیں اور ان کی مثالیں پیش کی ہیں نیز ان پر وارد ہونے والے اشکالات کا جواب دینے کی بھی کوشش کی ہے۔خبر آحاد کے ذریعہ ثابت ان روایات کو اگر تسلیم کرلیا جائے تو جمع وتدوین قرآن پر کئی ایسے اعتراضات وارد ہوتے ہیں جن کا فاضل مصنف کے پاس کوئی تشفی بخش جواب نہیں ہے۔واقعہ یہ ہے کہ فاضل مصنف کے یہ پوری گفتگو انتہائی خطرناک، غیر ضروری مباحث پر مشتمل اور اعتراضات کا وسیع دروازہ کھولنے والی ہے۔
آخری دو باب بالترتیب روایات جمع وتدوین قرآن- معاصر مسلم واستشراقی فکر اور جمع وتدوین قرآن اور مسلم محققین کے اشکالات کے عناوین سے ہیں۔فاضل مصنف نے مستشرقین کے اعتراضات کا محاکمہ کرتے ہوئے اس کے اثرات کا بھی ذکر کیا ہے اورمسلم محققین کے اشکالات کا ازالہ کرنے کی کوشش کی ہے۔لیکن روایتی نقطہ نظر اختیار کرنے کی وجہ سے جدید مسلم محققین کے اشکالات اپنی جگہ قائم رہتے ہیں اور انہوں نے عہد نبوی میں تدوین قرآن کے حق میں جو دلائل قرآن وحدیث سے پیش کیے ہیں ان کے بالمقابل فاضل مصنف کے دلائل کمزور نظر آتے ہیں۔فاضل مصنف نے نسخ قرآن کے حوالہ سے جو گفتگو کی ہے اس سے معلوم ہوتا ہے کہ قرآن کریم کا نازل شدہ ایک بڑا حصہ اب منسوخ ہوچکا ہے اور وہ متداول قرآن کا حصہ نہیں ہے۔اس ضمن میں انہوں نے جو روایات نقل کی ہیں، ان کے حوالے سے محدثین نے جو گفتگو کی ہے اور قرآن کے اثبات کے لیے تواتر کی جو شرط لگائی ہے اسے پیش نظر رکھتے ہوئے فاضل مصنف کا نقطہ نظر کمزور معلوم پڑتا ہے۔اس ضمن میں فاضل مصنف نے کتاب کے مقدمہ میں سرسید کے علاوہ شیخ عطاء اللہ، غلام احمد پرویز، اسلم جیراج پوری، عبد اللطیف رحمانی، علامہ تمنا عمادی، نواب صدیق حسن خاں کی کتابوں کا اجمالی تعارف پیش کیا ہے ۔اس کے علاوہ جمع وتدوین قرآن پرچند دیگر تصانیف کا اجمالی جائزہ کے عنوان سے علامہ شبلی، پروفیسر محمد اجمل خاں، علامہ سید سلیمان ندوی، احمد رضاخاں، شاہ معین الدین ندوی، مناظر احسن گیلانی، مولانا محمد احمد اعظمی مصباحی، ڈاکٹر محمد حمیداللہ، رضی الاسلام ندوی، محمد یٰسین مظہر صدیقی، عبدالصمد صارم، عبد القیوم ندوی اور قاری محمد شریف وغیرہ کی اردو کتب نیز علوم القرآن پر لکھی گئی کتابوں میں اس کے مباحث کی نشاندہی کی ہے۔ واضح رہے کہ پاکستان کے حافظ محمود اختر کی کتاب’حفاظت قرآن مجید اور مستشرقین‘ نیز محمد عنایت اللہ اسد سبحانی کی ’قرآن کی تدوین غلط فہمیوں کا ازالہ ‘اس موضوع پر شائع ہوچکی ہیں نیز ڈاکٹر مصطفیٰ اعظمی اور شہزاد سلیم نے انگریزی زبان میں اسی موضوع پربالترتیب ’دی ہسٹری آف دی قرآنک ٹیکسٹ۔۔۔‘‘ اور’’ہسٹری آف قرآن‘‘ کے عناوین سے کتابیں تحریر کی ہیں۔عربی میں متعدد کتابیں شائع ہوچکی ہیں جن میں عہد نبوی میں ہی قرآن کریم کی تدوین کی بات کو دلائل سے ثابت کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔
بہر فاضل مصنف قابل مبارک باد ہیں کہ انہوں نے اس حساس موضوع پر قلم اٹھایا اور ہر بات کو مدلل انداز میں پیش کرنے کی کوشش کی ہے۔بعض مقامات پر ان سے شدید اختلاف کے باوجود ان کی یہ کاوش قابل قدر ہے۔امید ہے کہ اہلِ علم اس سے استفادہ کریں گے۔
***

 

***

 


ہفت روزہ دعوت – شمارہ 20 اکتوبر تا 26 اکتوبر 2024