پروفیسر محسن عثمانی ندوی
یونیورسٹی کے اساتذہ اپنے منصب کاحق ادا کریں۔ تحقیق وتصنیف کی طرف توجہ کی ضرورت
اب افسوس کسی یونیورسٹی سے جوئے حیات ابلتی نہیں ہے نہ کہیں درد و سوز ہے نہ بحر کی موجوں میں اضطراب ہے، نہ کہیں علم کا ساز ہے نہ ادب کی آواز ہے، نہ کوئی خیال نو، نہ جرآت اندیشہ نہ ترقی وتعمیر کا منصوبہ، نہ کوئی بصیرت افروز رہنمائی، نہ فساد اور انتشار کی قوتوں سے نبرد آزمائی، نہ کوئی تدبیر نہ کوئی عزم وارادہ، نہ کوئی منزل نہ کوئی جادہ۔ بس جمود و رکود و خمود، بے حسی، مردنی اور کتاب وقلم سے بیگانگی ہے۔
پروفیسر حضرات کے یہاں بک کے بجائے چیک بک کا اہتمام پایا جاتا ہے۔ بنگلہ اور گملہ موٹر اور نوکر یا شوفر کسی چیز کی ان کے پاس کمی نہیں ہوتی ہے ۔معیار بندگی ان کا بلند ہو یانہ ہو معیار زندگی ان کا ہمیشہ بلند ہوتا رہتا ہے۔ان کی مالی سطح اتنی بلند ہوجاتی ہے کہ ستارے گرد راہ ہوتے ہیں اور علمی سطح اتنی پست ہوتی ہے کہ غبار راہ بھی بلند تر ہوتا ہے۔کئی سال گزر جاتے ہیں ان کی کوئی علمی کتاب سامنے نہیں آتی ہے۔ قرآن کریم نے سورہ یوسف میں قحط سالی کے سات سال کو ’’سبع عجاف‘‘ کہا ہے۔ یونیورسٹی کے اساتذہ کے یہان قحط سالی کے سات نہیں ساٹھ سال سے بھی زیادہ ہوتے ہیں، کم از کم طویل وقفہ کے بعد تو ذہن کی زرخیزی اور شادابی کا کوئی ثبوت سامنے آنا چاہیے ورنہ یہ فیصلہ صادر کرنا ہوگا کہ ان کے فکر کی سطح بالکل بنجر اور روئیدگی کی صلاحیت سے محروم ہو چکی ہے لیکن اساتذہ اس حقیقت کا اعتراف نہیں کرتے۔ ان کے طلسم خیال میں ایوان علم وادب میں ان کے نام کو پھر بھی باقی رہنا چاہیے اور سمیناروں میں ان کے نام دعوت نامہ آنا چاہیے۔ہر استاد پہلے لکچرر سے ریڈر اور ریڈر سے پروفیسر بننے کے لیے بیتاب اور کرئیر کی ترقی کے لیے ماہی بے آب ہوتا ہے۔ جب تک وہ لکچرر رہتا ہے صرف اس غرض سے کچھ لکھتا پڑھتا ہے کہ انٹرویو میں اسے ثابت کرنا ہوتا ہے کہ ’’ہم بھی ہیں پانچویں سواروں میں‘‘ اور پھر اسی نیت سے وہ کچھ لکھ پڑھ لیتا ہے کہ اپھی پروفیسر بننے کا آخری مرحلہ باقی ہے۔ پروفیسر بننے کے بعد لکھنے پڑھنے کی کیا ضرورت باقی رہتی ہے۔ علم اور فکر و ادب کی ثروت میں اضافہ کرنا دور دور ان اساتذہ کے حاشیہ خیال میں نہیں ہوتا ہے نہ عام طور پر ان کو علمی کاموں کا شوق ہوتا ہے نہ مزاج۔ بعض تو ایسے اساتذہ بھی ہوتے ہیں جو اپنا پبلیشڈ ورک بڑھانے کے لیے دوسروں سے کتابیں لکھوا کر اپنے نام سے شائع کرتے ہیں اور پس پردہ لکھنے والوں کو معاوضہ ادا کرتے ہیں۔ قرآن کی آیت ’’یریدون أن یحمدوا بما لم یفعلوا‘‘ کی مجسم تصویر۔اگر مسلم اساتذہ کی یہ ساری تصویر درست ہے تو بہت شرم ناک ہے۔
