! قومی انسانی حقوق کمیشن کی تقرریوں میں اقلیتی طبقے کے ججس نظر انداز
بی جے پی ‘بنیادی طور پر ناقص’ طریقہ تقرری پر عمل پیرا۔ کانگریس کا اختلافی نوٹ
نئی دلی :سپریم کورٹ اور ہائی کورٹ کے ایسے ججز، جنہوں نے اپنی نمایاں خدمات پیش کیں مگر وہ اقلیتی طبقے سے تعلق رکھتے ہیں، انہیں نیشنل ہیومن رائٹس کمیشن (NHRC) کے چیئرمین اور اراکین کی تقرریوں میں نظرانداز کر دیا گیا ہے۔ مرکزی حکومت کی جانب سے تقرریوں کے لیے اپنایا گیا طریقہ کار بنیادی طور پر ناقص اور پہلے سے طے شدہ تھا، جس میں باہمی مشاورت اور اتفاق رائے کو مکمل طور پر نظرانداز کیا گیا۔
کانگریس پارٹی نے بی جے پی کی حکومت پر ان سنگین الزامات کو ایک اختلافی نوٹ کے ذریعے عائد کیا ہے، جو سپریم کورٹ کے سابق جج جسٹس وی راما سبرامنین کی NHRC کے نئے چیئرمین کے طور پر 23 دسمبر کو تقرری کے فوراً بعد جاری کیا گیا۔ اس انتخابی کمیٹی کی میٹنگ میں، جس کی سربراہی وزیر اعظم نریندر مودی کر رہے تھے، کانگریس کے رہنما راہل گاندھی اور ملکارجن کھرگے نے اقلیتی طبقے سے تعلق رکھنے والے ججوں کے نام تجویز کیے تھے لیکن ان کے مشورے کو یکسر مسترد کر دیا گیا۔
کانگریس نے الزام لگایا کہ مودی حکومت نے کمیٹی میں اپنی عددی اکثریت کا فائدہ اٹھاتے ہوئے یہ تقرریاں کیں اور ملک کی تنوع کی عکاسی کرنے میں ناکام رہی۔ اختلافی نوٹ پر کانگریس کے صدر ملکارجن کھرگے اور لوک سبھا میں قائد حزب اختلاف راہل گاندھی نے دستخط کیے اور اسے اس کمیٹی کو پیش کیا جو NHRC کے چیئرمین کے عہدے کے لیے امیدواروں کے نام صدر جمہوریہ کو بھیجتی ہے۔
کانگریس نے کہا کہ اگرچہ اہلیت کو تقرریوں کا بنیادی معیار بنایا گیا ہے لیکن ملک کے علاقائی، ذات، برادری اور مذہبی تنوع کو برقرار رکھنا بھی اتنا ہی ضروری تھا۔ کمیٹی کی جانب سے اس اصول کو نظر انداز کرنے سے عوام کے اس ادارے پر اعتماد میں کمی کا خدشہ ہے۔
اختلافی نوٹ میں کہا گیا کہ کمیٹی نے مشاورت اور اتفاق رائے کے بجائے اپنی عددی اکثریت کا سہارا لیتے ہوئے تقرریوں کا فیصلہ کیا ہے جو کہ اس عمل کی غیر جانب داری اور شفافیت کو متاثر کرتا ہے۔
کمیٹی کے اجلاس کے بعد کانگریس نے اپنے اعتراضات ریکارڈ کرواتے ہوئے کہا کہ NHRC جیسے اہم ادارے، جو تمام شہریوں کے بنیادی انسانی حقوق کے تحفظ کے لیے ذمہ دار ہیں، ان کی قیادت میں تنوع اور شمولیت کا ہونا ضروری ہے۔ اقلیتی برادریوں کے حقوق کے تحفظ کے لیے ایک جامع قیادت ناگزیر ہے۔
راہل گاندھی اور ملکارجن کھرگے نے کہا کہ انہوں نے چیئرمین کے عہدے کے لیے جسٹس روہنٹن فالی نریمن اور جسٹس کے ایم جوزف کے نام تجویز کیے تھے۔ جسٹس نریمن، جو اقلیتی پارسی برادری سے تعلق رکھتے ہیں، اپنی آئینی اقدار اور گہرے فکری علم کی وجہ سے نمایاں حیثیت رکھتے ہیں، جبکہ جسٹس جوزف نے، جو اقلیتی عیسائی برادری سے ہیں، ہمیشہ انفرادی آزادیوں اور پسماندہ طبقات کے حقوق کے تحفظ پر زور دیا ہے۔
