قسط01 :اب انہیں ڈھونڈ چراغِ رُخِ زیبا لے کر

علمی دنیا کی عظیم شخصیات جو 2022ء میں جدا ہوگئیں

مجتبیٰ فاروق ,حیدر آباد

کسی جید عالم کا انتقال کرجانا کسی سانحہ سے کم نہیں ہوتا ہے۔علم اور علماء ہی ہماری اصل میراث ہیں ۔حضرت عبد اللہ بن عمرو بن عاص رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے ارشادفرمایا:
اللہ تعالیٰ علم کو اس طرح نہیں اٹھائے گا کہ اسے بندوں کے سینوں سے کھینچ لے بلکہ علماء کو اٹھا لینے سے علم اٹھ جائے گا،یہاں تک کہ جب کوئی عالم نہیں رہے گا تو لوگ جاہلوں کو اپنا امیر بنا لیں گے۔ ان سے مسائل پوچھے جائیں گے تو وہ بغیر علم کے فتویٰ دیں گے۔اس کے نتیجے میں وہ خود بھی گمراہ ہوں گے اور لوگوں کو بھی گمراہ کریں گے۔(البخاري في الصحيح، کتاب العلم)
زیر نظر مضمون میں ان علمی شخصیات کا ایک بہت ہی مختصر تعارف پیش کیا جائے گا جو 2022ء میں انتقال کرگئیں ۔
مولانا عتیق الرحمٰن سنبھلی
مولانا عتیق الرحمٰن سنبھلی کا تعلق ہندوستان کے نعمانی خاندان سے تھا۔۔ آپ 23 جنوری 2022ء میں انتقال کر گئے ۔مولانا مشہور مصنف مولانا محمد منظور نعمانی کے فرزند اورمشہور عالم دین مولانا خلیل الرحمن سجاد نعمانی کے بڑے بھائی تھے ۔مولانا عتیق الرحمن سنبھلی ازہرِہند دارالعلوم دیوبند کے فارغ التحصیل تھے۔ معروف رسالہ ’’ماہنامہ الفرقان‘‘کے طویل عرصے تک مدیررہے۔مولانا سجاد نعمانی کی ادارت میں کبھی کبھار مولانا عتیق الرحمن کا بھی اداریہ شائع ہوتا تھا۔مولانا کے اداریے اور مسلمانوں کے مسائل پر ان کے مضامین نہایت فکر انگیز ہوا کرتے تھے۔فکر وخیال کے اعتبار سے مولانا وسیع النظر عالم دین اور معتدل مزاج کے حامل تھے۔مولانا سادہ طرز زندگی اور سادہ ملبوس میں رہتے تھے ۔مولانا نے دعوتی کام کے سلسلے میں ایک طویل عرصہ برطانیہ میں گزارا اور وہاں کئی دینی حلقوں سے جڑے بھی رہے اور بعض قائم بھی کیے ۔مولانا کو تصنیف وتالیف سے بھی شغف تھااور کئی اہم تحقیقی کتابیں لکھیں جن کے نام یہ ہیں :
۱۔تفسیر محفلِ قرآن(چھ جلدیں)
۲۔واقعہ کربلا کا پس منظر ایک نئے مطالعے کی روشنی میں
۳۔انقلابِ ایران اور اس کی اسلامیت
۴۔تین طلاق اور حافظ ابن القیم
۵۔حیات نعمانی سوانح حیات مولانا منظور نعمانی
تاریخ اسلامی اور تفسیر آپ کا موضوع رہا ہے اور ان دونوں میدانوں میں قابل تحسین کام کیاجس کو علمی حلقوں نے خوب سراہا ۔لیکن تفسیر قرآن کو انہوں نے اپنا اصل موضوع بنایا۔مولانا دراصل نئی نسل میں فہم قرآن کی روح کو نہایت آسان انداز میں زندہ کرنا چاہتے تھے ۔