ہر ٹیچر کو یہ جاننا چاہیے کہ تعلیم وتدریس ایک ذہنی اخلاقی اور جمالیاتی عمل بھی ہے۔ کسی بھی شعبہ کا استاذ ہو اس کی اولین ذمہ داری یہ ہے کہ وہ اخلاقی قدروں پر زور دے اور خود اس کا عملی نمونہ پیش کرے۔ طالب علم کی حیثیت نرسری کے ایک پودے کی ہے اور استاد اس نرسری کا مالی اور باغباں ہوتا ہے۔ ایک اچھے استاذ کے بغیر طالب علم کی شخصیت برگ وبار نہیں لاتی۔ طالب علم کی زندگی کے ساز کو استاذ کی زندگی کے مضراب کی ضرورت ہوتی ہے استاذ کی اخلاقی اور علمی رہنمائی اور شفقت کی حیات بخش شبنم سے طالب علم کا غنچہ حیات شگفتہ ہوتا ہے اور اس کی عنایت اور رہنمائی کے بغیر یہ غنچہ مرجھا جاتا ہے۔ طالب علم کی حیثیت مس خام کی ہوتی ہے اور استاد کی کیمیاء اثر صحبت سے وہ کندن بن جاتا ہے۔ یونیورسٹی کے مسلم اساتذہ کی ذمہ داری ایک ٹیچر کی حیثیت سے اور ایک مسلمان کی حیثیت سے بہت زیادہ ہے، ان کو اپنے طلبہ کی اخلاقی تربیت بھی کرنی ہے ان کو تحریر اور تقریر دونوں ذریعہ سے سماجی اصلاح کی کوشش کرنا ہے اخبارات اور رسائل میں اپنی تحریروں کے ذریعہ ذہنی بیداری اور احساس ذمہ داری پیدا کرنا ہے۔ علم میں توانائی اور طاقت اسی وقت پیدا ہوتی ہے جب اس کا تعلق سماجی زندگی سے ہو، مثال کے طور پر اگر ملک میں قومی یک جہتی کی ضرورت ہے تو کسی یونیورسٹی کے استاد کو چاہے وہ کسی شعبہ میں ہو یہ کہنے کا حق نہیں کہ اس کام کا تعلق ملک کے سیاست دانوں سے ہے اور اس سے ہمارا کوئی تعلق نہیں۔ ملک میں اگر کرپشن جھوٹ رشوت ظلم اور نا انصافی عام ہوگئی ہو تو یونیورسٹی کے استاد کی بھی ذمہ داری ہے کہ وہ اصلاح کی کوشش کرے کیونکہ ایک ٹیچر معلم اخلاق بھی ہوتا ہے۔ لیکن افسوس کہ یونیورسٹی کے مسلم اساتذہ نے انصاف کے بجائے نا انصافی کے نمونے پیش کیے ہیں اس لیے ان کے ذریعہ تربیت پانے والے طلبہ راست باز حق گو دیانت دار منصف مزاج نہیں بن سکتے۔ نا انصافی ان شعبوں میں جہاں مسلم اساتذہ کام کرتے ہیں بہت عام ہے۔ ڈاکٹر صابر علی سیوانی نے اعلیٰ درجہ کے علمی کام کیے ہیں بہترین کتابیںتصنیف کی ہیں تمام ضروری ڈگریاں ان کے پاس موجود ہیں وہ انٹرویو میں بھی شریک ہوتے رہے لیکن طرف داری اور نا انصافی کی وجہ سے نگاہ انتخاب ان پر نہ پڑ سکی۔ڈاکٹر محمد طارق ایوبی ندوی علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے شعبہ عربی کے فارغ التحصیل ہیں اور علی گڑھ میں ماہنامہ ندائے اعتدال کے ایڈیٹر ہیں اور کئی عدد عربی اور اردو کتابوں کے مصنف ہیں لیکن علی گڑھ کے شعبہ عربی میں جگہ پانے میں وہ ناکام ہوئے۔ یہ ہیں یونیورسٹی کے وہ اساتذہ جنہیں انصاف کے ڈگر پر چلنا نہیں آیا اور جو یونیورسٹی کے باغ میں نا انصافی کے درخت لگاتے رہتے ہیں۔ عربی کے اساتذہ کی اور ہر مسلمان استاذکی ذمہ داری ہے کہ اپنی علمی اور اخلاقی ذمہ داریوں کو وہ ادا کریں اور ان کی تصویر پر لگے ہوئے سیاہ دھبوں کو مٹائیں۔ ایک اور سیاہ دھبہ کا ذکر مناسب ہے۔ دہلی میں بہت سے غیر مسلم بھی اپنے مادی فائدے کے لیے عربی پڑھتے ہیں۔ دو فوجیوں نے عربی پڑھی اور سعودی عرب میں ہندوستانی سفارت خانہ کے ایک عہدہ کے (غالباً ڈفنس اٹیچی کے عہدہ کے) امیدوار ہوئے۔ سرکاری طور پر جامعہ ملیہ کے ایک پروفیسر کو امتحان کا اکسپرٹ بنایا گیا۔ دونوں امیدواروں میں سے ایک کی عربی بہت اچھی تھی دوسرے کی بہت کمزور، دونوں کے درمیان کوئی مقابلہ ہی نہ تھا لیکن جب امتحان کا نتیجہ سامنے آیا تو جس کی عربی بہت کمزور تھی وہ کامیاب ہو گیا تھا اور جس نے بہت محنت سے عربی پڑھی تھی وہ ناکام تھا۔ پروفیسر کو یہ بھی خیال نہیں آیا کہ اپنے بعض دوستوں کی سفارش کی وجہ سے انہوں نے جو بے ایمانی کی ہے اس کی وجہ سے اس ہندو کے ذہن میں پوری ملت اسلامیہ کی کیا تصویر بنی ہوگی۔ عربی ترجمہ میں مہارت پیدا کر لینا آسان ہے اور انصاف کی ڈگر پر چلنا مشکل ہے۔ جامعہ ہمدرد کی ایک پوسٹ پر انٹرویو میں اس فاضل امیدوار کا انتخاب نہیں ہو سکا تھا جو ایک معروف انگریزی اخبار کا دس برس ایڈیٹر رہا جس نے عربی اردو زبان میں علمی کتابیں لکھیں اور انٹرویو میں کمتر صلاحیت کے شخص کا انتخاب ہوگیا۔ اکسپرٹ علی گڑھ یونیورسٹی سے تشریف لائے تھے۔
ہندوستانی یونیورسٹی کے اساتذہ سمینار یا اور کسی موقع پر آپس ملتے ہیں تو ان کی گفتگو کا موضوع کوئی کتاب نہیں ہوتی ہے وہ کسی علمی مسئلہ پر یاکسی تحریر یا نظریہ کے بارے میں تبادلہ خیال نہیں کرتے ہیں۔ وہ نئے آنے والے اسکیل پر یا نئے انکریمنٹ کے بارے میں باتیں کریں گے یا کسی بدعنوانی کی افواہ کو موضوع گفتگو بنائیں گے۔ اس سے ان اساتذہ کی ذہنی سطح کا اندازہ ہوتا ہے۔ انسان کی گفتگو اس بات کی آئینہ دار ہوتی ہے کہ اس کے دماغ میں کیا بھرا ہوا ہے اور اس کی ذہنی سطح کیا ہے۔عصری جامعات کے اساتذہ میں شوق علم کیوں ختم ہوگیا ہے اور ان کا نشتر تحقیق اب کیوں کند ہوگیا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ان کے سامنے اب زندہ آئیڈیل باقی نہیں رہ گئے ہیں اور اہل علم اور اہل ادب کی صحبت میسر نہیں ہے۔ اچھا اسکالر اور اچھا دانشور بننے کے لیے ایک اچھے اسکالر اور اچھے دانشور کی صحبت ضروری ہے۔ علم کی دنیا میں ہمیشہ چراغ سے چراغ جلتا ہے، علم کے ذوق کے لیے طالب علم کی زندگی کے ساز کو ایک اچھے اسکالر کے مضراب حیات کی ضرورت ہوتی ہے، ایک باکمال استاذ کی شفقت آمیز رہنمائی سے طلبہ کا غنچہ حیات شگفتہ ہوتا ہے۔ اس میں شرافت اور شائستگی پیدا ہو جاتی ہے۔ یہ استاذ کی تربیت ہوتی ہے جو شاگرد کو کردار کا غازی اور مفکر اور مصنف بناتی ہے اس لیے ایک اچھے استاذ کو انسان کامل اور مرد عاقل کی خصوصیات کا حامل ہونا چاہیے، اخلاق کی خوشبو میں اسے گل تازہ کے مانند، فکر کی تابانی میں اسے خورشید سحر اور انسانیت کی کشت زار کے لیے اسے نوید بہار ہونا چاہیے۔اسے طالب علموں کے لیے بہترین نمونہ ہونا چاہیے۔ بازار اور تفریح گاہوں سے اسے دور اور نفور ہونا چاہیے اس کے قدم کے نقوش کتاب خانوں میں اور ایوان درس میں پڑنے چاہئیں اور اس کے قلم کے نقوش اخبارات و رسائل اور کتابوں کے صفحات میں نظر آنے چاہئیں۔ جہاں اس کا قدم ہو وہ جگہ رشک ارم ہو جس مکان میں اس کے قدم ہوں وہ میمنت لزوم ہوں۔ جس جگہ اس کی سواری پہنچے ہر طرف سے باد بہاری پہنچے، جس راستہ سے وہ گزر جائے وہ راستہ مشک بار ہو جائے۔ یہ سب کچھ مبالغہ نہیں معلم کا مقام بہت بلند ہے کیونکہ پیغمبر بھی معلم ہی ہوتا ہے۔ وہ اپنی کیمیا اثری سے مردوں کو مسیحا اور ذرہ بے مقدار کو رشک ماہتاب بنا سکتا ہے۔ یہ وہ صاحب کمال اور صاحب خلق حسن استاد ہوتا ہے جس کے لیے ذرہ فطرت دعا گو ہوتا ہے
سرسبز سبزہ ہو جو ترا پائمال ہو
ٹھہرے تو جس شجر کے تلے وہ نہال ہو
مولانا سید سلیمان ندوی کو بلند علمی مقام حاصل نہیں ہوتا اگر انہیں علامہ شبلی کی شاگردی کا شرف حاصل نہیں ہوتا۔ صباح الدین عبد الرحمن صاحب کے بے مثال علمی اور تاریخی کتابیں منظر عام پر نہیں آتیں اگر انہیں مولانا سید سلیمان ندوی کی صحبت اور رفاقت میسر نہیں آتی۔ اب یونیورسٹی کے اساتذہ پڑھتے بہت کم ہیں اور اسمارٹ فون میں زیادہ مشغول رہتے ہیں۔ اگر یونیورسٹی کے اساتذہ ہر وقت اسمارٹ فون پر سوشل میڈیا کے سمندر میں شناوری کرتے رہیں گے تو نہ وہ خود صاحب کمال بن سکتے ہیں نہ اپنے طلبہ کو باکمال بنا سکتے ہیں۔ سوشل میڈیا اور انٹرنیٹ کی اہمیت بھی اپنی جگہ ہے اور مفاسد بھی بہت ہیں۔ علم کا کوئی شعبہ ہو اس کے بارے میں ’’گوگل‘‘ فورا علاءالدین کے چراغ کی طرح معلومات لے کر حاضر ہو جاتا ہے لیکن اس چراغ سے استفادہ کتابوں اور کتاب خانوں سے استفادہ کی قیمت پر نہیں ہونا چاہیے۔ اچھے اور مثالی استاد سے رابطہ ہمیشہ قائم رکھنا چاہیے۔ مثالی استاد کے فقدان کی تلافی ایک حد تک صرف کتابوں کے ذریعہ ممکن ہے۔ ضروری ہے کہ ہم اپنے قریب کے زمانہ کے محققین اور مفکرین کی کتابیں مسلسل پڑھتے رہیں۔ مثال کے طور پر عربی اور اردو اور اسلامک اسٹڈیز کے اساتذہ اگر ڈاکٹر محمد حمیداللہ کی کتابیں پڑھیں جن کا انتقال چند سال پہلے 94 سال کی عمر میں امریکا میں ہوا تو ان کے سامنے ایک آئیڈیل رہے گا۔ ایک مثالی صورت سامنے رہے گی۔ ڈاکٹر حمیداللہ نے قرآن وحدیث فقہ وقانون اسلام وبین الاقوامی قانون سیرت اور تاریخ کو موضوع بحث بنایا تھا۔ ڈاکٹر حمیداللہ پر پروفیسر عبدالرحمن مؤمن کی کتاب منظر عام پر آ چکی ہے اور ڈاکٹر حمیداللہ پر راقم الحروف کا مرتب کردہ مجموعہ مضامین انسٹیٹیوٹ آف آبجیکٹو اسٹڈیز کی طرف سے شائع ہو گیا ہے۔ ڈاکٹر حمیداللہ ہی کی طرح ایک بلند معیار کے محقق فؤاد سیزگین کا بھی اگست 2018 میں 94 سال کی عمر میں استنبول، ترکی میں انتقال ہوا، وہ بھی بہت بڑے ممتاز مؤرخ اور دانشور تھے۔ وہ بھی ڈاکٹر حمیداللہ کی طرح کئی زبانوں پر عبور رکھتے تھے اور مسلسل سترہ گھنٹے مطالعہ اور تحقیق میں مصروف رہا کرتے تھے۔
ان کی مشہور کتاب تایخ التراث العربی بارہ جلدوں میں ہے اور وہ کتاب خانہ ناقص اور نا مکمل سمجھا جاتا ہے جہاں یہ اہم کتاب موجود نہ ہو۔ یہ کتاب اسلامی مصادر و مراجع کا سب سے بڑا ماخذ ہے۔ انہوں نے علوم اسلامیہ پر ریسرچ اور تحقیق کا سب سے بڑا ادارہ استنبول میں قائم کیا تھا۔
ابھی مسلمانوں پر جو نئی افتاد پڑی ہے، یونیفارم سول کوڈ کی جو تلوار لٹک رہی ہے مسلمانوں کے خلاف عداوت کا جن جو بوتل سے باہر آگیا ہے اس کے خلاف اس وقت کون شمشیر آزما ہے؟ مدارس کے علماء یا عصری جامعات کے اساتذہ؟ ’’کس کی ہیبت سے صنم سہمے ہوئے رہتے ہیں‘‘
یونیورسٹی کے خوش پوشاک اور خوش خوراک اور خوش حال مسلم اساتذہ کا یہ منظر نامہ جو اس مضمون میں پیش کیا گیا ہے اگرچہ مایوس کن ہے لیکن شاید یہ تحریر کچھ اساتذہ کے لیے ہمت افزا اور شوق انگیز بن جائے، وہ ملت کے کاموں میں ملت کا تعاون کرسکیں اور ان کے دل میں اپنے مقام ومرتبہ کا احساس پیدا ہو جائے اور ان کے اندر اپنے پیشہ کے ساتھ وفاداری اور پاس داری اور علمی کاموں کی ذمہ داری کا جذبہ ابھر آئے کہ یہی مقصود و مطلوب ہے ۔برسات کی اندھیری رات میں ابھی کچھ جگنو چمکتے نظر آتے ہیں جیسے ڈاکٹر محمد اکرم ندوی (آکسفورڈ یونیورسٹی) ڈاکٹر محمد فہیم اختر ندوی (مولانا آزاد نیشنل یونیورسٹی) شاید ایک دو نام اور۔ مضمون میں جس اہم ترین کام یعنی تحقیق و تصنیف کی طرف توجہ دلائی گئی ہے وہ نہ سہی زیادہ تر اساتذہ اپنے عہدہ کا حق بھی نہیں ادا کرتے ہیں۔ کبھی کوئی مضمون تک نہیں لکھتے، محنت سے جی چراتے ہیں۔ کتابوں کے پڑھنے لکھنے سے مکمل کنارہ کشی اختیار کرتے ہیں۔ وہ اس گائے کے مانند ہیں جو نہ دودھ دیتی ہے نہ بچہ دیتی ہے۔ شعبہ عربی کے بھی ایسے مسلم اساتذہ ہیں جو قحط الرجال میں غنیمت ہیں۔ دہلی یونیورسٹی کے شعبہ عربی کے پروفیسر محمد نعمان خان نے قدیم ہندوستانی تاریخ پر ایک کتاب کا انگریزی سے عربی میں ترجمہ کیا ہے۔ جے این یو کے پروفیسر احسان الرحمن نے بعض ہندوستانی کہانیوں کے عربی ترجمے کیے، پروفیسر ثناءاللہ ندوی نے بلند معیار کے علمی کام عربی اردو اور انگریزی تینوں زبانوں میں کیے ہیں، ڈاکٹر مظفر عالم نے ہندوستان میں غیر مسلموں کی عربی خدمات پر انگریزی میں اچھی کتاب لکھی ہے۔ کولکاتا کی ایک یونیورسیٹی کے عربی کے استاد معراج احمد ندوی نے عرب دنیا کے عربی اخبارات میں مسلسل مضامین لکھے ہیں اور مسلسل لکھ رہے ہیں اور ایک اچھا نمونہ تمام عربی شعبہ کے اساتذہ کے لیے پیش کیا ہے۔ ڈاکٹر انظر ندوی نے خود نوشت سوانح عمریوں پر عربی میں کتاب لکھی ہے، ڈاکٹر ولی اختر ندوی کی انگریزی میں کتاب عربی گرامر پر پروفیسر حبیب اللہ کی کتاب انگریزی عربی ترجمہ پر ڈکٹر اقبال حسین کی کتاب عربی تنقید پر، ایک دو نام مشکل سے اور لیے جاسکتے ہیں جیسے پروفیسر سعود عالم قاسمی، جامعہ ملیہ، جواہر لال نہرو یونیورسٹی، بنارس ہندو یونیورسٹی کے ایک دو استاذ ہیں جنہوں نے قلم کی آبرو باقی رکھی ہے، لیکن یہ سارے کام معیار اور مقدار کے لحاظ سے اتنے کم ہیں کہ نہ ہونے کے برابر ہیں۔ پھر ان سے ذوق علم وتحقیق کی خوشبو نہیں آتی ہے بعض کتابوں کو دیکھ کر ایسا لگتا ہے کہ وہ انٹرویو میں پیش کرنے کے لیے یا صدر جمہوریہ ایوارڈ حاصل کرنے کے لیے بہت مختصر تعداد میں شائع کی گئی ہیں۔ کسی شعبہ عربی کے کسی استاذ نے علمی دنیا میں وہ مقام حاصل نہیں کیا ہے جو مثال کے طور پروفیسر خورشید احمد فارق کو حاصل تھا یا (عربی کے سابق پروفیسر) مولانا سعید احمد اکبرآبادی کو یا نثار احمد فاروقی کو یا پروفیسر مختار الدین آرزو کو یا پروفیسر عبدالحلیم ندوی کو یا علامہ ابو محفوظ کریمی (مدرسہ عالیہ کلکتہ اب عالیہ یونیورسیٹی) کو یا علی گڑھ کے پروفیسر یاسین مظہر صدیقی ندوی (شعبہ اسلامک اسٹڈیز) کو حاصل تھا۔ یہ لوگ سچ مچ اہل علم تھے اہل ادب و تحقیق تھے ان کی کتابوں سے عقل وفکر کو غذا ملتی تھی اور علم وآگہی کی دنیا میں اضافہ ہوتا تھا۔ بات صرف سمجھانے کے لیے بطور مثال عرض کرتا ہوں کہ جامعہ ملیہ کے پروفیسر ڈاکٹر عابد حسین کی کتاب ’’قومی تہذیب کا مسئلہ‘‘ یا ان کی کتاب’’ ہندوستانی مسلمان آئینہ ایام میں‘‘ کوئی شخص پڑھ لے وہ محسوس کرے گا کہ وہ بڑے مفکر اور دانشور اور ادیب کی کتاب پڑھ رہا ہے۔ یہ احساس یونیورسٹی کے موجودہ مسلم اساتذہ کی کتابوں کے پڑھنے سے نہیں ہوتا۔ کوئی ایک بھی نہیں جس کی کتاب اسلوب کی دلکشی میں ’’آندھی میں چراغ‘‘ کے مانند ہو، کچھ کتابیں لکھی گئی ہیں لیکن ہر کتاب حسن اظہار سے اور بلند افکار سے خالی ہے۔ کتاب میں حسن ادا نہیں حسن تخیل نہیں، نہ آرائش خیال نہ ذوق جمال، نہ فکر کی رفعت نہ مطالعہ کی وسعت نہ شعر و ادب سے واقفیت نہ اسلوب کی دلکشی نہ بیان کی رعنائی۔ ایسی اندھیری رات جس میں نئے خیال کے جگنو چمکتے نظر نہیں آتے، جس میں جدت افکار کی چمبیلیاں اور رات کی رانیاں فکر وخیال کو خوشبو دار نہیں بناتیں۔ پہلے یونیورسٹی کے جو عربی کے اساتذہ تھے ان کی جدید عربی انشا کی مشق کمزور ضرور ہوتی تھی لیکن وہ علمی اور ادبی کام زیادہ کرتے تھے۔ آج مالی فائدہ کے لیے عربی انشا کی مشق بہتر ہوگئی ہے، لیکن علمی ادبی اور تحقیقی کام بالکل غائب ہوگیا ہے۔ پروفیسر زبیر احمد فاروقی اپنے ادبی مذاق، اعلی ذوق، عجم کی حسن طبیعت، عربوں کی زبان دانی کی وجہ سے اردو یا عربی میں کسی قابل مطالعہ دلکش تصنیف پر قادر تھے لیکن وہ اس صحتمند انسان کے مانند بن گئے جسے کوئی ایسا عارضہ لاحق ہو جائے جو اسے ہر تعمیری اور تخلیقی کام سے روک دے۔ اب اس جنجال سے باہر نکلنا ان کے لیے مشکل ہے۔
عام طور پر عربی کے اساتذہ پر علمی مردنی چھائی رہتی ہے۔ کسی بھی شعبہ عربی کو دیکھیے وہاں زندگی سے اور حالات حاضرہ سے کسی استاذ کا کوئی تعلق نظر نہیں آئے گا نہ ان کو اس سلسلہ میں اپنی ذمہ داری کا کوئی احساس ہوگا، نہ کسی تحریک اور کام سے وابستگی نظر آئِے گی۔ فرقہ وارانہ فساد ہوں تو ہوا کریں، مسلمانوں کا پرسنل لا ختم کیا جا رہا ہو تو میری بلا سے، اردو زبان اور عربی زبان اور مسلم تہذیب کو حرف غلط کی طرح مٹایا جا رہا ہو اور مسلم تاریخ کو بدلنے کی کوشش ہو رہی ہو، مسلمانوں کو انتقامی کارروائی کا نشانہ بنایا جا رہا ہو، مکانات بلڈوزر سے منہدم کیے جا رہے ہوں، ہندوستان کو اسپین بنانے کی تیاری ہو رہی ہو تو یونیورسٹی کے یہ مسلم اساتذہ ساحل کے تماشائی بنے رہتے ہیں، نہ وہ سوچتے ہیں نہ ان موضوعات پر وہ لکھتے ہیں، جیسے حق بات کہنے اور ظلم کو مٹانے کی ان کی ذمہ داری ہی نہیں ہے۔ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ حق اور انصاف کے لیے بولنا اور لکھنا اور ظلم کا مقابلہ کرنے کے لیے میدان میں کودنا آتش نمرود میں کودنا ہے۔ یہ بلند مقام تو مدرسہ کے فارغین اور تنظیموں کے قائدین کو حاصل ہے لیکن یونیورسٹی کی اونچی اونچی تنخواہوں سے فیض یاب ہونے والے اساتذہ کو صرف اپنی تنخواہوں سے غرض ہے، ایسا لگتا ہے کہ بستی میں آگ لگ چکی ہے اور یہ حضرات کسی درخت یا دیوار کے سایہ میں آرام کر رہے ہیں یا چین کی بانسری بجا رہے ہیں۔ان کا کوئی قابل ذکر علمی کام بھی سامنے نہیں آتا ہے، پی اچ ڈی کے لیے بھی جو موضوعات اختیار کیے جاتے ہیں ان کی کوئی اہمیت نہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ فکر کے سوتے خشک ہوگئے ہیں۔
