’قومی افتخار‘ کا بیانیہ

قوم پرستی کی دو دھاری تلوار: جوڑنے والا جذبہ یا بانٹنے والی سیاست؟

0

ابوفہد ندوی، دلی

خطرے کا سایہ دکھا کر اقتدار کی کرسی بچانے کا کھیل
قومی افتخار’ — یعنی راشٹرواد / دیش بھکتی — ایک ایسی جذباتی کیفیت ہے جو کسی ملک کے باشندوں کو اپنے وطن کے ساتھ گہری وابستگی اور محبت کے اٹوٹ رشتے میں باندھ دیتی ہے۔ قومی افتخار کا یہ تصور جو دراصل ایک جذباتی کیفیت سے وابستہ ہوتا ہے، مختلف ممالک میں مختلف شکلوں میں پایا جاتا ہے۔ ہر ملک میں دیش بھکتی کا بیانیہ اس کی تاریخی، سیاسی و سماجی، دیومالائی اور ڈرامائی قسم کی اساطیری داستانوں اور نسلی عصبیتوں سے مل کر تشکیل پاتا ہے اور اکثر و بیشتر اسے سیاسی ایجنڈوں کو پایۂ تکمیل تک پہنچانے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔
قومی افتخار کا یہ جذبہ دو دھاری تلوار کی مانند ہوتا ہے: اس سے ایک طرف بہت سے مثبت کام لیے جا سکتے ہیں، تو دوسری طرف اسی جذبے کو منفی سرگرمیوں کے لیے بھی استعمال کیا جاتا ہے۔ اس کا مثبت استعمال ملک کو تعمیر و ترقی کی جانب لے جاتا ہے، سیاسی و اقتصادی استحکام حاصل ہوتا ہے، اور ملک میں بسنے والے مختلف مذاہب، مختلف تہذیبوں اور متنوع ذہنیت و اعتقادات کے لوگوں کے درمیان باہمی خیرسگالی، اخوت اور محبت کو فروغ حاصل ہوتا ہے۔ اس طرح قوم ایک متحدہ قوت میں ڈھلتی ہے اور اختلاف و تنوع کے باوجود وحدت و یکجہتی کا جذبہ اسی قومی افتخار کے زیر سایہ پروان چڑھتا ہے۔
قومی افتخار کے جذبے کی سب سے بڑی مثال بھارت میں جنگِ آزادی کے دوران دیکھی گئی جب ملک کی مختلف قوموں، ذات برادریوں اور مذاہب کے ماننے والوں کے درمیان غیرمعمولی قومی یکجہتی اور اتحاد و اتفاق کا مظاہرہ ہوا۔ اس وقت ملک کے ہر باشندے کی سوچ میں ایک یکسانیت در آئی تھی — کیا چھوٹا، کیا بڑا، کیا عورت، کیا مرد — سبھی کی فکر اور کوشش صرف ایک تھی: ملک کو آزادی دلانا اور ہر قیمت پر دلانا۔
وطن کو آزاد کرانے کا یہ جذبہ ایک دیو ہیکل جن کی مانند قوم کے جسم و جان پر ایسا حاوی ہوا کہ اس نے تمام چھوٹے بڑے مسائل، اختلافات اور تنازعات کو گویا نگل لیا۔ اس جذبے کے سامنے کوئی رکاوٹ سدِ سکندری نہ بن سکی — نہ مذہب، نہ ذات، نہ رنگ و زبان، اور نہ ہی علاقائی تعصبات۔ اس وقت یہ تمام مسائل ’سلیپنگ موڈ‘ میں چلے گئے تھے اور قوم کے ذہن و دل پر بس ایک ہی فکر اور ایک ہی جذبے کی حکم رانی تھی: آزادی — اور صرف آزادی۔
