خواندگی کی شرح میں اضافے کی تاریخ، ایک جائزہ

بھارت میں تعلیمی پالیسی ،درپیش چیلنجیز اور تبدیلی کے اشاریے

محمد آصف اقبال، نئی دہلی

موجودہ حکومت کے تحت شرح خواندگی میں سب سے کم اضافہ، قابل تشویش
نیشنل سروے آف انڈیا کی سال 2022 میں شائع ہونے والی رپورٹ کے مطابق بھارت میں خواندگی کی شرح تقریباً 77.7 فیصد ہے۔ وہیں یونیسکو کے مطابق بھارت میں سنہ2060 تک یونیورسل خواندگی کی شرح مکمل ہوپائے گی۔لیکن آن لائن اسکول انڈیا کی تحقیق کے تحت بھارت میں صد فی صد خواندگی کی شرح 2032 تک مکمل ہوجائے گی۔یہ خبر ان 23 فیصد ہندوستانیوں کے لیے تشویش ناک ہو سکتی ہے جو فی الحال پرائمری اسکول تک رسائی سے قاصر ہیں باوجود اس کے کہ ہندوستان نے1947 میں آزادی حاصل کرنے کے بعد سے ہی تعلیمی شعبے میں نمایاں تبدیلیاں لانے کی منصوبہ بند کوششیں کی ہیں۔ آزادی کے وقت خواندگی کی شرح محض 12 فیصد تھی جو نوآبادیاتی حکم رانی سے درپیش چیلنجوں کی عکاسی کرتی ہے۔ سماجی و اقتصادی تفاوت اور قابل رسائی تعلیمی انفراسٹرکچر کی کمی وغیرہ وجوہات کے طور پر دیکھی جاسکتی ہیں۔لیکن آزاد ہندوستان میں خواندگی کو قومی ترقی کے لیے ایک بنیادی ستون کے طور پر تسلیم کرتے ہوئے حکومت نے اپنی وسیع تر ترقیاتی حکمت عملی کے حصے کے طور پر تعلیم کو ترجیح دی ہے۔ گزشتہ دہائیوں میں شرح خواندگی کو بڑھانے کے لیے مختلف پالیسیاں اور اقدامات متعارف کروائے گئے ۔ خاص طور پر تعلیم تک رسائی پر زور دیا گیا ہے۔ تعلیم پر قومی پالیسی (1968 اور 1986) جیسے پروگراموں کا آغاز، ڈاکٹر منموہن سنگھ کی حکومت کے ذریعہ سال 2009 میں تعلیم کا حق ایکٹ جس میں 6 سے 14 سال کی عمر کے ہر بچے کو مفت اور لازمی تعلیم کا حق دیا گیا ہے نیز، یہ قانون بچوں کو ان کے بنیادی حقوق کی فراہمی کی سمت میں سنگ میل ثابت ہوا۔دوسری جانب ‘ساکشر بھارت’ جیسے حالیہ اقدامات جن کا مقصد ناخواندگی کو ختم کرنا اور نئی تعلیمی پالیسی 2024، جسے حال ہی میں مرکزی کابینہ نے ہری جھنڈی دکھائی ہے، انہیں ملک میں تعلیم کے وسیع منظرنامے میں دیکھا جاسکتا ہے۔حکومت کی جانب سے دعویٰ کیا گیا ہے کہ نئی تعلیمی پالیسی 2020 کئی اہم اصلاحات پر زور دیتی ہے جو ہندوستانی تعلیم کو مزید صحت مند، لچک دار اور 21ویں صدی کے تقاضوں کے مطابق بنائے گی۔ ان سب کے باوجود اہم تفاوت برقرار ہیں ساتھ ہی علاقائی تغیرات اور صنفی فرق کے چیلنجز بھی برقرار ہیں۔لہٰذا کہا جاسکتا ہے کہ غربت، ثقافتی معیارات اور تعلیمی وسائل تک رسائی جیسے عوامل نے افراد کی خواندگی حاصل کرنے کی صلاحیت کو متاثر کیاہے۔
آزاد ہندوستان میں تعلیمی شرح خواندگی جہاں 1947 میں 12 فیصد تھی وہ بتدریج سال بہ سال بڑھتی ہی رہی ہے۔ یہ شرح خواندگی 1951 میں 18.3 فیصد 1961 میں 28.3 فیصد 1971 میں 34.4 فیصد 1981 میں 43.6 فیصد 1991 میں 52.2 فیصد 2001 میں 64.8 فیصد 2011 میں 74.4 فیصد اور 2022 میں 77.7 فیصد درج کی گئی ہے۔ شرح خواندگی کے دس سالہ درمیانی دہائیوں کے اوسط کا جائزہ لیا جائے تو بتدریج 1971 اور 1981 کے درمیان 12.2 فیصد اضافہ ہوا 1991 اور 2001 کے درمیان 12.6 فیصد اضافہ تو وہیں 2001 تا 2011 کے درمیان یہ اضافہ 9.24 فیصد درج کیا گیا تھا۔لیکن 2011 تا 2022 کے درمیان شرح خواندگی کا اوسط آزاد ہندوستان جس کا دورانیہ 1947 تا 2011 ہے، اس میں سب سے کم صرف 3.66 فیصد اضافہ سامنے آیا ہے۔ برخلاف اس کے مردوں اور عورتوں کے شرح خواندگی کے فرق کو دیکھا جائے تو سال 1947 میں یہ فرق 16.1 فیصد تھا جو بعد میں بڑھتا اور گھٹتا رہا لیکن 2011 تا 2022 کے درمیان اس میں نمایاں کمی سامنے آئی ہے یعنی مردوں کے مقابلے خواتین میں خواندگی کی شرح میں اضافہ ہوا ہے۔ اسی لیے سال 2022 میں یہ فرق گھٹ کے 13.9 فیصد رہ گیا ہے۔ یعنی خواتین میں شرح خواندگی بڑھ رہی ہے، یہ ایک مثبت پیش قدمی ہے۔