عبد الرحٰمن باسکوینی
اطالوی(Italian) داعی اور مترجم قرآن عبد الرحٰمن باسکوینی اٹھاسی سال کی عمر میں 29 مارچ 2022ء میں انتقال کرگئے۔اطالوی(Italian)زبان میں قرآن کے 14مکمل اور 12نامکمل تراجم موجود ہیں۔ یہ تراجم مستشرقین اور غیر مسلموں نے کیے ہیں۔ان تراجم میں بے شمار غلطیاں پائی جاتی ہیں اور ان میں سے کئی تراجم اصل عربی متن کے مفہوم سے ہٹ کر اور بعید تر ہیں ۔ان تراجم قرآن میں بعض تراجم فرانسیی ولاطینی زبان سے جب کہ بعض تراجم انگریزی تراجم قرآن سے نقل کیے گیے ہیں ۔اطالوی زبان میں سب سے پہلا ترجمہ ایک مشہور مستشرق اینڈریا اریوابین (Andrea Arrivabene)نے1547ء میں کیا ۔اس کے بعد اٹلی میں تراجم قرآن کا سلسلہ شروع ہوا ۔اطالوی(Italian)زبان میں سب سے بااعتماد ترجمہ قرآن الشیخ عبد الرحٰمن باسکوینی نے کیا ہے ۔یہ پہلا ترجمہ قرآن ہے جو کسی مسلمان نے کیا ہے۔ان ہی کا ترجمہ قرآن وہاں زیادہ مقبول ہورہا ہے ۔الشیخ عبد الرحٰمن باسکوینی نے 1973ء میں اسلام قبول کیا ۔قبول اسلام کے بعد انہوں نے اٹلی میں اسلامک سنٹر کا قیام بھی عمل میں لایا اور وسیع پیمانے پر دعوتی کام کیا ۔انہوں نے اسلام کے مختلف موضوعات پر چالیس کتابیں لکھیں جو کافی مقبول ہوئی ہیں ۔

