کتاب : دولت عثمانیہ اور ترکی کی تاریخ
ترکی کی تاریخ پر ایک نئی کتاب جس کا مطالعہ ہر ذی شعور مسلمان کو کرنا چاہیے
پروفیسر محسن عثمانی ندوی
اردو زبان کی علمی دنیا میں ایک اہم کتاب کا اضافہ ہوا ہے جس طرح سے تاریخ اسلام، تاریخ ہند، تاریخ اسپین، تاریخ صقلیہ اور تاریخ دولت عثمانیہ اہم کتابیں ہیں، اسی طرح علم و ادب کے آسمان پر ایک نیا ستارہ طلوع ہوا ہے۔ ’’دولت عثمانیہ اور ترکی کی تاریخ‘‘ یہ کتاب تین ضخیم جلدوں میں مکمل ہوئی اور تحقیقات ونشریات اسلام ندوۃ العلماء سے شائع ہوئی ہے۔ کتاب کے مصنف مولانا عتیق احمد بستوی، معروف عالم دین اور ندوۃ العلماء میں استاد ہیں۔ علامہ شبلی زندہ ہوتے تو اس کتاب کی قدر کرتے۔ انہوں نے جب الفاروق کی تصنیف کا ارادہ کیا تھا تو ہندوستان کے کتب خانے ان کی ہمت بلند کرنے کے لیے ناکافی ثابت ہوئے تھے۔ وہ قسطنطنیہ کے لیے عازم سفر ہوئے۔ وہاں پہنچ انہوں نے کر علماء سے ملاقاتیں کیں کتب خانوں کو کھنگالا، ترکی زبان سیکھی۔ ترکی سے ان کو اتنی محبت تھی کہ اگر یہ کتاب ان کے زمانہ میں شائع ہوتی تو وہ اس کے قدر داں ہوتے اور ترکی کے سفرنامہ میں اس کا ذکر خیر کرتے۔ مولانا عتیق احمد بستوی نے اس کتاب کی تصنیف کی ابتداء مولانا علی میاں کی ایما پر شروع کی اور وہ اس کا تقاضا بھی کرتے رہے لیکن ان کی زندگی میں یہ کتاب پایہ تکمیل تک نہ پہنچ سکی اور ان کے انتقال کے کئی سال کے بعد منظر عام پر آئی ہے۔ ان کی ر وح کہتی ہوگی ’’بجنازہ گر نہ آئی بمزار خواہی آمد‘‘ مولانا علی میاں کی روح اب اس کتاب کے منظر عام پر آنے سے خوش ہوگی کہ دولت عثمانیہ پر دیر سے سہی ایک معتبر اور مفصل تاریخ منظر عام پر آگئی ہے جس میں تحریک خلافت، سلطان عبدالحمید ثانی کا مفصل بیان ہے اور اس دور کی تمام ترقیات کا ذکر ہے، اتحاد اسلامی کو پارہ پارہ کرنے والی عرب قومیت کی تحریک پر روشنی ڈالی گئی ہے۔ بدیع الزماں نورسی اور ان کی خدمات پر روشنی ڈالی گئی ہے اور جمال الدین افغانی اور ان کی تحر یک کا تذکرہ بھی ہے، مصطفیٰ کمال پاشا اور الغائے خلافت کی نامسعود کوششوں کا ذکر بہت تفصیل سے آگیا ہے۔
چاک کردی مرد ناداں نے خلافت کی قبا
سادگی مسلم کی دیکھ اوروں کی عیاری بھی دیکھ
ترکی میں اسلام کی بیخ کنی کی کوشش کی گئی خلافت کے نظام کے خلاف تمام مغربی طاقتیں متحد اور منظم ہوگئیں۔ اسرائیل کا قیام عمل میں آیا۔ بیت المقدس پر قبضہ کیا گیا اور ان تمام واقعات کے درمیان سلطان عبدالحمید ثانی کی اسلامی غیرت وحمیت کو واقعات کی روشنی میں اجاگر کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ سلطان عبدالحمیدثانی کی غیرت وحمیت کے واقعات اتنے عجیب وغریب اتنے دل کش اور صفحہ تاریخ پر ثبت ہیں کہ ان کے مقابلہ میں عرب ملکوں کا کردار اب بہت افسوس ناک اور اندوہ ناک نظر آتا ہے اور پھر یہ احساس ابھرتا ہے کہ خلافت اسلامیہ کا سقوط اسلامی تاریخ کا سب سے الم ناک واقعہ ہے۔ یہ کوہ غم ہے جو ٹوٹا ہے اور اس سیاہ تاریخ کا سب سے بڑا مجرم مصطفیٰ کمال پاشا ہے جسے اقبال نے ترک ناداں کے نام سے یاد کیا ہے۔
اگر عثمانیوں پر کوہ غم ٹوٹا تو کیا غم ہے
کہ خون صد ہزار انجم سے ہوتی ہے سحر پیدا
