قسط۔1:یونیفارم سول کوڈ اور مسلم پرسنل لا

تاریخی اور سیاسی پس منظر

(شبیع الزماں (پونے

دستور میں مذہب اور عقیدہ کی آزادی والی دفعات پرسنل لاز کے تحفظ کی ضمانت دیتی ہیں
تین مطالبات کئی دہائیوں سے آر ایس ایس کے بنیادی سیاسی مقاصد رہے ہیں۔ نمبر ایک آرٹیکل 370 کو ختم کرنا۔ نمبر دو ایودھیا میں رام مندر کا قیام اور نمبر تین یکساں سول کوڈ کا نفاذ۔ ان میں سے پہلے دو اہم مقاصد سنگھ کی سیاسی تنظیم بی جے پی حاصل کر چکی ہے یا اس کا راستہ صاف کر چکی ہے۔ 5 اگست 2019 کو وزیر داخلہ امت شاہ نے پارلیمنٹ میں آئین ہند کے آرٹیکل 370 کو ختم کرنےکے لیے ایک قرارداد پیش کی جس نے مسلم اکثریتی ریاست جموں و کشمیر کو خصوصی حیثیت دی اور ریاست کو دو حصوں میں تقسیم کیا یعنی جموں و کشمیر اور لداخ اب مرکز کے زیر انتظام علاقے رہیں گے۔ پارلیمنٹ کی منظوری کے بعد صدر رام ناتھ کووند نے 7 اگست کو آرٹیکل کی دفعات کو منسوخ کر دیا۔ سنگھ دفعہ 370 کو ملک کی علاقائی سالمیت کے لیے ایک چیلنج سمجھتا رہا ہے۔ اس کے نزدیک اسے ہٹانا اس بات کی علامت ہے کہ ریاست کا سیاسی جغرافیہ مضبوطی سے دہلی سے جڑا ہوا ہے۔رام جنم بھومی کیس میں سپریم کورٹ کے فیصلے نے ہندو راشٹرا پروجیکٹ کو کافی حد تک قانونی حیثیت دے دی ہے، اس تنازعہ کو ختم کر دیا جس کی ابتدا عدالت کے مطابق، اتنی ہی پرانی تھی جتنا کہ خود ہندوستان کا تصور۔ ججوں نے ایودھیا میں سابقہ بابری مسجد کی جگہ ہندوؤں کے حوالے کر دی، جس سے وہاں رام مندر کی راہ ہموار ہو گئی اور اب مندر کا تعمیری کام زوروں سے جاری ہے اور اس بات کا قوی امکان ہے کہ 2024 کا الیکشن بی جے پی اسی کے سہارے لڑے گی۔
یونیفارم سول کوڈ سے سنگھ ثقافتی استحکام اور یکساں شہریت مراد لیتا ہے۔تین طلاق کو جرم قرار دینا یونیفارم سول کوڈ کی طرف پہلا قدم تھا، یا کم از کم اس مسئلہ کا وہ پہلو جو مسلمانوں سے متعلق تھا وہ تو حل ہو گیا، اب پارلمینٹ میں یونیفارم سول کوڈ کے نفاذ کی تیاری کی جا رہی یے۔ اس کے پاس ہونے میں ویسے بھی کوئی خاص رکاوٹ دکھائی نہیں دیتی ہے ۔یونیفارم سول کوڈ کا ایک اور پہلو اسلاموفوبیا یا مسلموفوبیا سے جڑا ہے۔ بی جے پی ہندوؤں میں یہ خوف پھیلاتی رہی ہے کہ ایک سے زیادہ شادیوں کے سبب سے مسلمان زیادہ بچے پیدا کرکے اپنی آبادی بڑھا رہے ہیں تاکہ وہ ہندوستان کو مسلم راشٹر بنا سکیں۔ یونیفارم سول کوڈ کے ذریعے ایک سے زیادہ بیویاں رکھنے پر پابندی لگا دی جائے گی تاکہ مسلمانوں کو قابو میں رکھا جا سکے۔
