کتاب :’حدیث دل‘(شعری مجموعہ) ایک تبصرہ

کہنہ مشق عالم شاعر کے نوک قلم سے قوم کو بیدار کرنے والی شاعری

ڈاکٹرظہیردانش عمری
مدیراعلی کتابی سلسلہ ارتعاش،حیدرآباد

جامعہ دارالسلام عمرآباد ،تمل ناڈو کے فارغین ہر میدان میں مصروف عمل ہیں،اپنے قلم اوراپنی تقریر کے ذریعے قوم و ملت کو فائدہ پہنچارہے ہیں۔شاعری کے میدان میں اساتذہ کے علاوہ نوجوانوں میں بہت سے نام ہیں جو سامنے آرہے ہیں۔جامعہ کے اساتذہ کی شبانہ روز کوششوں اور محنتوں ہی کا ثمرہ ہے کہ شاعری میں مادر علمی کے طلباء مسلسل نمایاں خدمات انجام دے رہے ہیں۔ان شعراء میں ایک نمایاں نام سالک ادیب عمری کا ہے۔ طالب علمی کے زمانے سے ہی ان کا علمی وادبی ذوق نکھر کر سامنے آیا ہے۔جامعہ کے مشاعروں میں اپناکلام پیش کرتے رہی ہیں نیز متعدد اخبارات و جرائد جیسے روزنامہ سالار ،روزنامہ منصف، راشٹریہ سہارا،اخبار مشرق، ادبی محاذ، تعمیرحیات،چراغ اردو اورآئینہ کرنول وغیرہ میں ان کا کلام شائع ہوتا رہاہے۔
ان کی کتاب حدیث دل کے عنوان سے 2021میں منظر عام پر آئی اور یہ کتاب اس وقت میرے ہاتھ لگی جب سالک ادیب جامعہ کے ایک مشاعرے میں بحیثیت شاعر و ناظم مشاعرہ مدعو تھے۔ انہوں نے برائے تبصرہ و برائے مطالعہ مجھے یہ کتاب دی۔ مشاعرے میں انہوں نے جس انداز اور جس اعتماد کے ساتھ اپنا کلام سنایا اس نے مجھے ایک خوش گوار حیرت میں مبتلا کردیا۔انہوں نے نہ صرف اپنی شاعری کو بہتر بنانے کی طرف توجہ دی ہے بلکہ بہتر طریقے سے پیش کرنے پر بھی کافی سعی کی ہے۔
اس کتاب کا انتساب انہوں نے اپنے والد محمد اصغر علی علیہ الرحمہ اور اپنے بڑے بھائی جناب محمد عمر علی کے نام کیاہے۔جناب ایم نصراللہ نصر، شارق عدیل، دانش حماد جاذب اور حافظ فیصل عادل نے سالک ادیب کی شاعری پر اپنے تاثرات تحریر کیے ہیں۔تین حمدیں،چار نعتیں167غزلیات اور 19منظومات اس مجموعے میں شامل ہیں۔
حمد ونعت کے یہ اشعار کچھ الگ محسوس ہوئے
پارتوہی سفینہ کرتا ہے
لڑ کے موجوں سے میں ابھرتا ہوں
*
حوصلہ پھر سے تو ہی دیتا ہے
جب کہیں تھک کے میں ٹھہرتا ہوں
*
حوصلہ دیتا ہے پستی سے اٹھاتا تو ہے
گو گراتا ہے پرندوں کو اڑاتا تو ہے
*
شہر طیبہ کی زیارت کیسے کرپاؤں گا میں
میرے پیروں میں بندھی افلاس کی زنجیر ہے
ان کی غزل کا مطالعہ کرنے کے بعد جو تاثر میرے ذہن میں ابھرا ہے میں نے اسے یوں تحریر کیاہے کہ سالک کی شاعری پڑھتے ہوئے ہمیں یہ گمان گھیر لیتا ہے کہ یہ کسی نوآموز یا کم عمر شاعر کا کلام نہیں ہے بلکہ کسی کہنہ مشق،معمر اور شاعری کے دشت میں ایک عمر گزارنے والے شاعر کا کلام ہے۔ان کی مشاقی،زبان پر گرفت،محاوروں اور زبان کا خلاقانہ استعمال ہمیں اچنبھے میں ڈال دیتا ہے۔ان کی محنت اور لگن کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ انہوں نے شاعری کی ابتداء 2010میں کی اور صرف دس سے گیارہ سال کی مدت میں ایسے کہنہ مشق شاعر کی طرح اپنا کلام پیش کرنے لگے جیسے ساری عمر اسی دشت کی سیاحت میں گزری ہو۔
