قوم کے مستقبل کا خیال کیا جائے

کشمیر میں کھیل کود کی سرگرمیوںکےلیے انتظام نہیں

(ندیم خان، بارہمولہ (کشمیر

اسٹیڈیمس کے قیام کی ضرورت
نوجوانوں کومنشیات سے بچانے کے لیے کھیل کود اور جسمانی سرگرمیوں کی حوصلہ افزائی ضروری
تاریخ گواہ ہے کہ وادی کشمیر نے ایسی کئی  شخصیات کو جنم دیا ہے جنہوں نے زندگی کے مختلف شعبوں میں تاریخ رقم کی ہے، خاص کر کھیل کود کے میدان میں یہاں کے نوجوانوں نے بہترین کارکردگی کا مظاہرہ کیا ہے، جن میں بین الاقوامی کھلاڑی پرویز رسول، قیوم بغو، راسک سلام، عمران ملک، عبدالصمد اور دیگر کئی کرکٹرفہرست میں شامل ہیں۔ یہاں کے نوجوان کھیل کود میں کسی سے پیچھے نہیں ہیں۔ تاہم نوجوانوں کے لیے کھیل کود سے متعلق وہ سہولیات میسر نہیں ہیں جو حقیقی معنوں میں ہونا چاہیے۔ وادی کشمیر کے کئی علاقے ابھی بھی ایسے ہیں جہاں کھیل کود جیسی سرگرمیوں کے لیے بنیادی ڈھانچوں کی عدم دستیابی پائی جا رہی ہے۔
کشمیر میں بارہمولہ، سری نگر، بجبہاڑہ، پلوامہ وغیرہ یہ ایسے علاقے ہیں جہاں کھیل کود جیسی سرگرمیوں کے لیے اسٹیڈیم کا فقدان ہے، اگر کہیں گراؤنڈ بنایا بھی گیا تو بدقسمتی سے اسے آدھا ادھورا ہی چھوڑ دیا گیا، جس کی وجہ سے مقامی نوجوان ذہنی تناؤ کا شکار ہورہے ہیں۔ اگرچہ ان علاقوں میں سیکڑوں کنال اراضی موجود ہے، تاہم اس اراضی کو بروئے کار لانے اور اسے کھیل کود جیسی سرگرمیوں کے لیے فعال بنانے کی غرض سے حکام بے بسی کا مظاہرہ کر رہے ہیں۔ ضلع کے چندوسہ علاقے کے بیشتر نوجوان کھیل کود کی مشق کے لیے سڑکوں، گلی کوچوں اور صحن وباغات  کو استعمال میں لاتے ہیں۔ مقامی نوجوانوں کا کہنا ہے کہ قوم کے مستقبل نوجوان نسل کو کھیل کود کی جگہ میسر نہ ہونے کے سبب غلط کاموں کی جانب راغب ہورہے ہیں، ان کا کہنا ہے کہ اگر علاقے میں کھیلنے کے لیے کہیں میدان بن جاتا تو نوجوان کھیل کود کی سرگرمیوں میں مصروف رہتے اور برے کاموں سے بھی محفوظ رہتے۔ مقامی نوجوانوں کا کہنا ہے کہ سڑک پر کرکٹ کھیلنے کے نتیجے میں ابھی تک کئی نوجوان حادثات کے شکار ہوئے ہیں۔ جبکہ کسی بھی قوم کا اصل سرمایہ ان کی نئی نسل ہوتی ہے، قوم کے اس سرمایہ کی جسمانی نشوونما کے لیے ہر بنیادی ضرورت ہونی چاہیے، جو کشمیر کے سوا ملک کی تقریباً ہر ریاست کے گلی کوچوں میں میسر ہے۔ کھیل کود کے حوالے سے یوں تو حکومت ہر سال کثیر رقم خرچ کرتی ہے مگر بارہمولہ کے ساتھ ساتھ ضلع پلوامہ میں اکثر کھیل کے میدان خستہ حالی کے شکار ہوگئے ہیں۔ ضلع پلوامہ میں موجود سب سے بڑا اسپورٹس اسٹیڈیم کا حال بھی یہی ہے ۔ پلوامہ کے دیہی علاقوں کے اسپورٹس اسٹیڈیم تو پوری طرح خستہ حال ہوگئے ہیں۔ حالانکہ حکومت کی جانب سے دیہی علاقوں میں کھیل کود کو فروغ دینے کے لیے نہ صرف کھیلوں کا اہتمام کیا جاتا ہے بلکہ کھیل کے بنیادی ڈھانچے کو بھی مضبوط بنانے کا پروگرام بھی چلایا جاتا تھا۔ لیکن پلوامہ میں اس کے بالکل برعکس ہوا ہے۔