کتاب :گلستان ثاقب

ڈاکٹر عبدالرب ثاقب کا تیسرا شعری مجموعہ، تعارف و تجزیہ

ڈاکٹر ظہیر دانش عمری

ڈاکٹر محمد عبدالرب ثاقب عمری کا شعری مجموعہ میرے پیش نظر ہے جسے سید اسماعیل علی اور سید ایوب عمری نے مرتب کیاہے۔ڈاکٹر صاحب مرنجان مرنج شخصیت کے حامل ہیں۔ ان کا نام نامی میں نے سب سے پہلی مرتبہ برادر عزیز شیخ اسماعیل افضل کی زبانی سنا اور انہی کے ذریعے مجھے آپ کے شعری مجموعے فیضان ربانی پر سرسری نظر ڈالنے کا موقع بھی ملا تھا۔ فیضان ربانی کے مطالعے سے ناچیز کو بہت مسرت حاصل ہوئی، خاص کر اس کی غزلوں نے دیر پا اثر چھوڑا۔ڈاکٹر صاحب کی غزلیں اتنی عمدہ ،دلکش اور لاجواب ہوتی ہیں کہ دل میں مخصوص جگہ بنالیتی ہیں۔ آج کے دور میں شعراء کے اس اژدہام میں اپنا مخصوص مقام بنالینا کوئی آسان کام نہیں ہے۔اور ان کو یہ خصوصیت اس لیے بھی حاصل ہے کیونکہ انہیں مولانا ابوالبیان حماد عمری کی سرپرستی حاصل رہی ہے جو استاذ الاساتذہ رہ چکے ہیں۔ڈاکٹر صاحب کی ایک خصوصیت مجھے بہت پسند ہے وہ یہ کہ وہ ڈگر سے ہٹ کر چلتے ہیں بقول سہیل اختر مرحوم ؂
نقوش پا سے بھی آگے ہے منزل مقصود
جانا ہے مجھے وہاں جہاں راستہ نہیں جاتا
عموماً کتابوں کا انتساب صرف ایک شخصیت یا ادارے کے نام ہوتا ہے۔ آپ نے اس کتاب میں تین تین انتساب شامل کیے ہیں۔ایک انتساب تو کاکا سعید احمد صاحب عمری کے نام جس میں ان کے علاوہ کاکا انیس احمد عمری اور دیگر منتظمین جامعہ کے اسماء گرامی تحریر کیے گئے ہیں۔ دوسرا مولانا ابوالبیان حماد عمریؒ کے نام اور تیسرا انتساب اپنے تایا زاد برادران کے نام ہے جن کے اسماء گرامی ہیں مولانا عبدالرحمن ندوی،مولانا عبداللہ عمری مدنی اور مولانا محمد عبدالہادی عمری مدنی ۔گویا انہوں نے ایک ساتھ مادر علمی کا حق، اپنے رہنمائے روحانی کا حق اور رشتہ داری کا حق ادا کرنے کی کوشش کی ہے ۔
اس کے بعد ان کی لحدوں پر الٰہی کے عنوان سے ڈڈلی اور حیدرآباد دکن کے مرحومین کو یاد کیا ہے۔ یہ بھی ڈاکٹر صاحب کی ایسی انفرادیت ہے کہ جس پر داد دینے کو جی چاہتا ہے۔اس کے بعد ڈاکٹر تابش مہدی ،ملک فضل برمنگھم، برادر عزیز شیخ اسماعیل افضل حیدرآبادی اور عادل فاروقی لندن کے تاثرات شامل کتاب ہیں۔ان میں سوائے شیخ اسماعیل کے کسی اور صاحب نے ڈاکٹر صاحب کی شعری خصوصیات پر گفتگو نہیں کی ہے جبکہ ہونا یہ چاہیے تھا کہ ان کی غزل، نظم اور قصیدہ گوئی پر تفصیلاً گفتگو کی جاتی۔ یہاں تک کہ ڈاکٹر تابش مہدی کی تحریر بھی کچھ خاص تاثر نہیں چھوڑ پائی ہے۔
اس کتاب میں ڈاکٹر صاحب کی دو حمدیں، ایک نعت، ۱۳ نظمیں، ۷غزلیں، ۹قصیدے، ۲۳مرثیے،۲ترانے ،چند قطعات،۴۵خر اج تحسین و خراج عقیدت اور ایک گلدست تہنیت شامل ہیں۔
ربی اللہ ربی اللہ کے عنوان سے جو حمد ہے اس میں بڑی سادگی اور پرکاری کے ساتھ انہوں نے حمد خداوندی بیان کرنے کی کوشش کی ہے۔باربار ان کا یہ سوال کہ کس نے بھیجا نبی کو،کس نے زبان و دہن دیے ہیں،کس نے سیدھی راہ دکھائی وغیرہ کس نے ،کس نے کی تکرار سے بے اختیار سورہ رحمن یاد آجاتی ہے جس میں اللہ تعالی جنات اور انسانوں کو مخاطب کرتے ہوئے کہتا ہے کہ تم اپنے رب کی کن کن نعمتوں کو جھٹلاؤگے؟
