کتاب :دینی مدارس کا نظام ونصاب ایک تجزیاتی مطالعہ
مدارس اسلامیہ کی موجودہ صورتحال اور ان میں وفاقی نصاب کی اہمیت کو واضح کرنے والی عمدہ تصنیف
ابوسعد اعظمی
مولانا اشہد جمال ندوی سید حامد سینئر سکنڈری اسکول علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں عربی کے استاذ ہیں۔ان کی سرگرمیوں کے کئی محاذ رہے ہیں۔ وہ ادارہ علوم القرآن میں نائب سکریٹری، اساس کے سکریٹری رہ چکے ہیں۔جماعت اسلامی اے ایم یو ایریا کے امیر ہیں اور فی الحال ادارہ تحقیق وتصنیف اسلامی علی گڑھ کے فعال سکریٹری کی حیثیت سے بھی خدمات انجام دے رہے ہیں۔ان کا قلمی سفر گزشتہ صدی کی آخری دہائی سے پہلے ہی شروع ہوچکا تھا۔ ماہ نامہ الرشاد، الفرقان، تحقیقات اسلامی اور علوم القرآن وغیرہ میں ان کے وقیع مقالات شائع ہوئے اور علمی دنیا میں انہیں خوب پذیرائی نصیب ہوئی۔ دینی مدارس کا نظام ونصاب ان کی دل چسپی کا خصوصی موضوع رہا ہے۔ مختلف سمیناروں و کانفرنسوں میں انہوں نے اس تعلق سے اپنا موقف پیش کیا اور مدارس کے نصاب کو مزید فعال اور موثر بنانے کے لیے ان میں اصلاح کی تجاویز پیش کیں۔ مختلف مدارس کی علمی واخلاقی صورت حال اور اس کے نصاب میں شامل قرآن، حدیث، فقہ، دعوت اسلامی، اصول تفسیر وعلوم قرآن وغیرہ مضامین پر سیر حاصل بحث کی اور مختلف مدارس کے نصاب میں ان مضامین کی صحیح صورت حال کا تجزیہ کیا۔نظام ونصاب میں دل چسپی رکھنے والے احباب کے اصرار پر انہیں افادۂ عامہ کی غرض سے مجلات کے اوراق سے نکال کر کتابی شکل میں مدون کیا گیا ہے۔
اس کتاب میں پیش لفظ کے علاوہ کل تیرہ مقالات شامل ہیں۔یہ مقالات جن مجلات میں شائع ہو چکے ہیں یا جن سمیناروں میں پیش کیے گئے ان کی بھی نشان دہی کر دی گئی ہے۔ان مقالات کا دورانیہ تقریباً 20 سال پر محیط ہے۔ اس دوران کی فضا اور نصاب میں کئی خوش گوار تبدیلیاں آچکی ہیں جن کے ذکر سے کتاب خالی ہے اور مقالات کو ان مجلات سے نکال کر حذف واضافہ، اعداد وشمار اور تحلیل وتجزیہ میں بغیر کسی تبدیلی کے جوں کا توں شائع کر دیا گیا ہے۔
’دینی مدارس ملک کے لیے ایک قیمتی اثاثہ‘ اس کتاب کا پہلا مقالہ ہے۔ اس میں مدارس کی خدمات اور اہل مدارس کی قربانیوں کا اعتراف کیا گیا ہے۔اسے قیمتی اثاثہ قرار دیتے ہوئے ملک کی داخلی سلامتی کے تحفظ، خارجہ پالیسی کے نفاذ، سماجی اقدار کے فروغ اور تعلیمی مہمات کی کامیابی میں اس کے کردار سے بحث کی گئی ہے۔ فاضل مصنف کے الفاظ میں ’’جنگِ آزادی کا بگل بجانے سے لے کر قلعہ پر جھنڈا لہرانے تک کا کوئی لمحہ ایسا نہیں رہا جب علماء شانہ بہ شانہ سر بکف کھڑے نہ رہے ہوں‘‘۔ (ص۱۰) فاضل مصنف کا یہ احساس بھی خوش آئند ہے کہ ’’ملک میں رشوت، جہیز، نشہ خوری، فحاشی اور توہم پرستی کا جو بازار گرم ہے اور ملک کو دیمک کی طرح کھائے جا رہا ہے، ان کی راہ میں اگر کوئی بڑی قوت مزاحم ہے تو یہی فارغین مدارس ہیں‘‘۔ (ص۱۳)
