حمیرا علیم
جب بھی خود کشی کے موضوع پر قلم اٹھایا، کمنٹس سیکشن میں کئی قارئین نے سوال کیا کہ جب انسان پر مصائب کی انتہا ہو جائے، دعائیں قبول نہ ہوں، اللہ بندے کو چھوڑ دے، رشتے دار ساتھ نہ دیں، ڈپریشن یا اندیشے لاحق ہو تو انسان خود کو ختم نہ کرے تو اور کیا کرے؟
مانا کہ آپ پر جو دکھ اور تکالیف کے پہاڑ ٹوٹ رہے ہیں، وہ ناقابل برداشت ہو چکے ہیں، لیکن کیا دنیا میں صرف آپ ہی مسائل کا شکار ہیں؟ نہیں، ہر شخص کو زندگی میں مختلف مسائل کا سامنا ہے۔ تو کیا سب لوگ خود کشی کا راستہ اختیار کر لیں؟
کیا اللہ تعالیٰ نے قرآن میں بار بار یہ نہیں بتایا کہ ہر شخص کو جان، مال، فصل کے نقصان اور اولاد کی آزمائشوں سے گزرنا ہو گا؟ لیکن جو شخص صبر کرے اور نماز کے ذریعے اللہ سے مدد مانگے وہی دنیا و آخرت میں کامیاب ہوگا۔ اللہ نے یہ بھی فرمایا کہ ہم کسی کو اس کی برداشت سے زیادہ نہیں آزماتے اور ہر تنگی کے ساتھ آسانی ہے۔ پھر اللہ کی رحمت سے مایوس ہونا کیسے جائز ہو سکتا ہے؟
کیا قرآن میں مذکور انبیاء اور صحابہ کو مال، جان، اولاد، ظالم حکم رانوں کے ظلم جیسی آزمائشوں کا سامنا نہیں کرنا پڑا؟ ذرا نبی کریم ﷺ اور صحابہ کرامؓ کی زندگیوں پر غور کریں۔ غربت، بھوک، مال کا نقصان، سرداروں کے ظلم، قتل کی سازشوں جیسی مشکلات کا سامنا کیا۔ لیکن کیا وہ مایوس ہو کر دین چھوڑ گئے یا خود کشی کی راہ اپنائی؟ کیا ہمارے مسائل ان کے مسائل سے بھی بڑھ کر ہیں؟
چلیے ان مسائل کا جائزہ لیتے ہیں جن کی وجہ سے ہم مایوسی کا شکار ہو سکتے ہیں:
1 -نوکری کا نہ ملنا یا کاروباری نقصان
-2 شادی کا نہ ہونا یا طلاق یا زوج کی وفات کے بعد مالی مسائل
-3 اولاد نہ ہونا
-4 گھر، گاڑی یا مالی آسودگی کا نہ ہونا
-5 سسرال کے مسائل یا بہو و داماد کی جانب سے دی جانے والی اذیت
-6 اولاد کی بدکرداری یا ان کی وفات
-7 نشے کی لت
-8 محبت میں ناکامی
-9 امتحان میں ناکامی یا من پسند گریڈز کا نہ ملنا
-10 حادثاتی معذوری یا طویل بیماری
-11 بلیک میلنگ
-12 زوج کی بے وفائی
-13 جائیداد کے جھگڑے
-14 گھریلو مسائل، بالخصوص اخراجات پورے نہ ہونا
-15 جادو یا ذہنی بیماری وغیرہ
آپ اس فہرست میں مزید اضافہ کر سکتے ہیں۔ لیکن سوچنے کی بات یہ ہے کہ ان مشکلات کا حل خود کشی ہے؟ ان تمام مسائل میں تو ایک ہی چیز مشترک ہے کہ یہ سب دنیاوی زندگی سے تعلق رکھتے ہیں۔ ان میں سے کوئی ایک بھی اخروی زندگی سے متعلق نہیں۔ قرآن و حدیث میں بارہا بتایا گیا ہے کہ ہمارا رزق پہلے ہی لکھا جا چکا ہے، اس میں کوئی کمی بیشی ممکن نہیں۔ ہمیں دنیاوی معاملات کے بجائے آخرت کی فکر کرنی چاہیے اور اس کے لیے تیاری کرنی چاہیے۔