مسلم اساتذہ میں بے دانشی ہی نہیں بے ذوقی بھی عام ہے۔ بہت کم لوگ ہیں جنہیں پروفیسر عبدالحق کا یا شمیم حنفی کا یا نثار احمد فاروقی یا خلیق احمد نظامی کا یا ضیاء الحسن فاروقی کا علمی ادبی ذوق نصیب ہے۔ ڈاکٹر نجات اللہ صدیقی نے معاشیات اور پھر اسلامک اسٹڈیز کے شعبہ میں اپنی جگہ بنائی اور ایسی اعلی درجہ کی کتابیں تصنیف کیں کہ انہیں شاہ فیصل ایوارڈ ملا۔ یونیورسٹی کے اساتذہ کے حلقہ کے لیے ایک آئیڈیل نام پروفیسر عبدالرحمن مومن کا ہے جو بمبئی یونیورسیٹی میں سماجیات کے شعبہ میں استاد تھے جنہوں نے ڈاکٹر حمیداللہ پر اعلی درجہ کی کتاب اردو میں لکھی پھر ڈاکٹر رفیق زکریا کی طرح بے شمار کتابیں انگریزی میں لکھیں۔ نگاہیں ایسے گوہر نایاب کو ڈھونڈھتی ہیں۔ ایسا ہی ایک نام پروفیسر عبدالمغنی کا بھی تھا جنہوں نے اردو اور انگریزی میں ادب آموز اور فکر انگیز لٹریچر تیار کیا۔ اب یونیورسٹی کےاساتذہ کو کیا ہوگیا ہے۔ قبرستان کا سناٹا ہے، اب افسوس کسی یونیورسٹی سے جوئے حیات ابلتی نہیں ہے۔نہ کہیں درد و سوز ہے نہ بحر کی موجوں میں اضطراب ہے، نہ کہیں علم کا ساز ہے نہ ادب کی آواز ہے، نہ کوئی خیال نو، نہ جرآت اندیشہ، نہ ترقی وتعمیر کا منصوبہ، نہ کوئی بصیرت افروز رہنمائی، نہ فساد اور انتشار کی قوتوں سے نبرد آزمائی، نہ کوئی تدبیر نہ کوئی عزم وارادہ، نہ کوئی منزل نہ کوئی جادہ۔ بس جمود ورکود وخمود، بے حسی، مردنی اور کتاب وقلم سے بیگانگی ہے۔ بعض اساتذہ کی شخصیت حیوان ناطق کے بجائے حیوان کا سب (کمانے والا جانور) کی مصداق بن گئی ہے۔ بعض اساتذہ تو معمولی درجہ کے غیر علمی کاروباری نوعیت کے ترجمہ کے کاموں کے لیے زندگی وقف کر دیتے ہیں اور ’’کون بنتا ہے کروڑ پتی‘‘ کی ریس میں شامل ہوجاتے ہیں۔ اگر وہ قابل ذکر علمی ادبی کام نہیں کرسکتے ہیں تو مسلمانوں کے لیے اسکول اور کالج قائم کرنے کی کم از کم فکر انہیں ہو کہ یہ بھی بہت بڑی ملی اور سماجی خدمت ہے اور ملت کی تعمیر وترقی کے لیے یہ ضروری اور بہت ضروری کام ہے۔ اساتذہ کی تنظیم قائم کرکے وہ بہت سے رفاہی اور فلاحی کام انجام دے سکتے ہیں۔ یونیورسٹیوں کے مسلم اساتذہ کو اقبال کے الفاظ میں یہ کہنے کا جی چاہتا ہے:
کچھ قدر اپنی تو نے نہ جانی
یہ بے سوادی یہ کم نگاہی
(ختم شد)
***
ہفت روزہ دعوت – شمارہ 30 جولائی تا 05 اگست 2023