کسانوں پر ٹیکس عائد کرنے کا شوشہ

کہیں یہ آنے والے طوفان کا پیش خیمہ تو نہیں؟

زعیم الدین احمد، حیدرآباد

وزریر اعظم کے معاشی مشیر کے مشورے کا جائزہ
یہ باتیں اکثر سننے میں آتی رہتی ہیں کہ کسانوں کو ان کی پیداوار کی صحیح قیمت نہیں ملتی کیونکہ ان کی پیداوار صحیح قیمت پر فروخت نہیں ہوتی۔ کسان سودی قرض میں مبتلا ہیں، کسان مختلف مسائل کا شکار ہیں جن کی وجہ سے وہ خودکشیاں کر رہے ہیں وغیرہ، لیکن ہم نے آج تک یہ نہیں سنا ہے کہ کسانوں کو ان کی زرعی کمائی پر بھی ٹیکس عائد کیا جائے۔ ہمارے ملک میں زراعت سے ہونے والی آمدنی پر راست طور پر ٹیکس عائد نہیں کیا جاتا۔ ویسے ملک کا ہر شہری کسی نہ کسی صورت میں ٹیکس ادا کرتا ہے مگر آمدنی پر ٹیکس کی چھوٹ صرف کسانوں کو ہی حاصل ہے۔ پچھلے دنوں یعنی 21 جنوری کو انڈین ایکسپریس اخبار میں ویویک دیورائے کا ایک مضمون شائع ہوا تھا جو وزیر اعظم مودی کے خاص آدمیوں میں سے ہیں، یہ موصوف وزیراعظم کو معاشی امور پر مشورے دینے والی مشاورتی کمیٹی کے سربراہ ہیں۔ انہوں نے اپنے مضمون ’’دی نسیسیٹی آف ٹیکسنگ فارمرس انکم‘‘ میں لکھا ہے کہ کسانوں کو زرعی آمدنی پر ٹیکس عائد کرنا کیوں ضروری ہے۔ ہم نے اکثر سیاسی قائدین کی تقریروں میں سنا یا مضمون نگاروں کے مضامین میں یہ پڑھا ہے کہ کیسے کسانوں کی آمدنی میں اضافہ کیا جا سکتا ہے، کیسے ان کو فائدہ پہنچایا جائے اور کیسے ان کی مالی مدد کی جائے وغیرہ۔ دوسری طرف وزیراعظم کا کسانوں کو فائدہ پہنچانے والا ایک وعدہ ’’کسانوں کی آمدنی دوگنی‘‘ کرنے کا بھی ہے۔ کسانوں کی آمدنی دوگنی تو نہیں ہوئی الٹا ان کی آمدنی پر ٹیکس عائد کرنے کی تجویز پیش کی جارہی ہے۔ یہ مضمون کسی عام آدمی کا نہیں ہے بلکہ اس شخص کا ہے جو وزیراعظم کو معاشی امور میں مشورے دینے والی کمیٹی کا سربراہ ہے۔ اگر ایسے پراگندہ خیالات والے شخص کے مشورے پر عمل کیا جائے گا تو سوچیے کہ ملک کی حالت کیا ہو گی۔ اس سے قبل بھی انہوں نے پولیس کے ایک رنگی یونیفارم پر مضمون لکھا تھا جسے وزیراعظم مودی نے پولیس کے ایک اجتماع میں دہرایا تھا۔ یہ ممکن نہیں ہے کہ یہ مضمون بھی ان کی اجازت کے بغیر لکھا گیا ہو گا، کیونکہ ایسے شخص سے یہ امید نہیں کی جاسکتی جو وزیراعظم کو معاشی امور پر مشورے دیتا ہو کہ ایسی بات کہے جو ملک میں طوفان برپا کر دے۔ کمال ہوشیاری کے ساتھ انہوں نے کسانوں پر ٹیکس عائد کرنے کی بات کہہ دی۔ انہوں نے کہا کہ کسانوں پر ٹیکس عائد کرنے کا اختیار چوں کہ ریاستوں کو ہے اس لیے انہی کو کسانوں پر ٹیکس عائد کرنے کے بارے میں سوچنا چاہیے۔ اگر کوئی غیر بی جے پی ریاست حکومت ان کے مشورے پر عمل کرتے ہوئے کسانوں پر ٹیکس عائد کرتی ہے تو کیا بی جے پی کی ریاستی اکائی خاموش بیٹھے گی؟ کیا وہ ریاست بھر میں دھرنے اور احتجاج منظم نہیں کرے گی؟ یقیناً کرے گی۔ ایک طرف حکومت کو معاشی امور پر مشورے دینے والی کمیٹی کے سربراہ کسانوں پر ٹیکس عائد کرنے کا مشورہ بھی دے رہے ہیں اور اگر کوئی ریاستی حکومت اس مشورے پر عمل کرتے ہوئے ٹیکس عائد کرتی ہے تو وہی حکمران جماعت اس کی مخالفت بھی کرتی ہے۔ مثلا راجستھان یا تلنگانہ کی حکومتیں کسانوں پر ٹیکس عائد کرتی ہیں تو کیا بی جے پی خاموشی سے اسے قبول کرلے گی؟ کتنی عجیب بات ہے کہ کسانوں پر ٹیکس عائد بھی ہو اور ریاستی حکومتیں اس کے غضب کا نشانہ بھی بنیں اور مرکزی حکومت ان دونوں کے درمیان ہونے والی لڑائی کا مزہ لیتی رہے؟ اگر ریاستیں کسانوں پر ٹیکس عائد کرتی ہیں تو مرکزی حکومت بھی اس میں اپنی حصہ داری کا دعویٰ کرے گی یعنی کسانوں کی نگاہ میں وہ پاک پوتر بھی بنی رہے گی اور میوہ بھی کھاتی رہے گی۔ مسٹر بی ویویک دیورائے! آپ وزیراعظم کو معاشی امور پر مشورے دینے والے ہیں، ریاستی حکومتوں کے مشیر نہیں ہیں۔ انہوں نے ایک اور عجیب بات کہی کہ دنیا میں سب سے متمول ترین گاؤں ہمارے ملک بھارت میں ہی ہیں۔ واقعی بڑی تعجب خیز بات ہے کہ دنیا کے امیر ترین ’’رچیسٹ‘‘ ویلیج اگر کہیں ہیں تو بھارت میں ہیں؟ سوچیے کہ وزیراعظم کا معاشی امور پر مشورے دینے والی کمیٹی کا سربراہ ایسی بے سروپا اور حقیقت سے بعید باتیں کرے گا تو ملک کا مستقبل کیا ہوگا؟ ان کی اس قسم کی باتوں سے اندازہ ہوتا ہے کہ انہوں نے کبھی کسی گاؤں کا دورہ کیا ہی نہیں ہوگا۔ اگر وہ کبھی کسی گاؤں کا دورہ کرتے تو ایسی گمراہ کن باتیں نہ کرتے۔ اگر آپ نے قریب کے کسی گاؤں کا دورہ کیا ہے تو کیا آپ ان کے اس دعویٰ کی تصدیق کر سکتے ہیں؟ ہم میں سے ننانوے فیصد لوگ جانتے ہیں کہ گاوؤں کی صورت حال کیا ہے۔ ملک کے بیشتر گاؤں ایسے ہیں جہاں کے باسیوں کو بنیادی سہولتیں تک میسر نہیں ہیں، پینے کے لیے صاف پانی نہیں، بہتر علاج کے لیے دوا خانے نہیں۔ کیا آپ نے کسی نے گاؤں میں بڑے بڑے کارپوریٹ ہسپتال دیکھے ہیں؟ زراعت سے کسانوں کے گھروں کے اخراجات پورے نہیں ہوتے، وہ اپنے گھروں میں چولہے جلانے کے لیے شہروں میں محنت مزدوری کرنے پر مجبور ہیں۔ نہ گاؤں میں اچھی سڑکیں ہیں نہ بازار، نہ اچھے اسکول ہیں جہاں ان کے بچے اچھی تعلیم حاصل کر سکیں۔
