قسط (1):عزمِ نو کے ساتھ رفتار کار بڑھائیں

تحریک اسلامی ہند کےتعارف اور دائرہ اثر کو بڑے پیمانے پروسعت دینے کی ضرورت

تحریکی جدوجہد کے 75 سال کے موقع پر امیرجماعت اسلامی ہند کا خطاب
محترم بزرگو، عزیز نوجوان دوستو، پیارے بچو اور ماؤں، بہنو اور بیٹیو!
السلام علیکم و رحمتہ اللہ برکاتہ
آپ سب جانتے ہیں کہ آج کا یہ پروگرام ایک خاص موقعے کی مناسبت سے رکھا گیا ہے۔ اب سے چند ماہ بعد یعنی 16 اپریل 2023 کو جماعت اسلامی ہند کی جدوجہد کے پچہتر سال مکمل ہو جائیں گے۔ ماہ و سال، افراد کے لیے بھی اور قوموں و جماعتوں کے لیے بھی، جائزہ و احتساب کے مواقع ہوتے ہیں۔ جس طرح سفر کے دوران سنگ ہائے میل یا کلومیٹر کے نشانوں پر ہم رک کر اپنی رفتار کار کا جائزہ لیتے ہیں، اسی طرح تاریخ کے بعض موڑ اور ماہ و سال سے جڑے بعض پڑاو، ہم کو اپنے سنجیدہ جائزے کا موقع فراہم کرتے ہیں۔ اتفاق سے یہ مرحلہ ہماری میقات کی بھی تکمیل کا مرحلہ ہے، اس لیے پچہتر سالوں کی تکمیل کے اس مرحلے کو ہم نے دو کاموں کے لیے استعمال کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ ایک کام اندرونی سطح پر ہے اور وہ یہ کہ اس میں ہم ہر سطح پر اپنے کاموں کا جائزہ لیں گے، نیا عہد کریں گے اور اپنی رفتار بڑھانے کی کوشش کریں گے۔ دوسرا کام بیرونی سطح پر ہے یعنی اس موقع کو استعمال کرکے ہم ملت کے اندر بھی اور ملک کے عوام میں بھی جماعت اور اس کی خدمات کا وسیع تعارف کرائیں گے۔
چنانچہ آج کی گفتگو میں میں جماعت کی پچہتر سالہ جدوجہد اور اس کی خدمات پر روشنی ڈالنے کی کوشش کروں گا اور آخر میں جائزہ اور رفتار کار بڑھانے کے حوالے سے کچھ گزارشات آپ کی خدمت میں رکھوں گا۔
بزرگو اور دوستو، تاریخ اور خدمات کے جائزے سے پہلے ہمیں خود کو یہ یاد دلانا چاہیے، اس کی تذکیر ہونی چاہیے کہ جماعت اسلامی ہند کیا ہے؟ جماعت اسلامی ہند کا اصل امتیاز اس کی شناخت اور اس کا مقصد و نصب العین ہے۔ ہم ایک اسلامی تحریک ہیں اور اللہ کے دین کا قیام ہمارا مقصد و نصب العین ہے۔ ہم کسی خاص قوم، خاص فرقے یا کمیونٹی کے مفاد کے لیے کام کرنے والی جماعت نہیں ہیں۔ ہم کوئی پالیٹیکل اپوزیشن یا کسی وقتی مسئلے پر اٹھنے والی movement resistance نہیں ہیں۔ کسی خاص مسلک کی طرف دعوت دینے والا مسلم فرقہ بھی ہم نہیں ہیں۔ ہماری دعوت کسی شخصیت یا کسی شخصیت کے افکار کی طرف بھی نہیں ہے۔ ہم اسلامی تحریک ہیں۔ اسلام کی متفق علیہ تعلیمات، اس کی اساسی قدریں، اس کا دیا ہوا نظام زندگی، یہی ہماری آئیڈیالوجی ہے۔ اس کا قیام ہی ہمارا مقصد ہے۔ اس کی طرف دعوت ہی ہمارا اصل کام ہے۔ یہ فکر اور یہ مقصد ہی اس تحریک کی روح اور جان ہے، یہی اس کی شناخت اور اس کی پہچان ہے اور یہی اس کے وجود کا جواز ہے۔
