سید تنویر احمد
(ڈائریکٹر ہولسٹک ایجوکیشن بورڈ)
ملت کے وسائل کا استعمال ملت کی تعلیمی ترقی کے لیے کیا جائے
ملت کی جانب سے چلائے جانے والے اسکولوں اور کالجوں کی عمارتوں اور کیمپس کو بھی تعلیمی فروغ کے عظیم مقصد کے حصول کے لیے استعمال کیاجانا چاہیے ۔کئی تعلیمی اداروں کی عمارتیں تدریسی اوقات کے بعد خالی رہتی ہیں۔ یہاں پر بھی طلبا کے لیے ذاتی مطالعہ (self study) کا انتظام کیا جاسکتا ہے، اس کے علاوہ وہاں کوچنگ سنٹر بھی چلائے جا سکتے ہیں۔کیمپس کو کھیل کود اور ثقافتی پروگراموں کے لیے بھی استعمال کیا جانا چاہیے۔
ملی وسائل کا استعمال
یہ حقیقت ہے کہ ملک میں مسلم ملت اپنے وسائل کا ایک مخصوص حصہ تعلیم پر صرف کرتی ہے تاہم، اس میں مزید اضافے، نظم و ضبط اور سلیقہ مندی کی ضرورت محسوس کی جارہی ہے۔ مسلمانوں میں عموماً یہ تصور پایا جاتا ہے کہ دینی تعلیم کو فروغ دینے کی راہ میں خرچ کرنا عظیم کار ثواب ہے جب کہ عصری تعلیم پر خرچ ہونے والے مال پر بہت کم اجر و ثواب ملتا ہے۔ اس تصور کے پس پشت کئی عوامل ہیں جن کو سمجھنا اور عوام و خواص میں اس تصور کو راسخ کرنا ضروری ہے کہ تعلیم دینی ہو یا دنیوی، اس پر وسائل کا صرف کرنا ایک صالح عمل ہے اور ہر صالح عمل اللہ کو راضی کرنے کا ذریعہ بنتا ہے۔ علمائے کرام بھی موجودہ حالات کی نزاکت اور زمانے کی ضروریات کو دیکھتے ہوئے عصری تعلیمی اداروں اور عصری علوم حاصل کرنے والے طلبا کی مالی اعانت کے کارِ ثواب ہونے کی تصدیق کرتے ہیں۔ لہٰذا ملت کے وسائل کو ملی تعلیمی ترقی کے لیے بہتر طور پر استعمال میں لانے کے لیے مندرجہ ذیل پروگراموں کو رو بہ عمل لایا جاسکتا ہے۔
(1) الحمدللہ ملک بھر میں مدارس کا سلسلہ قائم ہے۔ ان میں چھوٹے، متوسط اور بڑے ہر طرح کے مدارس شامل ہیں۔ان مدارس پر کچھ اہم ذمہ داریاں عائد ہوتی ہیں، ان میں سے ایک بڑی ذمے داری یہ ہے کہ جن مدارس کے پاس بڑی زمینیں اور عمارتیں موجود ہیں، انہیں چاہیے کہ ان زمینوں اور عمارتوں کے ایک حصے میں عصری تعلیم کے لیے اسکولس قائم کریں۔ عصری تعلیمی درسگاہوں کے قیام کا مطلب یہ نہیں ہے کہ مدارس کو بند کردیا جائے اور نہ ہی اس کا یہ مفہوم ہے کہ عصری علوم کی جو تعلیم گاہیں ان مدارس میں قائم کی جائیں گی، ان میں دینی تعلیم کا انتظام نہ ہو۔ بلکہ جو عصری تعلیمی درسگاہیں مدارس کے احاطے میں قائم ہوں گی، ان میں دینی تعلیم کا انتظام زیادہ بہتر طریقے پر کیا جاسکے گا۔ اس کی اہمیت و ضرورت کو اب دینی مدارس کے ذمہ داران بھی محسوس کرنے لگے ہیں۔ چنانچہ گزشتہ دنوں راقم یو پی کے ایک معروف مدرسے میں قیام پذیر تھا۔ وہاں ایک اور مدرسے کے کچھ ذمہ داران مجھ سے ملنے کے لیے آئے۔ وہ اپنے مدرسے کے احاطے میں اسکول قائم کرنا چاہتے تھے۔ ان کی یہ بھی خواہش تھی کہ وہ اپنے مدرسے کے طلبا کے لیے عصری علوم کا بندوبست کریں۔ گفتگو کے دوران میں نے ان سے پوچھا کہ مدارس کی انتظامیہ اور ذمہ داران میں عصری علوم میں دلچسپی کا محرک کیا ہے اور یہ تبدیلی کیسے آئی؟ انہوں نے کہا کہ سوچ میں اس تبدیلی کے پیچھے متعدد اسباب ہیں۔ان میں ایک سبب ہے سرکاری پالیسیوں کا دباؤ اور دوسری وجہ ہے مخیّر حضرات کی خواہش۔ مدارس کو چندہ دینے والوں کی اکثریت اب یہ چاہتی ہے کہ مدارس میں عصری تعلیم کا بھی بندوبست ہو۔ اس رجحان کے پیچھے یہ حقیقت کار فرما ہے کہ ملک کے بعض مدارس میں اب اسلامی علوم کے ساتھ عصری علوم کی تعلیم کے کامیاب تجربات ہو رہے ہیں۔
(2) ملت کی جانب سے چلائے جانے والے عصری علوم کے اسکولوں میں تعلیمی اوقات کے بعد دینی تعلیم کے جز وقتی مکاتب قائم کیے جائیں تاکہ ان میں وہ مسلم طلبا دینی تعلیم حاصل کرسکیں جو ان اسکولوں میں زیر تعلیم ہیں۔ اس کے علاوہ ان طلبا کی دینی تعلیم کا انتظام بھی وہیں ہونا چاہیے، جو دیگر سرکاری اسکولوں اور غیر مسلم انتظامیہ کے تحت چلنے والے پرائیویٹ اسکولوں میں تعلیم حاصل کررہے ہیں اور دینی تعلیم کے مواقع سے محروم ہیں۔
(3) ہم نے گزشتہ مضمون میں یہ تجویز بھی پیش کی تھی کہ اوقاف اور درگاہوں کی خالی اراضی پر تعلیمی اداروں کا قیام عمل میں آئے۔ یہ نہ صرف ان اراضی کا بہترین استعمال ہوگا بلکہ درگاہوں کے روحانی فیوض و برکات کے ساتھ ساتھ ان کی املاک سے مسلم ملت کی تعلیمی ضرورتوں کی تکمیل کا راستہ بھی کھلے گا۔
(4) ملت کی تعلیمی ترقی کے لیے مساجد کا استعمال بھی بہت ہی کارگر انداز میں کیا جاسکتا ہے۔ مسجد سے تعلیمی تحریک شروع کی جائے اور اس کے لیے مسجد کو مرکز بنا کر تعلیمی سروے کا اہتمام کیا جائے۔ اس سلسلے میں مسجد ون (Masjid one)جو مساجد کو مراکز بنانے کے منصوبے پر کام کرنے والی ایک تنظیم ہے، اس نے ایک جامع منصوبہ پیش کیا ہے۔ چند برسوں پہلے بنگلور کے ’ملت ایجوکیشن ٹرسٹ‘ نے شہر بنگلور کی مساجد کو مراکز تصور کرکے ایک مربوط سروے کا اہتمام کیا تھا۔ یہ ایک اچھی پیش رفت ہے۔ اس طرح کے سروے میں مساجد کے متعلقین، انتظامیہ اور نمازیوں کی شرکت سے ایک اچھا خاصا سروے کرکے اہم ترین ڈیٹا جمع کیا جاسکتا ہے اور اس ڈیٹا کو تعلیم کے فروغ اور طلبا کی اعانت کے طور پر استعمال میں لایا جاسکتا ہے۔
مساجد کے احاطے کو نماز کے علاوہ دیگر تدریسی سرگرمیوں اور علمی پروگراموں کے لیے استعمال کیاجانا چاہیے۔ آج کل چاہے شہر بڑے ہوں یا چھوٹے، گھروں کے دائرے سمٹتے جارہے ہیں اور پڑھنے لکھنے کا ماحول ختم ہو رہا ہے جس کی وجہ سے طلبا کو گھروں میں پڑھنے کا ماحول نہیں ملتا۔ کبھی افراد خانہ کی باہمی گفتگو کا شور تو کبھی والدین کے درمیان کشیدہ رشتوں کے سبب بات چیت میں تلخیوں کا زہر گھر کے ماحول کو مکدر بنا دیتا ہے جو بچوں کے ذہن و فکر پر منفی اثر ڈالتا ہے۔ ان اثرات سے بچوں کو دور رکھنے کے لیے مساجد کے ذمہ داران کوشش کریں اور مساجد کی خالی جگہیں بالخصوص جامع مسجد کی وہ جگہیں جہاں صرف جمعہ کے دن ہی نماز ادا ہوتی ہے، باقی پورا ہفتہ وہاں کوئی نماز ادا نہیں کی جاتی، ان جگہوں کو تعلیمی سرگرمیوں کے لیے استعمال کریں تو یہ اس جگہ کا بہت مفید استعمال ہوگا۔ تعلیمی سرگرمیوں کو فروغ دینے میں محلے کے تعلیم یافتہ نوجوان بھی اپنی بڑی حصہ داری کرسکتے ہیں۔وہ کسی متعین وقت میں مثلاً عصر تا عشاء مساجد میں طلبا کے مختلف شبہات (Doubts) کی وضاحت کرنے کا سیشن چلائیں یا پھر کوچنگ سنٹر کا بھی اہتمام کیا جاسکتا ہے۔ کچھ مساجد میں تعلیم کو منقطع کرنے والے طلبا (Drop out) کو دوبارہ تعلیم سے جوڑنے کا کامیاب تجربہ ہوا ہے۔ مساجد کی سطح پر مساجد کے انتظامات کے علاوہ ایک تعلیم کا فنڈ ہونا چاہیے۔ اس فنڈ سے مستحق طلبا کی تعلیمی امداد کی اسکیم چلائی جاسکتی ہے۔
ملت کی جانب سے چلائے جانے والے اسکولوں اور کالجوں کی عمارتوں اور کیمپس کو بھی تعلیمی فروغ کے عظیم مقصد کے حصول کے لیے استعمال کیاجانا چاہیے۔ کئی تعلیمی اداروں کی عمارتیں تدریسی اوقات کے بعد خالی رہتی ہیں۔ یہاں پر بھی طلبا کے لیے ذاتی مطالعہ (self study) کا انتظام کیا جاسکتا ہے، اس کے علاوہ وہاں کوچنگ سنٹر بھی چلائے جا سکتے ہیں۔ کیمپس کو کھیل کود اور ثقافتی پروگراموں کے لیے بھی استعمال کیا جانا چاہیے۔ اگر ہم اپنے کیمپس میں کھیل کود، ورزش وغیرہ کے سنٹر قائم کرکے آس پاس کی بستی کے نوجوانوں کے لیے کھول دیتے ہیں تو آج کے نفرتی ماحول میں انسانوں کو ایک دوسرے سے قریب لانے کا ایک ذریعہ بن سکتا ہے۔
(5) موجودہ دور میں زکوٰۃ کے استعمال کے اجتماعی نظم پر زور دیا جارہا ہے۔ اس سلسلے میں مختلف ادارے کام کر رہے ہیں۔ اب زکوٰۃ دینے والوں کی ایک بڑی تعداد کے ذہن میں اس تصور نے اپنی جگہ بنالی ہے کہ زکوٰۃ کی رقم عصری تعلیمی اداروں کو یا عصری تعلیم حاصل کرنے والے طلباء کو دی جاسکتی ہے۔ علماء نے بھی اپنی یہ رائے پیش کردی ہے کہ عصری علوم کے اداروں کو بھی زکوٰۃ کی رقم دی جاسکتی ہے اور عصری علوم حاصل کرنے والے غریب طلبا بھی اس رقم کے مستحق ہیں۔اسی سوچ کا نتیجہ ہے کہ ہمارے ملک میں چند مال دار ایسے بھی ہیں جو اپنی زکوٰۃ کی خطیر رقم میں سے ایک بڑا حصہ غریب طلبا کی تعلیم پر خرچ کرتے ہیں۔اس سلسلے میں عوام میں مزید شعور کی بیداری لانے کی ضرورت ہے۔
اس سلسلے میں زکوٰۃ سنٹر انڈیا کو بھرپور تعاون دیا جانا چاہیے۔ اس لیے کہ اس کے مقاصد میں اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے والے مسلم طلبا کی مدد بھی شامل ہے۔ زکوٰۃ سینٹر انڈیا کی مزید تفصیلات اس کی ویب سائٹ سے حاصل کی جاسکتی ہیں۔
