قسط ۔1:بھارتی مسلمانوں کا تعلیمی ایجنڈا۔چند تجاویز

مسلمانوں میں تعلیمی وثقافتی انقلاب برپا کرنے کی ضرورت

سید تنویر احمد
(ڈائریکٹر ہولسٹک ایجوکیشن بورڈ)

ملت کے مسائل کا حل پیش کرنے والی مختلف تجاویز میں سب سے زیادہ جس تجویز کو پیش کیا جاتا ہے وہ ملت میں تعلیم کے فروغ کی تجویز ہے۔ تعلیم کی صدا ہر اس پلیٹ فارم سے گونجتی ہے جو ملت کو موجودہ بھنور سے نکالنے کے لیے بنایا جاتا ہے۔ لیکن تعلیم کے حوالے سے جتنی گفتگو ہوتی ہے، اس میں بہت کم گفتگو ہولسٹک اپروچ (holistic approach) یعنی ہمہ جہت طریقہ تعلیم پر مشتمل ہوتی ہے۔ تعلیم سے متعلق تجاویز میں زیادہ تر زور اس پر دیا جاتا ہے کہ مسلمانوں کو تعلیم حاصل کرنا چاہیے لیکن جب لفظ ’تعلیم‘ بولا جاتا ہے تو اس سے عام تصور یہی ہوتا ہے کہ نوجوانوں کو ڈگریوں سے آراستہ کردیا جائے۔ یعنی انہیں خواندہ (literate) بنایا جائے، نہ کہ تعلیم یافتہ(Educated)۔ ظاہر ہے کہ خواندہ اور تعلیم یافتہ بنانے میں بڑا فرق ہے۔ آج مسلمانوں کی ایک کثیر تعداد خواندہ تو ہورہی ہے لیکن تعلیم یافتہ بننے کی رفتار سست ہے۔ دنیا میں بڑی تبدیلیاں صرف خواندگی کو بڑھانے سے نہیں آتیں بلکہ بڑی تبدیلیوں کے لیے تعلیم یافتہ افراد کی ضرورت ہوتی ہے۔
ہمارے اکثر تعلیمی ادارے نوجوانوں کو خواندہ بنارہے ہیں تاکہ وہ امپلائیبل (Employable) یعنی روزگار حاصل کرنے کے قابل بن سکیں اور معاشرے میں بھی یہی تصور ہے کہ ڈگری حاصل کرو گے تو روزگار کے بہتر مواقع حاصل ہوں گے اور زندگی میں آسودگی آئے گی۔ یہی تصور تعلیم کے حوالے سے عام ہے۔ یہ تصور اس وقت اور بھی زیادہ نقصان پہنچاتا ہے جب خواتین اس کو اختیار کرلیتی ہیں۔ اکثر خواتین تعلیم اس لیے حاصل کرتی ہیں کہ وہ معاشی اور سماجی طور پر بااختیار ہوجائیں۔ یہ سوچ غلط بھی نہیں ہے۔ تاہم اگر اس میں توازن بگڑ جاتا ہے اور خواتین بھی تعلیم کو محض معاشی دوڑ میں شامل ہونے کا ذریعہ بنالیتی ہیں تو اکثر خواتین اپنے اصل کردار، نسوانیت کے وقار اور زیورِ حیات سے محروم ہونے لگتی ہیں۔ مثلاً سماج میں خواتین کی تعلیم کا مقصد اکثر ان الفاظ میں بیان کیا جاتا ہے ‘‘تاکہ لڑکی اپنے پیروں پر کھڑی ہوسکے’’ ۔ اپنے پیروں پر کھڑی ہونے کا مطلب یہاں معاشی اعتبار سے خود کفیل ہونا ہے۔ جہاں یہ صفت ایک عورت کو بااختیار بناتی ہے وہیں وہ خواتین جو اپنے نسوانی فرائض اور ان کی حکمتوں اور تقاضوں سے پوری طرح آشنا نہیں ہوتی ہیں، وہ غلطی سے اسی کو سب کچھ سمجھ بیٹھتی ہیں۔ ہم نے کئی ایسی تعلیم یافتہ برسرروزگار خواتین کو دیکھا ہے جن کی ازدواجی زندگی خوشگوار نہیں ہے۔ اس ناخوشگواری کی وجہ ان کا یہ تصور ہے کہ ‘‘میں اپنے پیروں پر کھڑی ہوسکتی ہوں ’’ ۔ یہاں ہم خواتین کی تعلیم کی مخالفت نہیں کررہے ہیں بلکہ ہم نے اپنے تعلیمی نظام کی کم زوری اور سماج میں موجود مقاصد تعلیم کے جھول کو واضح کرنے کی کوشش کی ہے۔
ذیل میں ہم ملت کے تعلیمی ایجنڈے یعنی تعلیم کے ہمہ جہت نظام ( Holistic approach of education)کے منصوبے کو پیش کریں گے۔ اس منصوبے میں طویل المیعاد اور قلیل المیعاد دونوں پروگرام شامل ہیں۔ بعض پروگراموں کی کچھ تفصیلات پیش کی گئی ہیں اور بعض کا محض تعارف دیا گیا ہے۔ فی الوقت بھارتی مسلمان تعلیم کو ماضی قریب کی بہ نسبت زیادہ اہمیت تو دے رہے ہیں، لیکن یہ اہمیت یک رخی ہے نہ کہ ہمہ جہت۔ یعنی صرف اتنا ہدف ہے کہ اسکولوں اور کالجوں میں داخلہ لیا جائے اور ڈگریاں اپنے نام کی جائیں۔ لیکن ہمیں اس عمل اور رویے کے بجائے تعلیمی کلچر کو مسلم معاشرے میں متعارف کرانا ہے اور ملت کے درمیان تعلیمی ثقافتی انقلاب برپا کرنا ہے۔ یہ تعلیمی ثقافتی انقلاب ہمہ جہت ہوگا۔ یہ انقلاب جہاں قرون اولیٰ سے اپنی بنیادیں حاصل کرے گا وہیں مستقبل کو تابناک بنانے کا وژن اپنے اندر لیے ہوئے ہوگا۔ یہ آفاقی بھی ہوگا اور ملک کے تناظر میں بھی رہے گا۔