دوسرے مقالہ میں عصر حاضر کے تناظر میں مدارس کے نظام ونصاب کا تجزیہ کیا گیا ہے۔ مدارس کے لیے وفاق نظام کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے مصنف نے اپنا کرب ان الفاظ میں بیان کیا ہے کہ ’’ستم ظریفی یہ ہے کہ یہ مدارس کسی ایسے وفاقی نظام سے یکسر محروم ہیں جو انہیں ایک لڑی میں پروسکے، ان کے لیے مقاصد اور اہداف طے کرے اور ان کے لیے کوئی لائحہ عمل مرتب کرے۔۔۔وفاقی نظام کی ضرورت کا احساس نیا نہیں ہے مگر بعض اندیشہ ہائے دور دراز کی وجہ سے عملی اقدام کی نوبت نہیں آپاتی۔کبھی قیادت و اقتدار کے چھن جانے کا خطرہ لاحق ہوتا ہے، کبھی انفرادیت کے ختم ہو جانے کا خوف ستاتا ہے اور کبھی جواب دہی کا احساس آڑے آ جاتا ہے‘‘۔ (ص۱۶۔۱۷) اس کے پندرہ نکات کی شکل میں وفاق کی ذمہ داریوں پر اظہار خیال کیا گیا ہے اور نصاب تعلیم کا ایک خاکہ بھی متعارف کرایا گیا ہے، جس میں قرآن، حدیث، فقہ اسلامی، دعوت دین، عربی زبان وادب، ہندوستانی تہذیب اور مغربی علوم وافکار، معاصر علوم وغیرہ کی شمولیت سے بحث کی گئی ہے اور آخر میں نظام امتحانات اور مالیات کے سلسلہ میں بھی کچھ مفید مشورے دیے گئے ہیں۔
ایک مقالہ ’مدارس میں نظام تربیت ایک جائزہ‘ کے عنوان سے ہے جس میں سب سے پہلے تزکیہ کا حقیقی مفہوم واضح کر کے پانچ نمائندہ مدارس دار العلوم دیو بند، ندوۃ العلماء، مظاہر العلوم مدرسۃ الاصلاح اور جامعۃ الفلاح کی مطبوعہ تاریخ اور تعارفی لٹریچر کے حوالہ سے اس نظام کی اہمیت، مقاصد، اہداف اور طریقہ کار کا تعارف کرانے کی کوشش کی ہے اور اپنا احساس ان الفاظ میں رقم کیا ہے کہ ’’اگر تربیت وتزکیہ کا بنیادی مقصد معاشرہ کے لیے لائق افراد تیار کرنا پیش نظر رکھا جائے اور فارغین مدارس کا معاشرہ کی تعمیر وترقی میں کردار تلاش کیا جائے تو بہت مایوس کن صورت حال سامنے آتی ہے۔امت کا کوئی طبقہ اس صورت حال سے مطمئن نہیں ہے‘‘۔(ص۳۸) اس کے بعد تربیتی نظام کیسے مرتب ہو، اس کے بنیادی خدوخال کیا ہوں، اس کے مقاصد اور علمی خاکہ کی نشان دہی کی گئی ہے۔
اس کے بعد بالترتیب پانچ مقالات میں مدارس کے نصاب میں تدریس قرآن، تدریس اصول تفسیر وعلوم قرآن، تدریس حدیث، تدریس فقہ اور دعوت دین کا تجزیہ اور تقابلی مطالعہ چارٹ کی مدد سے پیش کرکے مدارس کے نصاب میں ان عناوین کے تحت شامل مواد کا محاکمہ کیا گیا ہے اور ہر مقالہ میں اصلاح نصاب سے متعلق اپنے احساسات وتجاویز کا اظہار بھی کیا گیا ہے۔ چند اقتباسات ملاحظہ ہوں: ’’اس نصاب میں تدریس قرآن مجید کو ایک زندہ جاوید کتاب اور مکمل ضابطہ حیات کی حیثیت سے پڑھانے کا تصور بہت دھندلا ہے۔ قرآنی احکام وتعلیمات اور معاصر ضروریات اور چیلنجوں کا اطمینان بخش جواب فراہم کرنے کے لیے بظاہر کوئی شعوری کوشش نہیں کی گئی ہے‘‘۔ (ص۶۰۔۶۱) اصول تفسیر اور علوم قرآن کی تدریس کے حوالہ سے مختلف مدارس کے نصاب کا تجزیہ کرنے کے بعد لکھتے ہیں: ’’دینی مدارس کے اصول تفسیر وعلوم قرآن کے نصاب پر نظر ثانی کی شدید ضرورت ہے۔ فہم قرآن کے لیے ان علوم کی جتنی اہمیت ہے نصاب میں اس اعتبار سے کم ہی جگہ دی گئی ہے۔اس سے اصول تفسیر وعلوم قرآن کے ساتھ انصاف کے تقاضے پورے نہیں ہوتے‘‘۔ (ص۷۴)
تدریس حدیث کے سلسلہ میں چند مدارس کے نصاب کا محاکمہ کرنے کے بعد لکھتے ہیں ’’مروجہ نصاب تعلیم میں متون کی خواندگی، ان کی تفہیم وتوضیح اور کچھ اصولی مباحث کی تعلیم پر زیادہ زور ہے۔۔۔یہ تدریس حدیث کا محض ایک پہلو ہے، کچھ پہلو ایسے بھی ہیں جن کی اہمیت کے اعتراف کے باجود نصاب تعلیم میں ان کو مناسب جگہ نہیں مل سکی ہے‘‘۔ (ص۸۶)
تدوین فقہ کے حوالہ سے اپنا احساس بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں: ’’دینی مدارس کے موجودہ نصاب تعلیم میں فقہ کو خاطر خواہ اہمیت حاصل ہے البتہ اس میں توازن کی کمی محسوس ہوتی ہے۔فقہ کا وسیع دائرہ اس بات کا متقاضی ہے کہ اس میں مسائل اور اصول کے ساتھ مصادر شریعت، تاریخ تشریع، مقاصد شریعت اور عصری مسائل کا خاطر خوہ احاطہ کیا جائے۔ فقہ جیسے زندہ موضوع پر صدیوں پرانی کتابیں پڑھانے سے مضمون کا حق ادا ہونا مشکل ہے‘‘۔ (ص۹۴۔۹۵)
مدارس کے نصاب میں دعوت دین کے حوالہ سے پہلے دعوت اسلامی کا مفہوم اور اس کے لازمی وسائل و ذرائع پر روشنی ڈالی گئی ہے۔ دارالعلوم دیوبند کے نصاب میں اس حوالہ سے کمزوری کی نشان دہی ان الفاظ میں کی ہے کہ ’’اس کی دعوت واصلاح کا زور صرف ایک رخ پر ہے، اس کے مخاطب محض مسلمان ہیں، غیر مسلم نہیں اور اس کے پیش نظر محض دارالعلوم کے مسلک صحیح کی دعوت واشاعت ہے، پورے دین اسلام کی ہمہ جہت تعلیم کی دعوت واشاعت نہیں‘‘۔(ص۱۰۳) ندوۃ العلماء کے سلسلہ میں فاضل مصنف کا تجزیہ ہے ’’اس کے مقاصد دعوتی نقطۂ نظر سے بہت واضح اور مطابق حال ہیں۔ لیکن فریضہ دعوت کی انجام دہی کے لیے دعوتی اسلوب، طریقہ اور مخاطب کے مذہب اور مزاج کو سمجھنے کے لیے جس طرح کے مواد کی ضرورت ہے، وہ نصاب میں بہت ہی کم شامل ہے‘‘۔ (ص۱۰۶)مدرسۃ الاصلاح کے نصاب میں دعوت دین سے متعلق مصنف کا احساس ہے کہ ’’شعوری یا غیر شعوری طور پر دعوت دین اس کے مقاصد میں وضاحت کے ساتھ شامل نہیں ہو سکا ہے۔اس کے پورے نصاب میں دعوت، دعوتی اسلوب، طریقہ کار، تاریخ یا مطالعہ مذاہب پر کوئی مواد شامل نہیں ہے‘‘۔(ص۱۰۸)
