قسط۔3: بھارت میں مساجد اور مسلم شناخت : مذہبی، سماجی اور تاریخی تناظر میں

روحانیت سے خدمت تک مساجد کے کثیرالجہتی کردار پر ایک نظر

0

دعوت نیوز نیٹ ورک

مدارس اور مساجد دیہی ہندوستان میں تعلیم و خواندگی کے فروغ میں کردار ادا کرہے ہیں
مندروں کے مساجد میں تبدیل ہونے کا دعویٰ غلط ۔ مسلم عہد میں شمالی ہند میں کئی منادر کی تعمیر ایک حقیقت
بھارت میں بابری مسجد مقدمے کے فیصلے کے بعد متعدد دیگر مساجد کو مٹانے، انہیں تنازعات میں الجھانے اور دہشت کے مراکز کے طور پر پیش کرنے کی ایک منظم مہم چلائی جا رہی ہے۔ اس بیانیے کو رد کرنے کے لیے ضروری ہے کہ مساجد کی اصل شناخت اور کردار کو حقیقت کے آئینے میں پیش کیا جائے۔اسی مقصد کے تحت تحریر کردہ اس مضمون کی پہلی دوقسطوں میں یہ واضح کیا گیا کہ مساجد محض عبادت گاہیں نہیں بلکہ سماجی ہم آہنگی، تعلیم اور خدمت خلق کے مراکز بھی ہیں۔اب ملاحظہ کیجیے، اس سلسلے کی تیسری قسط ۔
معاشرے میں مساجد کے اثرات
مساجد، انسان کے روحانی و سماجی مسائل حل کرنے کے لیے ایک بہترین جگہ ہوتی ہیں۔ یہاں تمام شعبہ ہائے زندگی سے متعلق افراد اپنے روحانی مقاصد، ذہنی سکون ، مراقبہ اور رہنمائی کے لیے آتے ہیں۔ ہمارے ملک میں مساجد محبت، یکجہتی اور مساوات کی بہترین مثال پیش کرتی ہیں جہاں ہندو سمیت تمام مذاہب کے لوگ بڑی عقیدت و احترام کے ساتھ آتے ہیں اور اپنے روحانی و جسمانی امراض اور حاجات کی تکمیل کے لیے دعا کرواتے ہیں۔ آپ دیکھیں گے کہ فرض نماز کے بعد مساجد کے گیٹ پر اور بسا اوقات نمازیوں اور امام سے اپنی اور اپنے پیاروں کی شفا یابی کے لیے دعا کرانے کی غرض سے لوگوں کی بھیڑ لگی ہوتی ہے ۔ ان میں سبھی عقائد و مذاہب کے لوگ ہوتے ہیں۔ مساجد میں جہاں عبادت و ریاضت کا خاص اہتمام ہوتا ہے وہیں بعض مساجد کے احاطے میں مسافروں کےلیے ویٹنگ رومس اور ہاسٹل کی سہولتیں بھی ہوتی ہیں ۔ نیز لنگر اور کمیونٹی فنڈ پروجیکٹس کی شکل میں غریبوں اور ضرورت مندوں کے لیے کھانے اور مالی امداد کا بھی بندوبست ہوتا ہے۔
ہندوستان میں مسلمانوں نے ایک انوکھا سماجی تجربہ شروع کیا ہے۔ ’مسجد کا دورہ ‘ یا ’ مسجد پریچے‘ کے عنوان سے یہ ایک ایسا اقدام ہے جس میں غیر مسلموں کو مسجد میں آنے اور یہاں کے ماحول اور سرگرمیوں کو دیکھنے کے لیے مدعو کیا جاتا ہے۔
یہ واقعہ 9 اکتوبر 2019 کا ہے جب ممبئی کی ایک مسجد کی انتظامی کمیٹی نے غیر مسلموں کو اپنی غلط فہمیاں دور کرنے اور مسجد میں آکر حقائق جاننے کی دعوت دی۔ جیوا جی راؤ سمجھتے تھے کہ کسی غیر مسلم کو مسجد میں داخلے کی اجازت نہیں ہوتی ہے جب تک کہ وہ باضابطہ طور پر اجازت حاصل نہ کرلے۔ مگر وہ ان دو درجن ہندوؤں میں سے ایک ہیں جو مسجد کے اندر گئے اور وہاں تقریبا دو گھنٹے گزارکر مکمل صورت حال کا جائزہ لیا۔ یہاں ان کے سامنے اسلام کے ارکان و اعمال اور مختلف رسومات جیسے نماز، وضو اور مسجد کے اغراض و مقاصد پر روشنی ڈالی گئی۔ اس کے بعد راؤ صاحب اور ان کے ساتھیوں کا نظریہ بدل گیا اور مسجد کے تئیں ان کی جو سوچ تھی، وہ بدل گئی۔
