قسمتوں کے فیصلے 4 جون کو ہوں گے

راجپوتوں کی ناراضگی سے بی جے پی پریشان۔ انڈیا اتحاد کا اعتماد عروج پر

عرفان الٰہی ندوی

کیجریوال نے لگایا یوگی کے مستقبل پر سوالیہ نشان۔تبدیلی کی آہٹ
برسراقتدار جماعت کو ووٹ نہ دینے پر چوکیدار کی پٹائی۔انتہا درجے کی گھٹیا سیاست
شمالی ہند میں عام انتخابات کے پانچ مرحلے مکمل ہونے کے بعد سیاسی منظر نامہ بدلتا ہوا دکھائی دینے لگا ہے۔ انڈیا اتحاد کی حلیف جماعتیں انتخابی ریلیوں میں حکومت پر حملہ آور ہیں۔ حکم راں محاذ دفاعی پوزیشن میں آ گیا ہے۔ پانچویں مرحلے کی تشہیر کے آخری دن وزیر اعظم نریندر مودی اور راہل گاندھی نے دارالحکومت دہلی میں انتخابی ریلیاں کیں اور ایک دوسرے کو تنقید کا نشانہ بنایا۔ اپوزیشن لیڈر راہل گاندھی کا اعتماد عروج پر ہے۔ وہ اپنی ریلیوں میں ببانگ دہل دعویٰ کر رہے ہیں کہ چار جون کے بعد نریندر مودی اس ملک کے وزیراعظم باقی نہیں رہیں گے۔ راہل گاندھی نے کہا کہ وہ یہ بات لکھ کر دینے کے لیے بھی تیار ہیں۔
سیاسی مبصرین کا کہنا ہے کہ وزیر اعظم نریندر مودی بھی سیاست کے منجھے ہوئے کھلاڑی ہیں اتنی اسانی سے میدان چھوڑنے والے نہیں ہیں۔وارنسی میں پرچہ نامزدگی داخل کرنے کے دوران انہوں نے اپنی طاقت کا بھرپور مظاہرہ کیا جس میں این ڈی اے کی تمام حلیف جماعتوں کے لیڈر اور وزرائے اعلی شامل رہے۔ وزیر اعظم اپوزیشن کی تمام جماعتوں کو خاص طور پر کانگریس کو نشانے پر رکھ رہے ہیں لیکن اس کے باوجود ووٹنگ کے دوران عوامی جوش غائب ہے۔ سیاسی تجزیہ نگار اس کی کئی وجوہات بتا رہے ہیں۔ ان کے مطابق عام لوگ ہندو مسلمان کی سیاست سے اوپ چکے ہیں، انتخابی تقاریر میں عوام کے حقیقی مسائل کے بجائے جذباتی موضوعات بھی بیزاری کا سبب ہیں۔ رہی سہی کسر گرمی کی شدت نے پوری کر دی ہے۔ شمالی ہند میں کئی مقامات پر پارہ 48 ڈگری کو چھو چکا ہے۔ ایسی تپتی دھوپ میں ووٹ ڈالنے کی ہمت کرنے کے لیے کسی خاص محرک یا ترغیب کی ضرورت ہوتی ہے جو اس الیکشن میں ندارد ہے۔
شمالی ہند کی سب سے اہم ریاست اتر پردیش میں سیاسی گھمسان جاری ہے۔ انڈیا اتحاد کی جانب سے راہل گاندھی و پرینکا گاندھی کو سماج وادی پارٹی کے سربراہ اکھلیش یادو کا بھر پور ساتھ مل رہا ہے۔ بنگال میں ممتا بنرجی نے بھی انڈیا اتحاد کے تئیں نرمی کا مظاہرہ کیا ہے۔ این ڈی اے کی جانب سے وزیر اعظم مودی کے علاوہ وزیر داخلہ امیت شاہ نے مورچہ سنبھال رکھا ہے۔ امت شاہ کو مائیکرو بوتھ مینجمنٹ کا ماسٹر کہا جاتا ہے۔ وہ لگاتار اس بات کی کوشش کر رہے ہیں کہ ووٹروں کو بوتھ تک کیسے لایا جائے۔ یو پی میں بچے ہوئے انتخابی مراحل کے لیے وہ چھوٹی چھوٹی پارٹیوں کو بھی این ڈی اے کے خیمے میں شامل کروا رہے ہیں۔ جنوادی پارٹی اور مہان دل کی این ڈی اے میں شمولیت اسی سلسلے کی تازہ کڑی ہے۔ تاہم اس بار راجپوت اور ٹھاکر برادری بی جے پی سے کافی ناراض ہے۔ یو پی میں ٹھاکر سیاست کے اہم چہرے راجہ بھیا امیت شاہ سے ملاقات کے بعد بھی این ڈی اے میں شامل نہیں ہوئے۔ انہوں نے اپنی سیاسی پارٹی جن ستا پارٹی کے کارکنوں کو اپنی مرضی سے ووٹ کرنے کی آزادی دی ہے، لیکن پارٹی کے اندرونی ذرائع بتا رہے ہیں کہ راجہ بھیا کا رجحان اکھلیش یادو کی طرف ہے۔ راجہ بھیا کے خاص کارندے ان کے زیر اثر انتخابی حلقوں کوشامبی اور پرتاپ گڑھ میں سماجوادی پارٹی کے امیدواروں کی حمایت کر رہے ہیں۔ مشرقی یو پی کے دوسرے اہم ٹھاکر لیڈر اور کشتی فیڈریشن کے سابق صدر برج بھوشن شرن سنگھ بی جے پی میں ہونے کے باوجود وزیر اعلی یوگی آدتیہ ناتھ کی بلڈوزر پالیسی کی مخالفت کر چکے ہیں۔ عام آدمی پارٹی کے لیڈر اروند کیجریوال نے یہ کہہ کر تہلکہ مچا دیا کہ انتخابات کے دو ماہ بعد یوگی کو یو پی کے وزیر اعلیٰ کے عہدے سے ہٹا دیا جائے گا۔ انہوں نے لکھنو میں اکھلیش یادو کے ساتھ مشترکہ پریس کانفرنس کرتے ہوئے انڈیا اتحاد کی جیت کو یقینی بتایا۔ کیجریوال نے ایک بار پھر دہرایا کہ اگر مودی جیت گئے تو وہ آئندہ سال ستمبر میں امیت شاہ کو وزیر اعظم مقرر کر دیں گے۔
کیجریوال کی سیاسی بیان بازی نے بی جے پی کو چراغ پا کر دیا ہے۔ پارٹی، سواتی مالیوال کے ساتھ مبینہ مار پیٹ کے معاملے میں عآپ لیڈروں کی نظر بندی کر رہی ہے۔ کیجریوال کے معتمد خاص پی اے بیبھو پر دہلی میں سنگین دفعات کے تحت مقدمہ درج ہو چکا ہے اور پولیس نے انہیں گرفتار کر کے جیل بھیج دیا ہے۔ واضح رہے کہ راجیہ سبھا کی رکن پارلیمنٹ سواتی مالیوال نے دلی کے وزیر اعلی کی سرکاری رہائش گاہ میں ان کے ساتھ مار پیٹ کا الزام لگایا ہے۔
پانچویں مرحلے کے انتخابات میں اپوزیشن لیڈر راہل گاندھی رائے بریلی سے، وزیر دفاع راجناتھ سنگھ لکھنو سے اور عمر عبداللہ کشمیر کی بارہ مولہ سیٹ سے اہم امیدوار ہیں۔ ان کی قسمت ای وی ایم مشینوں میں بند ہو چکی ہے۔
