قسط۔:قدسیانِ ہند کے دیار میں

علم و نور کے سرچشموں سے ادارہ تحقیق و تصنیف اسلامی کا استفادہ

0

اشہد رفیق ندوی
سکریٹری ادارہ تحقیق و تصنیف اسلامی، علی گڑھ

دیوبند سے کاندھلہ تک ایک علمی سفر کی روداد
ادارہ تحقیق و تصنیف اسلامی کا ایک علمی وفد مغربی یوپی کے اس خطے میں حاضر ہواجو بڑے بڑے علماء، اولیاء اور مجاہدین کی سرزمین ہے۔ جہاں بہت سی بزرگ ہستیاں وجود میں آئیں، جہاں رحمتِ الٰہی کے طفیل علم و نور کے چشمے پھوٹے اور جہاں کی روحانی و نورانی فضانے کروڑوں لوگوں کے دلوں میں ایمان کی جوت جگائی اور قلوب واذہان کو منور کیا۔ وفد کا مقصد اس علمی و روحانی فضا سے کسب فیض کرکے اپنے وژن اور مشن کو صیقل کرنا تھا۔ اس سلسلے میں دار العلوم دیوبند، مظاہر علوم سہارن پور، خانقاہ امدادیہ اشرفیہ تھانہ بھون، القرآن اکیڈمی کیرانہ اور مفتی خدا بخش اکیڈمی کاندھلہ حاضری ہوئی۔ ان مقامات پر اکابر سے استفادہ کے ساتھ علمی و تحقیقی شعبہ جات کے ذمہ داران سے خصوصی استفادہ ہوا۔وفد کی رہبری برادر مکرم ڈاکٹر عبید اقبال عاصم صاحب نے کی جو باغ و بہار شخصیت کے مالک ہیں۔ خاص دیوبند کے شہری ہیں۔ دار العلوم دیوبند کے فیض یافتہ ہیں اور اس خطہ کے اداروں اور ذمہ داران سے گہرے مراسم رکھتے ہیں۔ ان کی وجہ سے ہر جگہ سہولت کے ساتھ بار یابی کا موقع ملا۔ شان دار استقبال ہوا۔ پر تکلف ضیافت ہوئی اور وفد جس طرح استفادہ کرنا چاہتا تھا، بحمد اللہ اس کا بھر پور موقع ملا۔وفد کے دیگر شرکاء میں اشہد جمال ندوی (سکریٹری ادارہ) انجینئر آفتاب حسن مظہری (جوائنٹ سکریٹری) مولانا محمد انس مدنیؔ (رفیق ) مولانا انعام الحق قاسمی (اسکالر) اور مولانا سفیان سی عمری (اسکالر) شامل تھے۔
دار العلوم (وقف)
۳۱؍ دسمبر ۲۰۲۴ء کی صبح وفد علی گڑھ سے روانہ ہوکر پہلے دیوبند کی سرزمین پر فروکش ہوا۔ دار العلوم (وقف) کے مہتمم حضرت مولانا محمد سفیان قاسمی حفظہ اللہ نے گرم جوشی سے استقبال کیا۔ نہایت پرتکلف ضیافت کی۔ دار العلوم کے شعبہ جات کی زیارت، درس بخاری شریف میں شرکت اور اہل علم سے استفادہ کے مواقع بہم پہونچائے۔ دار العلوم کی درس گاہیں نہایت عالی شان، دار الحدیث بہت کشادہ اور وقیع، مہمان خانہ بہت ہی مرصع ، کتب خانہ تمام امہات الکتب سے لیس، آڈیٹوریم ہر طرح کی الیکٹرانک سہولیات سے آراستہ اور اطیب المساجد کا شکوہ، جلال و جمال اور صفائی و ستھرائی کا نظم حرمین شریفین کا منظر پیش کررہا تھا۔ یہ سب دیکھ کر انہیں بنانے اور چلانے والوں کے لیے دل سے دعائیں نکلیں۔
