خان سعدیہ ندرت امتیاز خان۔ پوسد، مہاراشٹر
انسان معاشرے میں زندگی گزارتا ہے اور اس معاشرے میں مختلف مذاہب، زبانوں، تہذیب، افکار و خیالات کے لوگ ایک ساتھ زندگی گزارتے ہیں۔۔ وہ لوگوں سے ملتا جلتا ان سے باتیں کہتا اور ان کی باتیں سنتا ہے ایسا ہر معاشرے میں ہوتا ہے مگر نئے زمانے میں انسان اب معاشرے کی بھیڑ میں رہ کر خود کو اکیلا سمجھتا ہے اب چونکہ انسان کے اندر تحفّظِ ذات اور اظہار خودی کا فطری جذبہ موجود ہوتا ہے لہٰذا ہر شخص اپنے جسمانی وجود کی بقا کے لیے فکر مند ہوتا ہے۔
انسان کو اچھے برے حالات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ انسان پر جیسا ماحول آتا ہے وہ اپنے آپ کو اس ماحول میں ڈھالنے کی کوشش کرتا ہے اور یہی کوشش اسے زندہ بھی رکھتی ہے۔ زندگی کا ارتقا صرف زمین پر نہیں ہوتا اس کا سفر زمین سے آسمان کی طرف بھی بڑھتا ہے۔ اس سفر میں زمانہ خاص طور پر انسان کو مٹانے کے درپے ہوتا ہے عزمِ مصمم ہو تو انسان زمانے کے جبر کا مقابلہ کرتا اور ہر طرح کے دباؤ سے بچ کر نکلتا ہے، یہاں تک کہ موت آنے پر بھی نہیں مرتا یعنی انسان بھلے ہی اس دنیائے فانی سے چلا جائے لیکن زندگی میں اس نے جو کارنامے انجام دیے ہیں ان کی یادیں زندہ رہتی ہیں۔
بنیادی طور انسان کی یہ فطرت ہوتی ہے کہ وہ اپنی زندگی کی راہ میں آنے والی بڑی سے بڑی مصیبت اور رکاوٹ کا حوصلہ مندی سے سامنا کرتا ہے اور جبر کے آگے ڈٹ کر زندگی کا ثبوت دیتا ہے۔ انسان کا عزم، حوصلہ اس سے بڑے بڑے کارنامے کروا دیتا ہے یہاں تک کہ وہ خلاؤں میں سفر اور سیاروں پر کمند ڈال دیتا ہے۔ انسان اپنے مقصد کے حصول کے لیے اپنے حوصلے، ہمت اور عزم کے بل پر ساری مصیبتوں سے لڑتا ہوا اپنی زندگی کو منواتا ہے مگر یہ کام وہی انسان کرسکتے ہیں جو اپنی فطرت کی آواز کو سن کر اس پر لبیک کہتے ہیں۔
آج ہماری کمزوری کی اصل وجہ یہ ہے کہ قوم نے مقصد کا شعور کھو دیا ہے اور ہم ایک بے مقصد گروہ ہو کر رہ گئے ہیں۔ افراد ہوں یا اقوام وملل ان کے اندر مقصد حیات کا شعور پیدا کرنا لازمی ہے کیونکہ مقصد کا صحیح شعور آدمی کی چھپی ہوئی قوتوں کو جگا دیتا ہے اور وہ اس کو بالکل نیا انسان بنا دیتا ہے۔ اس دنیا کی انتہائی معلوم حقیقت یہ ہے کہ یہ دنیا عمل اور مسابقت کی دنیا ہے یہاں ہر فرد کو اپنے سارے کام آخر تک خود ہی کرنے پڑتے ہیں اور دوسروں کا مقابلہ کرتے ہوئے زندگی کا ثبوت دینا ہوتا ہے اس کے بعد ہی یہ ممکن ہے کہ اسباب کی اس دنیا میں ہم کو اپنی مطلوبہ جگہ مل سکے۔
انسان اس دنیا سے رخصت ہو جاتے ہیں لیکن انسانوں کے خواب اور ان کے بڑے مقصد ہمیشہ زندہ رہتے ہیں۔ انسان کو جو چیز زندگی میں متحرک کرتی ہے وہ اس کے بڑے خواب اور مقصد ہوتے ہیں جو اس کی اندرونی صلاحیتوں کو جِلا بخشتے ہیں جس کے لیے آدمی ہر قسم کی قربانیوں پر آمادہ ہو جاتا ہے اور نتیجتاً وہ بڑے پائے کا انسان بن جاتا ہے۔ افراد ملت کو چاہیے کہ وہ ماضی اور حال کو پہچانیں، اختلافات کے باوجود متحد ہونا جانیں اور شخصی مفادات اور وقتی جذبات سے اوپر اٹھ کر نئی تاریخ رقم کرنے والے بنیں۔
اندھیرے سے لڑائی کا یہی اَحسن طریقہ ہے
تمہاری دسترس میں جو دیا ہو وہ جلا دو
***
***
ہفت روزہ دعوت – شمارہ 29 جنوری تا 04 فروری 2023