ابن ایاز شاہ پوری
حقیقت سے فرار اور بے وزن دلائل کا انبار
بھارت میں الیکشن کا ماحول ہو اور جھوٹے وعدوں، باہمی الزام تراشیوں اور بیان بازیوں کا بازار گرم نہ ہو ایسا کم ہی دیکھنے کو ملتا ہے۔ ان حالات میں تقریباً تمام ہی نیوز چینلس مختلف موضوعات اور مناسبتوں سے الگ الگ شخصیات کے ساتھ جداگانہ پروگرامس ترتیب دیتے رہتے ہیں۔اسی سلسلے کی ایک کڑی ٹی وی 9 کا وہ پروگرام بھی ہے جو گزشتہ دنوں گجرات الیکشن کے ضمن میں گجرات سَتّا سمّیلن کے زیر اہتمام "مہاپرشوں پر مہابھارت کیوں” کے نام سے منعقد ہوا تھا جس میں گجرات میں 27 سال سے برسر اقتدار رہنے والی پارٹی کے ترجمان سدھانشو ترویدی اور حزب مخالف کانگریس پارٹی کی جانب سے روہن گپتا مدعو تھے۔
جب دو مخالف نظریات کے حاملین آمنے سامنے ہوں، ساتھ میں دور جدید کے ٹی وی اینکرس بھی موجود ہوں اور زمانہ الیکشن کا ہو تو پھر بدمزگی اور تلخیوں سے بھر پور بحث و تکرار یقینی ہے اور ہوا بھی کچھ ایسا ہی۔
پروگرام کے آغاز میں ہی سدھانشو ترویدی کے ایک متنازعہ بیان کا تذکرہ کیا گیا جس میں انہوں نے چھتر پتی شیواجی کا موازنہ متنازعہ شخصیت ساورکر سے کیا تھا جس پر بہت ہنگامہ برپا ہوا تھا۔ کانگریس کے روہن گپتا نے جب سدھانشو سے عوامی پلیٹ فارم پر سرِ عام معافی مانگنے کا مطالبہ کیا تو نوبت تُو تُو مَیں مَیں تک پہنچ گئی اور روہن گپتا کو مجبوراً پروگرام چھوڑ کر جانا پڑا۔ اور اب سدھانشو کے لیے میدان صاف تھا چنانچہ انہوں نے اس پروگرام میں جھوٹ و سچ کا جو امتزاج پیش کیا وہ کسی دلچسپ ناول کا حصہ لگتا ہے۔ آدھی ادھوری تاریخ پیش کرنا، تھوڑا جھوٹ بیان کر دینا، تھوڑا سچ کہہ دینا اور آدھے سچ کو پیش کر کے بقیہ آدھے کو عمداً نظر انداز کر دینا اور ساتھ ہی حقائق کو توڑ مروڑ کر پیش کرنا ایسا فن ہے جس میں سنگھی ماہر نظر آتے ہیں۔
حالیہ دنوں اشوک کمار پانڈے نامی ایک یوٹیوبر نے اپنے یوٹیوب چینل پر (https://youtu.be/HW9ytTpS4kM) ’دی کریڈیبل ہسڑی‘ کے نام سے ٹی وی 9 کے پروگرام میں سدھانشو کے جانب سے پیش کیے گئے نام نہاد حقائق اور بے تکُے سوالات کا پردہ فاش کرتے ہوئے بہترین تجزیہ کیا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ سدھانشو نے کہا کہ 1857ء کے غدر کو آزادی کی پہلی لڑائی کہنے والے سب سے پہلے شخص ساورکر ہیں۔ لیکن عالمی تاریخ کا مطالعہ کرتے ہوئے اشوک کمار پانڈے کہتے ہیں کہ یہ سراسر غلط ہے کیوں کہ سب سے پہلے اس معاملے کو بیان کرنے والی شخصیت کارل مارکس کی ہے، انہوں نے جو باتیں کہی تھیں وہ باقاعدہ نیویارک ٹائمز میں بھی شائع ہوئیں اور بعد میں ان تمام کو اکھٹا کرکے ایک کتاب بھی ترتیب دی گئی جس کا نام تھا 1857 The First Independence War Of India لہذا ان کا ماننا ہے کہ سدھانشو نے ساورکر کی بڑائی بیان کرنے کے لیے بے بنیاد بات کہی ہے۔ اسی طرح سدھانشو نے ایک اور بات کہی کہ ساورکر وہ پہلے آدمی تھے جنہیں دو مرتبہ عمر قید کی سزا سنائی گئی تھی۔