وفد در اصل علمی پیاس بجھانے کے لیے حاضر ہوا تھا۔ حضرت مہتمم صاحب نے اس کے بھی مواقع فراہم کیے۔ سب سے پہلے حضرت کے ساتھ ہی نشست رہی اور مختلف امور پر تبادلہ خیال ہوا۔ مدرسہ کے نظام و نصاب کی بات آئی۔ حضرت نے بتایا کہ قدیم نظام و نصاب کی روح کو برقرار رکھتے ہوئے معاصر تقاضوں کے مطابق ہمارے یہاں برابر تبدیلیاں ہورہی ہیں۔ اعلیٰ درجات میں مطالعہ و تحقیقات کے سلسلے میں نئے تجربات ہورہے ہیں۔ مختلف ادیان و مذاہب کے تعارف کے لیے محاضرات کا سلسلہ شروع کیا گیا ہے۔اسی طرح ملت کے مختلف طبقات میں رابطہ اور تعاون کے فروغ کے لیے بھی کوششیں ہورہی ہیں۔ قدیم نظام و نصاب پر اصرارکی جانب توجہ دلائی گئی کہ نانوتوی خانوادہ ہمیشہ سے زندہ اور معاصر ضروریات سے ہم آہنگ نصاب کا قائل رہا ہے۔ حضرت مولانا محمد قاسم نانوتویؒ، حضرت مولانا قاری محمد طیبؒ، حضرت مولانا محمد سالم قاسمیؒ اور حضرت مولانا محمد سفیان قاسمی حفظہ اللہ کے نظریات کا ڈاکٹر محمد شکیب قاسمی نے گہرائی سے تجزیہ کیا ہے اوریہ ثابت کیا ہے کہ یہ خانوادہ طرزِ کہن پر اڑنے کے بجائے ہمیشہ مقتضایات زمانہ کے مطابق نظام و نصاب اختیار کرنے کا قائل رہا ہے۔ یہ تحقیق اور تجزیہ بہت قیمتی ہے۔ اس لیے بجاطور پر توقع کی جاتی ہے کہ مستقبل قریب میں اس کا انعکاس دار العلوم کے نصاب میں بھی دکھائی دے گا۔
یہاں وفد خاص طور سے حجۃ الاسلام اکیڈمی اور اس کے ڈائریکٹر ڈاکٹر محمد شکیب قاسمی صاحب سے استفادہ کے لیے حاضر ہوا تھا۔ حضرت مہتمم صاحب نے اکیڈمی کے ذمہ داران اور طلبہ سے ملاقات اور تبادلہ خیالات کے لیے خصوصی اہتمام کروایا۔ اکیڈمی کے ذمہ داروں میں مفتی امانت علی قاسمی، مفتی نوشاد نوری قاسمی اور مفتی محمد اظہار الحق قاسمی صاحبان کے ساتھ نشست رہی۔ ان حضرات نے بہت خلوص و محبت کے ساتھ اکیڈمی کی خدمات کا تعارف کرایا۔ ان سے معلوم ہوا کہ اکیڈمی کا بنیادی مقصد حجۃ الاسلام حضرت نانوتویؒ کی شخصیت اور انقلابی کارناموں کو متعارف کرانااور ان کے علوم و معارف اور افکار کو سہل زبان میں پیش کرنا ہے۔ اس مقصد کے تحت محققین منصوبہ بند طریقے سے کتابیں لکھ رہے ہیں۔ اس کے علاوہ منتہی درجات کے طلبہ کو تحقیق و تصنیف کی مشق و ممارست کابھی مستقل نظام ہے۔ یہ کام لائق اساتذہ کی نگرانی میں انجام پاتا ہے۔ یہاں سے عربی مجلہ وحدۃ الامۃ بھی شائع ہوتا ہے۔ اکیڈمی نے بہت کم مدت میں قابل قدر پیش رفت کی ہے اور اس کے جواں سال ڈائریکٹر بہت عزم و حوصلہ اور حکمت و فراست کے ساتھ تحقیق وتدوین کے میدان میں نئے نقوش ثبت کررہے ہیں۔ وفد نے ادارہ تحقیق کے مقاصد، طریقہ کار اورسرگرمیوں کا مختصر تعارف پیش کیااور مستقبل کے منصوبوں اور زیر تحقیق آنے والے موضوعات کی فہرست بھی شیئر کی۔ ادارہ کی فہرست کا محور شخصیت کے بجائے ملک و ملت ہے اور قدیم مسودات کی تحقیق و تدوین کے بجائے معاصر چیلنجز کا حل پیش کرنے کے لیے نیا لٹریچر تیار کرنا ہے۔ادارہ کے منصوبوں اور کوششوں کو پسند کیاگیا اور طے پایا کہ ان شاء اللہ دونوں اداروں کے درمیان برابر رابطہ رہے گا۔ دونوں ادارے ایک دوسرے سے استفادہ کرتے رہیں گے۔
دار العلوم دیوبند
