
قسط۔2:بھارت میں مساجد اور مسلم شناخت : مذہبی، سماجی اور تاریخی تناظر میں
جب آسمان سے آفت برسی، مساجد نے آغوشِ رحمت وا کردیں
دعوت نیوز نیٹ ورک
فرقہ واریت کے اندھیروں میں امید کی کرن: غیر مسلموں کا مساجد کی تعمیر میں کردار
کیرالا کے ’مسجد گر‘ گووندن گوپال کرشنن: ایک ہندو معمار، درجنوں اسلامی شاہکار
پنجاب میں سکھوں کا تاریخی فیصلہ،مسلمانوں کے لیے مسجد تعمیر کردی۔کمیونٹی کچن سے طبی امداد تک ۔مساجد کا رفاہی مشن
قدرتی آفات:
قدرتی آفات کی زد میں آنے والوں کی اولین ضرورت یہ ہوتی ہے کہ انہیں کسی محفوظ جگہ پر منتقل کیا جائے۔ ایسے مواقع پرعارضی محفوظ پناہ گاہوں کی فراہمی اور حفظان صحت کی دستیابی، متاثرین کے لیے بہت اہم ہوتی ہے۔ اس سے متاثرین کو نہ صرف صدموں سے باہر نکلنے میں مدد ملتی ہے بلکہ ان تک اشیائے خوردنی کی فراہمی بھی آسان ہوجاتی ہے۔ انسانی زندگی میں آفتیں کئی شکلوں میں آتی ہیں۔ شمالی ہندوستان میں زلزلے، سیلاب، گرمی کی لہریں وغیرہ کے واقعات وقوع پذیر ہوتے رہتے ہیں ۔ ایسی آفتوں کے ناگہانی نازل ہوجانے کی صورت میں مساجد کو سماجی تحفظ اورانسانی پناہ گاہ کے طور پر استعمال کرنے کی روایت بہت پرانی ہے۔
آفت کی گھڑی میں مساجد کو بلا تفریق مذہب و ملت پناہ گاہ کے طور پر استعمال کرنے کی مثالیں بہت ہیں۔ دسمبر 2023 میں تمل ناڈو میں تباہ کن سیلاب کے دوران 30 ہندو خاندانوں کو ایک مسجد میں پناہ دی گئی۔ اس بھیانک سیلاب کے موقع پر ’سیدونگنا لور بیت المال جامع مسجد‘ جوکہ ترونیلویلی سے تھوتھکوڈی کے راستے میں واقع ہے، اس نے انسانی ہمدردی اور مذہبی ہم آہنگی کا ایسا عملی نمونہ پیش کیا کہ آج تک لوگ اس کے کارناموں کو بطور مثال پیش کرتے ہیں۔ اس کا یہ کارنامہ مذہبی ہم آہنگی کی علامت بن گیا ہے۔ اپنا گھر کھو دینے والے ہندو خاندانوں نے اس مسجد میں پناہ لی اور مستقل پناہ گاہ کی فراہمی تک وہیں ٹھیرے رہے۔
مذہبی ہم آہنگی کی یہ مثال صرف ہندوستان تک ہی محدود نہیں ہے بلکہ عالمی سطح پر مسجدوں کو بوقت ضرورت عام انسانوں کی پناہ گاہ کے طور پر استعمال کرنے کی روایت و شواہد ہر جگہ موجود ہیں۔ ہم جاپان کو ہی لے لیں۔ یہاں زلزلےبہت آتے ہیں۔ متاثرین کی پناہ گاہوں، سوپ باورچی خانوں اور رضاکاروں کے آرام کرنے کے لیے یہاں کی مساجد نے ہمیشہ اپنے دروازے کھلے رکھے ہیں ۔ اس سلسلے میں کچھ دنوں پہلے ’’ہیتومو کوٹامی، ہیرو فومی اوکائی اور ماری توماری‘‘ نے ایک جامع مقالہ لکھا۔ اس مقالہ کا عنوان ہے ’’ حالیہ بڑے زلزلوں کے بعد جاپان میں مساجد کی سرگرمیاں اور کردار‘‘ ۔ اس موضوع پر مقالہ نگاروں نے بڑی سیر طلب بحثیں کی ہیں جن سے پتہ چلتا ہے کہ جاپان میں مساجد کا سماجی فلاحی کردار کیا رہا ہے۔
غیر مسلموں کی تعمیر کردہ مساجد