دونوں سیاسی محاذوں کی توجہ چھٹے اور ساتویں مرحلے پر مرکوز ہو چکی ہے۔ سیاسی تجزیہ نگاروں کے مطابق پانچ مراحل کے پولنگ پیٹرن نے انڈیا گٹھ بندھن کی امیدوں کو پر لگا دیے ہیں، جبکہ این ڈی اے اپنے مقرر کردہ چار سو پار کے نشان سے کافی پچھڑ چکا ہے۔ اس پر یہ سوال بھی اٹھایا جا رہے ہیں کہ آخر انہیں چار سو سیٹیں کس لیے چاہئیں؟ کس محاذ کو کتنی سیٹیں ملیں گی یہ تو چار جون کو نتیجے آنے کے بعد ہی پتہ چل سکے گا۔ تاہم، سیاسی پنڈت ہوا کا رخ بدلنے کی قیاس آرائی کرنے لگے ہیں۔ سٹا بازار نتائج آنے سے پہلے ہی سرگرم ہو گیا ہے۔ سب سے دلچسپ اعداد و شمار فالو دی سٹا بازار سے سامنے آئے ہیں۔ فالودی سٹا بازار نے مودی کو ڈیڑھ سو سے بھی کم سیٹیں دکھائی ہیں جبکہ انڈیا گٹھ بندھن کو تین سو سے اوپر سیٹیں ملنے کا اندازہ لگایا ہے۔ سوشل میڈیا میں ان اعداد و شمار پر زبر دست بحث چل رہی ہے۔ ایک صارف نے تبصرہ کیا کہ کہیں یہ آنکڑا الٹا نہ پڑ جائے۔ لکھنو کے سینئر صحافی عبیداللہ ناصر کہتے ہیں کہ سٹا بازار میں کروڑوں روپے لگائے جاتے ہیں یہ دھپل نہیں مارتے لیکن اندازہ تو اندازہ ہی ہوتا ہے۔
ایکسز مائی انڈیا کے سیفالوجسٹ پردیپ گپتا نے اپنے ایک انٹرویو میں کہا ہے کہ 2024 کے انتخابات 2014 اور 2019 سے بہت زیادہ مختلف نہیں ہیں اس لیے نتائج بھی الگ نہیں ہو سکتے۔ ان کے مطابق مودی تیسری بار بھی کامیاب ہو سکتے ہیں تبدیلی کا امکان بہت کم ہے۔
یو پی کے ضلع بریلی میں ایک چونکا دینے والا واقعہ پیش آیا ہے جہاں دو ہوم گارڈوں نے ایک دلت چوکیدار کو زمین پر گرا کر لاتوں و گھونسوں سے پیٹ دیا۔ دونوں ہوم گارڈ کہ رہے تھے” فری کا راشن لیتے ہو اور سرکار کو ووٹ بھی نہیں دیتے؟ دونوں ہوم گارڈوں کے خلاف مقدمہ درج ہو گیا ہے، لیکن پٹنے والے چوکیدار ویرندر کا کہنا ہے کہ وہ دلت ہے اس کے باوجود ایس سی ایس ٹی ایک کی دفعات میں مقدمہ درج نہیں ہوا ہے، ایسے میں اسے انصاف کیسے مل سکے گا؟ آپ اندازہ لگا سکتے ہیں کہ انتخابی سیاست کا معیار اتنا گر چکا ہے کہ دو سرکاری ملازم اپنے ہی ساتھی دلت چوکیدار پر کس طریقے سے حملہ آور ہو گئے وہ بھی صرف اس لیے کہ اس نے برسر اقتدار جماعت کو ووٹ کیوں نہیں دیا۔
اسی طرح رائے بریلی میں وزیر داخلہ امیت شاہ کی ریلی میں ایک صحافی کو پیٹ دیا گیا۔ راگھو ترویدی کا قصور صرف اتنا تھا کہ ان کا حلیہ مسلمانوں جیسا تھا مارنے والے انہیں ملا پکار رہے تھے اور وہ ریلی میں آنے والے لوگوں سے پیسے لے کر آنے پر سوال کر رہے تھے۔
تو صاحبو! یہ تھا شمال کا حال۔ آئندہ ہفتہ پھر ملیں گے کچھ تازہ اور دلچسپ احوال کے ساتھ۔ تب تک کے لیے اللہ اللہ خیر سلا
***

 

***

 


ہفت روزہ دعوت – شمارہ 26 مئی تا 1 جون 2024