بعد نمازِ ظہر وفد دار العلوم پہنچا۔ اس کے ترجمان اور شعبہ تعمیر و ترقی کے نائب ناظم جناب اشرف عثمانی صاحب نے پرتپاک خیر مقدم کیا۔ پہلے کتب خانہ کی سیرکرائی۔ اسکالروں کو کتابوں اور کتب خانوں کی ہی بھوک ہوتی ہے، نہایت وقیع کتب خانہ کی زیارت سے بہت خوشی ہوئی۔ کتب خانہ میں تقریباً دو لاکھ کتابوں کا ذخیرہ ہے جونہایت قیمتی مخطوطات، نادر کتابوں اور قدیم رسائل پر مشتمل ہے۔ کتب خانہ کے ذمہ داران سے بھی ملاقات رہی، اپنے کتب خانہ کو منظم کرنے کے لیے ان سے رہ نمائی حاصل کی گئی۔ محترم عثمانی صاحب نے شیخ الہند اکیڈمی کے ذمہ دارمولانا عمران اللہ خان قاسمی سے ملاقات کرائی۔یہ اکیڈمی مولانا سعید احمد اکبرآبادی کے ہاتھوں ۱۹۸۲ء میں قائم ہوئی۔ چند محققین اس کے لیے فارغ ہیں جو منصوبہ کے مطابق کام کرتے ہیں۔ یہاں منتہی درجات کے طلبہ کو بھی یک سالہ تربیتی نصاب سے گزارا جاتا ہے اورتحقیق وتدوین کی تربیت دی جاتی ہے۔ مولانا محترم نے اکیڈمی کی تاریخ بتائی اور سرگرمیوں کا تعارف کرایا۔ تبادلہ خیالات میں بات آئی کہ اکیڈمی کی ترجیحات میں دار العلوم کی تاریخ، اکابر دار العلوم کے نظریات کا تحفظ اور عصر حاضر سے ہم آہنگ اسلوب اور نئے طرز پر علمی سرمایوں کو منتقل کرنا شامل ہے۔ مسودات کی تصحیح، تحقیق، تکمیل اور اشاعت بھی اس کے منصوبوں کا حصہ ہے۔ اکیڈمی نے ان منصوبوں کے تحت قابل قدر کام انجام دیا ہے۔ اب تک ۹۱ کتابیں شائع ہوچکی ہیں۔ بلاشبہ ان کاموں کی بڑی اہمیت ہے۔طلبہ علوم نبوت اسی کے ذریعہ اکابر کی خدمات سے روشناس ہوسکتے ہیں۔ علماء دین متین کی ان گراں قدر تحقیقات کو دیکھ کر بے انتہا خوشی ہوئی۔ اللہ ان کے کاموں میں برکت عطا فرمائے۔ مگر تحقیق کا محض ایک رخ دیکھ کر خیال گزرا کہ انہی علماء دین متین کا کام زمانہ کے سوالات کا جواب فراہم کرنا، علمی دنیا میں موجود فکری بحران، فکر ونظام کی تشکیل میں باطل نظریات کا مقابلہ اور فسطائی قوتوں کی ریشہ دوانیوں کا پردہ چاک کرنا بھی ہے۔ امت بڑی امید اور حسرت کے ساتھ ان کی طرف دیکھ رہی ہے کہ علماء دین متین ان امور میں بھی رہ نمائی کریں گے۔ اکیڈمی کے ذمہ دارکو اس جانب توجہ دلائی گئی اور موضوعات کی ایک فہرست بھی شیئر کی گئی جو حالات اور مستقبل کی علمی ضرورت کو پیش نظر رکھ کر تیار کی گئی تھی۔ علماء کرام نے اسے پسند فرمایا اور اس کی ضرورت کو تسلیم کیا مگر دائرہ کار کی تحدید کی وجہ سے رشک کی نظر سے دیکھتے رہے۔
دار العلوم دیوبند کی نصابی سرگرمیوں کا حصہ مناظرہ کی مشق و ممارست بھی ہے۔ ذمہ داروں نے بتایا کہ اب مناظرہ کے بجائے محاضرات کا سلسلہ شروع کیا گیا ہے۔ مولانا عبد الحمید نعمانی حفظہ اللہ اور دیگر دانش وران تشریف لاتے ہیں اور معاصر افکار و نظریات پر وقیع محاضرہ پیش کرتے ہیں۔ بلاشبہ یہ ایک عمدہ پیش رفت ہے۔ اس سے طلبہ کے ذہن کھلیں گے اور مستقبل کے خطرات سے آگاہی ہوگی۔ مولانا نعمانی مطالعہ مذاہب کے سلسلہ میں اتھاریٹی کی حیثیت رکھتے ہیں۔ سال میں چار چھ لیکچر کا فی نہیں ہیں۔ حق تو یہ ہے کہ ان کی نگرانی میں ایک مستقل شعبہ قائم ہونا چاہیے جو فسطائی قوتوں کا مقابلہ کرنے کے لیے معیاری لٹریچر تیار کرے اور دیگر اختصاصی شعبہ جات کی طرح اس شعبہ سے خصوصی طور پر داعیان دین تیار کرائے جانے چاہئیں۔