ایک وقیع مقالہ معاصر دینی مدارس کا نظام ونصاب اور کثیر مذہبی معاشرہ کے تقاضے کے عنوان سے ہے۔ اس میں تکثیری معاشرہ کی تعریف، اس کے تقاضے وغیرہ پر گفتگو کی گئی ہے۔ اس ضمن میں تاریخ مدارس کی ایک جھلک بھی پیش کی گئی ہے۔ فاضل مصنف کے الفاظ میں ’’علم وتحقیق کا کوئی بھی میدان ہو، ان کا آغاز وعروج انہیں مدارس کے ذریعہ ہوا، قرآن وحدیث کا درس وتدریس ہو یا فقہی مسائل کی تحقیق وتنقیح، منطق وفلسفہ کی گتھیاں ہوں یا کلامی مباحث، طبی اصول وعوامل کی دریافت ہو یا سائنسی ایجادات وانکشافات، ریاضی سے فارمولے تراشنے ہوں یا اصول عمرانیت کی ترتیب، نظام حکم رانی تشکیل دینا ہو یا نظام معاشرت کی جستجو، سب کچھ انہیں دینی مدارس میں ہوتا رہا ہے‘‘۔ (ص۱۱۶)
اس کے بعد مدارس کا نظام ونصاب، کلیدی و معاون علوم کا ذکر کرتے ہوئے مختلف مدارس کا تجزیہ کیا گیا ہے اور خلاصہ کلام ان الفاظ میں پیش کیا ہے کہ ’’ضرورت ہے کہ مدارس کی ان کاوشوں کو قدر کی نگاہ سے دیکھا جائے، ان کو ہدف تنقید بنانے کے بجائے حوصلہ افزائی کی جائے اور ان کے لیے ایسے ساز گار مواقع فراہم کیے جائیں کہ وہ خدمت انسانیت کے جس مشن میں لگے ہوئے ہیں، اس میں کامیاب و سرخ رو ہوں‘‘۔ (ص۱۲۹)
مدارس کے تحفظ وارتقا کی چند تدابیر کے عنوان سے موجودہ دور میں مدارس کو جن سنگین حالات کا سامنا ہے اس کے تدارک کے لیے کچھ تدابیر کی نشان دہی کی گئی ہے۔ اس ضمن میں سب سے پہلے ایک مرکزی وفاق یا ایک دفاعی بورڈ کے قیام، دعوتی پہلو کو نمایاں کرنا وغیرہ عناوین سے جامع اور موثر گفتگو کی گئی ہے۔ آخر میں لکھتے ہیں کہ ’’اس بات پر گہرے غور وفکر کی ضرورت ہے کہ آیا ہمارے مدارس کا نظام ونصاب زمانہ کی ضروریات سے پوری طرح ہم آہنگ ہے یا نہیں؟ اگر نہیں تو اس میں بھی مثبت تبدیلیوں کی طرف قدم بڑھایا جا سکتا ہے‘‘۔ (ص۱۳۹)
ایک مقالہ شبلی کی نظر میں مثالی مدرسہ کے عنوان سے ہے۔ واضح رہے کہ شبلی کے نزدیک مدرسے کا مطلب شرح خواندگی میں اضافہ کرنے والا محض ایک تعلیمی ادارہ یا کھوٹے سکے تیار کرنے کی ٹکسال نہیں، بلکہ ایسی تعلیم گاہ یا تربیت کا مرکز ہے جو قوم وملت کی علمی، فکری، دینی اور ثقافتی ہر طرح کی ضروریات کی تکمیل کرے۔(ص۱۴۲) مصنف نے مقالات شبلی، خطبات شبلی، حیات شبلی اور سفر نامہ روم، مصر و شام سے اقتباسات چن چن کر شبلی کے مثالی مدرسہ کا خاکہ پیش کیا ہے۔فاضل مصنف کا درد ملاحظہ ہو: ’’معاشرہ میں برائیاں بڑھ رہی ہیں، ارتداد تیزی سے پھیل رہا ہے، اسلام پر اعتراضات کا طومار بندھا ہوا ہے۔ ۱۲، ۱۵ اور ۱۷ برس تک مدرسہ میں زندگی گزارنے کے باوجود فاضل مدرسہ معاندین کے سوالات سن کر ہکا بکا رہ جاتے ہیں، شبلی نے مدرسہ کو جہاں پہنچا دیا تھا، اگر اس مشن کو آگے بڑھایا گیا ہوتا تو شاید یہ صورت حال نہ ہوتی‘‘۔ (ص۱۴۹۔۱۵۰)