پنجاب: ایک ایسے وقت میں جب ملک کے بہت سے حصے تفرقہ انگیز سیاست کی وجہ سے فرقہ وارانہ تصادم اور سماجی دشمنی کے زہریلے اثرات سے دوچار ہیں، پنجاب فرقہ وارانہ ہم آہنگی، بھائی چارہ اور معاشرتی رواداری کی ایک مثالی علامت بن گیا ہے۔ کچھ ہندوتوا طاقتیں اور شدت پسند عناصر مساجد اور گرجا گھروں پر حملے کرکے انہیں اقلیتوں سے چھیننے کی کوشش کررہے ہیں، ایسے وقت میں پنجاب کے سکھ اور ہندو برادریوں کے لوگ لاوارث یا غیر قانونی طور پر قبضے میں رکھی گئی مساجد کی بازیابی میں مسلمانوں کا بھرپور تعاون کررہے ہیں۔ یہی نہیں ، پنجاب میں بعض جگہوں پر تو انہوں نے مسلمانوں کو مسجد بنوا کر بھی دیا ہے۔ حال ہی میں ضلع مکتسر کے ایک گاؤں کھنان خرد میں سکھوں اور ہندوؤں نے مل کر مسلمانوں کی خاطر ایک مسجد کی تعمیر کی ۔ تعمیری اخراجات کے لیے انہوں نے خود سے رقم بھی اکٹھی کی۔ مزید ستائش کی بات یہ ہے کہ مسجد کی افتتاحی تقریب میں اطراف کے دیہاتیوں نے بڑی تعداد میں شرکت کی اور اپنی آنکھوں سے مسلمانوں کو اس مسجد میں نماز ادا کرتے ہوئے دیکھا اور شادمانی کا اظہار کیا۔
کیرالا کے ’مسجد گَر‘ (Mosque Man) : سماجی ہم آہنگی اور اپنائیت کا یہ احساس تریویندرم کی جدید طرز پر بنائی گئی ایک مسجد کے خوبصورت ڈھانچے کو دیکھ کر جنم لیتا ہے۔ یہاں کی متعدد مساجد کو ایک ہندو معمار ’ گووندن گوپال کرشنن‘ نے ڈیزائن کیا ہے۔ بے مثال فنکاری اور منفرد معماری کی وجہ سے انہیں ’مسجد گَر‘ کہا جاتا ہے۔ گوپال کرشنن نے اپنے والد کے ساتھ مل کر تریویندرم کی مشہور مسجد ’’مسجد جہاں نما‘‘ (اس مسجد کو پالیم پلی / پالیام مسجد کے نام سے بھی جانا جاتا ہے ) کی تعمیر نو میں کام کیا۔ اسی طرح ’بیمپلی‘ میں ایک اور خوبصورت مسجد کو انہوں نے خود سے ڈیزائن کیا۔ ان کی ڈیزائن کردہ یہ دونوں ہی مسجدیں اسلامی طرز تعمیر کا شاندار نمونہ ہیں۔ علاوہ ازیں انہوں نے درجنوں مساجد ڈیزائن کی ہیں ۔ ایک ایسے معاشرے میں جہاں مساجد کے جمال و زیبائش کو نظر انداز کردیا گیا ہو اور مساجد کی تعریف کے بجائے اس میں عیب جوئی کی جاتی ہو ، کسی غیر مسلم کا مسلم تہذیب کی شاندار تاریخ کو مسجد کی تعمیر میں نمایاں کردینا، حیران کن ہے۔ آج مسلمان اپنے پیشروؤں کے وارث ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں۔ اگر وہ اپنے دعوے میں واقعی مخلص ہیں تو انہیں اسلامی تہذیب کو فن تعمیر میں پائی جانے والی ماورائی جمالیات کو اسی جوش و جذبے سے سمجھنا ہوگا جس کا وہ متقاضی ہے۔ جمال و خوبصورتی کی تعریف، انسانی تخیل و اختراع کو وسعت عطا کرتی ہے۔ یہ بات طے شدہ ہے کہ مسلمانوں نے اس کے اظہار میں کمالیت کے درجے تک رسائی حاصل کی ہے۔ انہوں نے نہ صرف فن تعمیر، بلکہ موسیقی ، خطاطی اور دیگر فنون میں بھی جمالیات اور حسین ترین نگارشات کا اعلیٰ نمونہ پیش کیا ہے۔