اس کے برخلاف، قومی افتخار / دیش بھکتی کے جذبے کا منفی استعمال ملک میں کسی ناپسندیدہ اقلیت کے خلاف اکثریت کو ورغلانے اور نقصان پہنچانے کے لیے بھی خوب کیا جاتا ہے۔ ملک کی فرقہ پرست طاقتیں قوم پرستی اور دیش بھکتی کے اس جذباتی جذبے کو اقلیتوں کے خلاف استعمال کرتی ہیں اور اکثریت کو بھڑکا کر ملک میں فرقہ وارانہ فسادات برپا کراتی ہیں۔ صرف فرقہ پرست تنظیمیں ہی نہیں بلکہ سیاسی پارٹیاں بھی اپنے ووٹ بینک کو مضبوط بنانے اور بیرونی دنیا سے مالی امداد حاصل کرنے کے لیے قوم پرستی کے اسی جذبے کو منفی طریقے سے بروئے کار لاتی ہیں— اور اکثر اس میں کامیاب بھی ہو جاتی ہیں۔
درحقیقت سیاسی جماعتوں اور فرقہ پرست تنظیموں کے باہمی گٹھ جوڑ کو ملک میں بدامنی اور انارکی پھیلانے کے ایک بڑے پلیٹ فارم کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔ کسی بھی ملک کے سیاسی پلیٹ فارموں پر قومی افتخار کے جذبے کا سب سے زیادہ غلط استعمال یہی عناصر کرتے ہیں۔ قوم پرستی کا یہ جذبہ سیاست دانوں کے ہاتھوں میں ایک ایسا طاقتور ہتھیار بن چکا ہے جس کے ذریعے وہ اپنے ذاتی مفادات حاصل کرتے ہیں۔
مزید یہ کہ قوم پرستی کے جذبے کا منفی استعمال اقتصادی مفادات کے لیے بھی کیا جاتا ہے۔ ’دیسی‘ اور ’بدیسی‘ کے نام پر سستے اور غیر معیاری مصنوعات کو اونچی قیمتوں پر بیچا جاتا ہے، اور صارفین کو دیش بھکتی کے نام پر جذباتی طور پر مجبور کر کے مالی استحصال کیا جاتا ہے۔
آج دنیا کے بیشتر ممالک میں جو پارٹیاں برسرِ اقتدار ہیں، وہ اپنے اقتدار کو بچائے رکھنے کے لیے اسی قومی افتخار یعنی دیش بھکتی کے جذبات کو ہوا دیتی ہیں۔ وہ اس جذبے کا استعمال کرکے ایک طرف اپنے اندرونی عیوب اور ناکامیوں پر پردہ ڈالتی ہیں تو دوسری طرف اپنے خلاف اٹھنے والے سوالات کا رخ خارجی مسائل کی طرف موڑنے میں کامیاب ہو جاتی ہیں۔
ہر ملک کی حکومت نے یا تو اپنے کسی قریبی ہمسائے کو یا دور دراز کے کسی ملک کو فرضی دشمن بنا رکھا ہے اور عوام کو یہ باور کرانے میں کامیاب ہو چکی ہے کہ صرف انہی کی حکومت میں اتنی طاقت اور جرأت ہے جو ان دشمنوں کا مقابلہ کر سکتی ہے — چاہے وہ دشمن ان سے کہیں زیادہ طاقتور ہی کیوں نہ ہوں۔
اقتدار پر قابض یہ حکومتیں اور ان کے حکم رانوں کے لیے "خارجی دشمن” ایک بہت کام کا ہتھیار ثابت ہوتا ہے — جو کبھی حقیقی ہوتا ہے اور کبھی سراسر فرضی اور گھڑا ہوا۔ اسی دشمن کے سہارے یہ حکومتیں عوام کو خوف میں مبتلا رکھتی ہیں، انتخابات جیتتی ہیں، اور برسوں اقتدار سے چمٹی رہتی ہیں۔