یہی وہ مقصد و نصب العین تھا جس کو لے کر ملک کی آزادی اور تقسیم کے بعد ٹھیک پچہتر سال پہلے ہمارے بزرگوں نے جماعت اسلامی ہند کے نام سے دوبارہ منظم ہو کر کام شروع کیا تھا۔ 16 اپریل 1948ء کو انتہائی مشکل حالات میں اقامت دین کے مقصد کی خاطر منظم ہو کر کام کرنے کا یہ مبارک فیصلہ کوئی معمولی فیصلہ نہیں تھا۔الہ آباد کے اجتماع میں ہونے والا یہ فیصلہ بے شک ایک بڑا حوصلہ مند فیصلہ تھا۔ہمارے بزرگوں نے حالات سے ڈر کر بیٹھنے کا موقف اختیار نہیں کیا نہ مایوس ہو کر اور ہمت ہار کر ملک چھوڑنے کا سوچا اور نہ ملک میں رہ کر مداہنت کا راستہ اختیار کیا۔ انہوں نے عزیمت و استقامت کا وہ راستہ منتخب کیا جو اس امت کے اور اس کے دین کے شایان شان راستہ تھا۔
یہ رات اپنے سیاہ پنجوں کو جس قدر بھی دراز کر لے
میں تیرگی کا غبار بن کر نہیں جیوں گا
اس باہمت فیصلے نے اور اقامت دین کے مقصد کے ساتھ تحریک اسلامی کے آزاد ہندوستان میں احیا نے ڈری اور سہمی ہوئی ملت کے اندر حوصلہ و ہمت کی نئی جوت جگائی۔ مایوسی کی فضا کو ختم کرنے اور اپنے دین پر قائم رہتے ہوئے اس ملک میں رہنے کی ہمت پیدا کرنے میں اس فیصلہ کا یقینا اہم رول ہے۔
محترم سامعین، آج جب ہم ملت اسلامیہ ہند کی تاریخ پر نظر ڈالتے ہیں تو ہمیں محسوس ہوتا ہے کہ آزاد ہندوستان میں مسلمانوں کی تاریخ حوصلہ و پامردی کی تاریخ ہے۔ تقسیم ملک کے بعد بظاہر ایسا محسوس ہوتا تھا کہ اس ملک کی زمین اب مسلمانوں کے لیے تنگ ہو چکی ہے اور یہاں ان کا اپنے دینی و ملّی تشخص کے ساتھ زندہ رہنا ممکن نہیں ہے۔ پاکستان اور دو قومی نظریے کی حامی طاقتیں یہی تاثر پوری قوت سے عام کرنے میں لگی ہوئی تھیں اور تقسیم کے فوری بعد فسادات کے بھیانک سلسلہ سے بھی اس تاثر کو تقویت مل رہی تھی، لیکن مسلمانوں نے پوری جراءت اور حوصلہ کے ساتھ اپنے وطن سے وابستہ رہنے کو ترجیح دی اور اپنے دین و تہذیب اور ملی تشخص کی حفاظت کرتے ہوئے اور ملک وسماج کی گراں قدر خدمات انجام دیتے ہوئے۔۔۔ اس تاثر کو غلط ثابت کیا۔ یقیناً اس طویل تاریخ میں بہت سی محرومیاں بھی ان کے حصہ میں آئیں۔ آج تعلیم، معیشت، سیاست وغیرہ شعبوں میں ان کا وزن اس سے کہیں کم ہے جو آزادی کے وقت تھا۔ وہ ملک میں ایک پسماندہ گروہ سمجھے جاتے ہیں اور اپنی کمزوری کی وجہ سے ظلم و ناانصافی کا مسلسل نشانہ بھی بنتے رہے ہیں۔ لیکن ان سب چیلنجوں کے باوجود ہندوستان کی ملت اسلامیہ کی تارٰیخ کئی پہلوؤں سے قابل رشک ہے۔ اس کے لیے مسلمانوں کے اندر موجود بہت سی سماجی، اصلاحی، نظریاتی تحریکوں اور سیاسی و سماجی رہنماوں نے اہم رول ادا کیا ہے لیکن ہندوستان کے مسلمانوں کی اس پوری تاریخ میں جماعت اسلامی ہند کا رول بھی بہت بنیادی اور اہم رہا ہے۔جماعت کی افرادی قوت بہت محدود تھی لیکن اپنی ٹھوس نظریاتی بنیادوں کے ذریعے، اپنے ذرائع ابلاغ اور لٹریچر کے ذریعے اور اپنے ملک گیر تنظیمی نیٹ ورک اور عوامی رابطہ کے ذریعہ۔۔ ان سب ذرائع سے جماعت نے ہندوستانی مسلمانوں کی اجتماعی سوچ پر، ان کے اجتاعی رویے پر اور ان کی عملی کاوشوں کی سمت پر گہرے اثرات مرتب کیے ہیں۔
آزادی کے فوری بعد جماعت نے دیگر دینی و سماجی تحریکوں اور رہنماوں کے ساتھ مل کر مسلمانوں کے اندر حوصلہ و اعتماد پیدا کیا۔ سب سے پہلے انہیں ہندوستان میں رہنے اور اس ملک کے شہری کی حیثیت سے اپنی ذمہ داریاں ادا کرنے کی طرف متوجہ کیا۔ اس زمانہ کے جماعت کے اخبارات و رسائل اور جماعت کے قائدین کے بیانات کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ ابتدا میں جماعت نے اس بات پر خاص توجہ دی کہ ایک طرف مسلمانوں میں یہ اعتماد پیدا کیا جائے کہ وہ اس ملک میں عزت اور اپنی مذہبی شناخت کے ساتھ رہ سکتے ہیں اور دوسری طرف یہ کوشش بھی کی کہ انہیں ان مہلک فرقہ پرستانہ رویوں سے بچایا جائے جن سے ماضی قریب میں انہیں شدید نقصان پہنچا تھا مثلاً قیام جماعت کے فوری بعد امیر جماعت مولانا ابواللیث اصلاحیؒ کا جو بیان زندگی میں شائع ہوا جس میں انہوں نے مسلمانوں کو اس ملک میں رہنے، ملک سے اور یہاں کی حکومت سے بے جا بدگمانی نہ کرنے، فرقہ پرستانہ رویوں سے بچنے اور اسلام کی آفاقی تعلیمات کے علم بردار بننے اور اس ملک کے خیر خواہ کی حیثیت سے سامنے آنے کی دعوت دی تھی۔
جماعت نے دیگر تنظیموں اور قائدین کے ساتھ مل کرمسلمانوں کی دینی تعلیم و تربیت کے ذریعہ اور تہذیبی جارحیتوں کا مقابلہ کرتے ہوئے ان کے دینی و تہذیبی تشخص کی حفاظت کی، اور اس ملک میں باعزت زندگی گزارنے کا اعتماد بھی پیدا کیا اور راہ بھی دکھائی۔ لیکن ہندوستانی مسلمانوں کی اجتماعی زندگی کے بعض اہم گوشے ایسے ہیں جن میں خاص طور پر جماعت اسلامی ہند کی خدمات بہت نمایاں بھی ہیں اور منفرد بھی۔ ہمیں عام مسلمانوں کے اندر ان چیزوں کو اس دوران نمایاں کرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔
جماعت اسلامی ہند نے تعلیم یافتہ مسلمانوں میں دین کا شعور بھی پیدا کیا اور دین، ملک اور ملت کے لیے جدوجہد کرنے اور قربانیاں دینے کا حوصلہ بھی ان کے اندر پیدا کیا۔ تعلیم یافتہ متوسط طبقے کو ایک جمہوری معاشرہ میں سماج کا ضمیر سمجھا جاتا ہے۔ سماجی تبدیلی کے لیے درکار وسائل عام طور پر متوسط طبقے کے پاس ہوتے ہیں۔ایک باشعور اور فعال متوسط طبقہ پورے سماج کو حساس اور فعال بناتا ہے۔ یہی تعلیم یافتہ متوسط طبقہ روایتی طور پر ملک کے اکثر حصوں میں جماعت کا اصل دائرہ اثر رہا ہے۔ جماعت نے کالجوں اور یونیورسٹیوں کے تعلیم یافتہ لوگوں کا دین پر اعتماد بحال کیا۔ اس معاملہ میں اس کے دینی لٹریچر نے جو تاریخی کردار ادا کیا ہے، اسے امت کے تمام اہل علم و دانش تسلیم کرتے ہیں۔ مولانا ابوالحسن ندوی تحریر فرماتے ہیں:’’بیسویں صدی کے نصف اول میں مولانا سید ابو الاعلیٰ مودودی نے اپنے موقر رسالہ ’ترجمان القرآن‘(حیدر آباد) کے ان مضامین سے مسلمان تعلیم یافتہ طبقہ کی نگاہوں کو متوجہ کر لیا، جو مغربی تہذیب اور فلسفہ حیات کی تردید و تنقید میں ’مدافعانہ‘ کے بجائے ’جارحانہ‘ انداز میں لکھے گئے تھے، نیز مغربی تعلیم کے اثر سے پیدا ہونے والی تجدّد کی تحریک اور ان خیالات کی تردید میں، جو غالی قوم پرستی کی شکل میں پیدا ہو گئے تھے، تحریر کیے گیے تھے۔ اسی کے ساتھ انہوں نے شریعتِ اسلامی اور قوانینِ اسلامی کے ان مسائل و مباحث پر بھی مدلّل و موثر مضامین لکھے جو تجدّد پسندوں کا خاص طور پر نشانہ بنے ہوئے تھے۔ مثلاً سود، پردہ، جہاد، قربانی، غلامی، حدیث و سنت، عائلی قوانین وغیرہ۔ انہوں نے ان مضامین کے ذریعے جو بعد میں علیحدہ مجموعوں کی شکل میں شائع ہوئے، نیز متعدد مستقل تصانیف و رسائل کے ذریعے جدید تعلیم یافتہ اور ذہین طبقہ کا اسلام کے اقدار و افکار پر اعتماد بحال کرنے اور اس کو اسلام اور اس کی تعلیمات کے بارے میں احساسِ کہتری اور شکست خوردگی کی ذہنیت سے بچانے کا وہ مفید کام انجام دیا جس کا اعتراف نہ کرنا زیادتی ہے۔ اسی بنا پر اس وقت کے بعض اہلِ قلم نے ان کو ’متکلمِ اسلام‘ کا خطاب دیا۔‘‘(جاری)
***

 

***

 امیر جماعت اسلامی ہند جناب سید سعادت اللہ حسینی نے بھارت میں تحریک اقامت دین کی عظیم جدوجہد کے 75 سال کے موقع پر جماعت کے کیڈر اور متوسلین سے خصوصی خطاب کیا۔ اس تقریر کی اہمیت و افادیت کے پیش نظرقارئین دعوت کے استفادہ کے لیے اسے یہاں سلسلہ وار شائع کیا جارہا ہے۔(ادارہ)


ہفت روزہ دعوت – شمارہ 25 ڈسمبر تا 31 ڈسمبر 2022