کانگریس نے NHRC کے اراکین کے لیے جسٹس ایس مرلی دھر اور جسٹس عقیل عبدالحمید قریشی کے نام بھی تجویز کیے، جن کا انسانی حقوق کے تحفظ میں نمایاں کردار رہا ہے۔ جسٹس مرلی دھر نے 2020 کے دہلی فسادات کے دوران پولیس کی ناکامی پر سخت احکامات جاری کیے تھے، جس کے فوراً بعد ان کا پنجاب اور ہریانہ ہائی کورٹ ٹرانسفر کر دیا گیا۔
کانگریس کے مطابق NHRC کی شفافیت اور اثر پذیری کو برقرار رکھنے کے لیے ان ججز کی شمولیت ضروری تھی، لیکن کمیٹی کی جانب سے عددی اکثریت کے ذریعے کیے گئے فیصلے نے ان اہم امور کو پس پشت ڈال دیا۔
کانگریس کے اعتراضات اس بنیاد پر تھے کہ کمیٹی نے مشاورت اور اتفاق رائے کا اصول توڑ کر اپنی عددی اکثریت کا حق استعمال کرتے ہوئے فیصلے کیے ہیں۔ اختلافی نوٹ میں کہا گیا کہ اس طرز عمل نے انصاف اور شفافیت کے اصولوں کو مجروح کیا ہے جو ایسے اداروں کی ساکھ کی برقراری کے لیے انتہائی ضروری ہیں۔
کانگریس نے کہا کہ NHRC ایک اہم قانونی ادارہ ہے، جو انسانی حقوق کے تحفظ کے لیے کام کرتا ہے، خاص طور پر ان طبقات کے لیے جو دبے ہوئے اور پسماندہ ہیں۔ اس ادارے کی قیادت میں تنوع اور شمولیت کا ہونا نہایت ضروری ہے تاکہ یہ ہر طبقے کے مسائل کے لیے حساس رہے اور ان کی بھرپور نمائندگی کر سکے۔
جسٹس مرلی دھر نے اگست 2023 میں اڑیسہ ہائی کورٹ کے چیف جسٹس کے عہدے سے سبکدوشی اختیار کی۔ فروری 2020 میں انہوں نے دہلی ہائی کورٹ میں تین نشستوں کی صدارت کی، جن میں دارالحکومت کے مشرقی علاقوں میں ہونے والے فسادات کے دوران پولیس کی غفلت سے متعلق فوری درخواستوں کی سماعت کی۔ ایک ہنگامی نصف شب کی سماعت کے دوران، جو ان کی رہائش گاہ پر منعقد ہوئی، جسٹس مرلی دھر نے پولیس کو حکم دیا کہ فسادات میں زخمی ہونے والوں کو تحفظ فراہم کرے اور انہیں مناسب سہولتوں والے ہسپتالوں میں محفوظ طریقے سے منتقل کرے۔ ان احکامات کے فوراً بعد مرکزی حکومت نے انہیں پنجاب اور ہریانہ ہائی کورٹ تبادلہ کر دیا۔
جسٹس قریشی نے 2022 میں راجستھان ہائی کورٹ کے چیف جسٹس کے عہدے سے ریٹائرمنٹ لی۔ اس سے پہلے وہ گجرات ہائی کورٹ میں خدمات انجام دے چکے تھے، جہاں انہوں نے دو ایسے اہم فیصلے دیے جو اس وقت کی نریندر مودی حکومت کے لیے شرمندگی کا باعث بنے۔ 2010 میں انہوں نے ایک ٹرائل کورٹ کے حکم کو کالعدم قرار دیتے ہوئے سنٹرل بیورو آف انویسٹی گیشن (CBI) کو اس وقت کے گجرات کے وزیر داخلہ اور موجودہ مرکزی وزیر داخلہ امت شاہ کو دو دن کی تحویل میں لینے کا حکم دیا۔ یہ معاملہ سہراب الدین شیخ انکاؤنٹر کیس سے متعلق تھا۔ بعد میں 2014 میں ایک خصوصی سی بی آئی عدالت نے امت شاہ کو اس کیس میں بری کر دیا۔