مولانا عثمانی صاحب کی عنایت سے وفد کو مولانا مفتی ابو القاسم نعمانی حفظہ اللہ مہتمم دار العلوم سے ملاقات کاشرف حاصل ہوا۔ حضور والا نے عزت واکرام کے ساتھ استقبال کیا۔ وفد کے مقاصد کو غور سے سنا اور ترجمان محترم کو سہولیات بہم پہونچانے کی ہدایات دیں۔ حضرت مہتمم صاحب کی خدمت میں ادارہ کی تازہ مطبوعات کا ہدیہ پیش کیا گیا جسے شکریہ کے ساتھ شرف قبولیت بخشا۔
مسجد رشید میں عصر کی نماز ادا کی گئی اور گھوم پھر کر مسجد کی خصوصیات پر نظر ڈالی گئی۔ اس کے طرز تعمیر میں واقعی اتنے عجوبے ہیں کہ انہیں دیکھے بغیر کوئی دار العلوم سے واپس چلاجائے تو اس کی زیارت مکمل نہیں ہوگی۔ عصر سے عشاء کے درمیان کتب خانوں کی سیر اور کتابوں کی خریداری ہوتی رہی۔ دیوبند دینی کتابوں کا بہت بڑا مرکز ہے۔ ادارہ کی لائبریری کے لیے بنیادی مصادر کی ضرورت تھی۔ الحمد للہ مطلوبہ کتابیں بسہولت حاصل ہو گئیں۔
سفر دیوبند کا خوش گوار اختتام دار العلوم (وقف) کے شیخ الحدیث مولانا احمد خضر شاہ مسعودی حفظہ اللہ کی دعوت عشائیہ پر ہوا۔ حضرت کے درس بخاری میں شرکت کا شرف حاصل کرکے وفد شاد کام تھا ہی، حضور والا نے اصرار کے ساتھ اپنے دسترخوان پر حاضر ہونے کا حکم دے دیا۔ دروازے پر پہنچ کردستک دی گئی تو حضور والا خود استقبال کے لیے کھڑے تھے۔بہت ہی عزت و اکرام کے ساتھ دسترخوان پربٹھایا، پر تکلف عشائیہ کی ایک ایک چیز اپنے ہاتھوں سے مہمانوں کی پلیٹ میں اتارتے رہے اور اصرار کرکے کھلاتے رہے۔ حضرت کا رتبہ و مرتبہ تو یہ تھا کہ ہم لوگ ان کی خدمت کی سعادت حاصل کرتے، مگر افسوس کہ حضور والا سے خدمت لے کر ہمیں شرم ساری کا بوجھ اٹھانا پڑا۔ ڈارئیور بے چارہ شیخ الحدیث کا رتبہ کیا جانے، وہ کہنے لگا، ’’یہ صاحب کوئی بہت بڑے آدمی تھے کیا؟ آج تک ہم نے کسی کو اس طرح ضیافت کرتے نہیں دیکھا،خود نہ کھاکر ہمیں لوگوں کو کھلاتے رہے‘‘۔ واقعہ یہ ہے کہ اس دسترخوان پر خلوص، للّٰہیت اور اکرام ضیف کی جو لذت تھی، اسے لفظوں میں بیان کرنا مشکل ہے۔ حضرت نے مزید اکرام ’’لالہ و گل‘‘ کا گراں قدر ہدیہ پیش کرکے کیا۔ یہ گراں قدر تحفہ کتاب کی صورت میں تھاجو مولانا سید انظر شاہ مسعودی کشمیریؒ کے مضامین کا مجموعہ ہے جو ملک و ملت کی اہم شخصیات کے بارے میں لکھے گئے ہیں۔ یہ مضامین اخبار ومجلات کی زینت بنے ہوئے تھے، ان کے لائق فرزند سید احمد خضر شاہ مسعودی حفظہ اللہ نے انہیں جمع کرکے نہایت خوبصورتی کے ساتھ شائع کیا ہے۔ اکابر کے سلسلہ میں معلومات کا بہت قیمتی خزینہ ہے۔
رات میں قیام دار العلوم کے مہمان خانہ میں رہا۔ فجر کی نماز دار العلوم کی قدیم مسجد میں ادا کی گئی۔ حضرت مہتمم صاحب اور سینئر اساتذہ کرام صف اول میں دکھائی دیے۔ امام صاحب نے سورہ رحمٰن کی بہت پرسوز انداز میں قرأت کی۔ قرآن اور نماز کا ایک ساتھ لطف نصیب ہوا۔ پھر کارواں آگے بڑھ گیا۔(جاری)

 

***

 


ہفت روزہ دعوت – شمارہ 02 مارچ تا 08 مارچ 2025