محمد عارف اقبال
(ایڈیٹر، اردو بک ریویو، نئی دہلی)
مرتب ضیاءالدین لاہوری
صفحات398قیمت300/- اشاعت اول (دہلی) 2022
ناشر: شعور حق، M-21/6K7، گراونڈ فلور، سیلنگ کلب روڈ،
نزد مسجد خلیل اللّٰہ، بٹلہ ہاوس، جامعہ نگر، نئی دہلی 110025-
تبصرہ : محمد عارف اقبال
(ایڈیٹر، اردو بک ریویو، نئی دہلی)
ضیاءالدین لاہوری کی مرتب کردہ اس خودنوشت کی پہلی اشاعت 1993 میں لاہور سے ہوئی تھی۔ ضیاءالدین لاہوری نے اپنے ایک مضمون (الشریعہ، صفحہ 21، اکتوبر 2005) میں سرسیّد احمد خاں (پیدائش 1817) کی ایک تحریر نقل کی ہے۔ سرسیّد کے بقول:
’’ہمارا مذہبی فرض ہے کہ ہم گورنمنٹ انگریزی کے خیرخواہ اور وفادار رہیں اور کوئی بات قولاً و فعلاً ایسی نہ کریں جو گورنمنٹ انگریزی کی خیرخواہی اور وفاداری کے برخلاف ہو۔‘‘
سرسیّد کے یہ خیالات 1873 کے ہیں۔ ماہنامہ ’الشریعہ‘ (اکتوبر 2005) میں شائع اسی مضمون کے آخر میں ’صدق جدید‘ کے حوالے سے باکس میں سرسیّد احمد خاں کے خلاف فتویٰ سے متعلق ایک دلچسپ حقیقت بیان کی گئی ہے۔ لکھتے ہیں:
’’سرسیّد نے نہ کسی نئے مذہب کی تبلیغ کی اور نہ کوئی کتاب پیش کی، لیکن اس پر بھی مولویوں نے ان کے خلاف طوفان برپا کردیا، کفر کے فتوے دیے۔ دل خراش مضامین لکھے۔ سرسیّد کی چھوٹی سی فوٹو پر گز بھر کی داڑھی لگاکر اس کے اوپر لکھا کہ ’شیطانِ رجیم‘ لیکن بڑے جیّد علما نے کفر کے فتووں پر دستخط نہیں کیا۔ حضرت مولانا محمد قاسم بانی مدرسہ دیوبند سے علما نے کہا کہ سرسید کے خلاف کفر کے فتوے پر آپ بھی دستخط کردیجیے۔ انہوں نے فرمایا کہ میں تحقیقات کرلوں کہ آیا وہ کافر ہیں بھی یا نہیں۔ چنانچہ حضرت مولانا محمد قاسم نے تین سوالات لکھ کر سرسیّد کے پاس بھیجے:
(۱) سوال۔ خدا پر آپ کا کیا عقیدہ ہے؟
جواب۔ خداوند تعالیٰ ازلی ابدی مالک و صانع تمام کائنات ہے۔
(۲) سوال۔ محمد ﷺ کے متعلق آپ کا کیا عقیدہ ہے؟
جواب۔ بعد از خدا بزرگ توئی قصہ مختصر۔
(۳) سوال۔ قیامت کے متعلق آپ کا کیا عقیدہ ہے؟
جواب۔ قیامت برحق ہے۔
اس کے بعد مولانا محمد قاسم نے ان لوگوں سے کہا کہ تم اس شخص کے خلاف دستخط کرانا چاہتے ہو جو پکا مسلمان ہے؟‘‘
(صدق جدید، 17 اکتوبر 1960، بحوالہ شبلی نمبر، ماہنامہ ادیب)
زیر نظر کتاب ’خود نوشت حیات سرسیّد‘ اس لحاظ سے ایک تحقیقی کام ہے کہ اس میں سرسیّد کی اپنی تحریروں سے اقتباسات کے گلدستے سجائے گئے ہیں۔ جمع اور ترتیب کے لحاظ سے یہ ایک اچھی کاوش ہے کہ اس میں سرسیّد کی تقریباً مکمل ’سوانح حیات‘ آگئی ہے۔ لیکن تحقیقی عمل اگر آزاد ہو اور تاریخی، معاشرتی اور سیاسی حالات پر محقق کی گہری نظر ہو تو نتیجہ مثبت بھی برآمد ہوسکتا ہے۔ اس کے برعکس اگر ہندوستان میں انگریزوں کے تسلط کو غاصبانہ مانتے ہوئے اس کے طرز حکمرانی کے مثبت پہلووں کو نظر انداز کردیا جائے تو انگریزوں کی حکمرانی میں صرف کیڑے ہی نکالے جاتے ہیں اور حکومت سے وفاداری کو ’غداری‘ کہا جاتا ہے۔ میں نے چند تعلیم یافتہ ہندو بزرگوں کو ہمیشہ یہی کہتے سنا کہ ہندوستان میں انگریزی حکمرانی نے کارنامے انجام دیے اور موجودہ سیاسی صورت حال میں اگر انگریز ہی حکمراں ہوتے تو ہندوستان عصری تقاضوں سے ہم آہنگ ایک تہذیب یافتہ اور well-disciplined ملک ہوتا۔ یہاں قانون کی حکمرانی ہوتی، عدل و انصاف قائم ہوتا۔
تاریخ کا ایک ادنیٰ طالب علم بھی واقف ہے کہ تین سو سالہ مغلیہ دور حکمرانی میں اورنگ زیب کے بعد آخر کے سو سال سیاسی، معاشرتی اور معاشی طور پر ہندوستان بڑے سنگین اور نازک دور سے گزر رہا تھا۔ مسلم حکمرانوں کا اخلاقی کردار تیزی سے پستی کی طرف جا رہا تھا۔ اس کمزوری اور بدترین حالات کا فائدہ اٹھاتے ہوئے انگریزوں نے اپنے قدم جمائے اور زندگی کے ہر شعبے میں نظم و ضبط کو یقینی بنانے کی کوشش کی۔ ایسا لگتا ہے کہ یہی نظم و ضبط عام ہندوستانیوں پر شاق گزرا کیونکہ اہل ہند کی اکثریت تہذیب و شائستگی کے ساتھ زندگی گزارنے کی عادی نہیں رہی ہے۔ چوروں اور ٹھگوں کا دَور دَورہ بھی رہا ہے۔ البتہ سماج کے مہذب اور متمول لوگوں نے اس کا خیر مقدم کیا۔ انہی میں سرسیّد احمد خاں بھی تھے۔ ہندوستان میں بحیثیت حکمراں انگریزوں کے جو Contributions ہیں، ان سے انکار نہیں کیا جاسکتا۔ حکومت نے بے شمار تعلیم یافتہ شرفا کو ملازمت دی۔ انعامات و اعزازات سے نوازا۔ سرسیّد احمد خاں کا شمار بھی ان تعلیم یافتہ شرفا میں ہوتا ہے جن کے دل میں قوم و ملت سے محبت تھی۔ وہ چاہتے تھے کہ ہر کام حکمت کے ساتھ اس طرح کیا جائے کہ قوم و ملت ذہنی، فکری اور شعوری اعتبار سے نہ صرف طاقتور ہو بلکہ زندگی کے ہر میدان میں عصری تقاضوں کو ملحوظ رکھتے ہوئے اسے ایسی قوت حاصل ہوجائے کہ وہ اپنے اصل دشمن کی شناخت کرتے ہوئے مستقبل کا لائحہ عمل بنائے۔ اس کے بعد وہ اپنے دشمن کا مقابلہ زندگی کے ہر شعبے میں بھرپور صلاحیت کے ساتھ کرسکے گا۔ سر سیّد عجلت پسند نہیں تھے۔ یہی وجہ ہے کہ انہوں نے برٹش اِمپائر کی حمایت کی اور قوم و ملت کے لیے ان سے تعاون بھی حاصل کیا۔ سرسیّد کا شمار ان دانشوروں میں ہوتا ہے جنہوں نے حکمراں کی اصل زمین (انگلینڈ) کا بنظرغائر مطالعہ کیا، ان کی معاشرتی اور تعلیمی ترقی کا جائزہ لیا پھر اس کے بعد اپنے ملک میں آکر قو و ملت کو ہر لحاظ سے تیار ہونے کی دعوت دی۔ ایسے مخلص انسان کو پاکستان کے ایک شاعر و دانشور (شاہ نواز فاروقی) نے انگریزوں کا حاشیہ بردار اور مخبر تک لکھ دیا۔ حالانکہ سرسیّد مخبر نہیں منصف تھے۔ انہوں نے اپنے ہر عمل کو قوم وملت کے سامنے کھول کھول کر رکھ دیا۔ کسی بات کو راز نہیں رکھا۔ اگر سرسیّد اور موجودہ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے بارے میں اصل اور چشم کشا حقائق سے روبرو ہونا ہے تو چند سال قبل ایک اہم کتاب شائع ہوئی تھی جس کا نام ’سرسیّد کی بصیرت‘ (از اسرار عالم) ہے، اس کا مطالعہ کیا جائے۔ یہ کتاب اپنے مواد کے لحاظ سے سرسیّد پر لکھی دیگر تحریروں سے بالکل مختلف ہے۔
ہماری اپنی قوم کے ادیبوں اور دانشوروں کا حال یہ ہے کہ ’نام نہاد آزادی‘ کے 70 سال بعد بھی ’مملکت ِخداداد‘ کے بیشتر مسلم عوام بے شعوری کی زندگی بسر کر رہے ہیں۔ جتنی برائیاں آج ان کے اندر موجود ہیں ان کا کچھ احوال پاکستان کے معروف صحافی و دانشور جناب حسن نثار سے سن لیجیے۔ وہاں ہماری قوم نے اپنے ہی بھائیوں کا جینا حرام کردیا ہے۔ کون سی بےایمانی اور دجل ہے جس میں وہ مبتلا نہ ہوں۔ عوام تو عوام وہاں کے حکمراں طبقے نے جو سیاہ کارنامے انجام دیے ہیں، وہ اظہر من الشمس ہیں۔ سوشل میڈیا نے رہی سہی قلعی بھی کھول کر رکھ دی ہے۔ غور و فکر کا مقام یہ ہے کہ ہندوؤں کو چھوڑ دیجیے، اپنی قوم کے مفکروں، ادیبوں، شاعروں اور دانشوروں نے قوم کے مخلص لوگوں کے ساتھ جو سلوک کیا اس سے ہم اچھی طرح واقف ہیں۔ ان میں سرسیّد احمد خاں، شاہ اسمٰعیل (شہید)، محمد علی جوہر، علامہ محمد اقبال، سیّد ابوالاعلیٰ مودودی، پاکستان کے سابق وزیر اعظم عمران خاں کے نام بطور مثال پیش کیے جاسکتے ہیں۔
حد تو یہ ہوگئی کہ ممبئی کے ایک ادیب اور محقق نے ’اکبر الٰہ آبادی‘ کو بھی نہیں بخشا۔ کتاب کے مصنف نے اپنے مفروضات کے ذریعے اکبر الٰہ آبادی کی شخصیت کو مسخ کرنے کی ہر ممکن کوشش کی ہے۔ حال ہی میں ان کی کتاب ’اکبر الٰہ آبادی: اپنی شکست کی آواز‘ شائع ہوئی ہے۔ اس پر راقم الحروف کا تفصیلی مضمون (اردو بک ریویو، شمارہ جنوری تا دسمبر 2021) ملاحظہ کرسکتے ہیں۔
دیکھنے کی بات یہ ہے کہ ’خودنوشت حیاتِ سرسیّد‘ میں اس کے مرتب ضیاءالدین لاہوری نے کس نیت سے سوانحی مواد یکجا کرنے کی کوشش کی ہے۔ بہت سی باتیں ایسی ہوتی ہیں جو اصل مصنف کی اپنی تحریروں کے سیاق و سباق سے کاٹ کر لکھی جاسکتی ہیں۔ اس سے غلط فہمی کی ایسی دیوار کھڑی ہوتی ہے جس سے نہ صرف تاریخ مسخ ہوتی ہے بلکہ زمانہ دراز تک نسلیں گمراہ ہوتی رہتی ہیں۔ اس کے برعکس نیت اگر شفاف ہے تو نتیجہ بھی مثبت برآمد ہوتا ہے۔
اس کتاب کے ناشر اور ’شعور حق‘ کے مدیر مولوی محمد یٰسین پٹیل فلاحی نے کتاب کے پیش لفظ میں صفحہ 6 پر تحریر کیا ہے:
’’تحریک آزادی، جس کو غدر اور بغاوت کے نام سے عام کیا گیا وہ ایسٹ انڈیا کمپنی کے ذریعے ہندوستان میں مسلمانوں پر خصوصاً اور اہل ہند پر عموماً بےپناہ ظلم و جبر کا شاخسانہ تھی۔ اس غیر ملکی اور دشمنِ خدا عیسائی جابرانہ حکومت کے خلاف جہاد کا سب سے پہلا فتویٰ شاہ عبدالعزیز رحمہ اللہ نے دیا تھا۔‘‘
کوئی بتلائے کہ ’جہاد‘ کے اس فتوے کی ضرورت کیا تھی۔ اور عیسائی دشمنِ خدا کیسے ہوگئے۔ اگر سرسیّد نے ’غدر‘ کو ’غدر‘ اور ’بغاوت‘ سے موسوم کیا تو اس میں ان کی غلطی کہاں تھی۔ سرسیّد کی حکمت عملی یہ تھی کہ پہلے قوم جہالت کے پردے کو چاک کرے، اس کے بعد Long Term Planning (طویل المیعاد منصوبے) پر عمل درآمد کرتی رہے۔ اس کے برعکس مسلم قوم کے لیے اکثریت کے ہاتھوں کا کھلونا بن کر خود کو آزمائش میں ڈالنا دانش مندی نہ تھی۔ 1920 کے بعد (مولانا) آزاد کی قیادت میں ہمارے علمائے کرام نے اپنے حقیقی نصب العین کو بھلاکر کانگریس کے دامن میں پناہ لے لی۔ یہ کس طرح کی دانش مندی تھی۔ ملک کی موجودہ صورت حال میں اب سب اظہر من الشمس ہے۔ آج ہمارے علمائے کرام بھی ’دہشت گردی‘ کی مذمت کرتے ہیں اور اسلام سے اسے الگ کرنے کی کوشش کرتے رہتے ہیں۔
پوری کتاب میں سرسیّد احمد خاں کی تحریروں سے ان اقتباسات کو جمع کیا گیا ہے جن کو پڑھ کر اس کتاب کا قاری سرسیّد کی حقیقی خدمات سے کبھی آشنا نہیں ہو سکتا کیونکہ اس کا انداز بے حد معروضی (Objective) ہے۔ اس کا مطالعہ اسی قاری کے لیے مفید ہوسکتا ہے کہ جو ہندوستان میں مسلم بادشاہوں اور عام مسلمانوں کے اخلاقی زوال پر گہری نظر رکھتا ہو۔ ہندوستان کی جنگ آزادی کے نام پر گاندھی جی اور (مولانا) ابوالکلام آزاد کا اچانک بحیثیت لیڈر نمودار ہونا غور و فکر کی دعوت دیتا ہے۔ ابوالکلام آزاد کا ایک عالم دین ہوتے ہوئے ’پکا کانگریسی‘ ہونا بھی سوالیہ نشان قائم کرتا ہے۔
کتاب کے ’حرفے چند‘ میں ڈاکٹر تحسین فراقی آخر میں لکھتے ہیں:
’’مجھے یقین ہے کہ جہاں ایک طرف یہ قابل قدر تالیف برعظیم کی اس انقلاب انگیز شخصیت کے غیرجانبدارانہ مطالعے میں بےحد معاون ہوگی وہیں مجھے اندیشہ ہے کہ سرسیّد کے بےمغز عشاق اور اپنے گنبدِ دستار کے لیے اینٹیں اکٹھی کرنے والے فتویٰ فروش دونوں کو ہی علمی کاوش ایک نہیں بھائے گی۔‘‘ (صفحہ 34)
کتاب کے مرتب ضیاءالدین لاہوری ’عرضِ احوال‘ میں ایک جگہ لکھتے ہیں:
’’سرسیّد کے الفاظ میں جہاں کہیں خاص صورتِ حال کے ضمن میں تشنگی محسوس ہوئی یا مزید وضاحت مطلوب تھی وہاں حواشی میں زیادہ تر الطاف حسین کی ’حیاتِ جاوید‘ سے حوالے دیے گئے ہیں کیونکہ وہ سرسیّد کی مستند ترین سوانح حیات تصور کی جاتی ہے…۔‘‘ (صفحہ 47)