یو سی سی ہندوستان میں ایک تفرقہ انگیز مسئلہ ہے، جس کے حامیوں کا استدلال ہے کہ اس سے مساوات اور سیکولرازم کو فروغ ملے گا جبکہ مخالفین کا کہنا ہے کہ یہ مذہبی آزادیوں اور رسوم و رواج میں مداخلت کرے گا۔ اس سے جڑی ہوئی سیاست ایک الجھی ہوئی سیاست ہے۔ یہ پوری بحث مذہب، قانون اور کلچر کے اطراف گھومتی رہتی ہے۔ اسے سمجھنے کے لیے ہندوستان میں انگریزوں کے زمانے سے ہونے والی اصلاحات، ہندو کوڈ بل پالیٹکس اور مسلم پرسنل لا پر ہونے والے اعتراضات وغیرہ کو سمجھنا بھی ضروری ہے۔ حالانکہ موجودہ یونیفارم سول کوڈ کا موجودہ مسئلہ مکمل طور سے ایک سیاسی مسئلہ ہے لیکن اس مسئلہ کی تاریخی اور اصولی بحث کا جائزہ لینا بھی ضروری ہے۔ اس مضمون میں یہی کوشش کی گئی ہے۔
ہندوستان میں فیملی قوانین میں اصلاح کی ابتدا بہت پہلے شروع ہوگئی تھی۔ ہندوستان میں مسلمانوں کی آمد سے قبل عام طور سے ویدوں اور بعض اسمرتیوں کا قانون چلتا تھا جیسے منواسمرتی یا پھر یاگیول کی اسمرتی وغیرہ۔ مسلم دور میں حکومت کا باضابطہ کوئی قانون نافذ نہیں تھا۔ فوجداری قانون عمومی طور پر سب کے لیے یکساں تھا جبکہ سول معاملات میں فریقین کے مذہب کے مطابق فیصلے کیے جاتے تھے۔ مسلم دور حکومت میں مذہبی آزادی تھی۔ مسلم حکمران اپنے دور حکومت میں کسی کے مذہبی معاملات میں مداخلت نہیں کرتے تھے۔ اورنگ زیب کے دور حکومت میں پہلی دفعہ مسلم قانون کو فتاویٰ عالمگیری کے نام سے کوڈیفائیڈ کیا گیا تھا لیکن ہندووں کے عائلی قوانین میں کوئی تبدیلی نہیں کی گئی۔ مسلمان قانون دانوں نے ہمیشہ قانون کو دو حصوں میں تقسیم کر رکھا ہے، ایک تشریعی یعنی مذہبی اور دوسرا غیر تشریعی یعنی سیکولر۔ تشریعی قوانین ہمیشہ سے صرف مسلمانوں کے لیے رہے ہیں جبکہ ہندووں، جینیوں، بدھسٹوں اور دیگر مذہبی فرقوں کے لیے انہی کے قوانین ہی تھے۔ انگریزوں نے بھی اپنے ابتدائی زمانے میں ہندوستان کے مذہبی اور سول قانون سے کوئی چھیڑ خانی نہیں کی۔لیکن دھیرے دھیرے انگریزوں نے ہندوستان میں اصلاحات شروع کر دیں، شاید وہ جن اصلاحات کو جن سے مغربی سماج گزر رہا تھا انہیں اصلاحات کی ضرورت ہندوستان میں بھی محسوس کرتے تھے۔ فیملی قوانین میں اصلاحات انگریزوں کے زمانے میں شروع ہوئیں۔ 1772 سے لے کر 1781 کے درمیان ایسٹ اینڈیا کمپنی کے پہلے گورنر جنرل وارن ہسٹنگ نے کئی اصلاحات کیں۔ وارن ہسٹنگ نے کریمنل لا انگریزی قانون کے مطابق ترتیب دیا اور سول لاز میں ہندوؤں اور مسلمانوں کو چھوڑ کر باقی مذاہب کے ماننے والوں کے فیصلے انگریزی قانون کے مطابق ہونے طے پائے، اگرچہ ان کے مذہبی جذبات کا خیال رکھا گیا تھا۔
1829 میں پہلی دفعہ انگریزوں نے پرسنل لا میں دخل اندازی شروع کی جب ولیم بینٹگ نے جو ہندوستان کے پہلے گورنر جنرل ہونے کے ساتھ راجہ رام موہن رائے کے قریبی دوست بھی تھے (راجہ رام موہن رائے ستی کی رسم اور دختر کشی کے خلاف پہلے سے ہی اصلاحی تحریک چلا رہے تھے) ہندو پرسنل لا میں دخل اندازی کرتے ہوئے ستی اور دختر کشی دونوں پر پابندی لگا دی۔ یہاں ایک اہم نکتہ سمجھنا ضروری ہے کہ سماجی اصلاح ایک مشکل کام ہوتا ہے۔