مسلمانوں میں یہ کمالِ فن تب شروع ہوا جب انہوں نے قدیم تہذیبوں کے گہواروں مصر، فارس، دجلہ اور فرات کی زرخیز سرزمین پر اپنے قدم جمائے۔ یہاں انہوں نے پرانی روایات میں جمالیات کی آمیزش سے ایک اچھوتا اور جامع تصور پیش کیا۔ معروف مؤرخ اولو دامنی اوگنائیکے (Oludamini Ogunnaike) ’’جمال و امتیاز کی حساسیت‘‘ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں ’’مسلمانوں نے پرانی روایات میں جمالیات کی نئی روح ڈال کر ایک ہی وقت میں جمالیاتی، اخلاقی، فکری اور روحانی احساس کو متعارف کرایا۔ دراصل کسی بھی چیز کو بطریق احسن کرنے کا تصور انہوں نے قرآن سے اخذ کیا ہے جس میں ہر کام کو ’’احسان‘‘ یعنی بہت ہی اعلیٰ طریقے پر کرنے کی ترغیب دی گئی ہے۔ قرآن نے ما بعد الطبیعاتی حسن و جمال کا تصور، جنت کا ایک خوبصورت منظر پیش کرکے دیا ہے جس کے محلات جواہرات سے بنے ہوئے ہیں، گھنے باغات، دودھ اور شہد کی نہریں ہیں۔ یہ کسی بھی جگہ کو زیادہ سے زیادہ حسین بنا کر ’’احسان‘‘ کے تصور کو سمونے کا بہترین اسلوب ہے۔ خوبصورتی ہر ایک کو پسند ہے۔ چنانچہ اسلام سمیت بہت سے مذاہب میں کہا گیا ہے کہ ’’اللہ جمیل ہے اور جمال کو پسند کرتا ہے‘‘۔
اوگونائیکے نے جمالیات کو لاہوتی الہیات (silent theology) سے تعبیر کیا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ پروپیگنڈوں کے باوجود ’’سائلنت تھیولوجی‘‘ اسلام کے جمالیاتی تصور کو قائم و برقرار رکھنے میں بہت معاون و مددگار ثابت ہوئی ہے۔ وہ آگے لکھتے ہیں کہ ہوسکتا ہے کہ اسلامی فنون کی جمالیات پر کچھ لوگ مزید گہرائی و گیرائی سے مقالے لکھیں اور یہ بھی ہو سکتا ہے کہ ان نمونوں کو مضبوط دلائل کے طور پر پیش کیا جائے۔
مسجد سماجی خدمت کا مرکز:
’’کیرالا میں موتوپوزا (Muvattupuzha) کے قریب تھٹوپرمبو ( Thattuparambu)کی جامع مسجد میں لاؤڈ اسپیکر کا استعمال نہ صرف اذان کے لیے ہوگا بلکہ علاقے میں کسی کی موت، ہنگامی صورت حال ، ہنگامی حادثات، کسی کے لیے خون عطیہ کی ضرورت، طبی ہنگامی صورت حال سمیت فرقہ وارانہ ہم آہنگی کا پیغام بھی یہاں سے عام کیا جائے گا‘‘۔ یہ اعلان جون 2023 کی آدھی رات کو ایک ہندو تھٹمپرامبل کٹپن (Thattumparambil Kuttappan ) کی جانب سے مسجد کے لاؤڈ اسپیکر پر کیا گیا۔
مسجد تعلیمی اور رفاہی سرگرمی کا مرکز
ہم غور کریں ان 44 ملین تارکین وطن مزدوروں کی زندگی کے بارے میں جو ملک کے مختلف علاقوں سے میٹروپولٹن شہروں میں آتے ہیں اور ہفتے کے ساتوں دن شبانہ روز محنت مزدوری میں لگے رہتے ہیں۔ ممبئی جہاں تارکین وطن کا تناسب وہاں کی کل آبادی کا تقریبا 40 فیصد ہے۔ انہیں کورونا وبا کے دوران تباہ کن مالی بحران کا سامنا کرنا پڑا۔ اس میٹروپولیٹن سٹی میں انہیں قدم قدم پر دشواریوں کا سامنا تھا۔ لاک ڈاؤن کی وجہ سے پیدا ہونے والے سخت ترین حالات کے باوجود وہاں کی کچھ مساجد نے ان ہزاروں لوگوں کو کھانا کھلانے کا بندوبست کیا جو انتہائی بحرانی کیفیت سے دوچار تھے۔ ان مساجد کا ایک ہی نعرہ تھا ’’کوئی نہ بھوکا سوئے‘‘۔ لاک ڈاؤن کی وجہ سے بہتوں کے روزگار پرخطرات کے بادل منڈلانے لگے تھے۔ ایسے حالات میں ممبئی کی ایک مسجد نے 800 مزدوروں کے لیے، جو اپنا روزگار گنوا چکے تھے، کھانے پینے کا انتظام کیا ۔ یہ تو ممبئی مساجد کی مثالیں تھیں، ورنہ انسانی ہمدردی کا یہ عمل ممبئی سے باہر دوسرے علاقوں میں بھی تندہی کے ساتھ انجام دیا جاتا رہا تھا۔ اس لاک ڈاؤن نے خصوصی طور پر خط غربت سے نیچے زندگی گزارنے والے تقریبا 300 ملین ہندوستانیوں کی زندگیوں کو متاثر کیا تھا۔
