کسی انسان کا خدائی کا دعویٰ اس کے زوال کی نشانی

وزیر اعظم صرف جسمانی نہیں بلکہ دماغی طور پر بھی کمزوری کا شکار

ڈاکٹر سلیم خان

اپنے حیاتیاتی وجود سے انکار اور غیر مرئی طاقتوں کا حوالہ مہنگا پڑ سکتا ہے
ہندی میں ترقی کو وکاس کہتے ہیں لیکن یہ بہت مقبول عام نام بھی ہے۔ مودی نے ’سب کا ساتھ سب کا وکاس‘ کے نعرے پر اقتدار تو سنبھال لیا مگر جب کئی سالوں تک کوئی قابل ذکر ترقی نہیں ہوئی بلکہ مہنگائی اور بیروزگاری آسمان کو چھونے لگی تو خود ان کے آدرش گجرات میں ایک نیا نعرہ چل پڑا اور وہ تھا کہ’ وکاس پاگل ہوگیا ہے‘ بعید نہیں کہ وکاس پُرش کے بارے میں بھی اب یہی کہنے کی نوبت آجائے۔ وزیر اعظم آج سے دس سال قبل ایک چائے والا بن کر آئے اور اپنے آپ کو غریبوں اور مسکینوں کا نمائندہ بناکر پیش کیا۔ عام لوگوں نے یہ محسوس کیا کہ ان کے درمیان سے ایک بلکہ وہ خود وزراتِ عظمیٰ کی کرسی پر براجمان ہو رہے ہیں۔ اس کے بعد وہ مختلف بھیس بدلتے رہے کبھی چوکیدار بن کر بیٹھ گئے، کبھی فوجیوں کے درمیان جاکر دیوالی منانے لگے تاکہ ان کے ساتھ اپنی وابستگی ظاہر کرسکیں۔ ملک بھر میں بہروپیے کی مانند بھانت بھانت کے لباس پہنتے رہے۔ مغربی بنگال کا انتخاب جیتنے کے لیے رابندر ناتھ ٹیگور کی طرح لمبی داڑھی رکھ لی اور شال کندھے پر رکھ کر گھومنے لگے لیکن یہ سب انسانوں والی حرکتیں تھیں، ان کی نرگسیت اب انسانی جبلت کے حدود و قیود سے باہر نکل رہی ہے۔ پہلے تو ان کو چمپت رائے اور سمبت پاترا جیسے بھکتوں نے بھگوان بنایا اور اب خود انہوں نے بھی اس کا بلا واسطہ دعویٰ کر دیا۔
وزیر اعظم نریندر مودی ایک انسان تھے اور ہیں، لیکن گجرات میں اپنی کرسی کو بچانے کے لیے ابلیس کے جھانسے میں آکر شیطانی الفاظ کہنے لگ گئے۔ آج سے دس سال قبل وزیر اعظم بننے کے لیے انہوں نے ایک مرتبہ انسانیت کا چولا تو اوڑھ لیا تھا مگر اب دس سال کے بعد اپنا اقتدار بچانے کے لیے بھگوان ہونے کا دعویٰ کر رہے ہیں۔ وہ اپنے ایک نورا انٹرویو میں کہتے ہیں”مجھے یقین ہے کہ میں حیاتیاتی طور پر پیدا نہیں ہوا ہوں، مجھے خدا کی طرف سے ایک خاص مشن کی تکمیل کے لیے بھیجا گیا ہے“۔یہ سن کر جو لوگ حیران ہیں کہ اس پر کون یقین کرے گا تو انہیں معلوم ہونا چاہیے جس چینل پر انہوں نے یہ انٹرویو دیا اس پر سات سال قبل راجستھان میں ہائی کورٹ کے ایک جج نے نہایت مضحکہ خیز دعویٰ کیا تھا۔ جسٹس مہیش چندر شرما نے سی این این نیوز-18 کو دیے جانے والے خصوصی انٹرویو میں کہا تھا کہ ’’مور برہم چاری جانور ہے اور وہ مورنی کے ساتھ کبھی مباشرت نہیں کرتا، مورنی تو مور کے آنسو پی کر حاملہ ہوجاتی ہے۔ یہاں تک کہ بھگوان شری کرشن بھی اپنے سر پر مور کا پنکھ لگاتے تھے‘‘ ملک میں ہائی کورٹ کے جج اگر اس طرح سوچتے ہوں تو پھر غور کرنے والی بات ہے کہ مودی کے اندھ بھکتوں کا کیا حال ہوگا؟ جہاں تک کسی خاص مشن پر بھیجے جانے کا سوال ہے علامہ اقبال بھی فرماتے ہیں:
باغِ بہشت سے مجھے حکم سفر دیا تھا کیوں
کارِ جہاں دراز سوار ہے اب میرا انتظار کر
علامہ اقبال اور مودی کے درمیان بنیادی فرق یہ ہے کہ اس شعر میں ’میں‘ کا اطلاق کسی فردِ خاص کے لیے نہیں بلکہ پوری بنی نوع آدم پر ہوتا ہے نیز، اس میں کسی کے حیاتیاتی وجود ہونے کا انکار نہیں ہے۔ مودی جب گجرات سے وارانسی انتخاب لڑنے کے لیے گئے تو ان کا کہنا تھا گنگا ماتا نے بلایا ہے۔ کل تک جو گنگا کے بلانے پر اپنا صوبہ چھوڑ کر اتر پردیش چلا جاتا تھا اب بھیجنے پر آیا ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ روبیکا لیاقت نے توصرف ان کی توانائی کا راز پوچھا تھا اس سے موقع پاکر انہیں رام دیو کی کمپنی پتانجلی کے کسی چیون پراش کا پرچار کر دینا چاہیے تھا مگر آج کل رام دیو کو عدالت سے اتنی پھٹکار پڑ رہی ہے کہ وزیر اعظم مودی نے اس سے گریز کرتے ہوئے دعویٰ کر دیا کہ ’’یہ اورجا (توانائی) باقاعدہ حیاتیاتی قسم کی نہیں ہو سکتی۔ یہ ایک خدائی تحفہ ہے تاکہ اس کے ذریعے خدائی کام لیا جاسکے“۔ سوال یہ ہے کہ خدائی تحفہ سے حیاتیاتی وجود کیونکر محروم رہ سکتا ہے۔ اس کے لیے کسی کا مودی ہونا ضروری کیوں ہے؟
وزیر اعظم اگر کم گو ہوتے تو ان کے گول مول جملوں کو کھینچ تان کر ان کے بھکت کوئی نہ کوئی اچھا مطلب نکال ہی لیتے مگر انہوں نے کوئی گنجائش ہی نہیں چھوڑی، وہ بول گئے جب تک ان کی والدہ زندہ تھیں، تب تک وہ خود کو گوشت اور خون کا ایک باقاعدہ حیاتیاتی وجود سمجھنے کی غلط فہمی کا شکار تھے۔ ان کی ماں کے پَر لوک سدھارنے کے ساتھ، ایسا لگتا ہے کہ مایا کا پردہ اٹھ گیا ہے، وہم دور ہوگیا اور وہ بدھا جیسی روشن خیالی کی حالت میں پہنچ گئے ہیں۔ اب وہ اپنے حقیقی اور اصل’’الٰہی مقصد کے قائل ہوگئے ہیں‘‘۔وزیر اعظم مودی کو یہ کہنے کے بعد کہ شاید ان کو بائیولوجیکلی جنم نہیں دیا گیا، احساس ہوا کہ لوگ مذاق اڑائیں گے اس لیے وہ بولے کہ اب مجھے یقین ہو چلا ہے، میں غلط ہو سکتا ہوں، لوگ تنقید کریں گے،میرے بال نوچ لیں گے لیکن میں قائل ہو چکا ہوں کہ پرماتما نے مجھے بھیجا ہے، یہ توانائی بائیولوجیکل جسم سے نہیں ملی۔