بسا اوقات دو ملکوں کے درمیان فرضی یا محدود جھڑپیں ہوتی ہیں اور دونوں طرف کی حکومتیں اپنے آپ کو فاتح بنا کر پیش کرتی ہیں۔ فتح کے جشن منائے جاتے ہیں اور قوم کو یہ یقین دلایا جاتا ہے کہ "صرف ہم ہی وہ قیادت ہیں جو ملک کو پاگل ہاتھی جیسے خطرناک دشمن سے محفوظ رکھ سکتے ہیں!” حالانکہ اکثر ایسی لڑائیاں نہ مکمل ہوتی ہیں، نہ فیصلہ کن — اور معمولی جھڑپ کے بعد بھی دونوں ملک اپنے سخت گیر اور مخالفانہ بیانیوں پر قائم رہتے ہیں۔
پھر بھی دونوں جانب کی حکومتیں عوام کو یہ باور کرانے میں کامیاب ہو جاتی ہیں کہ ہم نے دشمن کی کھال میں بھس بھر دیا ہے، اب وہ کبھی ہماری طرف آنکھ اٹھا کر بھی نہیں دیکھ سکے گا! یوں دونوں ممالک کی سیاست ایک خیالی لکیر کو پیٹتی ہے، زر خرید میڈیا کے ذریعے اپنی بہادری اور کارکردگی کا ڈھول پیٹا جاتا ہے اور دیش بھکتی کے سرٹیفکیٹ خود ہی اپنے حق میں جاری کر لیے جاتے ہیں۔
آخرکار نہ سانپ مرتا ہے نہ لاٹھی ٹوٹتی ہے — اور برسراقتدار حکومتوں اور لیڈروں کی اندھیری و سنسان راتوں میں چاندنی ہی چاندنی بکھر جاتی ہے۔
ایران-اسرائیل اور انڈو-پاک کی حالیہ کشیدگیوں کے دوران بھی یہی کچھ دیکھنے کو ملا۔ چاروں ملکوں کی موجودہ حکومتوں نے "فتح” کا جشن منایا، خود ہی اپنے شانے تھپتھپائے اور دعویٰ کیا کہ "ہم جیت گئے، ہم نے دشمن کو دھول چٹا دی!” جب کہ نہ ایران-اسرائیل کی لڑائی میں اور نہ ہی انڈو-پاک کشیدگی میں کسی فریق نے شکست تسلیم کی، نہ کسی نے ہتھیار ڈالے اور نہ ہی کوئی رسمی "فتح” حاصل ہوئی۔ اس کے باوجود ہر ملک نے فتح کا جشن منایا اور ہر ملک کی عوام نے یہی سمجھا کہ ان کی موجودہ حکومت ہی اصل محافظ اور کامیاب فاتح ہے۔
یہی نہیں، اسرائیل میں وزیرِ اعظم نتن یاہو کے خلاف جاری کرپشن مقدمے کو محض اس بنیاد پر مؤخر کر دیا گیا کہ "صاحب اس وقت قومی جنگ میں مصروف ہیں” لہٰذا انہیں گھریلو مسائل سے وقتی طور پر آزاد رکھا جائے۔ اسرائیلی حکومت، خاص طور پر نتن یاہو غزہ کے نہتے عوام کے خلاف "قومی افتخار” کے اسی جذبے کو ایک جنگی ہتھیار کے طور پر استعمال کر رہے ہیں۔ وہ اس جنگ کو اسرائیل اور یہودیوں کے وجود کی بقا کی جنگ قرار دیتے ہیں — جب کہ فلسطینیوں کی نہتی حالت کو دیکھتے ہوئے یہ سوال اٹھتا ہے کہ ان سے اسرائیل کے وجود کو آخر کیا خطرہ ہو سکتا ہے؟
اور جب تک اسرائیل کی پشت پر امریکہ، برطانیہ، فرانس اور جاپان جیسے طاقتور ممالک پوری قوت سے کھڑے ہیں، جب تک نسل کشی کو بھی ’جائز دفاع‘ قرار دینے والے اتحادی موجود ہیں، تب تک اسرائیل کو کسی بھی پڑوسی ملک سے — نہ ایران سے، نہ ترکی سے، نہ عراق و شام سے — کوئی حقیقی خطرہ لاحق ہو سکتا ہے۔ پھر بھی ان تمام ملکوں کو ایک ایک کرکے کمزور کیا گیا، برباد کیا گیا اور یہ سب امریکہ و اسرائیل کی مرضی سے۔