نعت رسول کہنا بہت مشکل کام ہے ۔نبی کا مرتبہ بہت ہی نازک ہے اسے نہ بڑھایا جا سکتا ہے نہ گھٹایا جا سکتا ہے ۔شریعت کی حدود کی پابندیوں کے ساتھ نعت کہنا ناکوں تلے چنے چبانے کے مترادف ہے۔ اس کے باوجود کتنے عمدہ شعر انہوں نے کہے ہیں کہ دل خوش ہوجاتا ہے :
تھے جہالت میں جو ان کو علم والا کردیا
آپ کی تعلیم نے پتھر کو ہیرا کردیا
کردیا توحید نے دنیا میں برپا انقلاب
نورایماں سے زمانے میں اجالاکردیا
آپ کی نظموں میں مشاہدات،ماں تیری کمی ہے ،انحطاط نہایت عمدہ ہیں۔مشاہدات میں دورحاضر کی دین بیزاری، بے ادبی ،شرک کی تاریکی، اللہ سے دوری،بے سکونی و بے اطمینانی کا اظہار انہوں نے درد مندی کے ساتھ کیاہے۔نصیحت اس پیرائے میں کی ہے کہ دل میں اترتی ہوئی محسوس ہوتی ہے۔چند شعر دیکھیں ؂
میں دین سے ہٹ کر جو ڈگردیکھ رہا ہوں
سانپوں سے بھری راہ گزر دیکھ رہاہوں
ہرشخص کے جذبات میں اک آگ لگی ہے
جلتے ہوئے دل اور جگر دیکھ رہا ہوں
اب مربھی چکا آنکھوں کا پانی بھی تو ثاقب
’’دیکھا نہیں جاتا مگر دیکھ رہا ہوں‘‘
ماں تیری کمی ہے میں ماں کی کمی کا اظہاریوں کرتے ہیں کہ قاری اگر دل گداز کا مالک ہے تو اس کی آنکھوں سے آنسو نہ جھلکیں یہ ہو ہی نہیں سکتا۔مال ودولت اور اللہ کی نعمتوں کی فراوانی اور ماں کی کمی کی وجہ سے دل میں کسک اٹھتی ہے وہ بس اسی دل کو محسوس ہوتی ہے جس نے یہ حادثہ دیکھا۔ماں پر لکھنے والوں نے بہت کچھ لکھاہے اور لکھ رہے ہیں۔لیکن ان کی یہ نظم اس معنی میں سب سے منفرد ہے کہ اس میں ایک سچے بیٹے کے دل کی پکار شامل ہے ،سینے میں ابلتے ہوئے جذبات ہیں جو قلم کے راستے بہہ نکلتے ہیں۔ماں کی نعمت جب تک ہمارے پاس ہوتی ہے ہمیں اس کا احساس نہیں ہوتا۔نعمت کا احساس تو زوال کے بعد ہوتا ہے ۔جن کے پاس ماں ہے ان کے بارے میں کہتے ہیں کہ
ماؤں والے جھوم رہے ہیں
ان کا ماتھا چوم رہے ہیں
نظم کی ابتداء سے ایک مایوسی ،رنج و غم کی کیفیت،درد دل کی کسک محسوس ہوتی ہے ۔نظم پڑھنے والا جب اسے ختم کرتا ہے تو وہ نظم قاری پر ایک خاص تاثر چھوڑ جا تی ہے۔ چند اشعار دیکھیں ؂
پھولوں کے ہیں اشجار ،مگرتیری کمی ہے
میوؤں کے ہیں انبار،مگرتیری کمی ہے
ماں تیری کمی ہے ،ماں تیری کمی ہے
احباب ہیں زردار،مگر تیری کمی ہے
سب بن گئے سردار،مگرتیری کمی ہے
ماں تیری کمی ہے ،ماں تیری کمی ہے
ہیں دودھ کے انہار ،مگرتیری کمی ہے
ہیں خیر کے انوار،مگر تیری کمی ہے
ماں تیری کمی ہے ،ماں تیری کمی ہے
شادی کی ہیں باراتیں،مگر تیری کمی ہے
ہیں نورکی برساتیں،مگر تیری کمی ہے
ماں تیری کمی ہے ،ماں تیری کمی ہے
غزلیات کے حصے میں سات غزلیں ہیں جن میں روایتی مضامین کے ساتھ ساتھ دینی موضوعات کو بھی برتا گیاہے۔کہیں کہیں ان کی نصیحت ان کی غزل پر غلبہ حاصل کرلیتی ہے ۔کیونکہ آپ بنیادی طورپر عالم دین ہیں،شاعری کرتے ہوئے بھی وہ اس منصب اور اس کی ذمہ داریوں کو نہیں بھولتے،کہیں توحید کی دعوت دیتے ہیں تو کہیں عبادت میں ریاکاری اور دکھاوے سے بچنے کی تلقین کرتے ہیں،مسلمانوں میں جو فرقہ پرستی سرایت کرگئی ہے اس کا تذکرہ درد مندی کے ساتھ کرتے ہیں ،نفرت کا مقابلہ کرنے کا طریقہ یہ بتاتے ہیں کہ نفرت کو نفرت سے نہیں کاٹا جاسکتا بلکہ الفت و محبت سے اس کا مقابلہ کیا جا سکتا ہے۔ چند شعر یوں ہیں ؂