خاکے میں پیش کردہ اعداد و شمار کی روشنی میں جو تجزیہ پیش کیا گیا وہ ‘آزادی سے اب تک: ہندوستان میں شرح خواندگی کے سفر کا ایک جامع تجزیہ’ کے عنوان سے ایک ریسرچ پیپر ہے جسے international journal of multidisciplinary research میں دھرمیندر کمار اور پروفیسر آر ایس چوہان نے لکھا ہے۔متذکرہ اعداد و شمار اور جائزے سے یہ واضح ہوتا ہے کہ گزشتہ 10 سالوں سے جاری بی جے پی حکومت کی تعلیم کے میدان میں کارکردگی کی صورتحال تشویش ناک ہے اور اسی لیے یہ سوال بھی اٹھتا ہے کہ آخر ایسا کیوں کر ہوا کہ تعلیم کے میدان میں نمایاں کارکردگی دکھانے سے وہ قاصر رہے ہیں؟ غالباً اس کی وجہ وہ الزام ہو سکتا ہے جو عموماً ملک کے پچھڑے ہوئے اور کمزور طبقات کی جانب سے لگائے جاتے رہے ہیں کہ بی جے پی اور اس کا نظریہ یہی رہا ہے کہ وہ نہیں چاہتی کہ صرف ایک طبقے کے لوگوں سے ہٹ کر دوسرے طبقے کے لوگ بھی علم کے میدان میں آگے بڑھیں، اگر تمام طبقات علم کے میدان میں آگے بڑھ جائیں گے تو مخصوص فکر و نظریہ کے حاملین جو ملک میں سماجی سطح پر صدیوں سے مخصوص تانا بانا بننے اور اسے مستحکم کرنے میں سرگرم ہیں، ناکامی سے دوچار ہوسکتے ہیں ۔یہ الزام کس حد تک درست ہے اور اس الزام کی تلافی کے لیے حکومت کیا پالیسی اور پروگرام بنا رہی ہے ساتھ ہی اس کے نفاذ کےحقائق کی بنیادیں کتنی پختہ ہیں؟ اس کا مزید باریک بینی کے ساتھ مطالعے،جائزے اور تجزیہ کی ضرورت ہے۔
ابھی حال ہی میں انڈیا ٹوڈے نے ملک کی سب سے زیادہ خواندہ ریاست، کیرالا کے حالیہ اعداد و شمار کو ظاہر کرتے ہوئے واضح کیا ہے کہ (قومی شماریاتی دفتر 2018 کےاعداد و شمار کے مطابق) کیرالا کی شرح خواندگی 96.2فیصد ہے۔ ریاست میں خواتین کی شرح خواندگی 95.2 فیصد ہے جبکہ مردوں کی شرح خواندگی 97.4 فیصد ہے۔یعنی ریاستِ کیرالا میں شرح خواندگی کافی بہتر ہونے کے ساتھ ساتھ مردوں اور عورتوں کی خواندگی کا فرق بھی زیادہ نہیں ہے۔معروف جریدہ، دکن ہیرالڈ اس کی تحقیق کرتے ہوئے بتاتا ہے کہ کیرالا نے خواندگی کے ذریعے پسماندہ طبقات کے ارکان کو مرکزی دھارے میں لا کر یہ سنگ میل حاصل کیا ہے۔ 4 سال (2016 سے 2020 تک) میں 1,08,057 ناخواندہ افراد خواندہ گروپ میں شامل ہوئے جس میں قبائلی برادری بھی شامل تھی۔یعنی کیرالا میں شہروں، دیہاتوں،گاوؤں اور قبائلی علاقوں، سب کو تعلیم کے میدان میں ہدف کے طور رکھا گیا اور اس میں کامیابی حاصل ہوئی۔ نیز، یہ معاملہ صرف کیرالا کے باشندوں تک ہی محدود نہیں ہے بلکہ ریاست میں ہجرت کرنے والے افراد بھی کم از کم خواندگی کی سطح کو حاصل کر چکے ہیں۔اسی طرح مغربی بنگال نے بھی درج فہرست قبائل (ST) کی تعلیم پر توجہ مرکوز کرتے ہوئے اپنے تعلیمی انفراسٹرکچر کو بہتر بنانے کے لیے کوششیں کی ہیں۔ ریاست نے قابل عمل علاقوں کی نشان دہی کرنے کے لیے تمام دستیاب اعداد و شمار کے ذرائع (جیسے سرکاری مردم شماری اور دیگر سروےرپورٹس) کا استعمال کرتے ہوئے ریاستی سطح کی پالیسیاں (مرکزی حکومت کی پالیسیوں کے علاوہ) بنائی ہیں جیسے ‘سکھاشری’ کلاس پنجم تا ہشتم میں پڑھنے والے ایسے خاندان جن کی سالانہ آمدنی 2.5 لاکھ روپے ہو، ایسے طلبہ و طالبات کو ہر سال 800 روپے دیے جاتے ہیں تاکہ وہ اپنی تعلیمی ضروریات پوری کرسکیں۔ اسی طرح ‘آشرم ہاسٹل اسکیم’ ہے۔ یہ اسکیم درج فہرست قبائل کے لڑکوں اور لڑکیوں کے لیے ہے جس میں انہیں بیڈ رول، صابن، کپڑے اور مٹی کا تیل کے علاوہ فی ماہ 750 روپے دیے جاتے ہیں۔
اسی طرح دیگر ریاستوں کے علاوہ دہلی کی حکومت کی طرف سے اٹھائے گئے اقدامات اور عوام میں بیداری نے دہلی کو معیاری تعلیم کا مرکز بنانے میں مدد کی ہے جس میں آن لائن اسکول (دہلی ماڈل ورچوئل اسکول) کا آغاز، تعلیمی نظام میں تبدیلی، اساتذہ کی ٹریننگ کے ساتھ ساتھ سرکاری اسکولوں کا بہتر معیار، موجودہ تقاضوں کے پیش نظر انفراسٹکچر میں مثبت تبدیلی وغیرہ جیسے اقدامات کے نتیجہ میں تعلیمی معیار کو اوپر اٹھانے کے امکانات پیدا ہوئے ہیں۔ اقدامات کے ذریعے سیکھنے میں اضافے کی ایک اور مثال چندی گڑھ کی۔ ہے۔ مرکز کے زیر انتظام علاقے میں 100 سرکاری اسکولوں میں بالا پروجیکٹ(BALA Project)متعارف کرایا گیا ہے۔ اس پروجیکٹ کے تحت نئے لینگویج لیابس، سوشل سائنس لیابس، اسٹڈی ٹور اور نالج پارکس وغیرہ جیسے اقدامات نے طلبہ کے سیکھنے کے نتائج کو بہتر بنانے میں مدد کی ہے۔یہ ریاست ہندوستان کی مجموعی خواندگی کی حالت کو بہتر بنانے میں اہم کردار ادا کرتی ہے۔
یہاں چند ریاستوں کا تذکرہ اس لیے کیا گیا ہے تاکہ معلوم ہو کہ مرکزی حکومت کی پالیسی اور پروگرام کے علاوہ ریاستی حکومتوں نے بھی اپنی ریاست میں تعلیمی کے نظام اور معیار کو بہتر بنانے کی کوششیں کی ہیں، تاکہ شرح خواندگی بلند ہو اور ساتھ ہی تعلیمی معیار اور تعلیمی اداروں، خصوصاً اسکول کا نظام بہتر ہو۔نتیجہ میں طلبہ وطالبات اور ان کے سرپرست مختلف اسکیموں اور بہتر تعلیمی نظام سے استفادہ کرتے ہوئے تعلیم کی جانب راغب ہوں اور بچوں کو اسکول بھیجنے میں مددگار بنیں۔
ان تمام وسائل کے باوجود ملک میں نا خواندگی برقرار رہنے کی ابھی بھی بے شمار وجوہات موجود ہیں، جن پر اگر قابو نہ پایا گیا تو مسائل میں اضافہ اور اہداف کے حصول میں سست رفتاری کے امکانات قوی سے قوی ترہوتے جائیں گے۔ناخواندگی کی شرح کی بڑی وجوہات میں سرپرستوں کی حمایت کا فقدان بھی دیکھنے میں آتا ہے۔ اسکولوں میں رسائی کے مسائل اور جغرافی رکاوٹیں، انفراسٹرکچر کی کمی، اساتذہ کا ناقص معیار، بچوں کے اسکول چھوڑنے کی شرح میں اضافہ (rising the school dropout rate) تعلیمی نظام اور ملک میں درپیش چیلنجنگ حالات، سیکھنے کے عمل میں کمزوری،مالی مسائل، نصابی مضامین کو سمجھنے میں دشواری اور لڑکیوں کے خلاف امتیازی سلوک کے علاوہ تعلیم کی نجکاری اور تجارت کاری، جہاں تعلیم نے بھی ایک انڈسٹڑی کی شکل اختیار کرلی ہے۔ مہنگے تعلیمی ادارے اور نجکاری کے نتیجہ میں سرکاری تعلیمی نظام کی خستہ حالی۔ٹیکنالوجی کا بہتر استعمال نہ ہونا یا اس کو سکھانے کا بہتر انتظام نہ ہونا جیسے اور بھی کئی مسائل ہیں۔ اس سلسلے میں بڑی تعداد میں ایسے اسکولس بھی ہیں جہاں حکومت کی پالیسی کے دباؤ میں اور سرپرستوں کو متاثر کرنے کے لیے کمپیوٹر لیاب تو بنا دیے گئے ہیں لیکن اساتذہ اور بجلی کی قلت کی وجہ سے یہ لیاب فائدہ مند ثابت نہیں