سماج میں برسوں سے چلی آرہی رسم و رواج ایک دم سے ختم نہیں ہوتیں۔ کیسی ہی خراب اور قبیح رسم کیوں نہ ہو قانون بنتے ہی اس کا خاتمہ نہیں ہوجاتا بلکہ اس کے لیے طویل عرصہ درکار ہوتا ہے۔ ہندوستان میں ستی پرتھا یعنی مردہ شوہر کے ساتھ زندہ بیوی کو جلانے پر پابندی 1829 میں لگی تھی اور بھارت میں ستی پرتھا کا آخری بڑا کیس 1987 میں روپ کنور کا راجستھان میں ہوا تھا۔ یعنی قانون اپنا کام کرتا ہے لیکن پرانے سماج نئی اصلاحات کو جلد تسلیم نہیں کرتے۔ 1834 میں ہندوستان کا پہلا لا کمیشن بنا، یہ لا کمیشن مشہور یا بدنام زمانہ لارڈ میکاولے نے بنایا تھا۔ لارڈ میکاولے کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ ہندوستان میں ایسے لوگ پیدا کرنا چاہتے تھے کہ جن کے جسم تو ہندوستانی ہوں لیکن سوچ انگریزی طرز کی ہو اور یہ الزام درست بھی دکھائی دیتا ہے۔
1853 میں ہندوستان میں اصلاحات کا دوسرا دور شروع ہوا۔ لاڈ ڈلہوزی اور ایشورچند ودیا ساگر کی جوڑی نے اصلاحات کا کام دوبارہ شروع کیا۔ انہوں نے سب سے پہلے ہندو وڈو میرج ایکٹ پاس کیا پھر اسی طرح کے کئی قوانین اس دور میں پاس ہوئے جیسے اسپیشل میرج ایکٹ، ایج آف میریج ایکٹ، ہندو وومن پراپرٹی ایکٹ اور اس طرح ہندو سماج کے فیملی قوانین میں کئی اصلاحات کی گئیں۔
 انگریزوں نے اپنے دور حکومت میں ہندوؤں کے  پرسنل لاز میں کئی اصلاحات کیں لیکن مسلمانوں کے پرسنل لا میں کوئی تبدیلی نہیں کی۔ اس کی ایک بڑی وجہ تو یہ تھی کہ مسلمان خود اپنے پرسنل لا میں کسی قسم کی کوئی تبدیلی کرنا نہیں چاہتے تھے  لیکن دوسری جانب ہندو مصلحین خود اپنی کمیونٹی میں بڑے پیمانے پر تبدیلیاں چاہتے تھے اور وہ اس بات کی ضرورت محسوس کرتے تھے کہ ہندوؤں کے اندر اصلاحات ہوں اس لیے کہا جا سکتا ہے کہ ہندوؤں میں یہ خواہش خود ان کے اندر سے تھی۔ اس کے بالمقابل مسلمانوں میں اس قسم کی کوئی طلب نہیں تھی بلکہ وہ اپنے  پرسنل لا کا تحفظ سے چاہتے تھے اس لیے انگریزوں نے مسلمانوں کے قوانین سے کوئی چھیڑ خانی نہیں کی۔
حالانکہ انگریزوں کے زمانے میں مسلمانوں کا باضابطہ تحریری طور پر کوئی قانون نہیں تھا لیکن اس زمانے میں ایک واقعہ ایسا پیش آیا کہ مسلمانوں کو با ضابطہ قانون بنانے کی ضرورت پیش آ گئی۔ ہوا یوں کہ ایک مسلمان لڑکی نے اپنے والد کے ترکہ میں میراث کے لیے عدالت میں مقدمہ دائر کر دیا، ظاہر ہے کہ شریعت اسلامی کے نقطہ نظر سے بیٹی لازمی طور پر اپنے باپ کے متروکہ میں وارث ہوتی ہے، بھائی نے اس مقدمے میں جواب دیا کہ چونکہ میں نسلی طور پر فلاں ہندو قوم سے تعلق رکھتا ہوں اور ہندووں کے یہاں لڑکیوں کو باپ کے ترکے میں حصہ نہیں ملتا اور یہی رواج ہمارے خاندان میں چلا آرہا ہے اس لیے مجھ پر قانون شریعت کا نفاذ نہیں ہونا چاہیے۔