مودی جی اپنی متضاد تقاریر سے فی الحال اس قدر بدنام ہوچکے ہیں کہ ان کے بیانات کو کوئی سنجیدگی سے نہیں لیتا۔ لوگ بس انہیں تفریح کے طور پر سن کر بھول جاتے ہیں۔ اس لیے کہ الوہیت کا دعویٰ کرنے کے فوراً بعد اگر کوئی کہہ دے کہ میں ایشور کو دیکھ نہیں سکتا، سو میں بھی ایک پجاری ہوں۔ میں بھی ایک بھکت ہوں، تو میں ملک کے 140 کروڑ باشندوں کو ایشور کا روپ مان کر چلتا ہوں، وہی میرے بھگوان ہیں‘ ایسے دیوانے کی بڑ کو سنجیدگی سے لینے والا پاگل ہو جائے گا۔ وزیر اعظم مودی کے اس بیان پر سیاست تو ہونی ہی تھی سو شروع ہوگئی۔ ممتا بنرجی نے اس پر سب سے بڑا حملہ کیا۔ انہوں نے سوال کیا ’کیا بھگوان کسی کو دنگا فساد کی سازش رچنے، اشتہار کے ذریعہ جھوٹ پھیلانے، این آر سی کی قواعد کے ذریعہ لوگوں کو جیل میں ڈالنے کے لیے بھیجتا ہے؟‘
ممتا نے یہ بھی کہا کہ ’کیا بھگوان سی اے اے کے نام پرغنڈہ گردی کرنے یا مزدوروں کی مزدوری روکنے، یا غریبوں کے گھروں کی تعمیر میں رکاوٹ ڈالنے کے لیے اپنا پیغامبر بھیجتا ہے؟ انہوں نے پوچھا کہ کیا بھگوان لوگوں کے بنک کھاتوں میں پندرہ لاکھ روپے جمع کرانے کے اپنے وعدے سے پیچھے ہٹتا ہے؟ بھگوان ایسی چیزیں نہیں کرسکتا۔ مودی کے ساتھ سمبت پاترا کو آڑے ہاتھوں لیتے ہوئے ممتا نے کہا ’اگر بھگوان جگناتھ مودی بابو کے بھگت ہیں تو کیا ہمیں ان کے نام پر مندر نہیں بنانا چاہیے۔ کیا ان کی تصویر کے سامنے پوجا کرکے پرساد نہیں چڑھانا چاہیے اور ان کے لیے ایک پجاری کا تقرر نہیں ہونا چاہیے؟ ہم یہ سب کرسکتے ہیں لیکن انہیں ایسی باتیں کرکے سیاست نہیں کرنا چاہیے۔ ایک اور موقع پر ممتا بنرجی نے کہا پی ایم مودی کو چونکہ بھگوان نے بھیجا ہے اس لیے ان کے لیے مندر میں رہنا اچھا رہے گا۔ اس مندر کو بنانے کی ذمہ داری ممتا نے خود لے لی ہے۔
کرناٹک میں صوبائی وزیر شیو راج تنگا داگی نے پیشنگوئی کی کہ اگر وزیر اعظم مودی اس بار جیت جائیں گے تو ہر جگہ ان کے مندر بننے لگیں گے۔ رام مندر بن چکا اور بھی بن رہے ہیں اس لیے اب وہ کہیں گے میرا اپنا مندر بھی بننا چاہیے۔ ویسے جہاں تک مودی مندر کا تعلق ہے اس کے لیے مودی کو کہنے کی ضرورت نہیں ہے اور نہ ممتا بنرجی کی زحمت درکار ہے۔ مدھیہ پر دیش کے شہر گوالیار میں ان کا مندر پہلے ہی موجود ہے۔ وہاں پر وزیر اعظم مودی کے ساتھ سابق وزیر اعظم اٹل بہاری واجپائی اور وجئے راجے سندھیا کی مورتیاں بھی لگی ہوئی ہیں۔ اس مندر میں لوگ مودی کا درشن اور پوجا کرتے ہیں۔وزیر اعظم نریندر مودی کی حلف برداری کو نو مہینے کیا ہوئے کہ گجرات کے شہر راجکوٹ میں ان کا مندر بن کر تیار ہوگیا۔ مرکزی وزیر اور راجکوٹ کے رکن پارلیمنٹ موہن کندریا نے اس کا باقاعدہ افتتاح بھی کر دیا تھا۔ اس کا مطلب یہ تھا کہ ایک روح انسان اور مورتی دونوں میں براجمان ہو گئی تھی۔ شاید اسی کو ’ایک جان دو قالب‘ کہتے ہیں۔