کورونا نگہداشت مراکز، عوامی بیداری، انسانی فاصلہ اور ویکسین:
مساجد میں نصب لاؤڈ اسپیکر کو صرف صدائے اذان بلند کرنے یا مخصوص طرح کا اعلان کرنے کے لیے استعمال نہیں کیا جاتا بلکہ حسب ضرورت سماج میں بیداری لانے والے پیغامات بھی یہاں سے دیے جاتے ہیں۔ کورونا کے دوران ان لاؤڈ اسپیکروں کا استعمال وبا سے متعلق احتیاطی تدابیر ، ویکسینیشن کی ترغیب اور بیداری لانے کے لیے بھی کیا جاتا تھا ۔ مساجد میں جمعہ کے خطبات میں کورونا وبا کےبعد ویکسی نیشن کے بارے میں خصوصی طورپر عوام کو بتلایا جاتا تھا اور اس کی مکمل خوراک کی افادیت پر روشنی ڈالی جاتی تھی۔ بعض مساجد کو ضرورت کے پیش نظر ’کووڈ کیئر سنٹرز‘ کے طور پر بھی استعمال کیا گیا۔ مثال کے طور پر حیدرآباد کی ایک مسجد ’’مسجد محمدیہ‘‘ کو ’’کووڈ آئسولیشن سنٹر‘‘ میں تبدیل کردیا گیا تھا۔
مساجد: طعام و سہولیات کے مراکز
کمیونٹی کچن:
اسلام میں پریشان حالوں، غریبوں اور مسافروں کو کھانا کھلانے کی بڑی ترغیب ملتی ہے۔ مسافروں کے لیے طعام و قیام کا انتظام کرنے کی تعلیم تو خصوصی طور پر دی گئی ہے۔ قرآن کی انفاق پر ابھارنے والی تعلیمات سے ترغیب پاکر مساجد اور درگاہوں میں مسافروں کے لیے قیام و طعام اور مہمان نوازی کے لیے ’ کمیونیٹی کچن‘ کا نظم رکھا جاتا ہے۔
رانا صفوی ’’اِن سرچ آف دی ڈیوائن‘‘ (خدا کی تلاش میں) نامی اپنی تازہ ترین کتاب میں لکھتے ہیں کہ درحقیقت سب سے پہلے جو لنگر خانے قائم کیے گئے، وہ درگاہوں میں تھے، یہیں اس کا چلن شروع ہوا، پھر اس طریقے کو گرونانک اور سکھ گوردواروں میں اپنایا گیا۔ گرچہ آغاز درگاہوں میں ہوا تھا لیکن آج سکھ برادری اپنے لنگر ( مفت کھانے کی تقسیم ) کے لیے سب سے زیادہ مشہور ہے اور وہ کسی بھی انسانی بحران کے وقت سب سے پہلے لنگر کا انتظام کرتے ہیں۔ اسلام اور مساجد نے نہ صرف اپنے عقائد بلکہ کمیونٹی کچن کے ذریعے دیگر مذاہب کو بھی متاثر کیا ہے۔ سکھ مذہب کے پیروکار اعتراف کرتے ہیں کہ انہوں نے لنگر خانے کا تصور مساجد سے تحریک پاکر لیا ہے۔ پروفیسر ہربنس مکھیا کے مطابق ’ گرونانک کے نئے مذہب ’’ سکھ ازم ‘‘ نے سماجی تناؤ کے بیچ معاشرتی ہم آہنگی کا پیغام پیش کیا اور طاقت حاصل کی تو اس کی وجہ صرف یہ ہے کہ انہوں نے اپنے مشن میں ان پیغامات کو شامل کرلیا تھا جنہیں بابا فرید جیسے عظیم صوفی اور کبیر جیسے سنتوں نے دیا تھا۔ بابا فرید سے انہیں لنگر کا طور طریقہ اور نظم و نسق وراثت کے طور پر ملا تھا ۔ لنگر بے لوث انسانی خدمت اور سماجی مساوات کی علامت ہے۔
