محمد ذکی کرمانی
۶۱۰ء میں جب قرآن کریم کے نزول کا آغاز ہوا تو’’ جزیرۃ العرب‘‘ کے شہر مثلاًمکہ، مدینہ اور دوسرے شہر نما قبیلے جو ریگستانی میدانوں کی مانند نہ تھے سائنسی علوم بالخصوص ، علم طب اور اسٹرانومی میں اس دور کے بازنطینی اور ایرانی شہروں بلکہ اس دور کے ہندوستان کے بھی ہم پلہ تھے۔ یہ بات 2001میں مشہور مورخ جیورج صلیبا نے اپنی تحقیق میں کہی ہے اور ظاہر ہے کہ اس عمومی خیال سے یکسر مختلف ہے جو اس علاقے کو ایک ریگستانی تہذیب کہہ کر علم کے ان میدانوں میں انتہائی غیر ترقی یافتہ گردانتے رہے ہیں۔ مسلم مورخین نے بھی اس بیانیہ کو بعینہ قبول کرلیا ہے اور اس علاقے میں علوم کی ترقی کو اسلام کے کوئی 150سال بعد یونانی علوم سے متعارف ہونے کا نتیجہ قرار دیتے ہیں۔ یہ نہ صرف تحقیقی اعتبار سے غلط ہے بلکہ اس اعتبار سے بھی صحیح نہیں ہے کہ قرآن کریم نے دوران نزول ایسی باتیں کہی تھیں جو اپنے معنی کے اعتبار سے خالصتاً سائنسی نوعیت کی تھیں لیکن قرآن کے شدید مخالف ہونے کے باوجود اہل مکّہ نے ان پر کوئی تنقید نہیں کی تھی ۔ یعنی قرآن کریم کے یہ بیانات بہت زیادہ اجنبی نہ تھے۔ اس کے علاوہ قرآن کریم نے اپنے مخالفین کو فطرت مظاہر کائنات ، فطرت انسانی قرآنی انکشافات ، تاریخ وغیرہ پر غور و فکر کرنے کی نہ صرف تاکید کی تھی بلکہ اسے ایک ایسا روحانی عمل قراردیا تھا جو اسی طرح اہم تھا جس طرح اﷲ کا ذکر اور اس کی متعین شکلیں ۔ مثلاً سورۃ آل عمران میں قرآن نے کہا ’’جو اٹھتے بیٹھتے اور لیٹے ہر حال میں خدا کو یاد کرتے ہیں اور زمین و آسمان کی تخلیق میں غور و فکر کرتے ہیں۔(آیت:۱۹۱)اﷲ کے ر سول کا ایک قول بہت مشہور ہے کہ آپ نے ایک تمنا کا اظہار کرتے ہوئے فرمایا ’’ اللہ مجھے اشیاء کی حقیقت سے آگہی عطا فرما‘‘
گویا ان بیانات نے ایک ایسا ماحول اور فضا پیدا کردی تھی کہ جو بھی قرآن کے قریب ہوتا وہ پہلے سے موجود اور چلے آرہے علوم سے قربت خاص محسوس کرتا۔ صحابہ کرام بھی اسی نوعیت کے سوالات کرنے میں ذرا بھی تکلف کا اظہار نہ کرتے ۔ ایک صحابی نے رسول اﷲ سے یہ سوال کر لیا تھا کہ کائنات کی تخلیق کے بعد ہمارا رب کہاں تھا؟ ایک اور مشہور حدیث جو کھجور کے درختوں میں تخم ریزی سے متعلق ہے آپ کا یہ فرمانا کہ تم ان معاملات میں مجھ سے زیاد ہ جانتے ہو اس انسانی کمزوری کی حوصلہ شکنی کرتا ہے کہ رسول کی عظمت ، اس سے عقیدت اورانتہائی محبت کی بناپر وہ رواج اور طریقے جو پہلے سے چلے آرہے ہوںاور ان کے مثبت نتائج ثابت شدہ ہیں ، ان کے بارے میں بھی رسول اﷲ کی ہدایت کے متمنی ہوں ۔ یعنی اس طرح objectiveحقائق میں وحی کے interventionکی ضرورت سے آپ نے خود ہی انکار کردیا تھا۔ اسی طرح آپ نے یہ بھی فرمایا تھا کہ حکمت چاہے کہیں بھی ہو وہ مومن کی کھوئی ہوئی میراث ہے اسے حاصل کرلینا چاہیے ۔ دوسری اقوام سے حصول علم کی بھی آپ نے حوصلہ افزائی فرمائی تھی۔ اس کے ساتھ ساتھ وحی سے متعلق سوال کرنے اور بلا تکلف نتائج نکالنے اور ان پر عمل پیرا ہونے کی بھی آپ نے خوب ہمت افزائی کی۔ صلاحیتوں اور وسائل کو عوام الناس کی بہتری کے لیے استعمال کرنے اور اس کے نتیجہ میں اجر عظیم کی خوشخبری بھی دی۔
یہ وہ فکری منظرنامہ تھا کہ جب خلافت راشدہ کے دور میں مسلمان بہت تیزی سے دوسری ترقی یافتہ اقوام سے متعارف ہوئے تو ایسا لگا کہ جیسے صلاحیتوں اور علوم وفنون کا لاواپھٹ پڑا ہو۔ حضرت عمرؓ کے دورِ خلافت میں جب حضرت امیر معاویہ شام و عراق کے گورنر تھے تو آپ نے امور سلطنت سے متعلق سریانی میں لکھے ہوئے بعض رسائل کا عربی میں ترجمہ کرایا۔ اسی طرح دورِ فاروقی میں امور سلطنت میں جو اصلاحات ہوئیں اور بعض نئے نئے ادارے قائم ہوئے ان میں دوسری اقوام کے اچھے تجربوں کو اپنانے سے متعلق رسول اﷲ کی ہدایت کے واضح اثرات دیکھے جاسکتے ہیں۔
خلافت راشدہ کے دوران دوسری اقوام کے ساتھ روابط میں تیزی سے اضافہ ہوا اور اس وقت کی بڑی تہذیبوں کے علاقے اسلام کے راست زیر اثر آگئے جس کے نتیجہ میں جہاں فکر اسلامی کی نت نئی جہتیں واضح ہوئیں وہیں دوسری اقوام کے علمی اور سائنسی ذخائر بھی عربوں کے زندہ اور طاقتور ذہن کے سامنے کھل گئے۔ گوکہ خلافت راشدہ کا نصف سے زیادہ زمانہ داخلی مسائل میں سے نمٹنےمیں گذرا لیکن اس میں بھی دوسری اقوام کے فکری اثاثے اور اسلام کے ورلڈویو میں ایک synthesisہوتا رہا جس کے واضح اثرات بنو امیہ کے نسبتاً مُستحکم دور میں آنے شروع ہوگئے۔
خالد بن یزید
سائنس کے مورخین جب عہد اسلامی میں سائنس کے ارتقاء کا تذکرہ کرتے ہیں تو ہجرت مدینہ کے محض 50سال کے خاتمہ پر امیر معاویہ کا پوتا اور یزید کا ایک بیٹا خالد بن یزید ایک بڑے سائنسداں کی حیثیت سے ابھرتا ہے۔
خالد بن یزید کا زمانہ 668سے 709عیسوی کا ہے ۔ یعنی محض کوئی 42سال کی عمر میں وہ ایک معروف الکیمسٹ اور اسٹرانومی میں مہارت رکھتا تھا۔ ایک قابل بھروسہ metallurgistکی حیثیت میں وہ اس وقت معروف ہوا جب اموی خلیفہ عبد الملک نے سکّوں کی ڈھلائی کے لیے اس کی صلاحیتوں اور فنی مہارت کی بنا پر یہ ذمہ داری اس کے سپرد کی اور جسے اس نے بڑی مہارت کے ساتھ ادا کیا تھا۔ الکیمی سے متعلق متعدد تصنیفات خالد بن یزید سے منسوب کی گئی ہیں۔ جو بعد میں لاطینی زبان میں ترجمہ ہو کر مغرب میں متعارف ہوئی۔ لاطینی میں خالد بن یزید کو Calid کے نا م سے جانا جاتا ہے۔ ان کی ایک کتاب The Book of the composition of Alchemyاپنے موضوع پر وہ پہلی عربی کتاب ہے جو لاطینی میں ترجمہ ہوئی۔1144میں بھی Robert Chester نے اس کا ترجمہ کیا تھا۔ الکیمی کے علاوہ خالد کو شاعری میں بھی گہری دلچسپی تھی۔ الکیمی سے متعلق ان کی تصنیفات کی ایک بڑی تعداد پر تحقیق نہیں ہوسکی ہے۔
