قسط۔2:جماعت اسلامی ہندکے کل ہند اجتماعات بیک نظر
اجتماعات کی روایت: 1951 سے 2024 تک آل انڈیا اجتماعات کا جائزہ
ڈاکٹر ساجد عباسی
لائحہ عمل پر عمل درآمد۔ فکری اصلاح اور دعوتی کوششوں کی روداد
تیسرا کل ہند اجتماع ۱۹۶۰
جماعت اسلامی ہند کا تیسرا کل ہند اجتماع عام ۱۱ تا ۱۴ نومبر ۱۹۶۰ء پریڈ گراؤنڈ دہلی میں منعقد ہوا، جو لال قلعہ اور جامع مسجد کے درمیان واقع ہے۔ ناظم اجتماع جناب انیس الدین احمد (امیر حلقہ جنوبی بہار ۱۹۶۰ء) نے اس اجتماع کے تمام انتظامی امور کو بحسن و خوبی انجام دیا۔ اس اجتماع میں ملک کے مختلف گوشوں سے آنے والے رفقاء کی تعداد تین ہزار تھی جن کے لیے قیام و طعام کا انتظام کیا گیا تھا۔ مقامی شرکاء کی تعداد تقریباً ۱۵ ہزار تھی۔ اجتماع گاہ ۷۰۰ فٹ طول اور ۵۰۰ فٹ عرض اراضی پر مشتمل تھا جس کے کرایے کے بارے میں پہلی اطلاع ملی کہ چار روزہ پروگرام کے لیے ساڑھے سات ہزار روپے ہوگا۔ یہ رقم اس زمانے میں ناقابل یقین اور ہمت شکن تھی، مگر بعد میں یہ طے ہوا کہ بیس روپے یومیہ اور دو سو روپے بطور ضمانت جمع کرنے ہوں گے۔ جامعہ ملیہ کے انجینئرنگ ڈیپارٹمنٹ کے اساتذہ نے پنڈال کے نقشے کو بنانے میں مدد دی تھی۔ اس کے بعد پنڈال تعمیر کروانے کے لیے ٹینڈر منگوائے گئے۔ چار ہزار روپے میں پنڈال کا کام ایک پنجابی فرم کو تفویض کر دیا گیا۔
اس اجتماع کی اہم ترین تقاریر کی تلخیص پیش کی جارہی ہے جو مفصل روداد سے لی گئی ہے۔
۱۔ افتتاحی خطبہ: امیر جماعت مولانا ابواللیث اصلاحی ندوی
جماعت اسلامی کی دعوت کا تعارف پیش کرتے ہوئے مولانا نے فرمایا کہ یہ دعوت کوئی نئی دعوت نہیں ہے بلکہ یہ وہی دعوت ہے جسے انسانیت کے آغاز سے پیش کیا جاتا رہا ہے اور اس کو آخری شکل میں حضرت محمد ﷺ نے پیش کیا ہے۔ اس کے بعد رسالت و نبوت کا دروازہ بند ہوگیا۔ اب آپؐکے پیروکاروں کی ذمہ داری ہے کہ اس کو ساری انسانیت تک پہنچائیں۔ جماعت اسلامی کی دعوت دراصل اسلام کی دعوت ہے جس کے تین نکات ہیں: اس کائنات کا ایک خالق و مالک ہے اور اسی کو یہ حق پہنچتا ہے کہ انسانی زندگی کا نظام اسی کی بندگی و اطاعت پر قائم ہو۔ دوسرا نکتہ یہ ہے کہ ہر انسان اپنے اعمال کا جواب دہ ہے، اس لیے انسان کے لیے وہی اخلاقی اقدار پائیدار ہوں گے جو آخرت میں جوابدہی کے احساس پر مبنی ہوں گے۔ تیسرا نکتہ یہ ہے کہ انبیاء کے ذریعے جو ہدایت نامہ انسانیت کو ملا ہے اس کی کامل و غیر مشروط پیروی کی جائے۔ یہ ہدایت نامہ اب حضرت محمد ﷺ پر نازل کردہ قرآن اور آپ کی تعلیمات ہی میں اصلی شکل میں موجود ہے۔ ہم چاہتے ہیں کہ ہمارا ملک نہ صرف معاشی طور پر ترقی کرے بلکہ اس ملک سے بد اخلاقی، ناانصافی اور ظلم کا بھی خاتمہ ہو۔ یہ اسی صورت میں ممکن ہے جب ملک کو انہی نکات کی بنیادوں پر چلایا جائے۔