لیکن ہم دنیا کے ان مسائل میں اس قدر الجھ چکے ہیں کہ آخرت کی پروا نہیں رہی۔ ایوب علیہ السلام نے سترہ سال تک بیماری جھیلی، اولاد اور مال کا نقصان برداشت کیا، مگر صبر کا دامن نہیں چھوڑا۔ نوح علیہ السلام نے 950 سال تک لوگوں کے طعنے سہے، مگر ثابت قدم رہے۔ ابراہیم، موسیٰ اور محمد علیہم السلام نے ظالم حکم رانوں کا سامنا کیا لیکن خود کشی نہیں کی۔ لوط اور نوح علیہما السلام کے خاندان کے افراد، ابراہیم علیہ السلام کے والد اور آسیہ علیہ السلام کا شوہر ان کے مخالف ہوئے۔ مریم علیہ السلام نے اپنے کردار پر لگنے والے الزامات کو صبر و سکون اور ذکر سے سہا۔
صحابہ کرامؓ کو اپنے گھر، کاروبار اور مال متاع سب کچھ چھوڑ کر ہجرت کرنا پڑا۔ اسلام قبول کرنے پر انہیں جسمانی اذیتیں دی گئیں، گرم پتھروں پر لٹایا گیا، قالین میں لپیٹ کر دھوئیں میں جھونکا گیا۔ کئی کئی دن بھوکے پیٹ جنگیں لڑیں۔ ان تمام آزمائشوں کے باوجود انہوں نے مایوسی اختیار نہیں کی۔
یقیناً جب مصائب بہت بڑھ جائیں تو حوصلہ جواب دے جاتا ہے۔ لیکن اللہ کی رحمت پر یقین رکھتے ہوئے اسی سے مدد مانگنی چاہیے۔ میرا ذاتی تجربہ ہے کہ جب کبھی ایسا محسوس ہوا کہ دعائیں قبول نہیں ہو رہیں، تب بھی اللہ کا دامن نہ چھوڑا کیوں کہ اسی کی ذات مشکلات کو آسان کرتی ہے۔
اگر مسائل کا سامنا ہو تو نوافل پڑھیں، سجدے میں دعا کریں، استغفار کریں، اذکار میں مشغول رہیں اور تہجد کا اہتمام کریں۔ دعا اس طرح کریں جیسے کسی قریبی دوست سے بات کر رہے ہوں، جیسے ایک بچہ ضد کر کے اپنی بات منوا لیتا ہے۔ اپنی دعا خود کریں، کیونکہ آپ سے بہتر آپ کے مسائل کو کوئی نہیں سمجھ سکتا۔
یہ کہنا کہ اللہ نے ہمیں چھوڑ دیا غلط ہے۔ وہ نافرمان ترین بندے کو بھی چھوڑتا نہیں۔ نوح علیہ السلام نے 950 سال دعا کی، یعقوب علیہ السلام نے طویل عرصے تک گریہ کیا مگر دعا ترک نہیں کی اور یوسف علیہ السلام سے مل گئے۔ مریم علیہ السلام نے کردار پر تہمت کا سامنا کیا اور اللہ نے انہیں بلند مقام عطا فرمایا۔
آج کے دور میں بھی کئی لوگ مشکلات کا سامنا کر رہے ہیں اور دوسروں کے لیے ہمت کی مثال بنے ہوئے ہیں۔ منیبہ مزاری، فاطمہ شاہ، تنزیلہ خان جیسے افراد جسمانی معذوری کے باوجود حوصلے سے کام لے رہے ہیں۔ نک ویچچ جیسے لوگ جو ہاتھ پاؤں سے معذور ہیں، موٹیویشنل اسپیکر ہیں۔ رچرڈ برینسن اور اسٹیفن ہاکنگ جیسے معذور افراد نے دنیا میں کامیابی کی مثال قائم کی۔
فرض کریں کہ آپ خود کشی کرنے کا فیصلہ کر لیں، تو کیا آپ کے مسائل ختم ہو جائیں گے؟ ہرگز نہیں! اس دنیا کی زندگی مختصر ہے، لیکن آخرت کی زندگی ہمیشہ کے لیے ہے۔ خود کشی کے بعد آپ اللہ کی ناراضی کا سامنا کریں گے جو کہ نہایت سخت عذاب ہے۔
ہر مسئلے کا کوئی نہ کوئی حل ضرور ہوتا ہے۔ غربت ہے تو کام کریں، بیماری ہے تو علاج کروائیں، مالی مسائل ہوں تو بیت المال یا فلاحی اداروں سے رجوع کریں۔ طلاق یا اولاد نہ ہونا زندگی کے خاتمے کی دلیل نہیں۔ اللہ پر یقین رکھیں، اس سے مدد مانگیں۔ اللہ آپ کے لیے راستے ہموار کرے گا۔ اللہ سب کی مشکلات دور فرمائے اور آسانیاں عطا کرے۔ آمین۔
***
ہفت روزہ دعوت – شمارہ 26 جنوری تا 01 فروری 2025