مسٹر بی ویویک دیورائے! کبھی آپ اپنی چمچماتی اے سی کار سے اتر کر کچی راہداری سے ہوتے ہوئے کسی گاؤں کا دورہ کیجیے تو آپ کو معلوم ہوگا کہ گاوؤں میں کتنے امیر بستے ہیں؟ شاید آپ گاوؤں کی زمینوں میں پائے جانے والے معدنیات کی وجہ سے انہیں امیر سمجھ رہے ہیں؟ کیا زمین میں موجود معدنیات سے گاؤں والے امیر ہو جائیں گے؟ آپ پہلے وہاں کے حالات دیکھ کر آئیے پھر بات کیجیے۔ اور جناب! آپ وزیراعظم صاحب کو ایسے مشورے نہ دیجیے کہ جب کبھی وہ امپورٹیڈ کاروں کے قافلے کے ساتھ کسی ’’امیر‘‘گاؤں سے گزریں تو ایک دیوار چن دی جائے تاکہ انہیں وہاں کی "امیری” نظر نہ آنے پائے۔ ایسا شخص جس نے کبھی گاؤں کی صورت نہ دیکھی ہو وہ اگر وزیراعظم کے معاشی امور پر مشورے دینے والی کمیٹی کا سربراہ ہوگا تو ملک کا خدا ہی حافظ ہے۔ وہ ایک اور مضحکہ خیز دلیل یہ پیش کرتے ہیں کہ کیا 1860 میں یہ منصوبہ نہیں تھا کہ کسانوں پر ٹیکس عائد کیا جائے، کیا اب کا کسان اس وقت کے کسان سے کم کماتا ہے؟ کیا اب کا کسان اس وقت کے کسان سے زیادہ مالدار نہیں ہے؟ پھر کیوں ان پر ٹیکس عائد نہیں کرنا چاہیے؟ موصوف کو یہ بات معلوم ہونی چاہیے کہ 1860 میں کسان نہیں تھے اس وقت زمینداری کا نظام تھا، جاگیردارانہ نظام قائم تھا۔ اس وقت ملک میں پچھتر فیصد کسان ایسے ہیں جو پانچ ایکڑ سے کم زمین کے مالک ہیں۔ جب کہ اس کے برعکس اس وقت زمیندار ہوا کرتے تھے جن کے پاس سیکڑوں ایکڑ زمین ہوتی تھی، بعض ایسے زمیندار بھی تھے جو پورے گاؤں کے مالک ہوتے تھے۔ ان جیسے زمینداروں کے خلاف ہی تو ملک میں کسانوں کی تحریکیں چلیں۔ شاید انہیں ملک کی تاریخ بھی نہیں معلوم ہوگی، نہ وہ ان تحریکوں کے بارے نہیں جانتے ہوں گے۔ وہ مزید یہ کہتے ہیں کہ 1860 میں انگریزوں نے کسانوں پر ٹیکس عائد کیا تھا تو آج ہمیں ان پر ٹیکس کیوں عائد نہیں کرنا چاہیے؟ اس وقت کے انگریزوں کے بنائے ہوئے بعض قوانین اب بھی ملک میں رائج ہیں تو یہ قانون کیوں نافذ نہیں کیا جانا چاہیے؟