ذیل میں ہم اس تعلیمی ثقافتی انقلاب کے کچھ خدو خال پیش کررہے ہیں، یہاں ہم تعلیم کے مقصد پر روشنی ڈالیں گے، علم کی دوئی کے مسئلے کو زیر بحث لائیں گے اور بعض دیگر بنیادی مباحث کو چھیڑیں گے:
مقصد تعلیم
سب سے پہلے ملت میں مقصد تعلیم اور تعلیم کے وژن کی درستی اور اسے صحیح خطوط پر استوار کرنا ضروری ہے۔ آج ہمارا تعلیمی نظام ذہن کی صرف ایک ہی صلاحیت اور حافظے کو استعمال کررہا ہے۔ اسکولوں میں معلومات کو حافظے میں بٹھایا جاتا ہے اور امتحانات میں اسے دوبارہ ذہن سے قرطاس پر منتقل کرنے کے لیے کہا جاتا ہے۔ یعنی طلبہ کو پین ڈرائیو (Pen Drive) بنایا جارہا ہے۔
ہمارا سارا تعلیمی نظام ایک مشہور ماہر تعلیم پاولو فریری(Paulo Freire) کے بقول نصاب تعلیم اور امتحانات کا قیدی ہے۔ پورا سماج صرف نمبرات کے حصول کے لیے جدو جہد کرتا ہے۔ نمبرات (Marks) کا حصول ہی تعلیم کا معیار ہے۔ مارکس (نمبرات) کے حصول کو ہی ہم نے تعلیم سمجھ رکھا ہے۔ یعنی تعلیم کے معاملے میں ہم ’’ مارکس وادی ‘‘ ہیں۔اسی ماہر تعلیم کی نظر میں ہندوستانی نظام تعلیم مظلومیت کو فروغ دے رہا ہے۔ ہم برطانوی سامراج کے اسی تعلیمی نظام کو اپنائے ہوئے ہیں جو بہترین ’’ بابو ‘‘ پیدا کرتا ہے۔ ان کے بقول تعلیم کو مظلوم افراد کو ان کی مظلومیت سے نکالنے کا ایک اہم ذریعہ ہونا چاہیے۔ تعلیمی نظام ایسا ہونا چاہیے جو مظلوموں کو ظلم کی چکیوں سے آزاد کرائے، وہیں ظالموں کی اصلاح کا سامان بھی فراہم کرے، تاکہ ظالم یہ سمجھ سکیں کہ دراصل ظلم ایک کم زوری ہے اور ظلم و مظلومیت دونوں ہی انسانیت کے لیے مضر اور ایک خوشگوار سماج کے لیے سب سے بڑا چیلنج بھی ہیں۔
تعلیم کا اصل ہدف انسانوں کے اندر اس اعلیٰ مقصد کے شعور کو بیدار کرنا ہے، جس کے ذریعے انسان بندگی رب کے بلند مقام پر پہنچتا ہے۔ اسلام کی رو سے تعلیم انسان کو ایک حیاتیاتی وجود سے اونچا اٹھا کر اسے ایک عرفانی وجود بناتی ہے۔ یہ عرفانی وجود علم و آگہی کے ذریعے دنیاوی فلاح و کام یابی بھی حاصل کرتا ہے اور اخروی نجات بھی۔ یعنی ہمارے تعلیم کے مقاصد دو ہوتے ہیں ایک قلیل المیعاد اور دوسرا طویل المیعاد۔ قلیل المیعاد مقصد کے تحت علم کے ذریعے اس دنیاوی زندگی کو بہتر بنانے کی کوشش کی جاتی ہے، اور طویل المیعاد مقصد کے تحت دنیا سے آخرت تک پھیلی ہوئی زندگی کو کام یاب بنانے کے لیے تزکیہ نفس کے اصولوں کو سیکھا جاتا ہے۔ اگر طلبہ کو صرف معاشی حیوان بنانے کے لیے تعلیم کا عمل جاری ہے تو اس کا یہ مطلب ہوا کہ ہم تعلیم کے ادنی تر مقصد ہی کو حاصل کرپارہے ہیں۔ آج تعلیم کا یہ ہمہ جہت مقصد مفقود ہوتا جارہا ہے۔ اس مقصد کو دوبارہ سماج میں جاری کرنا ہے۔
ہمارا تعلیمی نظام ذہن کے حافظے سے ہی نکلتا ہے اور اسے ہی عمل میں لاتا ہے جب کہ تعلیم کو مرکزِ شعور سے نمودار ہونا چاہیے اور دل سے رہ نمائی حاصل کرنی چاہیے۔ لیکن یہ عام طور پر نہیں ہورہا ہے۔ ملت میں تعلیم کے حوالے سے دوسری بڑی کم زوری، تعلیم کو دو حصوں میں تقسیم کرنا ہے۔ ملت نے تعلیم کا ایک حصہ دنیاوی تعلیم ( عصری تعلیم ) قرار دیا ہے اور دوسرا حصہ دینی تعلیم۔ ستم ظریفی یہ بھی ہے کہ ان دونوں حصوں کی تعریف و توضیح بھی ملت میں بڑی محدود ہے۔ دنیاوی تعلیم کو ملی لٹریچر میں سیکولر تعلیم اور عصری تعلیم بھی کہا جاتا ہے۔ عصری تعلیم کو ہم نے معاش سے جوڑ دیا ہے۔ عصری تعلیم کا حصول نیکی کے دائرے سے باہر کردیا گیا ہے۔ عصری تعلیم کو سیکولر تعلیم اس لیے بھی کہا جاتا ہے کہ آفاق و انفس کی تعلیم کو مغرب اپنے انداز سے مزین کرکے دنیا کے سامنے پیش کرتا ہے۔ اور اس تزئین کاری میں آفاق و انفس کے علم کے اُس اہم پہلو کو نظر انداز کردیا جاتا ہے جو تعلیم کی اصل روح ہے۔ یعنی یہ کہ اس علم کا منبع خالق کائنات ہے۔ عصری علم جسے سیکولر دنیا انسانوں کے سامنے پیش کرتی ہے، اس کا تعلق صرف محسوسات سے ہے۔ ماورائے طبیعت سے اس کا واسطہ نہیں ہوتا۔ ملت کے ایک بڑے طبقے نے بھی علوم کے اس غیر روحانی نظریے کو بڑی حد تک قبول کرلیا ہے۔ چناں چہ علوم دنیا سے معرفت الٰہی کا عظیم کام نہ تو لیا جارہا ہے اور نہ ہی اس کا شعور ملت کے باشعور طبقے میں پایا جاتا ہے۔
آج بھی فلسفہ اور ماورائی حقائق کا مطالعہ کرنے والے ماہرین کا یہ ماننا ہے کہ ماورائی حقائق کے (Transcendental knowledge) کے بغیر علم ادھورا رہتا ہے۔ اسی نظریے کو اب سیکولر دنیا بھی مانتی ہے اور مان کر اسے ہولسٹک اپروچ آف ایجوکیشن (holistic approach of education) قرار دیتی ہے۔ ہولسٹک اپروچ آف ایجوکیشن کو ‘‘ benjantf bloof’’ دل اور دماغ کی تعلیم کہتا ہے۔اس کے نزدیک دل کی تعلیم کا مطلب سماجی صلاحیتیں ہیں جب کہ ہم ان سماجی صلاحیتوں کو اسی کی زبان میں ٹرانسی ڈینٹل ویلوز یا آفاقی قدریں کہتے ہیں۔
بھارت کی قومی تعلیمی پالیسی 2020 بھی نظام تعلیم کے تحت ہولسٹک اپروچ آف ایجوکیشن یعنی علم کا ہمہ جہت تصور کو قبول کرتی ہے۔
اس بحث کے بعد ہم یہ طے کریں کہ ہم اپنے طلبہ کو دو مقاصد کے تحت تعلیم دیں گے۔
(الف) ہمارے طلبہ اپنے حقیقی مقصد زندگی کو سمجھیں اور اس کے مطابق اپنی زندگی کو ڈھالنے کے اصول و ضوابط کا علم حاصل کریں۔ یعنی ان کی زندگی اسلام کا چلتا پھرتا نمونہ بنے۔ ہمارے ملک میں ہماری نسل اسلام کی سفیر بنے۔ خیر امت بن کر سماج میں خیر پھیلائے۔ انسانوں کی خدمت کرے اور قدرتی وسائل کی بہتر نگہداشت کرے۔
(ب) ہماری نسل تعلیم کے ہر شعبے میں مہارت حاصل کرے۔ مختلف پروفیشنل و غیر پروفیشنل تعلیم کیبلندیوں تک پہنچے، ریسرچ اور ٹکنالوجی کے میدان میں بہترین کارکردگی کا مظاہرہ کرے۔ سرکاری و غیر سرکاری شعبوں میں اعلیٰ عہدوں تک پہنچنے کی انتھک کوشش کرے۔ مختلف مسابقتی امتحانات میں حصہ لے۔ الغرض اس ملک میں اپنے آپ کو علم کے میدان میں سب سے اونچے مقام پر لے جائے۔
علم کی دوئی
ملت اسلامیہ نہ صرف بھارت بلکہ دنیا کے بڑے حصے میں علم کی دوئی کا شکار ہے۔ یعنی تعلیم کو دو بالکل الگ الگ خانوں میں بانٹ دیا گیا ہے۔ دینی تعلیم اور عصری یا سیکولر تعلیم۔
ملت کے عروج و زوال کا جائزہ لینے والے اکثر دانشوران بشمول مولانا مودودیؒ علم کی دوئی کو ملت کے زوال کے اسباب میں سے ایک ہم سبب قرار دیتے ہیں۔ تاریخ کا مطالعہ یہ بتاتا ہے کہ قرون اولیٰ میں بلکہ قرون وسطیٰ تک بھی دینی اور دنیوی تعلیم کی کوئی تقسیم، اسلامی تعلیم کی روایات میں نہیں پائی جاتی تھی۔
قرون اولیٰ کی جو تعلیمی روایات ہیں ان سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ قرون اولیٰ کے تعلیمی نظام میں جن مضامین کو اہمیت حاصل تھی، ان میں عقیدہ، قرآن، شریعت، فقہ، اخلاقیات، انتظامی امور اور معاشی حصول کے لیے بعض فنون اور فنون لطیفہ شامل تھے۔ رفتہ رفتہ علم کی نئی شاخیں وجود میں آنے لگیں تو اسلامی ریاستوں میں تعلیم کا جو نظام قائم تھا، ان میں ان شاخوں نے جگہ پائی۔ اموی اور عباسی دور میں تعلیمی اداروں کا قیام ہوا تو ان اداروں میں سائنس اور فلسفے کی تعلیم بھی دی جانے لگی۔(جاری)

