سید تنویر احمد
(ڈائریکٹر ہولسٹک ایجوکیشن بورڈ)
ملی اداروں کے تحت چلائے جانے والے اسکولوں میں اساتذہ کو اسپانسر کرنے کا منصوبہ بنایا جائے
مجوزہ قومی نصاب تعلیم کا خاکہ جہاں ملک کو تعلیم کے میدان میں بہت تیزی کے ساتھ ترقی یافتہ ممالک کی صف میں لے جانا چاہتا ہے، وہیں اس کا ایک کم زور پہلو یہ ہے کہ فریم ورک میں تجویز کردہ نکات کو موجودہ اسکولوں کی ایک معتدبہ تعداد اس طرح اختیار نہیں کرسکتی جس طرح کیا جانا چاہیے۔
اساتذہ کی تیاری
ملک میں تعلیم کا منظر نامہ آنے والے برسوں میں بڑی تیزی کے ساتھ بدلنے والا ہے۔ قومی تعلیمی پالیسی 2020 کے تحت مجوزہ قومی نصاب تعلیم کا خاکہ (national curriculum framework)جسے 6 اپریل 2023 کو ملک کے سامنے پیش کیا گیا اور اس پر عوام کی رائے طلب کی گئی تھی، اس کے مطالعے سے اندازہ ہوتا ہے کہ ملک کے تعلیمی نظام میں ایک بڑی تبدیلی ہونے جارہی ہے۔ مجوزہ قومی نصاب تعلیم کا خاکہ جو تقریبا 678 صفحات پر مشتمل ہے، تعلیمی نظام میں جوہری تبدیلیوں کے علاوہ تدریسی انداز، کلاس روم مینجمنٹ، طلبا، کمیونٹی، والدین، سماج اور دیگر تعلیمی امور پر اثر انداز ہونے والے عناصر کی تفصیلات فراہم کرتا ہے۔ جہاں یہ خاکہ (فریم ورک) ملک کو تعلیم کے میدان میں بہت تیزی کے ساتھ ترقی یافتہ ممالک کی صف میں لے جانا چاہتا ہے، وہیں اس کا ایک کم زور پہلو یہ ہے کہ فریم ورک میں تجویز کردہ نکات کو موجودہ اسکولوں کی ایک معتدبہ تعداد اس طرح اختیار نہیں کرسکتی جس طرح کیا جانا چاہیے۔ اس لیے کہ پرائیویٹ نظام کے تحت چل رہے اسکولوں میں خدمات انجام دینے والے اساتذہ اس فریم ورک کے شاید دس سے بیس فیصد حصے کو ہی عمل میں لاسکتے ہیں۔ اس بات کا بھی امکان ہے کہ آنے والے برسوں میں اسکولوں کی درجہ بندی موجودہ درجہ بندی سے زیادہ شدید ہوجائے۔ ان حالات میں جن پرائیویٹ اسکولوں کے پاس تربیت یافتہ اساتذہ ہیں، وہ تو نئے انداز تدریس کو اختیار کرلیں گے لیکن جن کی مالی حیثیت کم زور ہے اور جہاں اساتذہ کی تنخواہیں بہت کم ہوتی ہیں، وہاں نئے فریم ورک کے مطالبات پر عمل آوری مشکل معلوم ہوتی ہے۔ ان حالات میں تعلیم یافتہ طبقے میں بھی اسی طرح کی درجہ بندی وجود میں آنے کا خدشہ ہے، جس طرح کی درجہ بندی ہم اپنے سماج میں دیکھتے ہیں، کوئی اعلیٰ ذات سے تعلق رکھنے والا ہے تو کوئی دلت۔ یہاں اس بحث سے ہم یہ ثابت کرنا چاہتے ہیں کہ ملت کے وہ اسکول جو غریب طلبہ کو تعلیم سے آراستہ کرنا چاہتے ہیں، نئے طرز تعلیم کو اختیار کرنا ان کے لیے ایک دشوار کن مرحلہ بن سکتا ہے۔