ایک سوال یہ اٹھتا ہے کہ فاضل مرتب نے سرسیّد کی تحریروں سے جو کچھ ’خود نوشت‘ کے نام پر جمع کیا ہے، آخر ’حیات جاوید‘ کی موجودگی میں اس کتاب کی ضرورت کیا تھی۔ مرتب نے یقینی طور پر بڑی عرق ریزی سے کام لیتے ہوئے برسوں اس کام میں خود کو کھپایا ہے۔ اس کتاب کے مطالعے سے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ سرسیّد کی زندگی جس جدوجہد سے نبرد آزما تھی ان کو بلاکم و کاست بیان کردیا جائے تاکہ انگریزی دور حکومت میں عام مسلمانوں کے علاوہ دیگر اقوام کی جو سوچ تھی وہ اجاگر ہو۔ سخت سے سخت حالات میں سرسیّد کے دل میں اپنی قوم کے لیے جو درد تھا اور اس کے لیے انہوں نے جو منصوبہ بنایا، باوجود سخت مشکلات کے پایۂ تکمیل کو پہنچایا۔ سرسیّد کی کسی بھی تحریر سے اندازہ نہیں ہوتا کہ ان کے اندر لالچ یا خود کو بڑا بننے کی ہوس ہو جو عام طور پر ہر طبقے کے مسلمانوں میں محسوس ہوتی ہے۔ وہ ایک بے ریا انسان، جفاکش، دھن کے پکے اور دنیا کے ہر خوف سے بالاتر تھے۔ البتہ ان میں خوفِ خدا بہت زیادہ تھا۔ ان کی اپنی اسٹریٹجی تھی، وہ کسی سے مرعوب نہیں ہوتے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ ہندوؤں نے بھی ان کی مدد کی۔ (صفحہ 255) سرسیّد کا سماجی تجزیہ بڑا گہرا تھا۔ وہ باریک بینی سے ہر شئے کا مطالعہ کرتے تھے۔ سرسیّد لکھتے ہیں:
’’ہم نے سات قسم کے لوگوں کو دارالعلوم مسلمانان کے مخالف پایا:
اول، خبیث النفس اور بدباطن
دوم، حساد
سوم، بعض متعصب وہابی جن کو میں یہود ہذہ الامۃ سمجھتا ہوں
چہارم، خود غرض یا خود پرست
پنجم، ٹٹ پونجئے اخبار نویس
ششم، بے تمیز
ساتویں، نادان مسلمان جن کے دل میں پہلی پانچ قسم کے بزرگوں نے وسوسہ ڈالا ہے۔‘‘
(صفحہ 261)
سرسیّد اس تجزیہ پر موجودہ صورت حال میں ضرور غور فرمائیں۔
مرتب اپنے ’عرض احوال‘ کے آخری حصے میں اس کتاب کے بارے میں یوں لکھتے ہیں:
’’سرسیّد کی سوانح حیات خود ان کے اپنے الفاظ میں آپ کے سامنے ہے۔ ہر شخص اپنے نظریات میں مختار ہے۔ ان میں سے جو باتیں آپ کو قبول ہیں ان کی داد سرسیّد ہی کو دیجیے اورجن سے آپ متفق نہیں ان کی نقاب کشائی کے لیے مجھے نہ کوسیے۔ میں نے تو صرف اس قدر گستاخی کی ہے کہ عمر کا ایک بڑا حصہ اس کام پر وقف کرکے تصویر کے دونوں رخ منظر عام پر لانے کا فریضہ انجام دیا ہے تاکہ ہماری آئندہ نسلیں شخصیت پرستی کے فسوں سے آزاد ہوسکیں۔‘‘ (صفحہ 47)
’شور حق‘ کے مدیر، مولوی محمد یٰسین پٹیل فلاحی مبارکباد کے مستحق ہیں کہ انہوں نے اس کتاب کی اشاعت کا بیڑہ اٹھایا۔ یہ الگ بات ہے کہ موصوف سرسیّد کے صرف مذہبی پہلوئوں کو اجاگر کرنا چاہتے ہیں جن کی وجہ سے علمائے قوم نے سرسیّد کو مطعون کیا حتیٰ کہ کفر کے فتوے بھی لگائے۔ لیکن اس کتاب میں بہت کچھ ہے۔حتیٰ کہ ’کفر‘ کی حقیقت بھی ہے۔
***
***
ہفت روزہ دعوت – شمارہ 20 نومبر تا 26 نومبر 2022