سالک ادیب کی غزلیں نظموں سے زیادہ جاندار ہیں۔ہرطرح کے موضوعات ان کی غزل میں نظر آتے ہیں۔پیارو محبت کی باتیں ہوں یا جوروجفا کی گفتگو، سماج کے کھوکھلے پن پر طنز ہو یا نام نہاد لیڈروں کی نااہلی پر طنز،غرض ان کی غزل میں سب کچھ ہے۔جھوٹے رہنماؤں پر یوں طنز کرتے ہیں:
جھوٹ، چغلی، دغا، ریا، ڈاکہ
کیا نہیں کرتے رہنما بن کر
اپنے محبوب کے حوالے سے کتنے ناز بھرے انداز میں کہتے ہیں:
کون چاہے گا مجھ کوتیری طرح
کیسے تجھ سے رہوں خفا ہوکر
خوب مغرور ہوگیاہے ادیبؔ
عشق میں تیرے مبتلا ہوکر
عشق کی بات وہ بہت مدھم سروں میں کرتے ہیں۔ویسے بھی عشق کی گفتگو جتنے مبہم انداز میں ،مدھم انداز میں اورآہستہ ہوگی اس کا لطف اتنا ہی دوبالا ہوگا۔ عشق ،غم اور محبت کی دھیمی آنچ میں ان کی شاعری پختگی حاصل کرتی نظر آتی ہے ۔
شریک سانس ہے،توقیر ذات ہے ،سب ہے
وہ اک شخص مری کائنات ہے سب ہے
ہمارے ذہن کو کتنا سکون ملتا ہے
تری نظرکی جو یہ التفات ہے سب ہے
سالک ادیب تخلص کے استعمال میں بخل سے کام نہیں لیتے۔ اپنے نام کے دونوں حصوں کبھی سالک اور کبھی ادیب کو اپنا تخلص بنالیتے ہیں۔
وہ بنیادی طورپر عالم دین ہیں اس لیے دینی موضوعات پر بہت کام کی بات کہہ جاتے ہیں۔ان کا زاویۂ نظر سب سے الگ اور جداگانہ ہے۔نماز کے موضوع پر ہم نے بہت سے شعر پڑھے لیکن سالک کا انداز ہی سب سے جدا اور نرالاہے۔ وہ دکھاوے کی نماز کو بناوٹ کی شرافت سے تعبیر کرتے ہوئے کہتے ہیں:
نہ تیرے کام آئیں گی تصنع کی نمازیں یہ
بہت جلدی بناوٹ کی شرافت روٹھ جائے گی
جناب نصراللہ نصر نے ان کی شاعری پر اظہارخیال کرتے ہوئے لکھا ہے کہ:
’’سالک ادیب کی شاعری کے یہ وہ نمونے ہیں جو گودام میں رکھے ہوئے اور دیگ میں پکے ہوئے چاول کی اصلیت بتا دیتے ہیں۔ میں یہ نہیں کہتا کہ وہ شعری مہارت رکھنے والے مستند شاعر ہیں، مگر ان کے یہاں ایسے جراثیم ہیں جو انہیں اس منزل تک لے جاسکتے ہیں۔ ابھی تک جو راہ سخن طے کی ہے وہ روایتی ہے لیکن اس میں تازہ گل بوٹے کھلانے کی کوشش ضرور کی گئی ہے ‘‘(حدیث دل ،ص:۱۸)
اپنی غزلوں میں وہ صرف عشق و عاشقی کی بات نہیں کرتے بلکہ سیاسی حوالوں سے بڑے سخت قسم کے شعر بھی ان کے یہاں نظر آتے ہیں۔دوستوں کی بے وفائی، مسلمانوں کی زبوں حالی، فرقہ پرستی، انانیت، عزم و حوصلہ کی تعلیم، اعلی کردار اپنا نے کی تعلیم ان کی شاعری میں جابجا ملتی ہے۔ وہ اقدار و اخلاقیات جو کبھی قوم مسلم کا وطیرہ شمار ہوتے تھے جنہیں اپنا کر غیروں نے ترقی کی ساری منزلیں طے کی ہیں،ان پرباربار ابھارتے ہیں۔یقیناٌ ان کے دل میں ایک شاعر کے ساتھ ساتھ ایک عالم کا دل بھی دھڑکتا ہے ،اپنی قوم کے لیے ان کے دل میں بہت ہمدردی، غمخواری اور الفت کے جذبات ہیں۔وہ چاہتے ہیں کہ مسلمان ہر میدان میں آگے بڑھیں اور ترقی کریں، اس لیے ہمت نہ ہارنے اور عزم و حوصلہ برقرار رکھنے کی بات بار بار کرتے ہیں، اس حوالے سے چند شعر دیکھیے گا:
شرط ہے یہ کامیابی کے لیے
جستجو کا اک زمانہ چاہیے
روشنی کی ہی کمی ہے سالک ادیب
آپ کو اب دل جلانا چاہیے
*
رہنما قوم کے ہیں چپ سارے
نیک سردار مرگئے ہیں کیا
حال دل کوئی پوچھتا ہی نہیں
میرے غمخوار مرگئے ہیں کیا
*
جواں حوصلہ رکھ سفر میں سداتو
تجھے پھرملے گا ٹھکانہ یقیناً
*
ہم سے احباب روٹھ جاتے ہیں
جب کبھی آئینہ دکھاتے ہیں
جن کو جلنا ہے روشنی کے لیے
اب اندھیرے سے خوف کھا تے ہیں
*
مسلم ہیں اگر ہم تو خانوں میں بٹے ہیں کیوں!
مسلک کی پڑی ہے کیوں زنجیر نگاہوں میں
جوشخص تکبر کے گرداب میں گھر جائے
اس شخص کی کیاہوگی توقیر نگاہوں میں
*
سونے کی چڑیا ملک مرا تھا کبھی مگر
اب سامنے ہے سب کے جو ہندوستاں الگ
*
جن میں جرات ہو حق بیان کی
و ہی سچے ادیب ہوتے ہیں
ان کی ایک غزل مخدوم محی الدین کی زمین میں یوں ہے :
میری زخمی انا،تیری سہمی حیا
آگ دل میں لگاتی رہی رات بھر
دیکھ کر جگنو کی تابندگی
تیرگی منہ چھپاتی رہی رات بھر
رات کے بارہ بجے کے عنوان سے ایک نظم ہے جس میں جامعہ دارالسلام عمرآباد کی طالب علمی کے دور کے آخری ایام کانقشہ شاعر نے کھینچا ہے ،بہت ہی بے ساختہ انداز میں انہوں نے رات کے بارہ بجے کی روداد بیان کرنے کی کوشش کی ہے۔طالب علمانہ زندگی جن لوگوں نے بسر کی ہے اور ہاسٹلوں میں اپنا وقت گزاراہے وہ اس نظم سے بہت لطف اندوز ہوسکتے ہیں۔یہ نظم بہت ہی دلچسپ اور لائق مطالعہ ہے :
کچھ انوکھا ہورہا تھارات کے بار ہ بجے
چہرہ کوئی دھورہا تھارات کے بارہ بجے
ہنس رہا تھا کوئی بندہ کھل کھلاکر دیر تک
اور کوئی رو رہا تھا رات کے بارہ بجے
وہ زمانہ خوب تھا پڑھتا تھا کوئی رات بھر
کوئی کپڑا دھورہا تھا رات کے بارہ بجے
صبح میں پرچہ تھا بیضاوی کا ہم کو یاد ہے
ایک لڑکا رورہا تھا رات کے بارہ بجے
کس نے پرچہ ہے بنایا اور ہم کیسے لکھیں؟
مسئلہ حل ہورہا تھا رات کے بارہ بجے
بس تسلی دے رہا تھا یارکوئی اے ادیبؔ
ضبط کوئی کھورہا تھا رات کے بارہ بجے
سالک ادیب کے شعری مجموعے حدیث دل کا مطالعہ اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ شاعری میں ان کا مستقبل بہت تابناک ہے۔ان کی شاعری کے حوالے سے پورے یقین کے ساتھ یہ بات کہی جاسکتی ہے کہ ان کی شاعری میں مزید نکھارپیداہوگا اور ان کی شاعری خوب سے خوب تر ہوتی جائے گی۔ان شاءاللہ
***

 

***

 


ہفت روزہ دعوت – شمارہ 31 دسمبر2023 تا 06 جنوری 2024