قسط (3 ):بھارت جیسے تکثیری سماج میں بین مذہبی مکالمہ کو اہمیت حاصل
جماعت نے سماجی زندگی میں مذہب کے تعمیری رول کو اپنے اجتماعی کردار کے ذریعہ اجاگر کیا
تحریکی جدوجہد کے 75 سال کے موقع پر امیرجماعت اسلامی ہند کا خطاب
ادارہ سازی کی اس صلاحیت اور مستحکم جمہوری روایات کا جماعت نے صرف اپنی تنظیم کی حد تک ہی مظاہرہ نہیں کیا بلکہ اس کے وابستگان کے زیر انتظام اور اس کے زیر اثر جو سیکڑوں ادارے اور دیگر تنظیمیں ملک بھر میں کارگر ہیں ان میں بھی اس اسپرٹ کا مظاہر ہوتا ہے۔اور ہر جگہ یہ ادارے اپنے اپنے دساتیر کے مطابق کام کرتے ہیں۔ انتخابات میں آسانی سے قیادتیں بدل جاتی ہیں۔یہ شورائی مزاج صرف انتخابات اور قیادت کی تبدیلی کے عمل تک محدود نہیں ہے۔ بلکہ آزادانہ احتساب، تنقید و جائزہ کے باقاعدہ فورمس اور ان کی روایات، فیصلہ سازی کے جمہوری طریقے وغیرہ جیسے رجحانات جماعت نے قائم بھی کیے اور ایک لمبے عرصہ سے ان کو نبھا بھی رہی ہے۔یہ دعوی یقیناً مبالغہ آمیز نہیں ہوگا کہ مثبت جمہوری روایات کے اہتمام میں جماعت نہ صرف تمام دیگر مسلم جماعتوں کے مقابلہ میں بلکہ ملک کی اکثر سیاسی و سماجی تنظیموں کے مقابلہ میں بھی زیادہ کامیاب ہے۔ اور جس جمہوری طریقہ سے یہاں انتخابات ہوتے ہیں،جس آسانی سے قیادتیں تبدیل ہوتی ہیں اور جس شوارئی اسپرٹ کے ساتھ فیصلے کیے جاتے ہیں، اس کی نظیر شاید ہی ملک کے کسی اجتماعی نظام میں ملے۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ ہندوستانی مسلمانوں کے قدیم روایتی سماجی ڈھانچہ پر جماعت کی ان نظیروں نے گہرے مثبت اثرات مرتب کیے ہیں اور اب ہر جگہ ایسے ادارے وجود میں آرہے ہیں۔
جماعت کی تنظیم سازی کی ایک اہم خصوصیت یہ ہے کہ اس نے سماج کے تمام طبقوں کا احاطہ کیا ہے۔ اس کی طلبہ تنظیم ایس آئی او، گذشتہ 35سالوں سے کامیابی کے ساتھ اپنے دستور کے مطابق کام کررہی ہے۔ ملک کی کئی ریاستوں میں نہایت فعال طالبات کی اور نوجوانوں کی تنظیمیں ہیں۔طلبہ اور خواتین کو منظم کرنے میں جماعت کی کوششیں کئی پہلووں سے منفرد ہیں۔ طلبہ تنظیم نے پر امن اور قانون کے دائرہ میں رہ کر جدوجہد کرنے کے اصول کو جس کامیابی کے ساتھ، اتنے لمبے عرصہ تک، نبھایا ہے وہ ملک کی طلبائی تحریکوں کی تاریخ میں ایک نیا اور روشن باب ہے۔
خواتین کا ملک گیر نظام جماعت کامیابی سے چلارہی ہے اور اس نے اس غلط فہمی کو رفع کیا ہے کہ دین پسند مسلم خواتین، منظم عوامی جدوجہد کی متحمل نہیں ہوسکتیں۔یا یہ کہ حجاب سماجی سرگرمیوں میں رکاوٹ ہے۔ آج خواتین جماعت کا اہم حصہ اور اس کی قوت کا اہم سرچشمہ ہیں۔ ہر ریاست میں خواتین کے منظم حلقے ہیں۔ جی آئی او کی منظم یونٹیں ہیں۔ اعلیٰ تعلیم یافتہ خواتین سے لے کر عام گھریلو خواتین تک، ہر طبقے کی خواتین جماعت میں موجود ہیں اور اپنی گھریلو ذمے داریاں کے ساتھ دین کی ، ملت کی، ملک کی گراں قدر خدمات انجام دے رہی ہیں اور ان خدمات کے لیے اپنی صلاحیتوں کو استعمال کررہی ہیں۔