مودی پر اس وقت تک اقتدار کا نشہ نہیں چڑھا تھا اور ان کی ماتا بھی بقید حیات تھیں اس لیے وہ خود کو ایک انسان سمجھتے تھے لیکن اب زمانہ بدل گیا ہے۔ انہوں نے ٹوئٹر پر اس حرکت کو ناپسند کیا تھا اور اپنے مداحوں کو سوچھّ بھارت مہم پر اپنا وقت صرف کرنے کا مشورہ دیا تھا۔ اس زمانے میں مودی پر صفائی کا ایسا جنون سوار تھا کہ انہوں نے ایک تقریب میں کہہ دیا تھا ’پہلے شوچالیہ (بیت الخلا) اور اس کے بعد دیو آلیہ (مندر)‘ اس پر بہت سارے سادھو سنتوں نے اعتراض بھی کیا مگر مودی نے ان کی پروا نہیں کی۔ مودی کی ناراضگی کے بعد راجکوٹ کے مندر میں ان کی جگہ بھارت ماتا کی مورتی لگانے کا فیصلہ کیا گیا مگر جب انتظامیہ کو پتہ چلا کہ سارا معاملہ ہی غیر قانونی ہے لہٰذا اس لیے اسے توڑ دیا گیا۔ مندر بنانے کا ارادہ کرنے والے بی جے پی کے رکن رمیش ادھنڈ نے اس پر اپنے رنج و غم کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ اگر ہمارے دیوتا نا خوش ہیں تو اہم ان کی مورتی ہٹاطدیں گے اور اپنے دل میں ان کی پوجا کریں گے۔ عوام میں شرک کی جڑیں اس قدر گہری ہوں تو ان سے کسی خیر کی توقع بہت مشکل ہو جاتی ہے۔
گجرات تو خیر مودی کی جنم بھومی ہے لیکن ان کی کرم بھومی اتر پردیش کے ضلع کوشمبی میں شیولنگ کے ساتھ مودی کی مورتی رکھ دی گئی اور صوبائی انتخابات میں بی جے پی کی جیت کے لیے وہاں پوجا پاٹ بھی شروع کردی گئی۔ دو سال قبل نمو مندر کی خبر ذرائع ابلاغ میں آ گئی تھی لیکن مودی نے اس پر ناراضگی ظاہر نہیں کی۔ مندر کے پجاری اور وی ایچ پی کے رکن برجیندر نارائن کا دعویٰ ہے کہ اس مندر میں پوجا کرنے سے ہی 2014 میں مرکزی حکومت بنی اور 2017 میں بی جے پی کو یو میں اکثریت ملی۔پجاری کے مطابق 2014 سے قبل ہی مودی کی مورتی لگا کر اسے نمو مندر کا نام دے دیا گیا تھا۔ اس کے مطابق چونکہ وہ مندر میں ہر دن شیو تانڈو اور مہا مرتیونجے کا جاپ کرتا ہے اس لیے مودی کی ساری مشکلات دور ہوجاتی ہیں اور موصوف پورے ملک کی مشکلات دور کر دیتے ہیں۔
برج نارائن مشرا نے اس طرح بڑی چالاکی سے مودی کے سارے کارناموں کا کریڈٹ خود لے لیا۔ اب مشرا نے یہ قسم کھائی ہے کہ جب تک وزیر اعظم مندر میں نہیں آئیں گے تب تک یگیہ مکمل نہیں ہوگا اور جب بھی نریندر مودی بھگوان پور گاؤں میں آئیں گے وہ گیارہ سو دوشیزاوں کو کھانا کھلانے کے بعد سوا کوئنٹل لڈو بانٹ کر آہوتی مکمل کریں گے۔ ویسے اگر مودی انتخاب ہار جائیں تو بعید نہیں کہ مشرا، مودی کی بغل میں راہل کی مورتی لگا کر کوئی نئی قسم کھالیں ۔ہندو دھرم میں پہلے ہی تینتیس کروڑ دیوی دیوتا ہیں اب اس میں دوچار نئے بڑھ جائیں تو کیا فرق پڑتا ہے۔ موجودہ تنازع کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ وزیر اعظم نے اپنی عمر کا خیال کیے بغیر ایک نہایت طویل انتخابی نظام الاوقات بنوا دیا۔ انہوں نے سوچا ہوگا کہ آٹھ ہزار کروڑ کے جہاز میں کوئی زحمت نہیں ہوگی لیکن کبر سنی کا علاج تو لقمان حکیم کے پاس بھی نہیں تھا۔