دیہی خواندگی اور تعلیم کو فروغ دینے میں مساجد کا کردار
اسلامی اسکول کا قیام، ملک کے دور دراز علاقوں، اس کے گاوؤں اور سماج میں کثیر جہتی مقاصد ادا کر رہے ہیں۔ ان کے نصاب میں عصری و دینی تعلیم کی شمولیت کی وجہ سے دیہی علاقے میں رہنے والے لڑکے، لڑکیاں دونوں طرح کی تعلیم حاصل کر رہے ہیں۔ ان اسکولوں میں بالخصوص خواتین میں تعلیم کو فروغ دینے پر بہت زور دیا جاتا ہے۔ اس سلسلے میں مدارس کا رول بہت اہم ہے۔ یہ مذہبی اور جدید تعلیم کی آمیزش کی شاندار مثال پیش کررہےہیں۔ ملک میں کئی ایسے مدارس ہیں جہاں انجینئرنگ کالج، گریجویشن کالج، فارمیسی کالج ، بی یو ایم ایس اور بی ایچ ایم ایس کالج اور ڈینٹل کالج بھی چلائے جا رہے ہیں۔ مثال کے طور پر ’جامعہ اسلامیہ اشاعت العلوم ٹرسٹ ‘ کو پیش کیا جا سکتا ہے ۔ اس کے تحت ایک میڈیکل کالج چلا یا جا رہا ہے۔ یہاں دینی تعلیم کے ساتھ ساتھ عصری علوم کی پر خاص توجہ دی جاتی ہے۔یہ کالج مہاراشٹر کے ضلع جالنہ میں واقع ہے۔ اس میں مریضوں کو تمام طبی سہولیات اور مفت علاج بلا تفریق مذہب و ملت فراہم کی جاتی ہیں۔ یہ ادارہ ذات پات یا مذہب سے بالاتر ہوکر اپنی بے لوث خدمات انجام دے رہا ہے ۔ اس ٹرسٹ سے وابستہ مدارس گاؤں میں نہ صرف تعلیم کو فروغ دے رہے ہیں بلکہ گاؤں کی معیشت پر بھی مثبت اثرات ڈال رہے ہیں۔
مہاراشٹر کے ضلع اورنگ آباد کے کنج کھیڑا گاوں کنڑ تعلقہ کا جائزہ لینے سے اس کا اندازہ بخوبی ہوتا ہے۔ یہاں ایک مدرسہ تو ہے ہی، اس میں ایک فارمیسی کالج، ایک جونئر کالج، ہائیر سیکنڈری تک لڑکیوں کا اسکول اور ایک یونانی کالج بھی ہے۔ اس گاؤں کی بنیادی معیشت کاشتکاری ہے۔ اس کا فائدہ یہاں کے طلبہ اٹھاتےہیں اور کاشتکاری میں مہارت حاصل کرنے کے ساتھ ساتھ ملک کے مختلف اداروں میں ملازمتیں کررہے ہیں۔ کالج کے پرنسپل نے بتایا کہ تقریبا 54 دیہات کے طلبہ مختلف اداروں میں کام کررہے ہیں جس سے ان دیہاتوں کے معاشی حالات بدل رہے ہیں۔
بابری مسجد کے انہدام کے بعد مسلم مخالف سوچ کا رد