محترم بزرگو اور دوستو، میں چند باتیں اس حوالے سے بھی رکھنا چاہتا ہوں کہ پورے ملکی سماج کے لیے جماعت کی خدمات اور کنٹری بیوشن کیا رہا ہے؟
ملک کے لیے جماعت کی خدمات
ملک کے لیے جماعت کی ایک بڑی خدمت یہ ہے کہ اس نے سماجی زندگی میں مذہب کے تعمیری رول کو اپنے اجتماعی کردار کے ذریعہ اجاگر کیا ہے۔ ہندوستان جیسے مذہبی ملک میں مذہب کو سماجی اور اجتماعی زندگی سے مکمل طور پر کاٹ دینا ممکن نہیں ہے اس لیے یہاں سیکولرزم کا وہ تصور قابل عمل نہیں ہے جو یورپ میں رائج ہے۔ لیکن مذہب اور سیاست کے امتزاج کے نتیجہ میں نفرت اور خون خرابہ کی جو لہرچلی اس سے ہمارا ملک بھی محفوظ نہیں رہا۔ان حالات میں یہ سوال گزشتہ صدی میں ایک بڑا پریشان کن سوال رہا ہے کہ اجتماعی و سیاسی زندگی میں مذہب کا حقیقی کردار کیا ہو؟ جماعت نے اپنی ستر سالہ عملی تاریخ سے اس پریشان کن سوال کا جواب دیا ہے۔ اس نے اسلام کے اصولوں اور اخلاقی اور انسان دوست قدروں کی ترویج کی بھی کوشش کی ہے اور مذہب کے نام پر منافرت اور فرقہ پرستی کی شدید مخالفت اور مذمت بھی کی ہے۔ جماعت سیاست میں اخلاقی قدروں کی ترویج کی علم بردار رہی ہے۔ اس نے رائے دہندوں کی اخلاقی تربیت اور ان کی رہنمائی میں خود بھی کردار ادا کیا ہے اور دیگر مذاہب سے متعلق ہم خیال عناصر کے ساتھ تعاون و اشتراک بھی کیا ہے۔ اس نے ایک طرف مذہب کے غلط استعمال، مذہب کی بنیاد پر منافرت اور فتنہ و فساد اور فرقہ پرستی کے خلاف آواز بلند کی ہے اور دوسری طرف مختلف مذاہب کے مذہبی قائدین کے ساتھ مل کر اور کبھی اکیلے، اعلی اخلاقی قدروں کے فروغ اور سیاست سمیت اجتماعی زندگی کے تمام شعبوں میں ایمان داری، انسان دوستی، عدل اور راست بازی جیسی قدروں کی ترویج کی کوشش بھی کی ہے۔جماعت نے ملک میں کئی جگہ دھارمک جن مورچے قائم کیے۔ جن میں تمام مذاہب کے سرکردہ مذہبی قائدین شامل ہوتے ہیں اور مل جل کر سماج کی تعمیر کا کام کرتے ہیں۔ واقعہ یہ ہے کہ ہندوستان میں مذہب ایک بہت بڑی قوت ہے اور اگر اس کا صحیح استعمال ہو اور غلط استعمال رکے تو یہ سماج میں بہت بڑی مثبت تبدیلی کا ذریعہ بن سکتا ہے۔
