کتاب ؛ امام فراہیؒ کے قرآنی افکار

مولانا فراہیؒ کے نتائج فکر کو سمجھنے کے لیے افادیت کی حامل کتاب

ابو سعد اعظمی, علی گڑھ

مرتب کتاب پروفیسر عبیداللہ فراہی (نبیرہ مولانا حمید الدین فراہی) نے کتبِ فراہی کی ترتیب و تدوین اور فکر فراہی کی ترویج و اشاعت میں اپنی پوری زندگی وقف کردی۔ تفسیر نظام القرآن و تاویل الفرقان بالفرقان ، رسائل الامام الفراہی (الجزء الثانی)، حجج القرآن، حکمۃ القرآن، تعلیقات فی تفسیر القرآن وغیرہ جیسی امام فراہیؒ کی مستند اور بلند پایہ علمی تصانیف کی ترتیب و اشاعت میں ان کی شب و روز کی محنت شاقہ شامل ہے۔ان کی زندگی کا مقصد ہی امام فراہی کے قابل اشاعت کاموں کی تکمیل اور افادۂ عام کے مقصد سے اسے لوگوں کے سامنے مرتب انداز میں پیش کرنا تھا۔ زیر تعارف کتاب بھی اسی اہم سلسلہ کی ایک کڑی ہے۔
اس کتاب کو پروفیسر عبیداللہ فراہی نے مولانا فراہی کے مجموعہ تفاسیر اور قرآنی علوم پر ان کی مختلف تصنیفات (حجج القرآن، حکمۃ القرآن، القائد الی عیون العقائد، مفردات القرآن، تعلیقات فی تفسیر القرآن، دلائل النظام، ذبیح کون ہے؟) سے اخذ کرکے مرتب کیا ہے۔ کتاب کے شروع میں سات صفحات پر مشتمل پیش لفظ ہے اور اس میں کتاب کی اہمیت و افادیت پر روشنی ڈالی گئی ہے۔
زیرِ تعارف کتاب کے مشتملات چار حصوں میں منقسم ہیں: پہلے حصے میں انسانی فطرت کا جائزہ پیش کیا گیا ہے اور انسان کی فطرت، عقل سلیم نیز علم یقین اور عمل صالح کے درمیان تعلق و ربط کو ان الفاظ میں واضح کیا گیا ہے کہ ’’انسان کی نجات کا سب سے پہلا ذریعہ اس کی عقل ہے جو اس کی سب سے اعلیٰ رفیق ہے، دوسری چیز علم ہے جو اس کے لیے عروہ وثقیٰ ہے اور تیسری چیز عمل صالح ہے جو اسے سعادت کبریٰ سے ہم کنار کرتا ہے۔(ص۲۴) اس کے بعد مقصد حیات اور کمال سعادت پر روشنی ڈالی گئی ہے پھر عقائد کا باب قائم کرکے عقیدہ اور عقل کے بعض بنیادی مسائل کا جائزہ لیا گیا ہے۔ اس کے بعد عقیدہ توحید، ایمان اور اسلام، رسالت و آخرت کی مفصل وضاحت کرتے ہوئے انسانیت کے لیے اس کی ضرورت پر بحث کی گئی ہے۔ عقیدہ توحید کے ضمن میں وحدت ادیان کا مسئلہ اکثر زیر بحث آتا رہا ہے اور عصر حاضر میں تقابل ادیان کے ضمن میں وحدت ادیان کی بات بڑے زور و شور سے پیش کی جاتی ہے۔ مولانا فراہی انہی نظریات کو باطل قرار دیتے ہیں۔ اس باب میں ان کا موقف یہ ہے: ’’مذہب کی ابتدائی شکل ایک ہی ہے مگر ان کی انتہا میں مثل ان دو خطوں کے جو ایک نقطے سے نکلے ہوں بے انتہا فرق ہے۔ ایک ہی شہر سے دو مسافر چلے ایک نے پچھم کا رخ کیا اور دوسرے نے اتر کا یہی حال اختلاف مذاہب کا ہے‘‘(ص۴۰)۔ اثبات توحید کے ضمن میں سات مختلف پہلوؤں سے ان آفاقی دلائل کا ذکر کیا گیا ہے جنہیں قرآن کریم نے اللہ تعالیٰ کی آفاقی نشانیوں سے موسوم کیا ہے اور جو اس بات پر شاہد ہیں کہ مخلوقات کا خدا اپنی قدرت، علم اور حکمرانی میں کامل ہونے کے ساتھ ساتھ ہر عیب، نقص اور برائی سے یکسر پاک اور حکیم و رحیم ہے۔ توحید کے بعد ایمان اور اسلام سے متعلق گفتگو کی گئی ہے۔ بیس صفحات پر مشتمل اس باب میں ایمان کی اصل اور اساس کے ساتھ ساتھ اسلام کی جامعیت کے مختلف پہلو پر روشنی ڈالی گئی ہے اوراس بات کو واضح کیا گیا ہے کہ اسلام دین فطرت ہے جب کہ شرک تقاضائے فطرت نہیں۔ اس کے بعد رسالت سے متعلق ان کے افکار سے بحث کی گئی ہے۔ اس میں انبیاء کی ضرورت، نبی کی تعریف اور آغاز نبوت میں اس کے احوال و معاملات، نبی کی فطرت اور اس کے کلام میں مصالح کی رعایت، وحی کی حقیقت، عصمت انبیاء، شفاعت، مجادلہ، تبلیغ، معجزہ اور معجزہ کی ضرورت جیسے اہم عنوانات کے تحت مولانا کے افکار کو جمع کیا گیا ہے۔ شفاعت کی یہ حقیقت آشکارا کی گئی ہے کہ شفاعت کا مطلب آخرت میں شہادت اور دنیا میں تائب ہونے والے کے ساتھ استغفار ہے۔ اور اس کے بعد شفاعت کے غلط تصور کے نتیجہ میں جو نقصانات سامنے آتے ہیں اسے بھی واضح کیا گیا ہے ۔ تبلیغ کو انبیاء کرام کا سب سے بڑا فریضہ قرار دیا گیا ہے۔ مستشرقین نے کثرت ازواج کو موضوع بحث بناکر رسول اللہ ﷺ پر بے جا اعتراضات کیے ہیں۔ ان کے اعتراضات کا جواب دیتے ہوئے یہ بھی واضح کیا گیا ہے کہ آپ نے ازواج مطہرات کا انتخاب نہ ان کے حسن کی بنیاد پر فرمایا اور نہ مال کی بنیاد پر، چنانچہ وہ طبقہ نسواں کی معلمات بنیں اور وہ اپنے اس فریضہ کو جانتی تھیں۔ یہی وجہ ہے کہ انہوں نے پیغمبر سے جو کچھ سیکھا اس کی تبلیغ میں کوئی شرم محسوس نہیں کی۔ رسالت ہی کے ضمن میں معجزہ، اس کا مفہوم، اس کی ضرورت، قرآن کریم کے معجز ہونے کی حیثیت اور اس کے وجہ اعجاز پر روشنی ڈالی گئی ہے۔
اس کے بعد توحید، رسالت و آخرت پر ایک جامع بحث ہے۔ پھر آخرت کا تفصیل سے جائزہ لیا گیا ہے۔ آخرت کا مفہوم، دین میں عقیدہ آخرت کا مقام اور توحید و رسالت سے اس کے تعلق کو واضح کیا گیا ہے اور اس نکتہ پر خاص زور دیا گیا ہے کہ آخرت پر ایمان ہی اصل چیز ہے اور اسی پر دین کی بنیاد ہے۔ چنانچہ اس کا انکار خدا اور اس کے رسول کا انکار ہے۔ اس ضمن میں نماز اور زکوٰۃ کا آخرت سے کیا تعلق ہے اس کو بھی موضوع بحث بنایا گیا ہے، اسی طرح معاد اور توحید میں کیا ربط ہے اس پر بھی روشنی ڈالی گئی ہے اور مختلف امور کے ذریعہ آخرت پر استدلال کیا کیا ہے۔
توحید، رسالت و آخرت سے متعلق مولانا فراہیؒ کے افکار واضح کرنے کے بعد اعمال سے متعلق ان کے افکار کی ترجمانی پیش کی گئی ہے اور اس سلسلے میں سب سے پہلے نماز کا ذکر ہے۔ اس لیے کہ تمام اعمال میں نماز ایمان سے سب سے زیادہ قریب ہے بلکہ ایمان کا اولین فیضان ہے۔ یہ بیک وقت توحید، انابت، شکر، توکل اور تبتل الی اللہ ساری چیزوں کا مجموعہ ہے اور اللہ تعالیٰ کی تمام مخلوقات کی فطرت ہے(ص۱۶۵)۔ ساتھ ہی نماز کے معنوی پہلوؤں پر تفصیل سے روشنی ڈالی گئی ہے اور اس ضمن میں نو پہلوؤں کی نشان دہی کی گئی ہے۔ پھر صدقہ و زکوٰۃ پر گفتگو ہے اور صدقہ کو نور، بصیرت اور پاکیزگی قرار دیا گیا ہے نیز زکوٰۃ کے ایک اہم پہلو کی طرف اشارہ کرتے ہوئے لکھا ہے کہ اس کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ یہ آخرت کی یاد دہانی ہے۔ اس طور پر کہ اپنا مال زکوٰۃ میں دے کر ہم اسے اللہ کی طرف لوٹا دیتے ہیں اسی طرح اپنی جان بھی ہم اس کو سپرد کر دیتے ہیں۔ اسی طرح روزہ، حج، قربانی اور جہاد جیسی عظیم عبادات سے متعلق بھی مولانا فراہی کے افکار کو یکجا کردیا گیا ہے۔ نماز اور قربانی کے تعلق کے بارے میں واضح کیا گیا ہے کہ قربانی اور نماز میں وہی تعلق ہے جو تعلق ایمان اور اسلام میں یا قول اور عمل میں ہے اور احسان ان دونوں کا نقطہ اتصال ہے۔ اعمال ہی کے ضمن میں دین کے نظام اور اس کی اصل کو پیش کیا گیا ہے اور اس نظام میں سب سے پہلی چیز عدل کو قرار دیا گیا ہے۔ در اصل عدل اور توحید دونوں ایک ہی شاخ سے نکلے ہیں۔ اگر توحید اسلام کا سرا ہے تو عدل (اور اس کے ساتھ شکر) اس دین کی اصل و اساس ہے۔ اسی طرح شکر اور صبر کی ہمہ گیر حیثیت کو ان الفاظ میں واضح کیا گیا ہے، ’’شکر اور صبر دین و شریعت کے تمام امور اور سارے فضائل کو اپنے دائرے میں لیے ہوئے ہیں۔ چنانچہ نماز، زکوٰۃ، انکساری، والدین کے حقوق کی ادائیگی اور فرماں برداری، قرابت داروں کے ساتھ حسن سلوک اور عام بھلائی کے کام شکر سے تعلق رکھتے ہیں اور روزہ، جہاد، پاک دامنی، بردباری، لایعنی چیزوں سے پرہیز، توکل، خشیت اور تقویٰ صبر سے متعلق ہیں (ص۱۹۵)۔
سب سے آخر میں تفسیر نظام القرآن کا عنوان قائم کرکے، قرآن مجید میں معنی کی ترتیب، مناسبت و ترتیب، نظم قرآن سے مقصود، مناسبت اور نظام میں فرق، سورتوں کا نام اور اس کے عمود کا بیان ہے اور بعض جامع الفاظ کی تفصیل نیز بعض آیات و کلمات کی تفسیر پیش کی گئی ہے۔ آخر میں قرآن مجید کے مخاطبین یہود و نصاریٰ کا تذکرہ ہے ۔ سو سے زائد صفحات پر مشتمل اس آخری حصے کی سب سے اہم خصوصیت یہ ہے کہ اس میں قرآن کریم کی تمام سورتوں کا عمود اختصار کے ساتھ پیش کیا گیا ہے جو پچاس سے زائد صفحات پر مشتمل ہے۔ قرآنی افکار کی تشریح و ترجمانی اور اس باب میں مولانا فراہیؒ کے نتائج فکر کو سمجھنے کے لیے یہ کتاب بڑی افادیت کی حامل ہے۔
***

 

***

 کتاب کے سو سے زائد صفحات پر مشتمل آخری حصے کی سب سے اہم خصوصیت یہ ہے کہ اس میں قرآن کریم کی تمام سورتوں کا عمود اختصار کے ساتھ پیش کیا گیا ہے جو پچاس سے زائد صفحات پر مشتمل ہے۔ قرآنی افکار کی تشریح و ترجمانی اور اس باب میں مولانا فراہیؒ کے نتائج فکر کو سمجھنے کے لیے یہ کتاب بڑی افادیت کی حامل ہے۔


ہفت روزہ دعوت – شمارہ 09 جون تا 15 جون 2024