کوچنگ سنٹر:
اب تقریباً تمام معیاری کورسیسں، سنٹرل یونیورسٹیوں اور انسٹیٹیوٹ آف نیشنل امپورٹینس میں داخلے مسابقتی امتحانات کے ذریعہ ہو رہے ہیں۔ ان مسابقتی امتحانات کی کوچنگ اکثر بڑے شہروں ہی میں دستیاب ہے جس کی فیس عام لوگوں کی دسترس سے باہر ہے۔ اس لیے ملت کو چاہیے کہ ملک کے چار پانچ اہم شہروں میں کوچنگ سنٹروں کا انتظام کرے۔ ویسے کوچنگ سنٹر اب بڑی سرمایہ کاری چاہتا ہے، اسے چلانے کے لیے اخراجات بہت زیادہ ہوتے ہیں۔ ملت کے بعض تعلیمی ادارے ایسے کوچنگ سنٹر چلا رہے ہیں۔ تاہم ملی رفاہی اداروں کے ذریعے یہ کام بڑے پیمانے پر ہونا چاہیے۔ اگر کوچنگ سنٹر قائم کرنا مشکل ہے تو کم سے کم بڑے شہروں میں غریب بچوں کے قیام و طعام کا انتظام کیا جائے تاکہ وہ اپنی تعلیم میں یکسو ہو جائیں اور کسی اچھے انسٹیٹیوٹ میں ان کے داخلے کی راہ ہموار ہو۔ جہاں تک ضروری ہو اس انسٹیٹیوٹ کی فیس بھی ملی ادارے ادا کریں۔ مثلاً راجستھان کے شہر کوٹہ میں کوچنگ سنٹروں کا جال پھیلا ہوا ہے۔ ملک بھر سے وہاں طلبا کوچنگ لینے کے لیے آتے ہیں۔کوچنگ سنٹروں میں اچھے اور باصلاحیت اساتذہ ہوتے ہیں۔اب تو مسلم طالبات بھی کوٹہ کا رخ کررہی ہیں۔ ایسے مقام پر طلبہ کو سہولتیں فراہم کرنے والے ایک مرکز کا قیام وقت کی اہم ضرورت ہے۔ ملت’ آئی اے ایس‘ کوچنگ سنٹر پر اچھی خاصی رقم خرچ کر رہی ہے۔ اسی طرح اب دوسرے مسابقتی امتحانات کے لیے بھی کچھ نظم ہونا چاہیے۔
امسال (2023) زکوٰۃ سنٹر فاؤنڈیشن، لکھنؤ نے غریب طلباء کے لیے نیٹ اور جے ای ای کوچنگ کا آغاز کیا ہے۔ یہ فاؤنڈیشن ملک کے معروف کوچنگ انسٹیٹیوٹ gravity کے تعاون سے کر رہا ہے۔ اس میں غریب طلباء کو 90 فیصد تک اسکالرشپ دی جائے گی۔اس طرح کے سنٹر دیگر بڑے شہروں میں قائم کیے جاسکتے ہیں۔
کوچنگ سنٹروں کے علاوہ حضانت کے مراکز (incubation centers) کا قیام بھی وقت کی ضرورت ہے۔ ان سنٹروں میں طلبا کو جماعت نہم سے مسابقتی امتحانات کے لیے تیار کیا جاتا ہے۔ یہ سنٹر آف لائن اور آن لائن دونوں انداز میں چلائے جاسکتے ہیں۔ (جاری)
***
***
اب تقریباً تمام معیاری کورسیسں، سنٹرل یونیورسٹیوں اور انسٹیٹیوٹ آف نیشنل امپورٹینس میں داخلے مسابقتی امتحانات کے ذریعہ ہو رہے ہیں۔ ان مسابقتی امتحانات کی کوچنگ اکثر بڑے شہروں ہی میں دستیاب ہے جس کی فیس عام لوگوں کی دسترس سے باہر ہے۔ اس لیے ملت کو چاہیے کہ ملک کے چار پانچ اہم شہروں میں کوچنگ سنٹروں کا انتظام کرے۔ ویسے کوچنگ سنٹر اب بڑی سرمایہ کاری چاہتا ہے، اسے چلانے کے لیے اخراجات بہت زیادہ ہوتے ہیں۔ ملت کے بعض تعلیمی ادارے ایسے کوچنگ سنٹر چلارہے ہیں۔ تاہم ملی رفاہی اداروں کے ذریعے یہ کام بڑے پیمانے پر ہونا چاہیے۔
ہفت روزہ دعوت – شمارہ 16 جولائی تا 22 جولائی 2023