جماعت کی کوشش رہی ہے کہ مختلف مذاہب کے ماننے والوں کے درمیان صحت مند مکالمے ہوں۔ اور ہندوستان جیسے تکثیری ملک میں، یہ ضروری ہے کہ اہل مذاہب کے درمیان صحت مند تبادلہ خیال کی فضا پروان چڑھے۔جماعت نے عید ملن جیسے پروگراموں کو عام کیا۔ ایسے سمپوزیم اور مذاکروں کی روایتیں قائم کیں جن میں مختلف اہم موضوعات پر تمام مذاہب کے ماننے والے تبادلہ خیال کریں۔ حال ہی میں مختلف مذہبی فرقوں کے درمیان سماجی ہم آہنگی کا کا م جماعت نے پورے ملک میں مہماتی انداز میں شروع کیا ہے۔ چھوٹے چھوٹے دیہاتوں میں تک سد بھاونا منچ اور اس طرح کے ایسے ادارے قائم ہوئے جن میں مختلف مذاہب کے لوگ باہم گفت و شنید کرسکیں اور اختلافات و تنازعات کے حل کے لیے بھی تبادلہ خیال اور مفاہمت کا راستہ اختیار کریں۔ یہ سارے کام بھی سماج کے تمام طبقات یعنی مردوں، عورتوں، نوجوانوں اور طلبہ کے درمیان انجام پاتے ہیں۔ ہمارے ملک میں مذہبی فرقوں کے درمیان مذاکرات کی کوششیں بہت سی این جی اوز اور ادارے کرتے رہتے ہیں۔ لیکن جماعت نے اس کام کو ایک ملک گیر تحریک کی شکل دی ہے اور اسے چھوٹے مقامات کی سطح تک پہنچادیا ہے اور پھر جس استقلال و تسلسل کے ساتھ جماعت یہ کام انجام دے رہی ہے اس نے یقیناً ہندوستانی سماج پر اور یہاں کی فرقہ وارانہ صورت حال پر خوشگوار اثرات مرتب کیے ہیں۔
جماعت کی ایک بڑی اہم کاوش یہ رہی ہے کہ ہندوستان کے مسلمان اور ان کی تنظیمیں صرف اپنے احوال اور مسائل پر سوچنے اور کام کرنے تک محدود نہ رہیں بلکہ ملک اور پورے سماج کی بھلائی کے لیے سوچیں بھی اور کام بھی کریں۔ اسلام کی تعلیمات کی روشنی میں وہ ملک میں امن و انصاف قائم کرنے کی کوشش کریں۔ متبادل پالیسیاں تجویز کریں۔ اسلام کے مقاصد کی روشنی میں متبادل ڈسکورس کھڑا کریں۔ چنانچہ جماعت مستقل ملک کی سیاسی، معاشی، و دیگر پایسیوں پر اظہار خیال کرتی رہی ہے۔ سرمایہ دارانہ استعمار کے خلاف اس نے بہت طاقتور آواز بلند کی ہے جس کا اعتراف علمی حلقوں میں کیا جاتا رہا ہے۔
سود سے پاک متبادل بنکنگ کی اجازت کے لیے اس کے ہم خیال ادارے اور افراد مستقل سرگرم رہے ہیں اور ان کی کوششوں کا اعتراف معاشی پالیسی سازی کے معتبر ادارے کرچکے ہیں۔
(جاری)
***
***
جماعت کی ایک بڑی اہم کاوش یہ رہی ہے کہ ہندوستان کے مسلمان اور ان کی تنظیمیں صرف اپنے احوال اور مسائل پر سوچنے اور کام کرنے تک محدود نہ رہیں بلکہ ملک اور پورے سماج کی بھلائی کے لیے سوچیں بھی اور کام بھی کریں۔ اسلام کی تعلیمات کی روشنی میں وہ ملک میں امن و انصاف قائم کرنے کی کوشش کریں۔ متبادل پالیسیاں تجویز کریں۔ اسلام کے مقاصد کی روشنی میں متبادل ڈسکورس کھڑا کریں۔ چنانچہ جماعت مستقل ملک کی سیاسی، معاشی، و دیگر پایسیوں پر اظہار خیال کرتی رہی ہے۔ سرمایہ دارانہ استعمار کے خلاف اس نے بہت طاقتور آواز بلند کی ہے جس کا اعتراف علمی حلقوں میں کیا جاتا رہا ہے۔
ہفت روزہ دعوت – شمارہ 28 جنوری تا 14 جنوری 2023