۲۔ درس قرآن (سورہ الصف آیات 1 تا 9) مولانا نظام الدین اصلاحی۔
مولانا نے کہا کہ کائنات کا ذرہ ذرہ خالق کائنات کی تسبیح کر رہا ہے۔ تسبیح کا مفہوم ہے سراپا شکر و سپاس بن کر خالق کے احکام کی اطاعت کرنا اور اپنے مقصد وجود کو پورا کرنا۔ سورج، چاند اور کائنات کی ہر شے اپنے مقصد پیدائش کو پورا کر رہی ہے۔ انسان سے بھی یہی مطلوب ہے کہ وہ اللہ کی پاکی و بڑائی بیان کرے، اس کا شکر ادا کرے اور اس کے احکام کی کامل اطاعت کرے۔ دوسری آیت میں فرمایا گیا ہے کہ قول و فعل کے اندر تضاد کا پایا جانا ایمان کی کمزوری ہے جو نفاق کی صورت میں ظاہر ہوتی ہے۔ یعنی اللہ کو خالق ماننا لیکن اس کی اطاعت سے جی چرانا قول و فعل کا تضاد ہے۔ اللہ کے محبوب بندے وہ ہیں جن کو اللہ کی محبت، اطاعت اور اس کی رضا جوئی میدان جنگ میں بھی متحد رکھتی ہے اور وہ سیسہ پلائی ہوئی دیوار بن کر لڑتے ہیں۔ بنی اسرائیل حقیقی ایمان سے محروم ہو کر نفاق کا شکار ہوئے، جنگ کے موقع پر انہوں نے اپنے رسول کو تنہا چھوڑ دیا اور ان کو اپنے قول و عمل سے ایذا پہنچائی۔ اللہ کا دین دراصل نور ہدایت ہے جس کو بجھایا نہیں جا سکتا۔ یہ دین مضبوط دلائل سے لوگوں کے دلوں کو مسخر کرتا چلا جائے گا۔ اہل ایمان کو بشارت دی جا رہی ہے کہ وہ دین اسلام کی حمایت میں جان و مال سے جدوجہد کریں۔ ان کے لیے آخرت میں نعمت بھری جنتیں ہیں اور یہ جہنم سے نجات پانے کا بہترین سودا ہے۔
۳۔ درس حدیث: مولانا محمد عزیز صائب المظاہری
ترمذی کی حدیث: ’’جسے آخرت کی فکر ہو اللہ تعالیٰ اس کا دل غنی کر دیتا ہے اور اس کے بکھرے ہوئے کاموں کو جمع کر دیتا ہے اور دنیا اس کے پاس ذلیل و خوار ہو کر آتی ہے، اور جسے دنیا کی فکر ہو اللہ تعالیٰ محتاجی اس کی آنکھوں کے سامنے کر دیتا ہے اور اس کے مجتمع کاموں کو منتشر کر دیتا ہے۔‘‘ اس حدیث کا لب لباب یہ ہے کہ فکر آخرت، آخرت کے ساتھ دنیا کو بھی سنوار دیتی ہے، جبکہ فکر دنیا، دنیا و آخرت دونوں کو بگاڑ دیتی ہے۔
۴۔ تقریر ’اقامت دین کے لیے ناگزیر صفات‘: مولانا سید حامد علی