ایک مقالہ ’دینی مدارس سے تخاطب کا طریقہ‘ کے عنوان سے ہے۔ اس میں سب سے پہلے دینی مدارس کا ذہن ومزاج واضح کیا ہے اور اس لحاظ سے انہیں تین خانوں میں تقسیم کیا ہے پھر خیرخواہان مدارس کو بھی تین قسموں میں تقسیم کیا ہے ۱۔ علماء کرام ۲۔ قائدین عظام ۳۔ارباب سیاست۔ ارباب مدارس کو مصنف نے یہ مشورہ دیا ہے کہ وہ مدارس کی بھلائی چاہنے والے شخص کو دشمن کی نگاہ سے نہ دیکھیں۔ ان کے قیمتی مشوروں، تجاویز اور اصلاحات معروضی نقطۂ نظر سے دیکھنا چاہیے اور جو چیزیں مفید طلب ہوں، ان کا خوش دلی کے ساتھ استقبال کرنا چاہیے۔(ص۱۵۸)
آخری مقالہ میں اعظم گڑھ کے ۲۱ مدارس کے نظام ونصاب کا جائزہ پیش کیا گیا ہے۔سروے سے جو نتائج سامنے آتے ہیں انہیں نظام مدرسہ، نصاب تعلیم، نظام امتحانات اور نظام مالیات وغیرہ کے عناوین سے پیش کیا گیا ہے۔ اجتماعی نظام کا قیام کیسے ہو، وفاق کیسے وجود میں آئے، اس راہ کی مشکلات کیا ہیں، نصاب تعلیم کیا ہو، ان امور کی بھی نشان دہی کی گئی ہے۔ اس مقالہ بلکہ کتاب کا اختتام سید ابوالحسن ندوی کے اس فکر انگیز اقتباس پر کیا گیا ہے کہ ’’جو نصاب ہندوستان میں برابر بدلتا رہا اور تغیر وترقی کے مدارج طے کرتا رہا، اس کا ایسے عہد میں جو سب سے زیادہ پرواز انقلابات ہے نہ بدلنا، ایک غیر معقول اور غیر طبعی فعل ہے۔ علمی تاریخ کا یہ ایک عجیب واقعہ ہے کہ اس نصاب کی زندگی میں وقوف وجمود کا سب سے طویل عہد وہ ہے جو سب سے زیادہ تغیر وانقلابات کا طالب ہے‘‘۔ (ص۱۷۸)
مقالات چوں کہ مختلف اوقات میں قلم بند کیے گئے ہیں اس لیے ان میں تکرار کا در آنا عین فطری ہے۔ فاضل مصنف نے مدارس کے نظام ونصاب کے تجزیہ پر ایک عمر صرف کی ہے اور صرف تجزیہ ہی پر اکتفا نہیں کیا ہے بلکہ اصلاح نصاب سے متعلق اہم اور مفید تجاویز بھی پیش کی ہیں۔البتہ کہیں کہیں یہ احساس ہوتا ہے کہ مصنف نے مدارس سے جو بلند توقعات قائم کر رکھی ہیں اور ان کے طلبہ کی ذہنی سطح کا جس مقام بلند سے مشاہدہ کرکے انہوں نے تجاویز پیش کی ہیں وہ زمینی حقائق اور مدارس کی موجودہ صورت حال میں شاید ناممکن ہیں۔ قرآن، حدیث، فقہ اسلامی، دعوت اسلامی، عربی زبان وادب، ہندوستانی تہذیب اور مغربی علوم کا مطالعہ نیز، معاصر علوم وتربیتی نظام سے متعلق مصنف نے اپنی تجاویز میں اتنے گوشوں کا ذکر کر دیا ہے کہ اگر مدارس کے نصاب میں محدود وسائل اور ماہرین فن کی قلت کے باوجود ان تمام چیزوں کی شمولیت ہوگئی اور مدارس نے ان کا حق ادا کر دیا تو یقیناً یہ اس صدی کا سب سے عظیم کارنامہ ہوگا۔
***
***
ہفت روزہ دعوت – شمارہ 19 جنوری تا 25 جنوری 2024