زندگی بے بندگی تو گمرہی ہے گمرہی
بندگی رب کی کرو اور سرمدی بن جائیے
ہو تلاوت اور دعائیں بے ریا و بے نمود
بندگی کرکے مجسم چاشنی بن جائیے
دنیا کے کاروبار میں ہیں غرق اس طرح
ڈرہے نہ موت و قبر کا اور حساب کا
رب سے تم جوڑ لو تعلق کو
اس کی رحمت و بیکرانہ ہے
کتنے فرقوں میں بٹ گئے مسلم
کیا یہ انداز مومنانہ ہے
کیسے جنت میں لوگ جائیں گے
جب عقیدہ ہی مشرکانہ ہے
عجب لوگ ہیں شاید انہیں نہیں معلوم
کہ دل کشی تو غریبوں میں پائی جاتی ہے
قصائد میں علامہ اقبال کے علاوہ لندن کی چند اہم شخصیات شامل ہیں۔جیسے ڈاکٹر عبدالکریم، مولانا عبدالکریم ثاقب مدنی، مولانا شفیق الرحمن صابر صاحب وغیرہ۔
انہوں نے اپنے اہل خانہ ،اساتذۂ جامعہ اور دیگر معروف شخصیات کی وفات پر مراثی کہے ہیں۔ مولانا سید عبدالکبیر عمری ،علامہ حفیظ الرحمن اعظمی عمری مدنی،حافظ عبیدالرحمن اعظمی عمری مدنی،مولانا حبیب الرحمن زاہد اعظمی ،ڈاکٹر ضیاءالرحمن اعظمی عمری مدنی، مولانا ظہیرالدین ،مولانا خلیل الرحمن اعظمی عمری ،مولانا سید جلال الدین انصر عمری رحمہم اللہ کی وفات پر کہے گئے مراثی میں بہت سوز وگداز ہے۔ مختصر الفاظ میں انہوں نے صاحب مرثیہ کے امتیازات وکمالات کو بیان کرنے کی کوشش کی ہے۔چند لفظوں میں ایک شخصیت کی خوبیوں کو بیان کرنا اور اس انداز میں بیان کرنا کہ پڑھنے اور سننے والا ایک خاص تاثر لے کر اُٹھے بہت مشکل کام ہوتا ہے۔
مولانا زاہد اعظمی پر لکھے گئے چند شعر دیکھیں ؂
بچپن سے مشقت کی،گھروالوں کی خدمت کی
اخواں سے محبت کی،ماں بھی اطاعت کی
مسجد میں خطابت کی،مکتب کی نظامت کی
تھے معتمد عالی،اس طرح ادارت کی
تھے صدق و صفاوالے،بندے تھے خدا والے
داعی رہے سنت کے ،دشمن رہے بدعت کے
بعد ازاں مختلف شخصیات کو خراج تحسین پیش کیا گیاہے۔ دو ترانے حفظ قرآن کا مقابلہ اور جامعہ سمیہ حیدرآباد دکن کے عنوان سے شامل ہیں ۔قند مکرر کے بعنوان چار نظمیں ہیں۔
متفرقات میں برمنگھم کے مشاعروں کو رونق بخشنے والے بعض علماء کرام و قائدین ،حیدرآباد دکن کے مشاعروں کو رونق بخشنے والے بعض علماء، قائدین و احباب، ماہنامہ پرواز لندن کا ایک شمارہ ،ڈاکٹر عبدالرب ثاقب کے متعلق مشاہیر کی آراء و تبصرے اور عکس شاعر شامل ہیں۔
متفرقات کے تحت جو ابتدائی دو عناوین شامل نہ ہوتے تب بھی کتاب کی اہمیت میں کوئی کمی نہ ہوتی ۔
کتاب کے جائزے سے ایک قابل ذکر باتیہ سامنے آئی کہ شاعری کے انتخاب میں مزید سختی برتی جاتی اور منتخب شعر ہی شاملِ کتاب ہوتے تو اس کی اہمیت میں اور زیادہ اضافہ ہو جاتا ۔کیونکہ غیر متعلق چیزیں کتاب میں شامل کرنے سے گریز کیا جائے تو اس کے حسن میں مزید نکھار آتا ہے۔
مجموعی طور پر یہ کتاب بہت عمدہ ہے اور عبدالرب ثاقب کی شاعری دلوں میں اتر جانے والی ،احساس کو جگانے والی شاعری ہے ۔یقیناً یہ اردو ادب میں بیش بہا اضافہ ہے۔مرتبین کا بھی بے حد شکریہ کہ انہوں نے اس کتاب کی تربیت سے اپنے حسن سلیقہ کا ثبوت پیش کیاہے۔دعاہے کہ اس نوعیت کے مزید علمی کام سرانجام دیں۔آمین۔
***

 

***

 


ہفت روزہ دعوت – شمارہ 28 جنوری تا 3 فروری 2024