پہلی صفت: حق سے محبت اور باطل سے نفرت۔ جب دین اسلام سے محبت ہوگی تو اس کے نتیجے میں اقامت دین کے مقصد سے بھی محبت پیدا ہوگی۔ دوسری صفت: یقین کامل کہ دین اسلام ہی حق ہے۔ تیسری صفت: غیر مصالحانہ جدوجہد۔ چوتھی صفت: تنظیم و اتحاد۔ ایسا اتحاد جس میں باہم خلوص و محبت ہو جسے رُحَمَاءَ بَینَھُم کہا گیا ہے۔ پانچویں صفت: تسلیم و رضا۔ ہمہ وقت اللہ کی مرضی کے آگے سرِ تسلیم خم کرنا۔ چھٹی صفت: آخرت کو دنیا پر ترجیح دینا۔
۵۔ تقریر ’امت مسلمہ کی ذمہ داریاں‘: مولانا عبدالعزیز
دنیا میں فساد اس لیے برپا ہے کہ انسانیت اپنے خالق سے اور اپنے مقصد وجود سے واقف نہیں ہے۔ امت مسلمہ کی اولین ذمہ داری ہے کہ اللہ کے دین کو اس کے بندوں کے سامنے پرامن، بہترین طریقے سے باعمل ہوتے ہوئے پیش کریں۔
۶۔ تقریر ’نشانات راہ کا تعین‘: ڈاکٹر نجات اللہ صدیقی
ہم ایک مذہبی جماعت اس معنوں میں ہیں کہ ہماری زندگی کا کوئی شعبہ اسلامی تعلیمات سے بے نیاز نہیں ہے بلکہ اس کا پابند ہے۔ عیسائیت اور اسلام میں بہت بڑا فرق ہے۔ عیسائیت میں مسلسل انحراف ہوتا رہا اور اس کی شکل اتنی مسخ ہوگئی کہ اس کے اندر غیر سائنسی چیزیں جمع ہوتی رہیں، اس لیے وہ سائنس کے سامنے ٹک نہیں سکی۔ جبکہ قرآن کتاب محفوظ ہے اور اس کے اندر کوئی چیز بھی غیر سائنسی اور غیر منطقی نہیں ہے۔ اس لیے اسلام سائنس کے طالب علموں کے لیے ہمیشہ قابل قبول رہا ہے۔ اسلام ہر زمانے کے لیے قابل عمل بھی رہا ہے۔ نئے مسائل کے لیے اجتہاد کا دروازہ کھلا رہنا چاہیے تاکہ ان کا حل قرآن و احادیث صحیحہ کی روشنی میں پیش کیا جاسکے۔
۷۔ تقریر ’اسباب زوال امت‘: مولانا عبدالرزاق لطیفی
یہ اجتماع دعوت فکر دیتا ہے کہ اس کے شرکاء جائزہ لیں کہ جس دین کو وہ قائم کرنا چاہتے ہیں اس پر چلنے کے لیے وہ کتنے مستعد ہیں۔ یہ دور تحریکوں کے درمیان کشمکش کا دور ہے۔ جس تحریک کے افراد جتنے مستعد ہوں گے اسی قدر وہ تحریک کامیاب ہوگی۔ اسلام ایسا دین ہے جس کے پاس خلفائے راشدین جیسی حقیقی مثالیں موجود ہیں۔ اسلام ایک سایہ دار درخت ہے جس کے دامن میں تھکے ہوئے مسافر پناہ لے سکتے ہیں۔ لوگ پیاسے ہیں لیکن امت کے افراد نے ان کو تشنہ چھوڑ دیا ہے۔ ہم نے اپنے مقصد وجود کو فراموش کیا تو اللہ نے بھی ہمیں زوال سے ہمکنار کیا۔
۸۔ تقریر ’مسائل حاضرہ اور ان کا حقیقی حل‘: جناب سید حامد حسین