ضلع پلوامہ کے ملنگ پورہ علاقہ میں کچھ عرصہ قبل حکومت نے کھیل کے میدان کا تعمیراتی کام تو شروع کیا لیکن نامعلوم وجوہات کے بنا پر کام کو ادھورا ہی چھوڑ دیا گیا۔ابھی تک ضلع پلوامہ کے کسی بھی اسٹیڈیم میں کرکٹ کے لیے ٹیرف نہیں بنایا گیا ہے۔ یہی نہیں ضلع کے لیے بنائے گئے انڈور اسٹیڈیم کا کام بھی گزشتہ کئی برسوں سے مکمل ہونے کا نام نہیں لے رہا ہے۔ ضلع پلوامہ کے بیشتر کھیل کے میدانوں کی حالت جہاں خستہ ہے ، وہیں کھیلوں کو فروغ دینے کے لیے محکمہ اسپورٹس اور جموں و کشمیر اسپورٹس کونسل کی جانب سے کوئی ٹھوس قدم نہیں اٹھایا جارہا ہے۔
پلوامہ کے ساتھ ساتھ اگر ہم بات جموں و کشمیر کے گرمائی دارالحکومت سری نگر کی کریں تو نیو اگرو باغ حول کے باشندوں بالخصوص کھلاڑیوں نے دعوت نیوز کو بتایا کہ ان کے علاقے میں بوٹہ چھاونی کے نام سے مشہور گراؤنڈ کی حالت انتہائی خستہ ہے جس کی وجہ سے کھلاڑیوں کو اس میں کھیلنے میں گوناگوں مشکلات سے دوچار ہونا پڑتا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ معمولی بارش سے گراؤنڈ میں جگہ جگہ پانی جمع ہوجاتا ہے جس کی وجہ سے اس گراؤنڈ میں کھیلنا مشکل ہوجاتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اس گراؤنڈ میں علاقے کے تمام بچے کھیلنے کے لیے آتے ہیں کیونکہ ان کے  لیے کوئی دوسرا متبادل بندوبست نہیں ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ خشک موسم میں بھی اس گراؤنڈ میں کھیلنا مشکل ہوجاتا ہے کیونکہ اس میں گھاس نکل آتی ہے جس کو کاٹنے کے لیے کوئی انتظام نہیں کیا جا رہا ہے۔ ایک کھلاڑی نے کہا کہ گراؤنڈ میں دو بیت الخلا ہیں لیکن ان کی حالت بھی بہت خراب ہے۔ لوگوں نے دعوت نیوز کی وساطت سے متعلقہ حکام سے اپیل کی کہ وہ اس گراؤنڈ کی دیکھ ریکھ کے لیے ضروری اقدام کریں تاکہ بچوں کو کھیلنے میں دشواریوں کا سامنا نہ کرنا پڑے۔
ہم سب جانتے ہیں کہ نوجوانوں کے لیے مثبت کھیل کی سرگرمیاں انتہائی اہم ہیں، مقامی سطح سے ہی ایسے نوجوان قومی کھیلوں کا حصہ بنتے آ رہے ہیں، کل محلے کی گلیوں اور گراؤنڈ میں کھیل کر آج قومی ٹیم کا حصہ بن کر اپنے وطن کا نام روشن  کر رہے ہیں، جن میں عمران ملک اور عبدالصمد جیسے ہونہار کرکٹر شامل ہیں جو کشمیر کے ساتھ ساتھ پورے ملک کا نام روشن کر رہے ہیں۔ ان کرکٹرز کی تعداد اور زیادہ ہوسکتی تھی لیکن افسوس کہ ہمارے ہاں نوجوانوں کے لیے کھیل کے مواقع نہ ہونے کے برابر ہیں اور جو ہیں وہ بھی پوری طرح نوجوانوں کی ضروریات کو پورا کرنے سے قاصر ہیں۔
نوجوانوں کی کھیلوں کی سرگرمیوں کو نظر انداز نہیں کرنا چاہیے چاہے وہ لڑکیاں ہوں یا لڑکے ہوں دونوں کو کھیل کے برابر مواقع ملنے چاہئیں اور یہ مواقع پیدا کرنا حکومت کا فریضہ ہے، اس سے آنکھیں نہیں چرائی جا سکتیں کیونکہ کھیل کی حوصلہ افزائی کر کے ہی ہم اچھے کھلاڑی پیدا کر سکتے ہیں۔ اس سے نہ صرف نوجوانوں کی بہتر نشوونما ہوتی ہے بلکہ وہ نشہ جیسی لعنت سے بھی محفوظ ہو جاتے ہیں۔ کھیل کود کو فروغ دینے کے لیے مرکز سے لے کر ریاستی حکومت اور یوٹی انتظامہ میں بھی ایک محکمہ مختص کیا گیا ہے جس کا مقصد ہی نوجوانوں کو کھیل کود میں مصروف کرنا،انہیں کھیلوں کی طرف راغب کرنا، ان کی تربیت کا بندوبست اور ان کے لیے کھیل کا میدان فراہم کرنا وغیرہ شامل ہیں ۔ غرض یہ کہ اس کے ذریعہ ہر قسم کی سہولیات دے کر نوجوانوں کو کھیل کود میں اپنی صلاحیتوں کا مظاہرہ کرنے کا موقع دیا جاتا ہے۔ مگر جموں وکشمیر کے نوجوانوں کے لیے حالیہ برسوں میں ایسا کوئی کام دیکھنے کو نہیں ملا ہے، جس سے ملک کی دیگر ریاستوں کے ساتھ ساتھ جموں وکشمیر کے نوجوانوں کو بھی کھیل کود کے شعبہ میں آگے لایاجا سکے۔
ہم نے جموں و کشمیر کے ہونہار نوجوانوں کے لیے کھیل کے میدان کے فقدان پر اپنے قلم کا سہارا لیا اور تحریر کے ذریعہ مسلسل آواز کو بلند کیا۔ اب اگرچہ کھیل کے میدانوں کے حوالے سے کام ہورہا ہے۔ تاہم کیا یہ رفتار اور اس قدر محدود میدان ہی کافی ہیں، کیا کسی ایک تحصیل یا ضلع ہیڈ کواٹر پر ایک کھیل کا میدان ہی بہت ہے؟ اس حوالے سے دعوت نیوز  نے کشمیر کے بجبہاڑہ سے تعلق رکھنے والے انٹرنیشنل کرکٹر پرویز رسول سے گفتگو کی تو انہوں نے کہا کہ پرانا وقت گزر گیا، اب حکومت عوام کو ڈیجیٹل انڈیا کا خواب دکھا رہی ہے۔ میں نے دیکھا ہے کہ کشمیر کے بچوں میں ہنر کی کوئی کمی نہیں ہے بس ضرورت اس بات کی ہے  کہ انہیں سہولیات فراہم کی جائیں، اس دور میں بھی جب یہ نوجوان کھیل کود کی طرف راغب نہیں ہوں گے تو بظاہر اپنی ناقص سوچ اور سمجھ سے وہ کوئی ایسا راستہ اختیار کریں گے جس سے قوم وملت کو بجائے نفع کے نقصان ہوگا۔ جس کی  ایک واضح مثال گزشتہ سالوں میں منشیات کا بڑھتا رجحان  ہے جو ایک المیہ بنتا جارہا ہے۔ اگر انتظامیہ نے کشمیر میں کھیل کود کے میدان تعمیر کرکے نوجوانوں کو کھیل کود کے مختلف شعبوں میں مصروف نہ کیا  تو منشیات کو مزید فروغ ملنے اور نوجوانوں کا قوم وملک کی شناخت کو برباد کرنے کا اندیشہ ہے۔
اسی طرح مقامی نوجوان کرکٹر جاوید احمد ڈار نے دعوت نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے کہا اگرچہ بارہمولہ میں 2022۔23میں محکمہ یوتھ سروس اینڈ سپورٹ کی جانب سے کچھ رقم واگزار کی گئی تھی، جس سے میدان کی زمین کو ہموار کیا گیا تھا اور اس سے مقامی نوجوان کافی خوش تھے اور ہر روز یہاں کرکٹ کھیلنے کے لیے نوجوان دور دور سے آتے ہیں۔ لیکن اتناہی کافی نہیں ہے۔محکمہ جلد از جلد اس میدان کی مکمل تعمیر کے لیے رقومات واگزار کرے تاکہ میدان کو کھیلنے لائق مکمل تعمیر کیاجاسکے۔ بارہمولہ سے تعلق رکھنے والے دو اور نوجوان کھلاڑی فاروق احمد لون اور دانش گنائی سے ہم نے کشمیر میں کھیل کود کے حوالے سے تاثرات جاننے کی کوشش کی تو انہوں نے کہا کہ آئے دن کشمیر میں نوجوانوان کا منشیات کی طرف زیادہ رجحان ہوتا نظر آرہا ہے جس کی وجہ یہاں بے روزگاری اور کھیل کود کے لیے میدان کی عدم دستیابی ہے۔ یہاں اگر بہتر کھیل کے میدان دستیاب ہوں گے اور نوجوانوں کو کھیل کود میں مواقع دیے جائیں تو یہ نوجوان بھی اپنی صلاحیتوں کا مظاہرہ کرسکتے ہیں۔ کشمیر کے نوجوان ہر قسم کے کھیل میں دلچسپی رکھتے ہیں خاص کر کرکٹ وغیرہ میں۔ لیکن اب تک انہیں اپنی صلاحیتوں کو نکھارنے کے لیے موقع نہیں مل سکا ہے اور یہ باصلاحیت نوجوان کھیل کے میدان دستیاب نہ ہونے کی وجہ سے سڑکوں پر کرکٹ کھیلتے نظر آتے ہیں۔ ضلع بارہمولہ کے بچوں میں اتنا کرکٹ کا جنون سوار ہے کہ انہوں نے گاؤں سے دور اپنی مدد آپ کے تحت ایک چھوٹا سا گراونڈ تعمیر کر لیا لیکن وہ جگہ ان کے خوابوں کی تکمیل نہیں کر پارہی ہے۔
ہم نے اس سلسلے میں محکمہ یوتھ سروس اینڈ اسپورٹس، سری نگر کے ضلع یوتھ سروس اینڈ اسپورٹ آفیسر سے بات کی تو انہوں نے کہا کہ ضلع بھر میں کھیل کود کی سرگرمیاں جاری ہیں اور کھیل کود کے لیے محکمہ کی طرف سے کھیل کے میدان بھی تعمیر کروانے کی کوششیں جاری ہیں۔ضلع بھر کے اسکولوں کے علاوہ کھیلوں میں دلچسپی رکھنے والے نوجوانوں کو مختلف قسم کے مقابلے کروانے کے بعد زون سطح سے ضلعی سطح، پھر ریاستی سطح اور پھر بیرون ریاست بھی ہم اپنے کھلاڑیوں کو بھیج چکے ہیں۔دیگر مقامات کے ساتھ ساتھ بارہمولہ تحصیل کے چندوسہ میں بھی منی سپورٹ اسٹیڈیم کے لیے محکمہ نے 43 لاکھ روپیہ منظور کیے ہیں جس میں پہلے ہی سال 20 لاکھ روپے کی لاگت سے یہ اسپورٹ اسٹیڈیم ہموار کیا گیا ہے۔ اسپورٹ اسٹیڈیم کے معائنہ کے بعد جاوید ہاشمی نے خوشی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ یہاں نوجوانوں،بی ڈی سی،ڈی ڈی سی، سرپنچ اور پنچوں کے ساتھ تمام لوگوں کا یہ کافی عرصہ سے مطالبہ تھا کہ یہاں بچوں کو کھیل کود میں مصروف کیا جائے تاکہ نوجوانوں کو منشیات کی بری لت میں ملوث ہونے سے باز رکھا جاسکے۔ جس کو دیکھتے ہوئے محکمہ کی جانب سے 43 لاکھ روپے کا بجٹ منظور کیا گیا ہے جس میں سے پہلے سال کے لیے مختص 20 لاکھ روپیہ کی لاگت سے گراونڈ ہموار کیا گیا ہے۔باقی کام بھی رقومات کی واگزار ہونے پر جلد پورا کام مکمل ہوگا تاکہ یہاں نوجوانوں کے لیے ایک بہترین میدان ہو اور نوجوان منشیات اور دوسری بری عادتوں سے دور رہ کر کھیل کے ذریعہ اپنی صلاحیتوں کو نکھار سکیں۔ دوسری طرف نوجوانوں کا کہنا ہے کہ ہمیں بھی شوق ہے کہ ہم اپنے والدین کے ساتھ ساتھ جموں و کشمیر اور بھارت کا نام روشن کرسکیں لیکن بنیادی سہولیات میسر نہ ہونے کے سبب ہمیں ہمارے خواب بس خواب تک ہی محدود دکھائی دیتے ہیں، مقامی نوجوانوں نے گورنر انتظامیہ سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ اس علاقے میں کھیل کود جیسی سرگرمیوں کے لیے علاقے میں اسٹیڈیم کا قیام عمل میں لائیں تاکہ علاقے کے نوجوان اپنی صلاحیتوں کو نکھار سکیں۔ جموں و کشمیر کے لیفٹننٹ گورنر منوج سنہا سے یہی التجا ہے کہ وہ جلد از جلد کشمیر میں کھیل کے میدانوں کی تعمیر کرائیں تاکہ یہاں کے نوجوان کھیل کود کے میدان میں اپنی صلاحیتوں کو بروے کار لا سکیں۔
***

 

***

 


ہفت روزہ دعوت – شمارہ 08 اکتوبر تا 14 اکتوبر 2023