یہ ظلم پر مبنی عالمی سیاست کا ایک خود ساختہ منطق ہے "جن ملکوں سے ہمیں خطرہ ہے انہیں ختم کر دو چاہے وہ اس وقت پرامن ہوں۔ اگر اگلے پچاس برسوں میں بھی کسی ملک سے خطرہ ہونے کا اندیشہ ہو، تو ابھی ہی اسے توڑ ڈالو!” یہ سفاکی اور خود غرضی پر مبنی پالیسی مسلم دنیا کے خلاف بے رحمی سے نافذ کی جا رہی ہے۔ مگر چین اور روس جیسے بڑے ممالک جو حقیقی خطرہ بن سکتے ہیں ان کے خلاف یہ کچھ نہیں کر سکتے — کم از کم فی الحال تو نہیں۔ حالانکہ خود مغربی لیڈر اپنے انٹرویوز میں چین اور روس کو سب سے بڑا خطرہ قرار دیتے ہیں اور انہی کے نام پر جدید اور مہلک ہتھیاروں کی تیاری کا جواز پیش کرتے ہیں۔ حالانکہ اگر وہ کوئی جواز بھی نہ دیں تو نہ اقوامِ متحدہ ان کا کچھ بگاڑ سکتی ہے نہ ہی عالمی برادری۔
درحقیقت ان ممالک کا یہ طرزِ عمل بالکل اُن حکیموں یا ڈاکٹروں جیسا ہے جو مریض کو ایک غیر مرئی بیماری کا خوف دکھا کر طویل علاج کی آڑ میں اس کی جیب خالی کرتے رہتے ہیں۔ بالکل اسی طرح حکومتیں بھی عوام کو داخلی یا خارجی دشمن کا خوف دکھا کر اپنے سیاسی مفادات کی تکمیل کرتی ہیں اور مسند اقتدار پر بیٹھے رہنے کے اسباب پیدا کرتی ہیں۔
گویا گھر کی دہلیز سے لے کر ایوانِ اقتدار کی چوکھٹ تک — خوف اور ڈر ہی اصل بیانیہ بن چکا ہے۔ یہ بیانیہ دراصل قومی افتخار اور دیش بھکتی کے جذبے کے منفی استعمال پر مبنی ہوتا ہے، جس کے ذریعے عوام کو مسلسل بیرونی خطرات کے خوف میں مبتلا رکھا جاتا ہے تاکہ سیاسی فائدے حاصل کیا جا سکیں۔
یہی بیانیہ ہمیں امریکہ کے سابق صدر ڈونالڈ ٹرمپ کی انتخابی ریلیوں میں "America First” کے نعروں کی صورت میں سنائی دیتا ہے۔ اور کچھ ملکوں میں یہ قومی افتخار مذہبی جذبات کی آبیاری سے پروان چڑھتا ہے جسے داخلی و خارجی ہر مسئلے میں ایک مرکزی اہمیت حاصل ہوتی ہے۔
آج جمہوریت کی جتنی بھی تعریفیں کی جاتی ہوں، حقیقت یہ ہے کہ کئی ممالک میں مذہبی انتہاپسندی کو باقاعدہ سرکاری سرپرستی میں فروغ دیا جا رہا ہے اور کچھ ملکوں کو مذہبی ریاستوں کی حیثیت سے باقاعدہ تسلیم بھی کر لیا گیا ہے۔ یوں قومی افتخار کا یہ بیانیہ کرپٹ اور غیر کرپٹ، دونوں قسم کی حکومتوں کے لیے نجات دہندہ (survival tool) بن چکا ہے۔
قابلِ غور بات یہ ہے کہ قومی افتخار کا یہ جذبہ یکساں نہیں رہتا بلکہ مختلف طبقات میں بٹ جاتا ہے — بالکل ویسے ہی جیسے وراثت تقسیم ہوتی ہے۔
مسلمانوں میں ملی افتخار کا جذبہ مسلکی افتخار میں تقسیم ہو جاتا ہے۔