ہر انسان کی فطرت یہ ہوتی ہے کہ وہ کسی نہ کسی طاقت کے سامنے جھکے۔ انسانیت کا سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ وہ اللہ کے بجائے اپنے ہی جیسے انسانوں کو طاقتور پا کر ان کے سامنے جھکتا ہے۔ اس وقت دنیا دو قطبی بن چکی ہے۔ ایک طرف امریکہ ہے تو دوسری طرف سوویت یونین ہے اور دونوں نیوکلیئر قوتیں ہیں۔ اگر ان کے درمیان جنگ چھڑ جائے تو دنیا تباہ ہو سکتی ہے۔ انسان کا تیسرا مسئلہ یہ ہے کہ وہ اپنی خواہشات کو اسی دنیا میں پورا کرنا چاہتا ہے، جبکہ دنیا میں انسان کی محدود زندگی میں اس کی لامحدود خواہشات پوری نہیں ہوسکتیں۔ لامحدود خواہشات کے لیے دوسری دنیا بنائی گئی ہے۔ آج دنیا میں انسانی جان کا احترام نہیں ہے اور نہ دولت کی منصفانہ تقسیم ہے۔ ہندوستان کے وزیر اعظم کہتے ہیں کہ اس ملک میں چالیس کروڑ انسان بستے ہیں چنانچہ اس ملک کے چالیس کروڑ مسائل ہیں۔ میں کہتا ہوں کہ اس ملک کا مسئلہ صرف ایک ہے اور وہ ہے خدائی نظام کا قیام۔ ہمارا مسئلہ صرف معاشی نہیں ہے بلکہ اخلاقی ہے۔ آخرت میں جواب دہی کے احساس پر مبنی اخلاقی اقدار ہر طرح کی ناانصافی اور برائی کو ملک سے ختم کرسکتے ہیں۔ صراطِ مستقیم ایک سے زیادہ نہیں ہوسکتی۔ صراطِ مستقیم ایک ہی ہوسکتی ہے اور وہ ہے اسلام۔
۹۔ تقریر ’مومن کی تصویر‘: مولانا وحیدالدین خان
مولانا نے ایک حدیث سے اپنی تقریر کا آغاز کیا: نبی ﷺ نے معاذؓ سے فرمایا: کیا میں تمہیں بتاؤں کہ دین کا سرا کیا ہے اور اس کا ستون کیا ہے اور اس کی سب سے بلند چوٹی کیا ہے؟ انہوں نے جواب دیا: ہاں اے اللہ کے رسول! آپؐ نے فرمایا: ’’دین کا سرا اسلام ہے، اس کا ستون نماز ہے اور اس کی چوٹی جہاد ہے۔‘‘
اسلام کے معنی خود کو اللہ کے حوالے کرنے اور مکمل سپردگی کے ہیں۔ اس کے بعد آدمی اللہ سے دعا اور اس کے ذکر میں زندگی گزارنے لگتا ہے۔ دعا اور ذکر کی جامع شکل نماز ہے۔ مومن کا ہر عمل اپنے رب سے دعا اور درخواست کا ہے۔ جب وہ کسی کی عیب پوشی کرتا ہے تو گویا وہ اپنے رب سے اس کا متمنی ہوتا ہے کہ وہ قیامت کے دن اس کے عیبوں کو چھپائے۔ جب وہ کسی کے ساتھ فیاضی کا معاملہ کرتا ہے تو درحقیقت وہ دعا کرتا ہے کہ مالک حقیقی اس کے ساتھ بھی اسی طرح فیاضی کا معاملہ کرے۔ تیسری چیز ہے جہاد جس کو دین کی چوٹی کہا گیا ہے۔ جہاد کی ابتداء دعوت الی اللہ ہے اور جہاد کی انتہا یہ ہے کہ بندہ دین کے فروغ کے لیے اپنی جان کو قربان کرنے کے لیے تیار رہے۔
۱۰۔ الوداعی خطاب:
امیرِ جماعت کی طبیعت ناساز ہونے کی وجہ سے قیمِ جماعت مولانا محمد یوسف نے الوداعی خطاب کیا۔ انہوں نے سورۃ الحج کی آخری آیت کے پہلے ٹکڑے سے اپنی بات کا آغاز کیا: وَجَاهِدُوا فِي اللَّهِ حَقَّ جِهَادِهِ ۔ اللہ کی راہ میں جہاد کرو جیسا کہ جہاد کرنے کا حق ہے۔ اس آیت میں پہلی چیز فرمائی جارہی ہے کہ جہدِ مسلسل ہو۔ جامد نہ بنو بلکہ متحرک رہو۔ دوسری چیز یہ ہے کہ جد و جہد خالصتاً اللہ کے لیے ہو۔ تیسری چیز یہ ہے کہ جدوجہد کا حق ادا کیا جائے۔ اس جدوجہد کا ایک میدان یہ ہے کہ باطل نظریات پر علمی دلائل سے تنقید کرکے ان کا ابطال کیا جائے۔ دوسرا میدان یہ ہے کہ اسلام کے بارے میں جو غلط فہمیاں پائی جاتی ہیں ہم ان کو دور کریں۔ تیسرا میدان یہ ہے کہ مسلمانوں کے اندر دعوتی اور تحریکی شعور پیدا کریں اور ان کو بتلائیں کہ وہ محض قوم نہیں بلکہ مشن بردار امّت ہیں۔ پھر انہوں نے ارکان و متفقین سے کہا کہ وہ نظم کی پابندی کریں۔ مسلم عوام سے کہا کہ اگر وہ جماعتِ اسلامی کی دعوت کو عین قرآن و سنت کے مطابق پاتے ہوں تو وہ اس کا حصہ بنیں۔ غیر مسلم عوام سے کہا کہ وہ اسلام کو اپنی چیز سمجھیں اس لیے کہ یہ ابتدائے آفرینش سے سارے انبیاء کا لایا ہوا دین ہے اور یہ ساری انسانیت کے لیے فلاح کا پیغام رکھتا ہے۔ نوجوانوں سے کہا کہ علم، صحت اور جوانی کو حق کے راستے میں استعمال کریں۔ علماء سے مخاطب ہوکر کہا کہ دعوت الی اللہ اور شہادت علی الناس کا منصب دراصل علماء کا منصب ہے۔ وہ اس جماعت کی مخالفت کے بجائے اس کے معاون بنیں۔ خواتین سے کہا کہ جو فریضہ مردوں پر عائد ہوتا ہے وہی خواتین پر عائد ہوتا ہے۔ وہ ایسی نسل کی افزائش و تربیت کریں جو دین کے سپاہی بن سکے۔ حکومت کے رپورٹروں سے کہا کہ جماعت اسلامی کے بارے میں حکومت کے سامنے حق بیانی کریں کہ جماعت تخریب نہیں بلکہ تعمیر چاہتی ہے۔
۱۱۔ تجاویز و مشورے
ایک تجویز یہ آئی کہ جماعت اسلامی کو ہندوستان کے ۱۹۶۲ء کے الیکشن میں حصہ لینا چاہیے۔ اس کے جواب میں یہ عرض کیا گیا ہے کہ چونکہ ملک کے دستور کی بنیاد اللہ کی حاکمیت کے بجائے جمہور کی حاکمیت ہے اس لیے ہم اس دستور کے تحت الیکشن میں حصہ نہیں لے سکتے۔ ایک تجویز یہ تھی کہ اچھوتوں کے لیے خصوصی لٹریچر تیار کیا جائے۔ اس کا جواب یہ دیا گیا کہ اسلام کی دعوت ہمہ گیر اور ساری انسانیت کے لیے عام ہے اور کسی خاص طبقہ کے لیے مخصوص نہیں ہے۔ اس میں ظالموں کے لیے بھی پیغام ہے اور مظلوموں کے لیے بھی۔ ایک تجویز یہ آئی کہ سیکولرزم پر نہ صرف تنقید کی جائے بلکہ اس کا نعم البدل پیش کیا جائے۔ جواب میں کہا گیا ہے کہ ہم لادینیت کا بہترین بدل دینِ حق کی صورت میں پیش کرتے ہیں۔ دینِ اسلام جب ایک فرد کے لیے صحیح ہو تو اس کو اجتماعیت کے لیے بھی صحیح ہونا چاہیے۔ ایک تجویز یہ ہے کہ بچوں کو مشرکانہ عقائد سے بچانے کے لیے خصوصی نصاب تیار کیا جائے۔ جواب میں کہا گیا کہ اچھی تجویز ہے اور ’الحسنات‘ جیسا ادارہ اس پر کام کرسکتا ہے۔ ایک تجویز یہ آئی کہ سائنس سے دلچسپی رکھنے والوں کے لیے حلقۂ ادب کی طرح ایک حلقہ بنایا جائے جس کے ذریعے قرآن کی آیات اور سائنسی حقائق کے درمیان مطابقت کو سمجھایا جاسکے۔ جواب میں کہا گیا کہ یہ مفید مشورہ ہے اور اس پر کچھ لوگ کام کرنے کا عزم کریں۔ ایک تجویز تھی کہ انگریزی میں جماعت کا کوئی پرچہ نکالا جائے۔ اس کو سراہا گیا۔ چنانچہ اسی طرح کے مشورہ کو سامنے رکھتے ہوئے ریڈینس ویکلی نکالا گیا۔
۱۲۔ رپورٹ: جماعتِ اسلامی ہند کی رفتارِ کار: قیمِ جماعت مولانا محمد یوسف
یہ رپورٹ ۱۹۵۲ء سے ۱۹۶۲ء تک کی کارکردگی پر مشتمل ہے۔ جماعت نے ۱۹۵۲ء میں جو لائحہ عمل تیار کیا تھا اس کے چار نکات تھے: ۱۔ فرقہ وارانہ طبقاتی کشمکش کا استیصال
۲۔ مسلمانوں کے اندر اصلاح کا کام
۳۔ ذہین اور تعلیم یافتہ طبقہ کو اسلامی فکر سے ہم آہنگ کرنا
۴۔ ہندی اور دوسری علاقائی زبانوں میں تقریری و تحریری صلاحیت کو ابھارنا تاکہ دعوت الی اللہ کے کام کو مؤثر بنایا جاسکے۔
اس لائحہ عمل پر الحمدللہ قابلِ ذکر کام ہوا ہے جس کا خلاصہ یہ ہے: لٹریچر کے ذریعے لوگوں کی ذہنی و فکری اصلاح، ملاقاتوں کے ذریعے دعوت و اصلاح کی کوشش، ہفتہ واری دروسِ قرآن، اجتماعات، خطاباتِ عام، اسٹڈی سرکلز کا قیام، تعلیمِ بالغان، خواتین کے اندر اجتماعات اور ملاقاتوں کے ذریعے اصلاحی کام، نئی نسل کے اندر اسلامی شعور کی بیداری، بچوں کو غلط تعلیم کے اثرات سے بچانے کی کاوش، ذہین و تعلیم یافتہ لوگوں کی ذہن سازی، فسادات کی روک تھام کی کوششیں، بعد فسادات ریلیف ورک، خدمتِ خلق، دستورِ جماعت پر نظرِ ثانی اور نئے دستور کا ۱۲ اپریل ۱۹۵۶ء کو جاری کیا جانا، جزوی اسلام کے مقابلے میں اسلام کو نظامِ حیات کے طور پر پیش کرنا، رفقائے جماعت کی تربیت کے ذریعے ان کے اندر ایمان کی پختگی پیدا کرنا، رفقاء کے اندر فکری ہم