سید تنویر احمد (ڈائریکٹر ہولسٹک ایجوکیشن بورڈ
مستقبل کی منصوبہ بندی کرتے وقت بچے کی ذہنی صلاحیت اور اس کی استعداد و رجحان کا تجزیہ کرنا لازمی ہے
مسلمانوں کے گھروں میں جب بچہ یا بچی کچھ جملے بولنے کے لائق ہوجاتے ہیں، تو انہیں سماجی و معاشرتی سرگرمیوں سے متعلق کچھ باتیں ذہن نشین کرائی جاتی ہیں، ان میں چند مذہبی باتوں کے علاوہ اس سوال کا جواب بھی خاص طور سے یاد کرایا جاتا ہے کہ ‘تم بڑے ہو کر کیا بنو گے؟’ ظاہر ہے بچہ تو ابھی اتنا باشعور نہیں ہوتا ہے کہ اپنے مستقبل کی منصوبہ بندی کے لیے کوئی سوچا سمجھا جواب دے سکے، لیکن والدین اس کے ذہن کو ناپختہ عمر سے ہی ڈاکٹر یا انجینئر بننے کا جواب یاد کراکے اسے ایک نہایت محدود دائرے میں محصور کر دیتے ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ہندوستانی مسلمانوں کی اکثریت تعلیم کو بچوں کا ڈاکٹر یا انجینئر بننا اور ان کے بہتر مستقبل کو انیی دو پیشوں کے دائرے میں سمٹا ہوا دیکھتی ہے۔ بہت کم ایسے والدین ہیں جو تعلیم کے میدان میں مستقبل کے منصوبے کو بہت واضح طور پر مضبوط بنیادوں پر طے کرتے ہیں۔
اکثر والدین اور طلبا تعلیم کے میدان میں موجود مواقع سے ناواقف ہیں۔ نہ تو والدین بچے کی ذہنی صلاحیتوں کا مطالعہ کرتے ہیں اور نہ ہی بچہ اپنا تجزیہ کرتا ہے کہ وہ تعلیم کے کس میدان میں بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کرسکتا ہے۔ وہ ڈاکٹر یا انجینئر کے خول سے باہر نکل کر تعلیم کے وسیع مواقع کی طرف توجہ نہیں دیتے۔ جب کہ وہ نہیں جانتے کہ اللہ تعالیٰ نے ان کے بچے کے اندر کس علم کے حصول کی صلاحیت ودیعت کی ہے اور معاشی حصول کے لیے کس ذریعے کو ان کا مقدر بنایا ہے۔ وہ ڈاکٹری یا انجینئرنگ میں بچے کا مستقبل تلاش کررہے ہوتے ہیں جب کہ ممکن ہے کہ اللہ نے اس کی فطرت میں کسی اور میدان میں کمالات دکھانے اور بلندی کو چھونے کا ہنر رکھا ہو۔ لہٰذا مستقبل کی منصوبہ بندی کرتے وقت بچے کی ذہنی صلاحیت اور اس کی استعداد و رجحان کا تجزیہ کرنا لازمی ہے۔ آج بے شمار ایسے طلبا ہیں جو دیگر میدانوں میں اپنی خداداد قدرتی صلاحیتوں کا جوہر دکھا کر کسی ڈاکٹر یا انجینئر سے زیادہ بہتر زندگی گزار رہے ہیں۔ کیوں کہ انہوں نے اپنے لیے وہ میدان منتخب کیا ہے جو ان کی خداداد صلاحیتوں کے عین مطابق ہے۔
کریئر کونسلنگ یعنی مختلف کورسوں کا تعارف اور ان سے حاصل ہونے والے فوائد سے والدین اور طلبا کو واقف ہونا ضروری ہے۔ طلبا کا ایک بڑا طبقہ میڈیکل، انجینئرنگ اور اب یو پی ایس سی امتحانات کو ہی تعلیم کا حاصل سمجھتا ہے اور اسی کو ہدف بنائے ہوئے اپنا تعلیمی سفر جاری رکھتا ہے۔ اس سلسلے میں اجتماعی و انفرادی طور پر مندرجہ ذیل کام کرنے کی ضرورت ہے:
وہ تعلیمی ادارے جہاں ملت کے طلبا زیر تعلیم ہیں، کریئر کونسلنگ کے پروگرام منعقد کیے جائیں۔ کریئر کونسلنگ کے پروگراموں کا آغاز مختلف مضامین اور کورسوں کے تعارف سے کیا جاسکتا ہے۔ یہ پروگرام بالخصوص ہائی اسکول کے طلبا کے لیے منعقد کیے جائیں۔ تعارف کے بعد طلبا کا نفسیاتی (psychometric) ٹیسٹ لیا جائے۔ یہ ٹیسٹ طلبا کی تعلیمی رجحان، دل چسپیوں فطری لگاؤ اور ذہنی رجحان کو جانچنے میں مدد دیتا ہے۔ اس ٹیسٹ کے بعد ماہرین طالب علم کی سماجی، معاشی کیفیات اور دیگر عناصر کا جائزہ لے کر اس سے گفتگو کے بعد کورسوں کے بارے میں مشورہ دیتے ہیں۔ کسی ایک کورس کے بجائے طالب علم کے سامنے دو تین کورسوں کا تعارف پیش کیا جاتا ہے۔ طالب علم کو اختیار ہوتا ہے کہ وہ ان میں سے کسی ایک کورس کا انتخاب کرے۔
کریئر کونسلنگ میں مصروف ماہرین کو ہمیں اس بات کی بھی تربیت دینی ہے کہ وہ طلبا کو کورس تجویز کرتے ہوئے اس بات کا خیال رکھیں کہ طلبا تعلیم کے طویل المیعاد (اخروی کام یابی) اور قلیل المیعاد (دنیاوی فوز و فلا ح) مقاصد کو حاصل کر سکیں۔ طویل المیعاد مقصد کے حصول کے تحت اس بات کا بھی خیال رکھا جائے کہ طلبا ملک عزیز میں دین کے قیام، دعوت دین اور ملت کو درپیش چیلنجوں کا مقابلہ کرنے کے لیے معاون کورسوں اور تعلیمی میدانوں کا انتخاب کریں۔ یہ رہنمائی دینی مدارس کے طلبا اور عصری علوم حاصل کر رہے طلبا کے لیے ضروری ہے۔
ملت کے زیر انتظام چلنے والے اسکولوں اور سنٹروں میں کریئر کونسلر کا انتظام کیا جائے۔ بڑے ادارے کریئر کونسلروں کو اپنے اسکولوں میں باضابطہ اور مستقل طور پر رکھ سکتے ہیں یا پھر کنسلٹنٹ کی حیثیت سے متعین ایام میں ان کی خدمات حاصل کی جاسکتی ہیں۔
کریئر کونسلنگ کے لیے درکار امتحانات کی فیس اگر طلبا ادا کرسکتے ہوں تو ان سے لی جائے ورنہ اسے ادارہ برداشت کرے۔ بسا اوقات فیس کے متحمل نہ ہونے کے سبب طلبہ کونسلنگ میں شمولیت سے گریز کرتے ہیں۔
کریئر کونسلنگ یا مختلف کورسوں کے بارے میں شعور کی بیداری کے لیے جمعہ کے خطبات، نمازِ جمعہ کے بعد یا دیگر متعین ایام میں خصوصی لیکچروں کا اہتمام کیا جا سکتا ہے۔
کریئر کونسلنگ میں جو کونسلر ہوں گے، انہیں اس بات کا شعور بھی ہونا چاہیے کہ کون سے پروفیشن مردوں کے لیے اور کون سے خواتین کے لیے موزوں ہیں۔ ان کونسلروں کو اس بات کا بھی علم ہونا چاہیے کہ موجودہ زمانے میں ملت کے افراد میں فرض منصبی کی ادائیگی کی استعداد پیدا کرنے کے لیے کیا کورس اور کیا مضامین پڑھائے جائیں۔