سید معروف شاہ شیرازی
فی ظلال القرآن کے مترجم اور جید عالم دین سید معروف شاہ شیرازی 15 اپریل 2022 میں خالق حقیقی سے جاملے ۔ہزارہ کے رہنے والے سید معروف شاہ شیرازی دور جدید میں ایک جید عالم دین اور مصنف تھے ۔علمی وتصنیفی میدان میں ان کی وسیع خدمات ہیں ۔انہوں نے کئی کتابیں لکھیں اور کئی اہم عربی کتابوں کو اردو زبان میں منتقل کیا۔فقہ کے بھی ماہر تھے ۔ان کا سب سے اہم کارنامہ ممتاز اور منفرد عربی تفسیر ’’فی ظلال القرآن‘‘ کا اردو ترجمہ ہے ۔عربی تفاسیر میں یہ تفسیر اپنا ایک منفرد مقام رکھتی ہے ۔اس تفسیر کے مصنف سید قطب شہید ہیں ۔ان کا شمار عالم اسلام میں ان چند برگزیدہ شخصیات میں ہوتا ہے جنہوںنے تاریکی ادوار میں روشنی کے چراغ جلائے اور اسلامی نظام زندگی کا مکمل نظریہ عملی طور سے پیش کیا ۔سید قطب نے اس تفسیر میں اسلام کاجامع اور مکمل تصور پیش کیا ہے ۔یہ تفسیر دعوت عمل اور دعوت فکر ہے ۔اس میں تحقیقی ،تجزیاتی ،علمی اور ادبی نکات جابجا موجود ہیں ۔ اسی لیے اس کو متعدد زبانوں میں ترجمہ کیا گیا ہے ۔اردو میں سید معروف شاہ نے ’’فی ظلال القرآن ‘‘ کاچھ ضخیم جلدوں میں ترجمہ کیوں کیا؟ اس کے بارے میں وہ لکھتے ہیں:فی ظلال القرآن میں علمی موشگافیوں اور فقہی باریکیوں سے ہٹ کر قرآن پاک کا اصل مقصد اور دعوتی رنگ میں لکھا گیا ہے ۔اس کے لیے جو زبان استعمال کی گئ ہے وہ سید ہی کا حصہ ہے اور اسے بلاشبہ الہامی زبان کہا جاسکتا ہے ۔یہ اپنے رنگ میں یقینا ایک منفرد تفسیر ہے ۔پورے ذخیرہ تفسیر میں یہ پہلی تفسیر ہے جوقرآن کے اسلوب میں بیان کی گئی ہے۔’’ہندوستان میں اس کا ترجمہ مولانا سید حامد علی نے کیا جو نامکمل رہ گیا لیکن بعد میں اس نامکمل ترجمے کو مسیح الزماں فلاحی نے پایہ تکمیل پہنچایا۔ سید معروف شاہ نے ظلال القرآن کے نام سے ایک ادارے کی بنیاد بھی رکھی تھی اور ظلال القرآن ہی کے نام سے ایک مجلہ بھی جاری کیا تھا۔
اسماء حاجی عبد اللطیف
سیرت نگار اسماء حاجی عبد اللطیف 2 جون 2022ء میں انتقال کرگئیں ۔اسماء حاجی کا تعلق ملیشیا سے ہے ۔وہ ایک معلمہ اور داعیہ ہونے کے ساتھ ساتھ کئی کتابوں کی مصنفہ بھی تھیں ۔انہوں نے ملیشائی زبان میں سیرت پر کام کیا۔سیرت رسول ﷺ پر ان کی کتاب کا نام Naẓam Sīrah Anbiyā ہے ۔یہ کتاب 2015ء میں شائع ہوئی ۔اس میں انہوں نے تفصیل کے ساتھ سیرت کے متعدد پہلوؤں کو خوش اسلوبی کے ساتھ متعارف کروایا ۔یہ نہایت خوش آئند بات ہے کہ عصر حاضر میں مردوں کے ساتھ ساتھ خواتین بھی ایمانی جذبہ اور شوق کے ساتھ سیرت نگاری میں خدمات انجام دےرہی ہیں ۔ہندوستان میں بھی خواتین نے سیرت نگاری کو تحقیق و تصنیف کا موضوع بنایا اور اس تعلق سے کئی اہم کتابیں لکھی گئیں ۔ ہندوستان میں بھوپال کی نے سیرت نگاری کے کام کا آغاز کیا اورآج خواتین اس میدان میں اپنی دلچسپی دکھا رہی ہے۔
مولانا سید جلال الدین عمری
دورِحاضر کے عظیم محقق اور مفکر اسلام مولانا جلال الدین عمری 26 اگست 2022ء کو خالق حقیقی سے جاملے ۔مولانا سید جلال الدین عمری نے زندگی کے لمحات علمی و تحقیقی کاموں اور تحریک اقامت دین کی خدمت میں صرف کیے ۔وہ اسلام کی فکری روایات کے عظیم پاسبان تھے ۔یہ کہنے میں کوئی تامل نہیں کہ مولانا ان چیدہ افراد میں سے ایک تھے جنہوںنے اپنی زندگی کا ایک ایک لمحہ اسلامی فکر کی خدمت کے لیے وقف کر رکھا تھا۔فکر اسلامی کے متعدد پہلوؤں پر انہوں نے نہایت قیمتی اضافہ کیاجو ہمارے لیے مشعل راہ ہے ۔معروف اسکالر وصفی ابو زید نے مولانا کو الرجل القرآني اور صاحب المؤلفات القيمة في العلوم الاسلامیہ قرار دیا۔آپ عالمِ اسلام کی منتخب علمی شخصتیوں میں سے ایک باوقار اور معتبر شخصیت تھے اب ہمارے درمیاں نہیں رہے۔ان کے انتقال سےیقیناً ایک بڑے محسن سے ہم محروم ہوگئے۔انہوں نے جو تربیت کی وہ ہمیشہ ہمارے لیےزاد راہ ثابت ہوگی ۔مولانا کی بات آج تک میرے کانوں میں گونج رہی ہے کہ جب 2018ءمیں انہوں نے مجھے پی۔ایچ- ڈی کرنے کی اجازت دی اور کہا کہ ڈاکٹریٹ مکمل کرنے کے بعد کوئی اداروں میں واپس نہیں لوٹتا ہے اور ہم چاہتے ہیں کہ آپ پھر سے واپس آئیے گا ۔انہوںنے اس وقت یہ بھی کہاکہ تحقیق و تصنیف کے لیے افراد نہیں مل رہے ہیں۔اللہ تعالیٰ ان کی خدمات کو قبول فرمائیے اور ان کا نعم البدل عطا کرے ۔آمین ۔