آہنگی پیدا کرنا، دعوتی کام کے لیے تربیت، مسلمانوں کے اندر سے قوم پرستانہ سوچ کے مقابلے میں داعیانہ سوچ پیدا کرنا، ان کے اندر سے خوف و ہراس دور کرنا، مسلمانوں کے اندر مقصدیت پیدا کرنا، اسلام ہی کو مسائل کے حل کے طور پر پیش کرنا، نئے لٹریچر کو تیار کرنا، علاقائی زبانوں میں لٹریچر کے تراجم تیار کرنا، مرکزی مکتبہ اسلامی سے درسیات کی طباعت، ملک اور بیرونِ ملک لٹریچر کی ترسیل، اخبارات و رسائل، رسالہ ’زندگی‘، ہندی میں ’کانتی‘، ملیالم میں ’پربودھنم‘، ملی مسائل کے حل میں جماعت کا کردار، درسگاہوں اور مکاتب کا قیام، چھوت چھات، معاشرتی عدم مساوات، فرقہ پرستی، نسل پرستی کی مذمت، معاشرتی برائیوں شراب نوشی، فحش لٹریچر کی روک تھام، مستحق غیر مسلموں کی مدد وغیرہ۔
۱۹۶۰ء تک جماعت کے ارکان کی تعداد ۱۹۸۱ تھی، امیدوار رکنیت ۱۳۰۰ تھے، چار ہزار متفقین اور ۱۵ ہزار متاثرین۔ ملک بھر میں ۱۲ ہمہ وقتی امراء حلقہ تھے۔
مستقبل میں کاموں کی منصوبہ بندی: آئندہ دو سال میں پانچ ہزار غیر مسلموں تک اسلام کا تعارف پیش کیا جائے اور مسلمانوں کے اندر جماعت کا تعارف پیش کرنے کے لیے بارہ ہزار افراد سے روابط پیدا کرنا طے پایا۔ طبی امداد اور نرسنگ ہوم کی سہولت فراہم کرنا، پرسنل لا میں مداخلت کو روکنے اور مضر تعلیم کے اثرات سے بچوں کو بچانے کے لیے کمیٹیوں کا قیام۔ الحمدللہ ہر ریاست میں جماعت کا کام جاری ہوسکا سوائے آسام اور اڑیسہ کے۔ ان دونوں ریاستوں میں جماعت کے کاموں کا آغاز کروانا۔
یہ تھی ۱۹۶۰ء کے اجتماع کی مختصر روداد۔ اگلے شمارے میں ان شاء اللہ تین کل ہند اجتماعات منعقدہ ۱۹۶۷ء، ۱۹۷۴ء اور ۱۹۸۱ء کی مختصر رودادیں پیش کی جائیں گی۔(جاری )
***
***
یہ روداد جماعت کے ۱۹۶۰ء تک کے کاموں اور آئندہ منصوبوں کی تفصیلات پر مبنی ہے۔ جماعت نے اس مدت میں قابلِ ذکر پیش رفت کی جن میں فکری اصلاح، دعوت و تبلیغ، ہفتہ واری دروسِ قرآن، اجتماعات، خواتین کی اصلاح اور نئی نسل میں اسلامی شعور بیدار کرنے جیسے اقدامات شامل ہیں۔
جماعت نے تعلیم یافتہ طبقے کی ذہن سازی، فسادات کی روک تھام، ریلیف ورک، خدمت خلق اور نئے دستور کا اجراء جیسے اہم اقدامات بھی کیے۔ جماعت کا یہ بھی ہدف رہا کہ اسلام کو نظامِ حیات کے طور پر پیش کیا جائے اور مسلمانانِ ہند کو قوم پرستانہ سوچ کے بجائے داعیانہ سوچ کی طرف مائل کیا جائے۔
ہفت روزہ دعوت – شمارہ 3 نومبر تا 9 نومبر 2024