نئے طرز تعلیم کے لیے قومی تعلیمی پالیسی 2020 قومی سطح پر اساتذہ کی ٹریننگ کے لیے ایک مرکز (ادارہ) قائم کرنے کا منصوبہ رکھتی ہے۔ ویسے ایک ادارہ قومی کونسل برائے ٹیچر ایجوکیشن (National Council for Teacher Education) قائم ہے۔ ہوسکتا ہے کہ حکومت اس کے ذریعے سے ہی مجوزہ کام لے لے۔ مرکزی حکومت کا منصوبہ ہے کہ پورے ملک میں اساتذہ کی ٹریننگ کے لیے 57 سنٹرز قائم کیے جائیں۔ حکومت کا منصوبہ اب ’بی ایڈ‘ کو چار سالہ کورس میں تبدیل کرنے کا بھی ہے۔ آئندہ برسوں میں ’بی ایڈ‘ ایک پروفیشنل کورس ہوگا جس میں داخلہ بارہویں کے بعد دیا جائے گا۔ ان چار برسوں میں طلبا کی ایسی تربیت کی جائے گی کہ وہ موجودہ ڈیجیٹل ورلڈ میں کارگر ثابت ہوں۔
مجوزہ قومی نصاب تعلیم کے خاکے (national curriculum framework)کے تناظر میں اگر ہم اپنے اداروں سے منسلک اساتذہ کا جائزہ لیں تو 80 فیصد اساتذہ میں مطلوبہ اہلیت ناکافی ہوگی اور نتیجتاً انہیں برخاست کرنا پڑے گا۔ ملت کے اکثر اداروں میں ٹیچنگ اسٹاف کا جائزہ یہ بتاتا ہے کہ وہ مجوزہ قومی نصاب تعلیم کے خاکہ کے مطابق بچوں کو تعلیم دینے کے معیار پر پورے نہیں اترتے ہیں۔ ان کے نزدیک آج بھی تعلیم کا مطلب جوابات کو حفظ کرادینا اور انہیں امتحانات میں جوابی پرچوں پر منتقل کر دینا ہے۔ ان ٹیچروں کی ایک کثیر تعداد ایسی ہے جو نہ تو تربیت یافتہ ہے اور نہ ہی اسے اپنے پیشے کے ساتھ جذباتی لگاؤ ہے۔ اساتذہ میں بیشتر خواتین ہوتی ہیں، ان میں سے بڑی تعداد ضرورت مند خواتین کی ہوتی ہے۔ بعض کے گھریلو مسائل ہوتے ہیں، کچھ کے خاوند بے روزگار ہوتے ہیں، کچھ شادیوں کے مسئلے کی شکار رہتی ہیں، ان میں مطلقہ اور بیوہ بھی شامل ہیں۔ ایک استاد جو شدید معاشی، سماجی اور نفسیاتی الجھنوں کا شکار ہو، وہ کس طرح اختراعی انداز میں بچوں کو تعلیم دے پائے گا؟ یہ ایک غور طلب سوال ہے۔ ہماری نظر میں تعلیم کے میدان میں ملت کا سب سے اہم مسئلہ اساتذہ کا ہے۔ اسکول کھل جاتے ہیں، انفراسٹرکچر بن جاتا ہے، طلبا بھی داخلہ لے لیتےہیں، لیکن جس معیار کے اساتذہ درکار ہیں، وہ دستیاب نہیں ہوتے، اس کی بنیادی وجہ ہے سماج میں معیاری اساتذہ کی قلت۔ دکھ کی بات یہ ہے کہ قحط الاساتذہ کے اس سنجیدہ مسئلے کی طرف مسلم سماج خاطر خواہ توجہ نہیں دے رہا ہے۔ صورت حال کی حساسیت کو دیکھتے ہوئے ملت کو چاہیے کہ وہ قابل، تجربہ کار، ہنر مند اساتذہ کی بڑی کھیپ ہر سال تیار کرے اور موجود اساتذہ کی ٹریننگ کا باضابطہ انتظام کرے۔ اس سلسلے میں مندرجہ ذیل چند تجاویز پر غور کیا جاسکتا ہے:
مسلم سماج معلمی کے پیشے کو ایک معتبر پیشہ سمجھے۔ نوجوان لڑکے و لڑکیاں ٹیچرس ٹریننگ کریں، چار سالہ بی ایڈ کورس کریں، مزید تربیت لیں اور معیاری استاد بننے کی کوشش کریں تاکہ سماج میں معیاری اساتذہ کا یہ خلا پُر ہوسکے۔
پرائیویٹ ادارے اساتذہ کی تنخواہوں کو معقول بنائیں، تنخواہ کی ادائیگی کے لیے مختلف ذرائع اختیار کیے جاسکتے ہیں، معاشی طور پر اگر ادارہ کم زور ہے تو اسے بہتر بنانے کے لیے عطیات کا بندوبست ہو بشرطیکہ یہ معاشی کم زوری واقعی ہو نہ کہ مصنوعی۔ بعض ادارے جو بظاہر کم زور محسوس ہوتے ہیں، ان کی بھی آج کل اچھی خاصی آمدنی ہوتی ہے۔ ایسے ادارے چوں کہ پرائیویٹ ٹرسٹ کے تحت ہوتے ہیں لہٰذا ٹرسٹ کے ذمہ داران، ٹرسٹ کے ذریعے حاصل ہونے والی رقم کا بڑا حصہ اپنے خاندان کے لیے استعمال کرنے کا جواز نکال لیتے ہیں اور اساتذہ کو ان کا پورا حق نہیں دیا جاتا۔ جو اسکول ملی اداروں کے تحت چلتے ہیں، ان اداروں کو چاہیے کہ وہ اساتذہ کی تنخواہیں معقول کریں، جب یہ ادارے ان کی تنخواہوں میں اضافہ کریں گے تو پھر پرائیویٹ ادارے تنخواہیں بڑھانے پر مجبور ہو جائیں گے۔
ملی اداروں کے تحت چلائے جانے والے اسکول اور پرائیویٹ اسکولوں میں معیاری اساتذہ کو اسپانسر کرنے کا منصوبہ بنایا جائے۔ اس سلسلے میں تعلیم کے میدان میں کام کرنے والی ایک مشہور این جی او ٹی ایف آئی (Teach For India) سے ہمیں ترغیب لینی چاہیے۔ ’ٹی ایف آئی‘ ملک بھر میں کام کرتا ہے۔ یہ ادارہ ایسے تعلیم یافتہ نوجوانوں کا انتخاب کرتا ہے جو تعلیمی میدان میں محض سماجی جذبے کے تحت اپنی خدمات انجام دینا چاہتے ہیں۔ ان تعلیم یافتہ مرد و و خواتین کو ٹریننگ دی جاتی ہے۔ ٹریننگ کے بعد گورنمنٹ اور بعض کم زور وسائل والے پرائیویٹ اداروں میں قلیل مدت کے لیے ان کا تقرر کیا جاتا ہے۔ اس این جی او میں اعلیٰ تعلیم یافتہ خواتین اور مرد ہوتے ہیں۔ ایسے نوجوان مرد و خواتین کو ماہانہ وظیفہ بھی دیا جاتا ہے جو لگ بھگ 25 ہزار کے قریب ہوتا ہے۔ اس میں خدمات انجام دینے والے اساتذہ ملازمت کے لیے نہیں بلکہ غریب طلبہ کی خدمت کے لیے آتے ہیں۔ اس طرح کے ادارے کا ایک خاکہ مضمون نگار نے بھی تیار کیا ہے۔ مختلف دینی و ملی اداروں کو مل کر ’ٹی ایف آئی‘ کے طرز پر ایک ادارہ ملکی سطح پر قائم کرنا چاہیے۔