جابر بن حیّان
جابر بن حیّان کی پیدائش 721عیسوی میں ایران میں ہوئی اور انتقال 815میں۔ ان کی مادری زبان عربی ہی تھی۔ اور علمی تربیت عراق کے شہر کوفہ میں ہوئی تھی۔ جابر ایک Legendry شخصیت ہیں اور انہیں فرما کو لوجی اور جدید کیمسٹری کا فاؤنڈر مانا جاتا ہے ۔ 300سے ایک ہزار تک کی تعداد میں فلسفہ الکیمی اور کمیسٹری پر کا موں کی تعدادبیان کی جاتی ہے۔ جابر بن حیّان کوفہ میں حضرت امام ابو جعفر کے شاگرد رہے تھے جہاں انہوں نے الکیمی (کیمسٹری)اسٹرانومی ، میڈیسن ، فارمیسی اور فلسفہ کا مطالعہ کیا تھا ہارون رشید کے زمانہ میں انہیں دربار کا الکیمسٹ تعینات کردیا گیا تھا۔
جابر کیمسٹری میں متعدد تیزابوں کے ساتھ ، کیمسٹری کے طریقوں مثلاً crystallization، distillation، Evaporation،calcinationاور sublimationکے بھی موجد تھے۔ محطات مشاہدہ، controlledاور accurate recordبھی انہی سے منسوب ہیں۔ دھاتوں کو سونے میں تبدیل کرنے کے شدید ناقد تھے۔ صابن کی تیاری میں بھی جابر کا کردار بہت کامیاب رہا ہے۔ کیمسٹری کو بطور ایک empirical sciencesکے ترقی دینے میں جابر بن حیّان کا کردار نمایا ہے۔ ان کا یہ قول بہت مشہور ہے کہ الکیمی دراصلPhilosophy of Matterہے جبکہ Chemistryمادہ کی سائنس (Science of Matter)ہے۔
الخوارزمی
الخوارزمی نویں صدی کا عظیم ترین سائنسداں ہے۔ ہمارے دور میں اسے الجبرا اور الگورتھم کا بانی تسلیم کیا جاتا ہے۔ اس صدی کی ابتداء میں جب خلیفہ المامون نے بیت الحکمہ میں نئے نئےs projectکا آغاز کیا توایک مسئلہ یہ سامنے آیا کہ بڑے بڑے خاندانوں میں جہاں متعدد بیویاں اور کثیر اولا د پائی جاتی تھی۔ بچوں اور دوسرے متعلقین میں جائیداد کی تقسیم کس طرح ہو ۔ چنانچہ المامون نے ایک سوال پیش کیا جو الخوارزمی کی’الکتاب المختصرفی الحساب الجبرو المقابلہ میں در ج ہے۔ اسی نوعیت کے سوالوں کا حل کرنے کی کوششوں میں ’الجبرا‘ ایجاد ہوا۔ الخوارزمی نے Equationدریافت کیں جن کے مطابقunknown اور knownکے اسکوائر اور number کی relationshipکو manipulateکرتے ہوئے نامعلوم شئے کی قیمت معلوم کی جاسکتی ہے۔ quadratic Equationکو حل کرنے کا سہرا بھی الخوارزمی کے سر جاتاہے۔ الجبرا کا طریقہ گوکہ خوارزمی سے پہلے بھی موجود تھا لیکن اسے بطور ایک disciptionپہلی بار الخوارزمی نے مرتب کیا ۔