 

***

 گزشتہ 10 سالوں سے جاری بی جے پی حکومت کی تعلیم کے میدان میں کارکردگی کی صورتحال تشویش ناک ہے اور اسی لیے یہ سوال بھی اٹھتا ہے کہ آخر ایسا کیوں کر ہوا کہ تعلیم کے میدان میں نمایاں کارکردگی دکھانے سے وہ قاصر رہے ہیں؟ غالباً اس کی وجہ وہ الزام ہو سکتا ہے جو عموماً ملک کے پچھڑے ہوئے اور کمزور طبقات کی جانب سے لگائے جاتے رہے ہیں کہ بی جے پی اور اس کا نظریہ یہی رہا ہے کہ وہ نہیں چاہتی کہ صرف ایک طبقے کے لوگوں سے ہٹ کر دوسرے طبقے کے لوگ بھی علم کے میدان میں آگے بڑھیں، اگر تمام طبقات علم کے میدان میں آگے بڑھ جائیں گے تو مخصوص فکر و نظریہ کے حاملین جو ملک میں سماجی سطح پر صدیوں سے مخصوص تانا بانا بننے اور اسے مستحکم کرنے میں سرگرم ہیں، ناکامی سے دوچار ہوسکتے ہیں۔


ہفت روزہ دعوت – شمارہ 05 جنوری تا 11 جنوری 2024