2011 میں جسٹس قریشی کی سربراہی والی بنچ نے گجرات کے اس وقت کے گورنر کملا بینیوال کے فیصلے کو برقرار رکھا جس میں انہوں نے سابق ہائی کورٹ جج آر اے مہتا کو ریاست کا لوک آیکت مقرر کیا تھا، جس کی نریندر مودی نے مخالفت کی تھی۔ جسٹس قریشی نے، جو مسلم اقلیتی طبقے سے تعلق رکھتے ہیں ہمیشہ آئینی اصولوں کا دفاع کیا اور حکومت میں احتساب کے لیے مضبوط عزم کا مظاہرہ کیا۔
اختلافی نوٹ کے مطابق جسٹس مرلی دھر کو سماجی انصاف کو فروغ دینے والے انقلابی فیصلوں کے لیے وسیع پیمانے پر احترام حاصل ہے، جن میں تحویل میں تشدد اور شہری آزادیوں کے تحفظ سے متعلق ان کا کام شامل ہے۔ اختلافی نوٹ میں کہا گیا کہ انتخابی کمیٹی کی اکثریتی رائے کا تحقیر آمیز رویہ نہایت افسوس ناک ہے اور اس نے NHRC کی ساکھ کو نقصان پہنچایا ہے، جو کہ بھارت کے آئینی اقدار میں شامل تنوع اور شمولیت کو اپنانے کی صلاحیت پر منحصر ہے۔
کانگریس کے مذکورہ بالا دونوں رہنماؤں نے نشان دہی کی کہ ان کے تجویز کردہ نام تنوع کی روح کی عکاسی کرتے ہیں اور کمیشن کے بنیادی اصولوں سے ہم آہنگ ہیں۔ ان ناموں کو مسترد کرنے سے انتخابی عمل کی غیر جانب داری اور انصاف پسندی پر اہم سوالات اٹھتے ہیں۔NHRC کے چیئرمین کے عہدے پر سابق چیف جسٹس آف انڈیا یا سپریم کورٹ کے ریٹائرڈ جج کو تعینات کیا جاتا ہے، جسے صدر جمہوریہ انتخابی کمیٹی کی سفارش پر مقرر کرتے ہیں۔ ماضی میں جسٹس ایچ ایل دتو اور جسٹس کے جی بالا کرشنن جیسی اہم شخصیات کمیشن کے سربراہ کے طور پر خدمات انجام دے چکی ہیں۔ NHRC نے اپنے ایک پوسٹ میں کہا "صدر جمہوریہ ہند نے جسٹس وی راما سبرامنین (ریٹائرڈ) کو چیئرمین اور شری پریانک کانونگو اور ڈاکٹر جسٹس بِدیوت رنجن سرنگی (ریٹائرڈ) کو نیشنل ہیومن رائٹس کمیشن، انڈیا کے اراکین کے طور پر تعینات کیا ہے۔”
پریانک کانونگو اس سے پہلے نیشنل کمیشن فار پروٹیکشن آف چائلڈ رائٹس (NCPCR) کے چیئرمین کے طور پر خدمات انجام دے چکے ہیں، جبکہ جسٹس سرنگی جھارکھنڈ ہائی کورٹ کے سابق چیف جسٹس ہیں۔
کانگریس کے دونوں لیڈروں نے بالترتیب راجیہ سبھا اور لوک سبھا میں قائد حزب اختلاف کے طور پر میٹنگ میں شرکت کی۔ NHRC کے قوانین کے مطابق، کمیشن کے سربراہ کا انتخاب کرنے والی کمیٹی کی قیادت وزیر اعظم کرتے ہیں جس میں لوک سبھا کے اسپیکر، وزیر داخلہ، لوک سبھا اور راجیہ سبھا کے قائدین حزب اختلاف اور راجیہ سبھا کے ڈپٹی چیئرمین شامل ہوتے ہیں۔
(بشکریہ : انڈیا ٹوماروڈاٹ نیٹ)
***
ہفت روزہ دعوت – شمارہ 05 جنوری تا 11 جنوری 2024