شیخ عزیر شمس
علم و تحقیق کا ایک معتبر نام ہے آپ مخطوطات اور ماہر ابن تیمیات بھی تھے ۔آپ 15اکتوبر 2022ءمیں مکہ میں انتقال کر گئے ۔آپ بہارکے معروف علمی گھرانے میں پیدا ہوئے ۔آپ کے والد گرامی بھی جامعہ سلفیہ بنارس کے شیخ الحدیث تھے۔آپ نے جامعہ سلفیہ بنارس کے فراغت حاصل کی اور اس کے مدینہ یونیورسٹی سے گریجویشن اور ام القری یونیورسٹی سے ماسٹرس اور پی ایچ ڈی کیا۔اس کے بعد درس وتدریس کا مشغلہ اختیار کہا ۔آپ تحقیق و تصنیف کے بے تاج بادشاہ تھے ۔آپ نے چالیس سے زائد اہم تصنیفات چھوڑیں اور ان میں سے ہر کتاب دلائل سے مزین ہے ۔ آپ نے علامہ ابن تیمہ اور ابن القیم پر سب سے زیادہ تحقیقی کام کیا ہے اور اس کا اندازہ ان کی مندرجہ ذیل تصنیفات سے ہوتا ہے :
۱۔قاعدۃ في الاستحسان، لابن تیمیۃ
۲۔الجامع لسیرۃ شیخ الإسلام ابن تیمیۃ
۳۔جامع المسائل لابن تیمیۃ
۳۔تنبیہ الرجل العاقل، لابن تیمیۃ۔
۴۔جواب الاعتراضات المصریۃ علی الفُتیا الحمویۃ، لابن تیمیۃ
۵۔روضۃ المحبین، لابن القیم۔۔۔
۶۔إغاثۃ اللہفان في مصاید الشیطان، لابن القیم
۷۔شرح العمدۃ، لابن تیمیۃ
۸۔أعلام الموقعین عن رب العالمین لابن القیم
۹۔زاد المعاد في ھدي خیر العباد لابن القیم
۱۰۔مدارج السالکین في منازل السائرین، لابن القیم
ڈاکٹر نجات اللہ صدیقی
معروف اسلامی مفکرڈاکٹر نجات اللہ صدیقی 12 نومبر 2022ءکو امریکہ میں انتقال کر گئے۔ڈاکٹر نجات اللہ صدیقی عالم اسلام کی قدآور علمی شخصیت تھے۔ آپ ایک اعلی اور بلند پایہ اسلامی مفکرکی حیثیت سے جانے جاتے ہیں ۔انہوں نے اسلامی فکر کو نیا رخ دیا۔ ڈاکٹر صدیقی کا سب سے بڑا کارنامہ یہ ہے کہ انہوں نے معاشیات اور اسلامی بینکنگ کو منظم انداز میں متعارف کروایا جو تحریکات اسلامی کے مشن کا ایک اہم جز ہے۔اسلامی اقتصادیات کے میدان میں آپ نے گراں قدر خدمات انجام دیں ۔ڈاکٹر صدیقی نے معاشیات کو اپنے غور وفکراور تحقیق کا موضوع بنایا اور اس میں نمایاں رول ادا کیا۔ اسلامی معاشیات سے متعلق ان کی درجنوں کتابیں اور سو سے زائد مقالات شائع ہوچکے ہیں جن سے اہل علم برابر مستفید ہورہے ہیں ۔اسلامی معاشیات اور اسلامی بینکنگ کی تحقیقات کے اعتراف میں 1982ءمیں عالم اسلام کا سب سے بڑےاعزاز شاہ فیصل ایوارڈ سے نوازا گیا ۔اس کے علاوہ ہندوستان کے ایک تحقیقی ادارہ انسٹی ٹیوٹ آف آبجیکٹیو اسٹڈیز نے انہیں شاہ ولی اللہ ایوارڈ سے نوازا۔ان کے غور و فکر اور تحقیقی کے دوسرے موضوعات بھی ہیں جن میں قرآن ،اجتہاد، تعلیم، تحریکات، ادب اور مقاصد شریعت قابل ذکر ہیں ۔
اللہ تعالی ان کی خدمات کو قبول فرمائیے ۔آمین۔
ڈاکٹر فوزیہ العشماوی