دینی مدارس میں زیر تعلیم طلبا میں بھی کریئر کونسلنگ کے پروگرام ضروری ہیں۔ چند ماہ قبل راقم الحروف نے کریئر کونسلنگ کا ایک پروگرام ‘جامعة الفلاح اعظم گڑھ’ میں منعقد کیا تھا۔ اس پروگرام میں طلبا کی شرکت اور ان کی اس پروگرام میں دل چسپی غیر معمولی اور حوصلہ بخش تھی۔
دینی مدارس کے طلبا کو بھی کونسلنگ کی ضرورت ہے اور انہیں بھی مشورے درکار ہیں کہ موجودہ دور میں علما کو کس طرح سے درپیش چیلنجوں کا مقابلہ کرنا ہے اور وہ کس طرح عصری علوم حاصل کرکے اپنے فرض منصبی کی ادائیگی کرسکتے ہیں۔ یہاں ہم اس بات کو واضح کرنا چاہتے ہیں کہ چند بڑے دینی مدارس کی اسناد کو بعض یونیورسٹیاں اپنے یہاں داخلے کے لیے قبول کرتی ہیں۔ بیشتر مدارس کے طلبا کو یہ مراعات اور اعزاز حاصل نہیں ہے۔ اس لیے ان طلبا کو این آئی او ایس (National Institute of Open Schooling) سے میٹرک اور بارہویں کے امتحانات دلائے جا سکتے ہیں۔ اس کی تفصیل ہم نے اس مضمون کی گزشتہ قسط میں پیش کی ہے۔
کریئر کونسلنگ کے متعلق فولڈر اور کتابچے تیار کیے جائیں اور انہیں طلبا تک پہنچایا جائے۔
کریئر کونسلنگ کے لیے ملک میں مختلف سنٹر قائم ہیں، ان سے استفادہ کیا جاسکتا ہے۔ انہی میں سے ایک اہم سنٹر ‘سی ٹیگ’ (Center for training guidance) ہے۔ اس ادارے میں کریئر کونسلنگ کے لیے باضابطہ کونسلروں کی ٹیم موجود ہے۔ ‘سی ٹیگ’ سے طلبا انفرادی طور پر اور ادارے بھی اپنے طور پر رابطہ قائم کرسکتے ہیں اور سی ٹیگ کے مراکز اپنے اسکولوں اور شہروں میں قائم کرسکتے ہیں۔ ‘سی ٹیگ’ کی جانب سے ہر سال کریئر کی رہ نمائی کے لیے پوسٹر تیار کیے جاتے ہیں، انہیں حاصل کرکے مسجدوں اور تعلیمی اداروں میں چسپاں کیا جا سکتا ہے۔
جاری
(قارئین سے گزارش ہے کہ اس موضوع پر تجاویز و مشورے مندرجہ ذیل وہاٹس ایپ نمبر پر ارسال کریں تاکہ مضمون کی اگلی قسط میں انہیں شامل کیا جا سکے ۔ وہاٹس ایپ نمبریہ ہے: 9844158731)
***
***
وہ تعلیمی ادارے جہاں ملت کے طلبا زیر تعلیم ہیں، کریئر کونسلنگ کے پروگرام منعقد کیے جائیں۔ کریئر کونسلنگ کے پروگراموں کا آغاز مختلف مضامین اور کورسوں کے تعارف سے کیا جاسکتا ہے۔ یہ پروگرام بالخصوص ہائی اسکول کے طلبا کے لیے منعقد کیے جائیں۔ تعارف کے بعد طلبا کا نفسیاتی (psychometric) ٹیسٹ لیا جائے۔ یہ ٹیسٹ طلبہ کی تعلیمی رجحان، دل چسپیوں فطری لگاؤ اور ذہنی رجحان کو جانچنے میں مدد دیتا ہے۔
ہفت روزہ دعوت – شمارہ 18 جون تا 24جون 2023