بابری مسجد کے انہدام کے بعد ہندوستان نے ایک نیا سیاسی رخ دیکھا ۔ نصاب کی تاریخی کتابوں میں اور نوجوانوں کے ذہن میں یہ بات بٹھائی جانے لگی کہ مسلمان مندروں کی بے حرمتی کرتے ہیں۔ اس پروپیگنڈے کو منظم طریقے پر پھیلایا گیا۔ غرض اسلاموفوبیا کی جو سازش مغربی ملکوں میں رچی گئی، اس میں ایک اور پروپیگنڈے کا اضافہ کردیا گیا۔ حیرت کی بات تو یہ ہے کہ مسلمانوں کے خلاف عالمی سطح پر پروپیگنڈہ کرکے اسلام کی شبیہ کو بگاڑنے کی ناپاک کوششیں کی جاتی ہیں مگر مسلمان اس کا مناسب جواب دینے کے بجائے صبر و مصلحت کے نام پر خاموشی اختیار کیے ہوئے ہیں۔ مذہب اسلام نے دیگر مذاہب کی عبادت گاہوں کے بارے میں جو درس دیا ہے ، اس میں کہیں بھی کسی بھی طرح کسی کی عبادت گاہ کو نقصان پہنچانے کا تصور نہیں ہے بلکہ ان عبادت گاہوں کو تحفظ فراہم کرنے کی تلقین کی گئی ہے۔
اسلام تمام مذہبی عبادت گاہوں کو تحفظ فراہم کرتا ہے:
قرآن کیا کہتا ہے؟ غیر مسلموں کے مذہبی مقامات کا احترام کرنے کے تعلق سے قرآن نے جو اصول بیان کیا ہے وہ بالکل واضح ہے۔ اللہ نے سورہ حج کی آیت نمبر 40 میں فرمایا: جو لوگ اپنے گھروں سے ناحق نکالے گئے صرف یہ کہنے پر کہ ’ اللہ ہمارا رب ہے‘۔ ’’اگر اللہ ان میں سے بعض کا بعض سے دفاع نہ کرتا توبہت سی عبادت گاہیں اور مساجد جہاں اللہ کا نام لیا جاتا ہے، تباہ ہوچکے ہوتے۔ اللہ ان لوگوں کی مدد ضرور کرتا ہے جو اس کے دین کی مدد کرتے ہیں۔ اللہ ہی طاقتور اور زبردست ہے‘‘۔ اس آیت سے واضح ہوتا ہے کہ اسلام ، ہر فرد کو مذہبی آزادی دیتا ہے ، یہاں تک کہ جنگ کے دوران بھی دشمنوں کی عبادت گاہوں کی حفاظت کا حکم دیتا ہے۔ اسی حکم کی وجہ سے کسی بھی اسلامی مملکت میں عبادت گاہوں کو منہدم کرنے کی اجازت نہیں دی گئی ہے۔ اگر اس کی اجازت ہوتی تو ہندوستان میں طویل عرصے تک مسلم سلاطین کے دور اقتدار میں بے شمار مندروں اور دیگر عبادگاہیں محفوظ نہ رہتیں۔
مساجد کے ذریعے ہندو مسلم شناخت:
مسلم یا ہندو اکثریتی شہروں میں مذہبی عبادت گاہوں کی تعمیرات کے بارے میں بات کی جائے تو ملک میں متعدد مساجد کو مندروں کے تباہ شدہ مواد سے تعمیر کرنے کا دعوٰی کیا جاتا ہے۔ پھر یہ بتانے کی کوشش کی جاتی ہے کہ درحقیقت یہ مندر ہی تھے جسے مسجد کی شکل دے دی گئی ہے۔ جب کہ یہ معلوم حقیقت ہے کہ فرسودہ اور گری پڑی عمارتوں کے ملبے کو نئی تعمیر میں استعمال کرنے کا طریقہ دنیا کے ہر خطے میں پایا جاتا ہے۔ مندر توڑ کر اس کے ملبے سے نئی مسجد تعمیر کرنے کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا۔ اس افسانے کی تردید کے لیے تاریخی طور پر ثابت شدہ ان مثالوں کو سامنے رکھنا چاہئے کہ کس طرح مسلمانوں نے ہندو اکثریتی شہر یا مندروں کی تعمیرات میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔ مسلم سلاطین نے ہندو اکثریتی علاقے میں متعدد مندر سرکاری خرچ پر بنوائے اور ان کے لیے وظائف مقرر کیے۔ مگر فرقہ وارانہ ہم آہنگی پر مشتمل ایسے واقعات کا تذکرہ کرنے کے بجائے فرقہ وارانہ تعصب پر مبنی کہانیاں بیان کی جاتی ہیں جس کی وجہ سے ہندووں اور مسلمانوں کے درمیان فاصلہ بڑھتا ہے۔ بہت کم لوگ جانتے ہیں کہ دہلی پر مسلمانوں کی فتح کے بعد شمالی ہندوستان میں بہت سے مندر بنائے گئے۔ اس دور میں تعمیر کی گئی مسلم یادگاروں کا تو ذکر بار بار کیا جاتا ہے مگر ہندوؤں کے ساتھ مسلمانوں کے خوشگوار تعلقات کو نہیں بتایا جاتا ۔ اس رویے کی وجہ سے ہندو مسلم خوشگوار تعلقات کی چمک ماند پڑنے لگتی ہے۔
جوناگڑھ مسجد کی مثال: جوناگڑھ کی ہے جہاں ایک سوداگر اور پانی جہاز کے مالک ابو القاسم علی الدہجی نے ایک مسجد 87-1286 میں بنوائی تھی ۔ یہاں عبادت کے لیے ایک ہال ہے۔ چھت کی لنٹل کو مضبوطی سے پکڑنے کے لیے فلیگ سپورٹ کے ساتھ ایک خوبصورت کالم ، محراب اور نیم گول گنبد بھی ہے۔ محراب کو تیار کرنے والی آرائشی اشیاء جو بچ گئی تھی ، انہیں اسی علاقے میں چھوڑ دیا گیا۔ اب کوئی چاہے تو اس محرابی باقیات کو بدھ مت کی باقیات سے جوڑ کر مفروضہ بیان کر سکتا ہے۔ مگر اس سے حقیقت نہیں بدل سکتی۔
بھدریشورا کی مثال: مسجد ، مندر کی اس بحث میں ایک اور مثال سامنے رکھیں۔ ہم ایک گاؤں بھدریشورا کی بات کر سکتے ۔ یہ گاؤں کسی زمانے میں ایک قلعہ بند بندرگاہ تھا۔ یہاں کی تاریخ سنسکرت کے بعض ذرائع جیسے جگدوچترا اور گیارہویں و بارہویں صدی عیسوی کے کچھ مقامی ریکارڈس میں دستیاب ہے۔ ان دستاویزوں سے پتہ چلتا ہے کہ یہ قصبہ قدیم دور میں ایک آزاد ریاست کی حیثیت رکھتا تھا جسے جین تاجروں کی کونسل چلاتی تھی اور اس کی حفاظت کی ذمہ داری گجرات کے چلوکی حکم رانوں نے لے رکھی تھی۔ اسی دور میں مسلمانوں نے وہاں ایک مسجد اور ایک مزار بنایا۔ یہ دونوں ہی عمارتیں فن تعمیر کی بہترین شاہکار ہیں۔ مزار کے کتبے پر ایک نام ’ ابراہیم ‘ لکھا ہوا ہے اور اس پر تاریخ ذی الحجہ 554/ دسمبر 1159۔ جنوری 1160 درج ہے۔ یہ بر صغیر میں اسلامی تاریخ کا سب سے قدیم ترین کتبہ ہے۔
اندازہ لگایا جا رہا ہے کہ اس کی تعمیر درگاہ ’ قوۃ الاسلام‘ اور ’’اریحی دین کا جھونپڑا‘‘ سے تقریبا نصف صدی قبل ہوئی تھی۔ یہ مزار دراصل ایک مربع گنبد والا حجرہ ہے جس میں قبلہ کی دیوار میں ایک محراب اور صدر دروازے کے سامنے مشرقی جانب سے ایک داخلی دروازہ بنا ہوا ہے۔ اس دروازے کے اوپر ایک سپاٹ چھت ہے۔ چیمبر کی چھت گول دائرے میں ہے جو باہر سے بالکل اہرام مصر کی طرح لگتی ہے اور اندر سے کنول کے نقشوں کا حسین تراشیدہ محسوس ہوتا ہے۔ یہ جین مندروں کے گول دائرے کے طرز پر بنایا گیا ہے۔ بھدریشوار کی سولہ کھمبی مسجد کی منصوبہ بندی اور شمال کی بلندی، نگاہوں میں چمک اور دماغ میں حیرانی پیدا کردیتی ہے۔ اس کی نقاشی میں عربی طرز تعمیر کا غلبہ ہے تاہم اس کی تعمیر، ہندوستانی طرز کی ہے۔ اس کی مسطح چھت کو بریکٹ اور شہتیر سے سہارا دیا گیا ہے۔ بھدریشوار میں بارہویں صدی کے وسط اور تیرہویں صدی کے اوائل کے درمیان بنائے گئے متعدد مقبرے اور کچھ مرکزی مساجد ہیں۔ یہ سب سولہ کھمبی مسجد کے ارد گرد بنائے گئے ہیں۔ مسجد کے بارے میں کوئی نوشتہ موجود نہیں ہے۔ مقبرے کے پتھروں اور بعض دیگر سنسکرت ذرائع میں مسجد کی تعمیر کی تاریخ 1166/1223 عیسوی درج ہے۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ اس مسجد کی تعمیر بارہویں صدی عیسوی میں ہوئی ہے۔ حالانکہ سولہ کھمبی مسجد کا بڑا حصہ ریت میں دب چکا ہے اور جزوی طور پر کھنڈرات میں تبدیل ہوچکا ہے۔ البتہ اس کے کچھ کالمس ، لنٹل اور شمالی دیوار اب بھی عظمت رفتہ کی گواہ بن کر کھڑے ہیں۔
’ابراہیم‘ کے مزار اور مسجد میں استعمال ہونے والےآرائشی سازو سامان اور نقش و نگار اسی دور کے مغربی ہندوستان کی جین مت اور ہندو مذہب کی یادگاروں سے ملتے جلتےہیں۔ یہی وجہ ہے کہ پہلی نظر میں اس کے ستون اور کالم کسی مندر کی طرح دکھائی دیتے ہیں۔ ماضی قدیم میں وسائل کی کمی کے باوجود عالیشان طرز تعمیر کو دیکھ کر بلا اختیار زبان پر تعریف کے الفاظ آجاتے ہیں۔ موجودہ دور میں بعض لوگ اس طرز تعمیر کو غلط معانی کا لباس پہنا کر تفرقہ انگیز اور متنازعہ بیانیہ دے رہے ہیں۔ وہ طرح طرح کے سوالات کھڑے کرتے ہیں کہ کیا اس قدیم دور میں مزدوروں اور کاریگروں کو ان ڈھانچے کی تعمیر میں مہارت تھی۔
خاص طور پر اسلامی انداز میں کسی ڈھانچے کو تیار کرنا، کیا ان کاریگروں کو اسلامی یا فارسی و عربی طرز کی عمارتیں بنانے کی تربیت دی گئی تھی؟ ظاہر ہے کہ عرب تاجر ان عمارتوں کو بنانےکے لیے اپنے ساتھ کاریگر لے کر نہیں آتے تھے تو پھر ہندوستانی کاریگروں کو نقل کرنے کے لیے عربی طرز کی عمارت کس طرح دکھائے جاتے تھے؟ اس دور میں ان کے پاس نہ تو کوئی موبائل تھا اور نہ ہی گوگل جس پر کاریگروں کو عربی یا ایرانی ورژن کو دکھایا جاتا ہو۔ کیا پتھر پر نقش و نگار کرنے یا ستون بنانے کے لیے آج کی ترقی یافتہ صنعت کی طرح اس دور میں وسائل و ذرائع موجود تھے؟ ان تمام باتوں کا تجزیہ کرنے سے ہمیں قرن وسطی کے ہندوستان میں مسجد کی تعمیر یا ستونوں کے استعمال کے پیچھے کی حقیقت کو سمجھنے میں مدد ملتی ہے ۔
(جاری)

 

***

 مساجد معاشرے میں روحانی بالیدگی، سماجی ہم آہنگی اور اخلاقی تربیت کا مرکز ہوتی ہیں۔ یہ صرف عبادت گاہیں نہیں بلکہ علم و حکمت کے مراکز بھی ہیں، جہاں دینی و سماجی شعور اجاگر ہوتا ہے۔ فلاحی خدمات، انسانی ہمدردی اور کردار سازی میں ان کا کردار معاشرتی اصلاح اور مثبت تبدیلی کا ضامن ہے۔


ہفت روزہ دعوت – شمارہ 09 مارچ تا 15 مارچ 2025