ماضی کی اس وراثت کی تازہ مثال کورونا وبا کے دوران دیکھنے کو ملی جب لاک ڈواؤن کی وجہ سے بھوکے مزدوروں کو کھانا کھلانے کے لیے مساجد اور گردوارے اکٹھے ہوگئے۔ ایسا انوکھا امتزاج شاید دنیا کے کسی اور ملک میں دیکھنے کو نہ ملے کہ دو عقائد کے لوگ کامل اتحاد باہمی کے ساتھ بھوکوں کو کھانا کھلانے میں ایک ساتھ سرگرم عمل ہیں۔ ایسے امتزاج کی جڑیں صدیوں پرانی ہماری مذہبی روایات میں پیوست ہیں ۔ یہ اعزاز صرف اور صرف ہندوستانی معاشرے کو حاصل ہے۔ اس پورے منظر کو کاروان میگزین نے اپنے شمارہ اپریل 2020 میں بڑی وضاحت کے ساتھ شائع کیا ہے۔
اس طرح کی مثالوں سے اس غلط فہمی کی بھی تردید ہوجاتی ہے کہ مسجد صرف مسلمانوں کے لیے ہے اور کسی دوسرے کو اندر جانے کی اجازت نہیں ہے۔ درحقیقت مسجد تو انسانوں کے رب کا گھر ہے اور اس کا گھر سب کے لیے کھلا رہتا ہے۔
مسلم فلاحی ادارے اور دیگر رضا کار تنظیمیں کورونا وبا کے دوران وبائی وائرس کے پھیلاؤ کو روکنے کے لیے ملک گیر سطح پر کوشش کرتی رہیں اور لاک داؤن کے دوران غریبوں کی ممکنہ حد تک مدد کی۔ سوپ کچن اور چیریٹی گروپس نے ان کے تحفظ اور بچاؤ کے لیے متنوع اقدامات کیے۔ مختلف تنظیمیں، مسلم چیریٹی اور افراد اس بات کو یقینی بنانے کی کوششوں میں لگے رہے کہ کوئی شخص بھوکا نہ سوئے۔ مساجد میں تقسیم طعام اور کیٹرنگ کا بندوبست کیا گیا۔ مقامی انتظامیہ کے تعاون سے ان مساجد کو مہاجر مزدوروں کے لیے عارضی قیام گاہ کے طور پر استعمال کیا گیا اور یہیں سے مقامی لوگوں اور مزدوروں کو انتظامیہ کی مدد سے انہیں اپنے گھر بھیجنے کا انتظام کیا گیا۔ یہ کام مساجد کے علاوہ بہت سی این جی اوز بھی کررہی تھیں۔ جیسا کہ ’’ ہیومینیٹرین ریلیف سوسائٹی‘‘ نے جنوبی ریاست کرناٹک کے مختلف اضلاع میں امدادی کام میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔ سوسائٹی کے جنرل سکریٹری محمد ماکا کاڈا کا کہنا ہے کہ لاک ڈاؤن کے دوران انہوں نے دو لاکھ ڈالر مالیت کی غذائی اشیاء تقسیم کیں۔ غریبوں کو دیے گئے ہر فوڈ کٹ میں 1200 روپے کی اشیائے خوردنی شامل تھیں۔ یہ تمام کٹس دوسری ریاستوں کے مہاجر مزدوروں اور غریب لوگوں میں تقسیم کیے گئے تھے۔ اسی طرح جنوبی ریاست تلنگانہ کے حیدرآباد میں واقع ایک فلاحی ادارہ ’’امومت سوسائٹی‘‘ روزانہ تقریبا 200 لوگوں میں پکا ہوا کھانا تقسیم کرتی تھی۔ استفادہ کرنے والوں میں زیادہ تر ہندوستان کی مختلف ریاستوں کے تارکین وطن مزدور تھے جو اچانک لاک ڈاؤن کی وجہ سے حیدرآباد میں پھنس گئے تھے۔ یہ باتیں گروپ کی جنرل سکریٹری خالدہ پروین نے بتائیں۔
(جاری)
***
بابری مسجد مقدمے کے فیصلے نے ہندوتوا حامیوں کے حوصلے بلند کر دیے جس کے بعد ملک بھر میں ہزاروں مساجد کو تنازعات میں الجھانے کی کوششیں کی جارہی ہیں اور ساتھ ہی مساجد کے خلاف منفی پروپگنڈے بھی جاری ہیں۔ اس تناظر میں اس موضوع کو کافی اہمیت حاصل ہوگئی ہے جس کے تمام اہم پہلوؤں کا زیرنظر مضمون میں جائزہ لیا گیا ہے۔ اس مضمون کو قارئین دعوت کی خدمت میں قسط وار پیش کیا جارہا ہے۔
ہفت روزہ دعوت – شمارہ 02 مارچ تا 08 مارچ 2025