برطانوی قانون میں رواج کی بڑی اہمیت ہے، کیونکہ وہ یورپ کے اکثر ملکوں کے قانون رومن لا (Roman Law) سے ماخوذ ہے اور (Roman Law) میں رواج کو بڑی اہمیت حاصل ہے اور اسے قانون کا اہم ترین سر چشمہ تسلیم کیا گیا ہے، چنانچہ عدالت نے رواج کو اصل مانتے ہوئے بھائی کے حق میں فیصلہ دے دیا اور لڑکی کو اپنے باپ کے ترکہ سے محروم رکھا جو قطعاً قرآنی طریقے کے خلاف تھا۔ اسلامی نقطہ نظر سے یہ عورتوں کے ساتھ نہایت ظلم کی بات ہے کہ محض عورت ہونے کی بنا پر اسے میراث سے محروم کر دیا جائے۔ اس وقت گو کہ مسلمانوں کے خاندانی معاملات ان کے پرسنل لا کے ذریعے سے ہی حل کیے جاتے تھے لیکن مختلف مسلم کمیونٹیز اور فرقوں کی طرف سے تعبیرات میں یکسانیت کی کمی اور اختلافات تھے۔ ملک کے مختلف علاقوں میں مسلم پرسنل لاز کی مختلف شکلیں تھیں اس لیے مذہبی طبقہ نے ضرورت محسوس کی کہ مسلمانوں کا پرسنل لا واضح کیا جانا چاہیے۔
اس کا ایک سیاسی پہلو یہ بھی تھا کہ مسلم لیگ ہندوستان کے مسلمانوں میں ایک قوم ہونے کا احساس پیدا کرنا چاہتی تھی، اور وہ یہ بھی چاہتی تھی کہ ہندوستان بھر کے مسلمانوں کے پرسنل لا کے لیے ایک قانون بن جائے۔
یہ وہ وقت تھا کہ تمام علماء و سیاسی قیادتوں نے پورے ہندوستان میں آواز اٹھائی اور جد و جہد کے بعد شریعت اپلیکیشن ایکٹ پاس کر لیا، سیاسی اور مذہبی قیادت کی مسلسل اور متحدہ کوششوں سے1937میں شریعت اپلیکیشن ایکٹ بنا۔ اس قانون کے مطابق نکاح، طلاق، خلع، ظہار، مباراۃ، فسخ نکاح، حق پرورش ولایت، حق میراث، وصیت، ہبہ اور شفعہ سے متعلق معاملات میں اگر دونوں فریق مسلمان ہوں تو شریعت محمدی کے مطابق ان کا فیصلہ ہو گا، خواہ ان کا عرف اور رواج کچھ بھی ہو اور قانون شریعت کو عرف و روارج پر بالادستی حاصل ہو گی۔ یہ شریعت اپلیکشن ایکٹ ایک اہم قانون تھا جو ہندوستان میں مسلمانوں کو پرسنل لا کا تحفظ فراہم کرتا تھا۔ آزادی کے بعد دستور میں مذہب اور عقیدہ کی آزادی والی دفعات پرسنل لاز کے تحفظ کی ضمانت دیتی ہیں۔
(جاری)
***

 

***

  انگریزوں نے اپنے دور حکومت میں ہندوؤں کے  پرسنل لاز میں کئی اصلاحات کیں لیکن مسلمانوں کے پرسنل لا میں کوئی تبدیلی نہیں کی۔ اس کی ایک بڑی وجہ تو یہ تھی کہ مسلمان خود اپنے پرسنل لا میں کسی قسم کی کوئی تبدیلی کرنا نہیں چاہتے تھے  لیکن دوسری جانب ہندو مصلحین خود اپنی کمیونٹی میں بڑے پیمانے پر تبدیلیاں چاہتے تھے اور وہ اس بات کی ضرورت محسوس کرتے تھے کہ ہندوؤں کے اندر اصلاحات ہوں اس لیے کہا جا سکتا ہے کہ ہندوؤں میں یہ خواہش خود ان کے اندر سے تھی۔ اس کے بالمقابل مسلمانوں میں اس قسم کی کوئی طلب نہیں تھی بلکہ وہ اپنے  پرسنل لا کا تحفظ سے چاہتے تھے اس لیے انگریزوں نے مسلمانوں کے قوانین سے کوئی چھیڑ خانی نہیں کی۔


ہفت روزہ دعوت – شمارہ 30 جولائی تا 05 اگست 2023