ملت کی بے شمار پڑھی لکھی خواتین تعلیم حاصل کرنے کے بعد گھریلو زندگی میں مصروف ہوجاتی ہیں اور شادی کے بعد اپنا دائرہ کار گھر تک محدود کردیتی ہیں۔ ملت کی ایسی خواتین سے گزارش ہے کہ وہ بنیادی ٹیچرس ٹریننگ حاصل کرکے اپنے گھر سے قریب قائم گورنمنٹ اسکول یا پھر کم وسائل والے پرائیویٹ اسکولوں میں رضاکارانہ خدمات انجام دیں۔ ضروری نہیں کہ وہ دن بھر اسکول میں حاضر رہیں، بلکہ متعینہ وقت کے لیے ایک سے دو گھنٹے یا ایک دو مضامین پڑھانے کے لیے اسکول میں حصہ لے سکتی ہیں۔ بعض خواتین جو برسر روزگار ہیں اگر انہیں ہفتہ یا اتوار کو چھٹی ہوتی ہے تو ان دنوں میں وہ اسپیشل کلاسوں کا اہتمام کریں۔ ملت میں تعلیم یافتہ لڑکیوں اور خواتین کی اب کمی نہیں ہے۔ ہمیں ان خواتین میں خدمت کے اس رجحان کو بڑھانا ہے۔ اس کی ابتدا وہ خواتین کریں جو مختلف دینی جماعتوں سے وابستہ ہیں۔
ہمارے ملک میں اس طرح کا ایک نظام ’ہندوتوا وادی‘ این جی اوز چلاتے ہیں جنہیں ’ودیا والنٹیئر‘ یعنی تعلیمی رضاکار کہا جاتا ہے۔ یہ رضاکار بیس سال سے لے کر ستر سال تک کے مرد و خواتین ہوتے ہیں۔ بعض رضاکار تو وہ ہیں جو اسکولوں میں جا کر بچوں کو صرف کہانیاں سناتے ہیں یا انہیں آرٹ و کرافٹ سکھاتے ہیں۔ دینی جماعتوں سے وابستہ افراد جوان و عمر رسیدہ افراد کی اصلاح کے لیے تو فکر مند رہتے ہیں اور اس کے لیے تگ و دو بھی کرتے ہیں لیکن نوخیز نسل جو کہ ان جماعتوں کا اصل ہدف ہونا چاہیے، اور یہ جماعت انہیں اسکولوں میں مل بھی سکتی ہے، اس طرف ان کی توجہ مبذول کیوں نہیں ہوتی؟
اسی نہج پر حکومت ہند نے بھی ایک پراجیکٹ لانچ کیا ہے جس کا نام ہے ”vidyanjali.org” یہ دراصل ایک ویب سائٹ ہے جس میں وہ افراد جو اسکولوں میں اپنی مفت خدمات پیش کرنا چاہتے ہیں، ان کا ڈیٹا محفوظ کیا جاتا ہے اور اسی ویب سائٹ میں وہ اسکول بھی اپنی تفصیلات درج کرتے ہیں جنہیں انسانی وسائل کی ضرورت ہوتی ہے۔ یہ ویب سائٹ خدمت پیش کرنے والے اور ان سے استفادہ کرنے والوں کے درمیان گویا ایک پل کی طرح ہے۔
ملی اداروں کو چاہیے کہ وہ ہر ریاست میں اساتذہ کی ٹریننگ کے لیے ایک ادارہ قائم کریں۔ اس ادارے میں استاذ از خود فیس ادا کرکے ٹریننگ حاصل کرے یا پھر اسکول اسپانسر کرکے ٹریننگ میں ان کی مدد کرے۔ اس طرح کا ٹریننگ سنٹر ایچ ای بی "ہولسٹک ایجوکیشن بورڈ”کے پیش نظر ہے۔ دیگر ادارے ‘ایچ ای بی’ کا تعاون کر سکتے ہیں۔ فی الوقت ‘ایچ ای بی’ آن لائن اور آف لائن ٹریننگ کا اہتمام کررہا ہے۔
***
امکان ہے کہ آنے والے برسوں میں اسکولوں کی درجہ بندی موجودہ درجہ بندی سے زیادہ شدید ہوجائے۔ ان حالات میں جن پرائیویٹ اسکولوں کے پاس تربیت یافتہ اساتذہ ہیں، وہ تو نئے انداز تدریس کو اختیار کرلیں گے لیکن جن کی مالی حیثیت کم زور ہے اور جہاں اساتذہ کی تنخواہیں بہت کم ہوتی ہیں، وہاں نئے فریم ورک کے مطالبات پر عمل آوری مشکل معلوم ہوتی ہے۔
ہفت روزہ دعوت – شمارہ 02 جولائی تا 08 جولائی 2023