حالیہ الیکشن اگر تین چار مراحل میں ہو جاتا تو مذکورہ انٹرویو کی نوبت ہی نہیں آتی اور روبیکا لیاقت ان سے یہ سوال ہی نہیں کرتیں کہ ’انتخابات کو لے کر آپ گھبرائے ہوئے کیوں ہیں؟‘۔ ایسا سوال پہلے کسی نے وزیر اعظم مودی سے نہیں کیا تھا کیونکہ وہ اس قدر تھکے ماندے کبھی بھی نظر نہیں آئے۔ اس کے جواب میں مودی نے اپنی تھکاوٹ کی طرف سے توجہ ہٹاتے ہوئے کہا کہ نروسنیس کا لفظ ان کی ڈکشنری میں نہیں ہے۔ یعنی چور کی ڈاڑھی میں تنکا کی مصداق انہوں نے اپنی نروسنیس کا اعتراف کرلیا اور بولے کہ میں نے اپنی زندگی میں تپسیا کی ہے۔ میں نے اپنی زندگی کا ہر لمحہ اپنے ہم وطنوں کے لیے صرف کیا ہے۔ اور میں نے یہ سب اس لیے کیا ہے کہ ہمارے ملک کے لوگ اس کے مستحق ہیں۔ ان کے ساتھ ستر سال تک نا انصافی ہوئی ہے۔ جب کوئی ان کے آنسو پونچھتا ہے، کوئی ان کے بیت الخلاء کی فکر کرتا ہے تو ان باتوں کو وہ بھول نہیں سکتا ہے یعنی فلاح و بہبود کے کام بے لوث نہیں بلکہ احسان مند بنا کر ووٹ بٹورنے کی ترکیب ہے۔
وزیر اعظم آگے اپنے احسانات گنواتے ہوئے کہتے ہیں کہ کورونا کے مشکل وقت میں انہوں نے کسی گھر کا چولہا بجھنے نہیں دیا تھا۔ بچوں کو بھوکا سونے نہیں دیا تھا۔ ان تمام کاموں کی وجہ سے لوگوں کا حکومت پر اعتماد بڑھا ہے اور یہی اعتماد انہیں توانائی دیتا ہے۔ روبیکا لیاقت نے دیکھا کہ گھبراہٹ کی آڑ میں سوال کرنے سے بات نہیں بن رہی ہے تو سیدھا پوچھ لیا ’پانچ سال پہلے میں نے آپ سے سوال کیا تھا کہ آپ تھکتے کیوں نہیں؟ پانچ سال پہلے کے مقابلے میں مجھے آپ زیادہ توانا نظر آرہے ہیں، آپ نے زیادہ ریلیاں نکالی ہیں، آپ زیادہ کام کر رہے ہیں، آپ واقعی تھکتے کیوں نہیں؟‘ مودی کو پانچ سال پہلے کے مقابلے میں زیادہ توانا وہی کہہ سکتا ہے جس کی آنکھوں پر عقیدت اور دولت کی عینک لگی ہو۔ ان کے مچھلی، مٹن، منگل سوتر، بھینس، ٹونٹی اور مجرے والے بیانات چیخ چیخ کر کہہ رہے ہیں کہ وزیر اعظم نہ صرف جسمانی طور پر ٹوٹ چکے ہیں بلکہ دماغی طور پر بھی دیوالیہ پن کا شکار ہو چکے ہیں اور ان کمزوریوں کو الوہیت کی چادر سے ڈھانپا جارہا ہے۔ ان بیانات کے باوجود اگر وہ انتخاب جیت جاتے ہیں تو ملک کی معیشت کا توازن بگڑ جائے گا اور عوام کا کیا حشر ہوگا کوئی نہیں جانتا لیکن یہ بات طے ہے کہ وہ کوشمبی کے بھگوان نگر کے مندر میں جا کر برج نارائن مشرا کی من کی مراد پوری کردیں گے۔
(ڈاکٹر سلیم خان نیوکلیر کیمسٹری میں پی ایچ ڈی ہیں جن کی تحریریں ملک و بیرونِ ملک بڑے پیمانے پر پڑھی جاتی ہیں۔)
***

 

***

 


ہفت روزہ دعوت – شمارہ 02 جون تا 08 جون 2024