اس پر تجزیہ نگاریہ کہتے ہیں ہو سکتا ہے کہ ساورکر دو مرتبہ عمر قید پانے والے پہلے شخص رہے ہوں لیکن اس بات کو بڑھا چڑھا کر پیش کرنے والے یہ کیوں فراموش کر دیتے ہیں کہ ساور کر ہی وہ پہلے آدمی تھے جنہوں نے تقریباً سات مرتبہ انگریزوں کی خدمت میں معافی نامہ پیش کیا تھا اور ان کی پہلی درخواست تو صرف چھ مہینوں کے اندر ہی فرنگیوں کے پاس پہنچ گئی تھی۔ اسی طرح ان کی بیوی نے بھی باقاعدہ ایک درخواست الگ سے داخل کی تھی۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ ایک خاص مقصد کے تحت سدھانشو نے آدھا سچ بیان کیا اور آدھا چھپا دیا۔
ٹی وی 9 کے اسی پروگرام میں سدھانشو کہتے ہیں کہ 1910ء میں کانگریس کے صدر ایک انگریز ولیم ویڈربرن تھے، اور یہ بات کہہ کر انہوں نے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی ہے کہ کانگریس کے بھارتی کارکنان تو انگریزوں کے ماتحت تھے یا وہ انگریزوں کی چاپلوسی کیا کرتے تھے، جب کہ حقیقت یہ ہے کہ ولیم ویڈربرن کا شمار ان چنندہ فرنگیوں میں ہوتا ہے جو بھارتیوں پر کیے جانے والے بے جا مظالم سے نالاں تھے اور بھارتیوں سے انہیں دلی ہمدردی تھی۔ اگر ایسے کسی شخص کو سیاسی مصالح کے پیش نظر صدر بنایا گیا تو اس میں کیا مضائقہ ہے؟ خیر یہ مان لیتے ہیں کہ ولیم ویڈربرن کو صدر نہیں بنایا جانا چاہیے تھا کیوں کہ وہ ایک انگریز تھے لیکن سدھانشو کا اس معاملے میں راہول گاندھی، پورے گاندھی خاندان اور نہرو وغیرہ کو مورد الزام ٹھہرانا کہاں تک درست ہے؟ کیوں کہ جس وقت ولیم ویڈربرن کانگریس کے صدر تھے اس وقت کی کانگریس وہ کانگریس نہیں تھی جو 1920ء یا 1925ء کے بعد تھی۔ اس وقت کانگریس میں نہ تو نہرو شامل تھے نہ گاندھی جی کی افریقہ سے واپسی ہوئی تھی، نہ اس وقت کانگریس میں مولانا آزاد تھے اور نہ ہی سردار پٹیل جیسے لوگ تھے بلکہ 1910ء کے آس پاس کی کانگریس کا اگر جائزہ لیا جائے تو اس دوران اس کے اہم لیڈروں میں لوک مانیا تلک اور مدن موہن مالویہ جیسی لوگ نظر آتے ہیں بلکہ مؤخر الذکر تو کانگریس کے صدر بھی رہ چکے ہیں، اور ان کا شمار اس ہندو مہا سبھا کے بانیوں میں بھی ہوتا ہے جس کے صدر بعد میں ساورکر ہوئے جن کے اقدار و روایات سے بھاجپا خود کو جوڑتی ہے۔ الغرض بات چل رہی تھی ولیم ویڈربرن کے صدر بنائے جانے کی تو سابقہ پس منظر میں غیر جانب دارانہ نظریہ تو یہی کہتا ہے کہ ولیم ویڈربرن کے سلسلے میں اگر سوال کیا جا سکتا ہے تو تلک اور موہن مالویہ جیسوں کے بارے بھی کیا جانا چاہیے کہ آخر ان کی موجودگی میں ایک انگریز کانگریس کا صدر کیسے بن گیا؟ لیکن حد ہے کہ یہاں الٹا چور کوتوال کو ڈانٹے والا معاملہ ہے۔
اسی طرح سدھانشو نے کانگریس پر الزام لگاتے ہوئے سوال پوچھا کہ 1942ء کے بعد کانگریس نے آزادی کی کون سی تحریک چلائی؟ اگر اس سوال کا سنجیدگی سے جائزہ لیا جائے تو یہ سوال ہی اپنی جگہ احمقانہ سالگتا ہے کیوں کہ 1942ء کی ’انگریزو بھارت چھوڑو تحریک‘ کے بعد تقریباً تمام کانگریسی کارکنوں کو حوالہ زندان کیا گیا تھا اور یہ لوگ ڈھائی سے تین سال تک قید و بند کی صعوبتیں برداشت کرتے رہے۔ اب ظاہر ہے کہ جب کسی جماعت کا ایک بڑا طبقہ جیلوں میں بند ہو تو تحریک چلانا کیوں کر ممکن ہو سکتا ہے؟ اور جیل سے آزادی کے بعد دوسری عالمی جنگ ختم ہو چکی تھی اور بھارت کی آزادی کے حوالے سے گفت وشنید کا سلسلہ بھی شروع ہو چکا تھا تو پھر کانگریس الگ سے تحریک کیوں کر چلاتی؟ سدھانشو نے کانگریس سے یہ سوال 1942ء کے بعد کا کیا لیکن وہ خود اپنے گریبان میں جھانکنے کی زحمت گوارا کیوں نہیں کرتے اور یہی سوال آر ایس ایس سے کیوں نہیں پوچھتے کہ 1942ء کے بعد اس نے کوئی تحریک کیوں نہیں چلائی بلکہ آر ایس ایس سے تو یہ سوال بھی ہونا چاہیے کہ اس نے اپنے قیام کے بعد سے 1947ء تک ایک بھی آزادی کی تحریک کیوں نہیں چلائی، جب کہ اس دوران سارا ملک آزادی اور انقلاب کے نعروں سے گونج رہا تھا؟ اگر بات سوال کرنے کی ہی ہو تو سوال ساورکر سے بھی ہونا چاہیے کہ جب ملک آزادی کے نعرے لگا رہا تھا تو ایسے نازک موقع پر کیوں ساورکر انگریزوں اور جناح کے ساتھ مل کر نئی سرکاریں بنانے میں مصروف تھے؟ کیوں وہ گلی گلی گھوم پھر کر ملک کے نوجوان کو انگریزوں کی فوج میں بھرتی کروارہے تھے؟ اسی طرح جب سردار پٹیل جیل میں بند تھے تو ہندو مہا سبھا انگریزوں کے ساتھ کیوں کھڑی ہوئی تھی؟ آر ایس ایس نے کیوں اس پر کوئی ہنگامہ نہیں کیا اور کیوں آزادی کا مطالبہ نہیں کیا؟ الغرض بات سوالوں کی ہو تو پھر بہت سارے سوالات ہو سکتے ہیں جن پر غور کرنے کی ضرورت ہے۔
ٹی وی 9 کے مذکورہ پروگرام میں سدھانشو کا ایک اور مضحکہ خیز بلکہ بچکانہ اعتراض نہرو پر یہ رہا کہ آج کل جو بھی لیڈر عہدیدار بنتے ہیں وہ بھارتی آئین کا حلف لیتے ہیں لیکن نہرو جب 1946ء میں صدر بنے تو انہوں نے کس کا حلف لیا تھا؟ اس اعتراض پر ہنسی آتی ہے کہ جب بھارتی آئین بنا ہی 1950ء میں تھا تو اس سے پہلے اس کے نام پر حلف لینا کسی دیوانے کی بڑ سے زیادہ کچھ نہیں ہے۔
اور اگر نہرو پر سوال کیا جا رہا ہے تو ان لوگوں پر کوئی سوال کیوں نہیں ہوتا جنہوں نے نہرو کے طریقے پر حلف لیا تھا؟ اس فہرست میں کئی نامی گرامی لوگ بلکہ ہندو مہا سبھا بھی شامل ہے جس نے حلف لیا تھا جب ان سب پر کوئی سوال نہیں کرتا تو صرف نہرو پر ہی کیوں؟
اسی طرح سدھانشو نے ایک اور بات کہی کہ گاندھی جی کو جو بات سمجھ میں آئی تھی وہ راہول گاندھی کو کیوں سمجھ نہیں آتی؟ اس ضمن میں وہ کہتے ہیں کہ گاندھی جی نے ساورکر کی رہائی کے لیے خط لکھا تھا بلکہ گاندھی کے کہنے پر ہی ساورکر نے معافی مانگی تھی۔ یہ بھی تاریخ کی ایک الگ داستان ہے۔ یہاں صرف اس بات کا جائزہ لیتے ہیں کہ آیا گاندھی جی نے فی الواقع ساورکر کے لیے خط لکھا تھا؟ اگر لکھا تھا تو کیوں لکھا تھا؟ فاضل ترجمان کہتے ہیں کہ گاندھی نے ساورکر کی رہائی کے لیے خط لکھا تھا لیکن اس کا پس منظر جاننا بھی ضروری ہے کہ گاندھی جی کے علم میں اس وقت یہ بات نہیں تھی کہ ساورکر آئے روز انگریزوں سے معافیاں مانگ رہے ہیں اور رہائی کی بھیک مانگنا ان کا شیوہ بن گیا ہے اور اس پر طرہ یہ کہ ساورکر کے چھوٹے بھائی گاندھی جی کے پاس بھی گئے تھے اور ان سے عاجزانہ درخواست کی تھی کہ ان کے بھائی کی رہائی کے لیے کوئی مناسب اقدام کریں۔ جب انہوں نے خوب منت سماجت کی تو گاندھی جی نے سابقہ باتوں کو بھلا کر ہمدردی و انسانیت کا مظاہرہ کرتے ہوئے ایک کھلا خط لکھا تھا جو ان کے اخبار میں بھی شائع ہوا تھا جس میں انہوں نے کہا کہ جب سارے لوگوں کو رہا کیا گیا ہے تو ساورکر کو بھی رہائی ملنی چاہیے۔ اب ایک انصاف پسند آدمی یہ فیصلہ کر سکتا ہے کہ گاندھی جی نے جو کیا وہ صحیح تھا یا غلط؟
الغرض اس پروگرام میں سدھانشو نے اور بھی کئی ساری بے بنیاد باتیں کہیں۔ انہوں نے دین دار مغل بادشاہ اورنگ زیب پر بھی بہت سے نازیبا جملے کسے اور ان پر الزامات کی بھرمار کر کے مسلم دشمنی کا ثبوت پیش کیا۔ واقعہ یہ ہے کہ آج کل نہ صرف اس ایک پروگرام میں بلکہ دیگر چینلوں پر بھی سدھانشو اور ان جیسے لوگ مسلسل اس قسم کی چرب زبانیاں کرتے رہتے ہیں اور جھوٹ کو سچ اور سچ کو جھوٹ بناتے رہتے ہیں تاکہ عوام کو آسانی سے بیوقوف بنایا جا سکے بلکہ یہ کہا جائے تو بے جا نہ ہو گا کہ آج طاقت اور اقتدار کے زیر اثر مین اسٹریم میڈیا جھوٹ اور صرف جھوٹ کی آماجگاہ بنا ہوا ہے جہاں سے کئی ساری غلط اور بے بنیاد معلومات نشر کی جا رہی ہیں بلکہ ان کو تاریخ کا اہم حصہ قرار دیا جا رہا ہے۔ غنیمت ہے کہ ان حالات میں یوٹیوب اور دیگر سوشل میڈیا پلیٹ فارمس متبادل میڈیا کا رول نہایت ہی بہترین انداز سے نبھا رہے ہیں جن میں سے ایک اشوک کمار پانڈے بھی ہیں۔ اگر قومی میڈیا تک ملک کے کمزور اور حاشیہ پر دھکیلے گئے طبقات کی پہنچ نہیں ہے تو وہ متبادل میڈیا کا بھر پور استعمال کریں، اس میں شرکت، تعاون اور باہم حوصلہ افزائی کریں نہ کہ سرکاری میڈیا کو دن رات کوستے رہیں۔ ہماری یہ ذمہ داری بنتی ہے کہ اس کے بجائے ہم اپنی جانب سے کوشش کریں کہ جھوٹ کے اس طلسم کو توڑیں اور مثبت پروگرامس بنائیں۔
شکوہ ظلمت شب سے تو کہیں بہتر تھا
اپنے حصے کی کوئی شمع جلاتے جاتے
جب اشوک پانڈے جیسے لوگ اپنے حصے کی شمع جلاتے ہیں اور جھوٹ کا پردہ فاش کرتے ہوئے سر عام حقائق پیش کرتے ہیں تو امید کی ایک کرن نظر آتی ہے اور یہ حوصلہ ملتا ہے کہ حقائق کو کتنا ہی توڑ مروڑ کر پیش کرنے کی کوشش کی جائے اور جھوٹ کا بازار گرم کیا جائے حق ظاہر ہو کر ہی رہتا ہے کیونکہ یہ طئے ہے کہ
حقیقت خود کو منوالیتی ہے مانی نہیں جاتی
***
***
آج طاقت اور اقتدار کے زیر اثر مین اسٹریم میڈیا جھوٹ اور صرف جھوٹ کی آماجگاہ بنا ہوا ہے جہاں سے کئی ساری غلط اور بے بنیاد معلومات نشر کی جا رہی ہیں بلکہ ان کو تاریخ کا اہم حصہ قرار دیا جارہا ہے۔ غنیمت ہے کہ ان حالات میں یوٹیوب اور دیگر سوشل میڈیا پلیٹ فارمس متبادل میڈیا کا رول نہایت ہی بہترین انداز سے نبھا رہے ہیں جن میں سے ایک اشوک کمار پانڈے بھی ہیں۔ اگر قومی میڈیا تک ملک کے کمزور اور حاشیہ پر دھکیلے گئے طبقات کی پہنچ نہیں ہے تو وہ متبادل میڈیا کا بھر پور استعمال کریں، اس میں شرکت، تعاون اور باہم حوصلہ افزائی کریں نہ کہ سرکاری میڈیا کو دن رات کوستے رہیں
ہفت روزہ دعوت – شمارہ 28 جنوری تا 14 جنوری 2023