(قارئین سے گزارش ہے کہ اس موضوع پر تجاویز و مشورے مندرجہ ذیل وہاٹس ایپ نمبر پر ارسال کریں تاکہ مضمون کی اگلی قسط میں انہیں شامل کیا
جا سکے ۔ وہاٹس ایپ نمبریہ ہے: 9844158731)
***

 

***

 فی الوقت بھارتی مسلمان تعلیم کو ماضی قریب کی بہ نسبت زیادہ اہمیت تو دے رہے ہیں، لیکن یہ اہمیت یک رخی ہے نہ کہ ہمہ جہت۔ یعنی صرف اتنا ہدف ہے کہ اسکولوں اور کالجوں میں داخلہ حاصل کیا جائے اور ڈگریاں اپنے نام کی جائیں۔ لیکن ہمیں اس عمل اور رویے کے بجائے تعلیمی کلچر کو مسلم معاشرے میں متعارف کرانا ہے اور ملت کے درمیان تعلیمی ثقافتی انقلاب برپا کرنا ہے۔ یہ تعلیمی ثقافتی انقلاب ہمہ جہت ہوگا۔ یہ انقلاب جہاں قرون اولیٰ سے اپنی بنیادیں حاصل کرے گا وہیں مستقبل کو تابناک بنانے کا وژن اپنے اندر لیے ہوگا۔


ہفت روزہ دعوت – شمارہ 07 مئی تا 13 مئی 2023