اس کتاب میں تفصیل سے دشمنان اسلام کی سازش پر روشنی ڈالی گئی ہے۔ ترکی میں بسنے والے یہودی جو اندر سے اسلام اور مسلمانوں سے خار کھائے بیٹھے تھے اور ترکی سے باہر عیسائی سلطنتیں جو سطان صلاح الدین ایوبی کا انتقام لینے کے درپے تھیں اور رومن امپائر کے دارالسلطنت قسطنطنیہ کے ہاتھ سے نکل جانے کا غم جن کے لیے ناقابل برداشت تھا اور جو ان کے لیے دل کا داغ اور سینہ کا چراغ بن گیا تھا۔ ان سب نے مل کر اسلامی خلافت کا چراغ گُل کر دیا اور عرب ملکوں کو آپس میں بانٹ لیا۔ بندر بانٹ، اور ایک قصائی کی طرح ایک جسم کے کئی ٹکڑے ٹکڑے کردیے۔ خود عرب ملکوں کی ناعاقبت اندیشی اور بے حمیتی اور بِے ضمیری یہ تھی کہ وہ خود بھی ترکوں کے خلاف ہو گئے۔ آج بھی وہ عقل سے دور اور صحیح زاویہ نظر سے محروم اور عیش وعشرت کے دلدادہ اور دولت کے باجود پسماندہ ہیں۔ روز مرہ کی معمولی چیزیں بھی باہر سے درآمد کرتے ہیں اور اسرائیل کے ہوا خواہ ہیں۔ سلطان عبدالحمید کے واقعات بہت تفصیل کے ساتھ اس کتاب میں مرقوم ہیں۔ بے ضمیر لوگوں کی دین اسلام سے بے وفائی اور خلافت کی بے توقیری کے واقعات بھی تمام تفصیلات کے ساتھ اس کتاب میں موجود ہیں۔ اپنی تباہی اور شکست کی داستان کا جاننا ہر باشعور مسلمان کے لیے ضروری ہے:
گرتازہ خواہی داشتن ایں داغ ہائے سینہ را
گاہے گاہے باز خواں ایں قصۂ پارینہ را
یہ پوری داستانِ غم مولانا عتیق احمد بستوی نے اپنی تفصیلات اور جزئیات کی ساتھ اور حوالوں کے ساتھ سنائی ہے۔ اس کتاب میں عثمانی خلافت کے دور کی تمام ترقیات کا ذکر ہے، صنعت وحرفت اور زراعتی ترقیوں کا بیان ہے، اسلام دشمن تحریکات اور ان کی ریشہ دوانیوں کا قصہ ہے، صیہونیت کی داستان ہے، ترک قومیت اور عرب قومیت اور جاہلی عصبیتوں کی داستان ہے، خلافت عثمانیہ کے خلاف عربوں کی بغاوت کا افسوس ناک قصہ ہے، خلافت عثمانیہ میں اسلام کی اشاعت کی کوششوں کے واقعات ہیں۔
دولت عثمانیہ کی تاریخ بہت اہم تاریخ ہے۔ یہ مکمل تاریخ اسلام کا بہت اہم باب ہے جسے مسلمانوں کو فراموش نہیں کرنا چاہیے۔ عزت وقوت شوکت وصولت، جہانگیری اور جہاں بانی کی ایک پوری تاریخ تھی جو اختتام کو پہنچی۔ یہ قافلہ کیوں لٹا، مسلمان نکبت و ناسازگاری کا شکار کیوں ہوئے، ہزیمت اور شکستہ پائی سے انہیں کیوں دو چار ہونا پڑا، اور اب انہیں کیا خوش تدبیری اختیار کرنی ہے۔ اگر مسلمانوں نے یہ سب جاننے کی کوشش نہیں کی تو عزت وکامرانی کبھی ان کا نصیب نہیں بن سکے گی۔ ان تمام تحریروں کا پڑھنا بہت ضروری ہے جو نشان راہ بتاتی ہیں یا پڑھنے والا سوچنے لگتاہے کہ اب طوفانِ مصائب سے گزر کر ساحل مقصود تک کیسے پہنچا جاسکتا ہے اور سپاہ شکستگاں اور بدنصیبان تاریخ کے ہاتھ میں پھر سے فتح کا پرچم کیسے آسکتا ہے۔ یہ کتاب ہر صاحب علم اور طالب علم کے مطالعہ کے لائق ہے۔ مولانا عتیق احمد بستوی نے ترکی اور دولت عثمانیہ کی مکمل تاریخ لکھ کر اسلامی کتب خانہ میں ایک اہم کتاب کا اضافہ کیا ہے اور بحیثت مصنف اور مورخ جریدہ عالم پر اپنا دوام ثبت کر دیا ہے۔ اب یوسف قراچہ مرحوم کی یاد آتی ہے جنہوں نے ہندوستان کی اہم شخصیات کی اردو کتابوں کا ترکی زبان میں ترجمہ کیا تھا۔ اگر وہ بقید حیات ہوتے تو اس کتاب کا ضرور ترکی زبان میں ترجمہ کرتے۔
***
ہفت روزہ دعوت – شمارہ 14 جولائی تا 20 جولائی 2024