معروف اسکالرڈاکٹرفوزیہ العشماوی21 نومبر2022ء کو 82سال کی عمرمیں انتقال کر گئیں ۔ڈاکٹر العشماوی ایک معروف مصنفہ،مترجمہ،محققہ اور مفکرہ تھیں ۔آپ اکتوبر 1940میں اسکندریہ میں پیدا ہوئیں۔ابتدائی تعلیم کانونٹ اسکول میں حاصل کی اور اس کے بعدانہوں نے مصر کو خیر بادکہہ کر اپنے شوہر کے ساتھ سوئزرلینڈ کا رخ کیا۔العشماوی نے وہاں سماجی علوم میں1972ءمیں جنیوا یونیورسٹی کے کالج آف آرٹس سے گریجویشن اور 1974ءمیں ڈزیٹیشن بعنوان ’’
Prophet Mohammed’s Personality in French Literature
لکھ کرایم ۔اے کی ڈگری حاصل کی اوراسی یونیورسٹی سے1983ءمیں پی -ایچ -ڈی کا مقالہ بعنوان Women in the Work of Naguib Mahfuz لکھا۔آپ جینوا(Geneva) کی یونیورسٹی میں شعبہ عربی زبان واسلامک اسٹڈیذ کی سربراہ رہ چکی ہیں۔نیز ISESCO اور UNESCO کے لیے مترجم اور مشیر کے طور پر بھی کام کیا۔آپ سویٹز رلینڈمیں اقوام متحدہ کی کونسلر اور جینوا میں سعودی عربیہ کی ایمبیسی کی کونسلر برائے تہذیب و ثقافت بھی رہ چکی ہیں ۔نیز آپ نے یورپین مسلم وومن فورم کی صدر کی حیثیت سے بھی کام کیا۔
تصانیف و تراجم
۱۔المرأة في الخطاب القرآني
2-Human Rights in Islam
3- Muslim Voices in Switzerland
4- Comparative Study of Textbooks: The Image of the Other in Seven Mediterranean Countries
۵۔فرانسیسی زبان میں بھی انہوں نے کئی اہم کتابوں کا ترجمہ کیا جن میں سے ایک کتاب سیرت النبی ﷺ پر بھی ہے جس کا نام ہے:
Mohammad, Prophète de Dieu
۶۔اسلام :تاریخ کی نصابی کتابوں میں ’’پر بھی ایک پروجیکٹ تیار کیا۔
ڈاکٹر العشماوی کی ایک اہم کتاب المرأة في الخطاب القرآني ہے ۔یہ کتاب 2020ءمیں الشروق سے شائع ہوئی۔اس کتاب میں ہجرت سے قبل مکہ میں نازل ہونے والی آیات سے لے کر مدینہ منورہ میں نازل ہونے والی آخری آیات تک قرآن مجید میں خواتین کے بارے میں ذکر کیا گیا ہے۔ڈاکٹر العشماوی کا کہنا ہے کہ مکی سورتوں میں عورت مرد کا سایہ تھی، جیسے ’’فرعون کی بیوی ‘‘، ’’موسیٰ کی ماں‘‘، ’’عمران کی عورت‘‘۔یعنی ابتدائی آیات میں بغیر عورت کا نام بتائے ہوئے ہدایت دی گئی ہے یا تذکرہ کیا گیا ہے ۔ جہاں تک مدنی سورتوں کا تعلق ہے تو قرآن نے براہ راست عورتوں کاان کے نام سے مخاطب کیا گیاجیسا کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ’’اے مریم، اپنے رب کی فرماں برداری اور سجدہ کرو۔‘‘ اسی طرح سے اللہ کے رسول ﷺکی ازواج مطہراتؓ کو پہلی بار مخاطب کیا گیا: ’’اے پیغمبر کی عورتو!تم دوسری عورتوں کی طرح نہیں ہیں۔

 

***

 


ہفت روزہ دعوت – شمارہ 28 جنوری تا 14 جنوری 2023