الخوارزمی ایک جغرافیہ داں بھی تھا اور کہا جاتا ہے کہ اس نے اس وقت کی معلوم دنیا کا نقشہ بھی تیار کیا تھا۔ الخوارزمی آج بھی دنیا کے بڑے ریاضی دانوں میں شمار ہوتا ہے۔
ابن سہل کے Law of Refraction
اسکولی طلبہ روشنی کے سفر کے مطالعہ کے دوران Law of Refractionاور Laws of Reflection پڑھتے ہوئے دکارت یا Snellکے حوالہ سے متعارف ہوتے ہیں لیکن اب یہ حقیقت سامنے آچکی ہے کہ ان سے کوئی ساڑھے چھ سو سال قبل (940 تا 1000 )ابن سہل نے یہ قوانین دیئے تھے۔ 2002ء میں ایک محقق رشد ی رشید دمشق اور تہران سے ایسے دو صفحات دریافت کرنے میں کامیاب ہوگئے جنہیں جوڑنے سے معلوم ہوا کہ یہ دسویں صدی عیسوی کے بغداد کے رہنے و الے ابن سہل کے ہیں جن میں یونانیوں کے تصور سے اختلاف کرتے ہوئے پہلی بار Law of Refraction دیئے گئے تھے۔ مشہور مورخ اور سائنسداں جم الخلیلی کے مطابق ابن سہل نے جدید سائنس کے ارتقاء میں اہم رول ادا کیا ہے۔ اب یہ Snells Laws نہیں بلکہ Ibne Sahel’s Law of Refraction کہلائے جاتے ہیں۔
ابن الہیشم(965تا 1040)
ابن الہیشم کا مشہور قو ل ہے ’حقیقت کا متلاشی وہ ہے جو اپنے یقین کو شک کی نظر سے دیکھتا،ان سے حاصل کیے گئے نتائج پر سوالات اُٹھاتا اور دلیل و ثبوت کے سامنے سر تسلیم خم کرتا دیتا ہے۔‘‘ دنیا کے صف اوّل کا یہ سائنسدان اپنی کتاب ’’المناظر‘‘ کے لیے مشہور ہے۔ Theory of Visionکے باب میں الہیشم نے یہ ثابت کیا کہ اشیاء سے شعاعیں آتی ہیں اور آنکھوں کو دکھائی دیتی ہیں۔ Objectسے نکلنے والی شعاعیں سیدھی اور radial ہوتی ہے ہیں۔ Theory of vision کو mathematicsکی شکل میں پیش کیا ۔Moon illusionیعنی چاند کا Horizonپر بڑا نظر آنا اسی نے اسے نفسیاتی illusionقراردیا۔ اس نے ثابت کیا کہ آسمانی اشیاء سے آنے والی روشنی زمین کی سطح پر مڑ جاتی ہے۔ اس کے خیال میں light is a continuous rayہے۔ الہیشم نے Disperson of light کا تجربہ کیا اور eclips, colours, shadowsاور rainbowsکی تو جیہ کی ۔ الہیشم نے Theory of Perspectiveپیش کی جس کا ارتقاء یورپ میں نشاۃ ثانیہ کے دور میں ہوا۔ الہیشم کی کتاب جب لاطینی میں ترجمہ ہوگئی تو اٹلی کے معروف آرٹسٹوں نے اس کتاب میں موجود Perspectiveکی بحث سے خوب استفادہ کیا جس کے نتیجہ میںوہ three dimensional illusion پیدا کرنے میں کامیاب ہوئے۔ الہیشم بلند پایہ ریاضی داں بھی تھا اور وہ الجبرے کی Quadiratice Equation کا حل نکالنے میں کامیاب ہوا۔ الہیشم ایک ماہر اسٹرانومی بھی تھا اور یونانیوں کی غلطیوں کی نشاندہی کی تھی۔ Scientific Methodکا اصل موجد اب الہیشم ہی کو تسلیم کیا جاتا ہے۔