ہندوؤں میں یہ ذات پات کے خانوں میں بٹ جاتا ہے۔
انگریزوں میں یہی جذبہ کالے اور گورے میں بٹتا ہے۔
اور عمومی سطح پر دیکھا جائے تو تجدد پسندی اور روایت پسندی کے درمیان بھی یہی تقسیم نظر آتی ہے۔
یعنی جذبہ اپنی جگہ قائم رہتا ہے، لیکن اس کی شکل، ہیئت اور اثرات بدلتے رہتے ہیں — اور نتیجے بھی بدلتے رہتے ہیں۔
قومی افتخار کی انتہا پسندی ایک اور خطرناک صورتِ حال کو جنم دیتی ہے: یہ قوموں میں خود پرستی (narcissism) کو فروغ دیتی ہے۔ ہر شخص اپنی قوم کے افراد سے تو محبت کرتا ہے، ان کے دکھ درد میں شریک ہوتا ہے مگر جب بات غیر قوم یا غیر مذہب کے لوگوں کی آتی ہے تو بے حس ہو جاتا ہے۔ اظہارِ افسوس بھی صرف سیاسی مجبوریوں یا اسٹریٹجک پارٹنرشپ کے دباؤ میں آتا ہے۔
اس کی تازہ ترین مثال ہمیں روس-یوکرین اور اسرائیل-فلسطین کی موجودہ جنگوں میں نظر آتی ہے۔
روس کے خلاف امریکہ و یورپ نے معاشی پابندیوں کے ۱۸ ویں پیکیج تک منظور کیے ہیں۔
دوسری طرف اسرائیل کو نہ صرف کھلے عام اسلحہ، مالی امداد اور سیاسی حمایت فراہم کی جا رہی ہے بلکہ اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل میں اس کے حق میں ویٹو پاور بھی استعمال کیا جا رہا ہے۔
جبکہ یوکرین میں نسل کشی نہیں ہو رہی ہے لیکن غزہ میں ہو رہی ہے — اس کے باوجود اسرائیل پر کوئی پابندی عائد نہیں کی گئی۔
یہ دہرا معیار صرف اس لیے ہے کہ غزہ کے عوام مسلمان ہیں — اور اگر وہ عیسائی ہوتے تو مغرب شور مچاتا، چیختا چلاتا اور اسرائیل پر بھی ویسی ہی پابندیاں عائد کرتا جیسی روس پر کی گئی ہیں۔
آج کے دور میں جب دنیا کی اقوام تعلیم، صحت، تجارت اور اقتصادی ترقی کے میدان میں ایک دوسرے پر انحصار کر رہی ہیں، قومی افتخار کے جذبے کو بھی بین الاقوامی تعاون، امن اور انسانیت کی خدمت سے ہم آہنگ کیا جانا چاہیے۔ اس جذبے کو ایک حد میں رکھ کر ملک کے اندر سیاسی، سماجی اور مذہبی یکجہتی کو فروغ دینا وقت کی سب سے اہم ضرورت ہے۔قومی افتخار کے اس جذبے کو اگر انسانیت کے اعلیٰ مفادات کے تحت عالمی سطح پر توازن اور ہم آہنگی کے ساتھ استعمال کیا جائے تو دنیا کو ایک پرامن اور خوشحال جگہ بنایا جا سکتا ہے۔

 

***

 قومی افتخار یا دیش بھکتی کا جذبہ بظاہر ایک مثبت اور تعمیری قوت ہے جو کسی بھی قوم کو اتحاد، ایثار اور ترقی کی راہ پر گامزن کرتا ہے۔ تاہم جب یہی جذبہ سیاسی مفادات، فرقہ وارانہ تعصبات اور مالی مفاد کے لیے استعمال کیا جائے تو یہ ایک خطرناک ہتھیار بن جاتا ہے۔


ہفت روزہ دعوت – شمارہ 03 جولائی تا 09 اگست 2025