ایک طرف وزیراعظم کہہ رہے ہیں کہ غلامی کے سارے آثار (کلونیل لگیسی) کو مٹا دینا چاہیے، اسی وجہ سے انہوں نے پارلیمنٹ کی نئی عمارت کی تعمیر کا منصوبہ بنایا ہے، انہوں نے یہی تو کہا تھا کہ یہ عمارت انگریز کی غلامی کی علامت ہے، اسی لیے تو انہوں نے اس کا نام راج پتھ سے بدل کر "کرتویہ پتھ” رکھا ہے۔ راج پتھ کے معنی راجاؤں کی راہ داری ہے۔ چونکہ ہم اب ایک آزاد جمہوری ملک ہیں، یہ نام ہمیں غلامی کی یاد دلاتا ہے اسی لیے اس کا نام تبدیل کیا گیا ہے۔ ہر اس سڑک کا نام تبدیل کیا جائے گا جس سے غلامی کی بو آتی ہے۔ ایک طرف پی ایم مودی انگریزوں کی غلامی کے آثار کو مٹانے کی بات کر رہے ہیں لیکن دوسری طرف ان کو معاشی امور پر مشورے دینے والی کمیٹی کے سربراہ انگریزوں کے بنائے ہوئے قوانین کو نافذ کرنے کی پرزور وکالت کر رہے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ ملک میں آزادی کے بعد بھی مختلف ریاستوں میں طویل عرصے تک انگریزوں کے بنائے ہوئے قوانین نافذ تھے۔ حیدرآباد اور بنگال میں زرعی ٹیکس عائد تھے تو اب کیوں نہیں ہوسکتے ہیں؟ جناب دیبرائے صاحب! آپ کو معلوم ہونا چاہیے کہ جس زمانے میں زرعی ٹیکس عائد کیے گئے تھے اس زمانے میں ان ریاستوں میں جاگیرداری نظام رائج تھا۔ تو کیا آپ اس نظام کو واپس لانے والے ہیں؟ وزیراعظم کو اپنے معاشی مشیر کے بیان پر نوٹ لینا چاہیے، ان سے پوچھنا چاہیے کہ کیا اس دعوے کے پیچھے ان کے کوئی منطقی دلائل ہیں؟ کیا انہوں نے کسانوں کے گھرانوں کا کوئی الگ سے سروے کیا ہے جو اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ ان پر ٹیکس عائد کیا جائے؟ وزیراعظم نے اگر اس پر ان سے کوئی گرفت نہیں کی تو اس کا صاف مطلب یہ نکلتا ہے کہ وہ بھی اس کی تائید کرتے ہیں، وہ بھی شاید یہی چاہتے ہیں کہ کسانوں کی زرعی آمدنی پر ٹیکس عائد کیا جائے۔ ایک طرف کارپوریٹ انکم ٹیکس کم کیا جارہا ہے تو دوسری طرف کسانوں کی آمدنی پر ٹیکس عائد کیے جانے کی وکالت ہو رہی ہے۔ اس سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ یہ حکومت صرف اور صرف ساہو کاروں کی حکومت ہے، یہ کسان مخالف، غریب دشمن حکومت ہے۔

 

***

 ایک طرف حکومت کو معاشی امور پر مشورے دینے والی کمیٹی کے سربراہ کسانوں پر ٹیکس عائد کرنے کا مشورہ بھی دے رہے ہیں اور اگر کوئی ریاستی حکومت اس مشورے پر عمل کرتے ہوئے ٹیکس عائد کرتی ہے تو وہی حکمران جماعت اس کی مخالفت بھی کرتی ہے۔ مثلا راجستھان یا تلنگانہ کی حکومتیں کسانوں پر ٹیکس عائد کرتی ہیں تو کیا بی جے پی خاموشی سے اسے قبول کرلے گی؟ کتنی عجیب بات ہے کہ کسانوں پر ٹیکس عائد بھی ہو اور ریاستی حکومتیں اس کے غضب کا نشانہ بھی بنیں اور مرکزی حکومت ان دونوں کے درمیان ہونے والی لڑائی کا مزہ لیتی رہے؟


ہفت روزہ دعوت – شمارہ 05 فروری تا 11 فروری 2023