البیرونی (973تا 1098)
جدید مورخین سائنس نے ۱۱؍ویں صدی کے نصف اول کو البیرونی کا دور کہاہے۔ البیرونی کی شہرت ایک معروف Astronomor اور Mathematicianاور Physicistکے علاوہ ایک بہترین anthropologistکیبھی ہے ۔ ان کی مشہور کتاب The History of India اپنے موضوع پر انتہائی معتبر حوالہ تسلیم کی جاتی ہے۔ Determination of Coordinaties of Citiesکی نام کی کتاب Spherical Geometryپر ایک text book کا درجہ رکھتی ہے۔ البیرونی ایک natural scientistتھے۔ ان کے خیال میں pure thoughtاور reasoningکی بنا پر یونانی اکثر غلط نتائج پر پہنچتے تھے۔ البیرونی نے careful observationاور scientific experimentپر زیادہ توجہ دی۔ انہوں نےs cubic equationاور higher rootsنکالنے کا طریقہ معلوم کیا . trigonometry پر زیادہ زوردیا بہت ترقی دی اور Spherical Geometryکی مدد سے قبلہ کا رخ معلوم کرنے کاطریقہ ایجاد کیا ۔ اپنی مخصوص صلاحیتوں کو بروئے کار لاتے ہوئے وہ Physicsاور Astronomy میں معیاری کام کرسکے۔ اپنی ایک کتاب Masudi Canonمیں پہلی بار heavenly bodiesکے motionاور accelerationمعلوم کرنے کے لیے calculusکے ابتدائی طریقہ کو طے کیا جس کی بدولت Newton’s Laws of Motionکی بنیاد رکھی گئی جو البیرونی کے 600 سال بعد نیوٹن نے اپنی کتاب Principle of Mathematia میں بیان کی ۔ البیرونی خود تو Geocentricity پر یقین رکھتے تھے لیکن ان کے ایک ہم عصر سائنسداں بغداد کے al-Sijzi(950تا 1020)heleocentricity کے قائل تھے۔ البیرونی کا کہنا تھا کہ قرآن سائنسی عمل میں مداخلت نہیں کرتا۔ ان کی اہم ترین دریافت زمین کاcircumference اور اس کے ذریعہ پہاڑوں کی بلندی ناپناتھا۔ یہ کام انہوں نے کوہ ہندوکش کے علاقوں میں کیا تھا۔ البیرونی ایک Geologistبھی تھے اور یہ انہی کا کہنا تھا کہ بر صغیر ایک زمانے میں سمندر تھا۔(باقی آئندہ )
***
***
جب خلافت راشدہ کے دور میں مسلمان بہت تیزی سے دوسری ترقی یافتہ اقوام سے متعارف ہوئے تو ایسا لگا کہ جیسے صلاحیتوں اور علوم وفنون کا لاواپھٹ پڑا ہو۔ حضرت عمرؓ کے دورِ خلافت میں جب حضرت امیر معاویہ شام و عراق کے گورنر تھے تو آپ نے امور سلطنت سے متعلق سریانی میں لکھے ہوئے بعض رسائل کا عربی میں ترجمہ کرایا۔ اسی طرح دورِ فاروقی میں امور سلطنت میں جو اصلاحات ہوئیں اور بعض نئے نئے ادارے قائم ہوئے ان میں دوسری اقوام کے اچھے تجربوں کو اپنانے سے متعلق رسول اﷲ کی ہدایت کے واضح اثرات دیکھے جاسکتے ہیں۔
ہفت روزہ دعوت – شمارہ 12 فروری تا 18 فروری 2023