خدمتِ خلق اور دعوت الی اللہ

برادران وطن کی جسمانی مدد کے ساتھ ساتھ روحانی تعاون بھی اشد ضروری

0

ڈاکٹر ساجد عباسی، حیدرآباد

خدمتِ خلق کی اسلام میں بہت اہمیت ہے۔اللہ تعالیٰ نے جہاں اپنے حقوق سے متعلق احکام دیے ہیں وہیں انسانوں کے حقوق کے بارے میں بھی احکام دیے ہیں۔اہل جہنم کی صفات کو پیش کرتے ہوئے فرمایا گیا کہ وہ نماز نہیں پڑھتے تھے۔اس کے ساتھ ہی یہ بھی فرمایا کہ وہ مسکین کو کھانا نہیں کھلاتے تھے۔ (سورۃ المدثر۴۳، ۴۴) اللہ تعالیٰ کے بے حد و حساب احسانات کا لازمی تقاضا یہ ہے کہ بندے اپنے رب کا شکر ادا کریں۔شکر ادا کرنے کا ایک طریقہ یہ ہے کہ وہ اپنے رب کی نعمتوں کا قلب و لسان سے اعتراف کریں اور اس کی عبادت و اطاعت کریں۔ دوسرا طریقہ یہ ہے کہ انسانوں میں سے جو محتاج، کمزور و بے بس، بے سہارا اور معذور ہوں ان کی ضروریات پوری کرنے میں مدد کریں۔ نماز ایسی عبادت ہے جو اللہ تعالیٰ کا حق ہے وہیں زکوٰۃ ایسی عبادت ہے جس کے ذریعے بندوں کی حاجات کی تکمیل کی جاتی ہے (سورۃ التوبہ ۶۰) خدمتِ خلق اللہ تعالیٰ کے شکر کا عملی اظہار ہے جس میں بندہ اللہ کی نعمتوں کا اعتراف کرتا ہے کہ اس نے اسے اس کی ضروریات سے زیادہ دیا ہے اور اس کو کئی انسانوں سے بہتر حالت میں رکھا ہے۔اس اعتراف اور احساس کے ساتھ وہ اللہ تعالیٰ کا اس طرح شکر ادا کرتا ہے کہ مصیبت زدہ، ضرورت مند اور محتاج بندوں کی مدد کرتا ہے۔ اللہ تعالیٰ تو بے نیاز ہے۔ جس طرح ہم انسانوں کے احسان کا بدلہ احسان کے ذریعے دنیا میں ادا کرتے ہیں اللہ تعالیٰ کے احسانات کے بدلے میں ہم اللہ تعالیٰ کو کچھ دے نہیں سکتے۔ وہ ساری دنیا کو رزق دیتا ہے اور کسی سے لیتا نہیں ہے (سورۃ الذاریات ۵۷، ۵۸) ہم اللہ تعالی کا شکر اس طرح ادا کر سکتے ہیں کہ ہم زبان سے اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کا اعتراف کریں، اس کی عبادات بجا لائیں،اس کے احکام پر عمل کریں اور محروم ومحتاج بندوں کا حق ادا کریں۔اللہ تعالیٰ نے جس امتحان کے لیے انسانوں کو پیدا فرمایا ہے اس کا ایک طریقہ یہ رکھا گیا ہے کہ انسانوں کو ذہنی و جسمانی قوت و توانائی اور معاشی اعتبار سے غیر مساوی بنایا ہے تاکہ وہ ایک دوسرے پر منحصر رہیں۔انسانوں میں سے بعض کو ضرورت سے زیادہ رزق دیا گیا، بعض کو ضرورت کے بقدر اور بعض کو ضرورت سے کم۔ جن کو ضرورت سے زیادہ دیا گیا ہے ان کے لیے شکر کا امتحان یہ ہے کہ وہ زبان سے بھی اللہ کا شکر ادا کریں اور اپنے اموال میں کمزوروں و محتاجوں کا حق ادا کریں۔جن کو ضرورت سے کم دیا گیا ہے ان کے لیے صبر کا امتحان اس طرح سے ہے کہ وہ اللہ کے فیصلوں پر راضی رہیں۔ حلال رزق کمانے کے لیے حتی المقدور محنت کریں اور کمائی کے ناجائز ذرائع اختیار نہ کریں اور اللہ کو چھوڑ کر دوسری ہستیوں کو مدد کے لیے نہ پکاریں۔
ایک اہم سوال یہ ہے کہ اگر کچھ لوگ خدمتِ خلق کے مبارک کام کو فیلڈ میں انجام دے رہے ہوں اور اس میں اپنا مال، وقت اور توانائی لگا رہے ہوں تو کیا خدمتِ خلق کو دعوت الی اللہ کے لیے ممد و معاون بنایا جاسکتا ہے؟
جی ہاں! یہ ایک اہم نکتہ ہے کہ خدمت ِ خلق اور دعوت الی اللہ میں نہایت گہرا تعلق ہے۔ ان دونوں میں جو قدر مشترک ہے وہ یہ ہے کہ ان دونوں فرائض کو ادا کرنے کے لیے درکار صفت انسانوں سے خیر خواہی کا جذبہ ہے۔ کیونکہ یہی وہ جذبہ ہے جو یہ دونوں کام کرواسکتا ہے۔خدمتِ خلق انسانوں کی دنیاوی مصیبت کو دورکرنے کا نام ہے تو دعوت الی اللہ اخروی مصیبت سے نجات دلانے کا نام ہے۔ان دونوں کے مابین تعلق کو اس سوال سے سمجھا جائے کہ ہم ایک مصیبت زدہ کی دنیاوی مصیبت دورکرنے میں تو مستعدی دکھائیں لیکن اسی فرد کی آخرت برباد ہوتے ہوئے دیکھ کر ہم میں داعیانہ تڑپ اور فکر کیوں پیدا نہ ہو؟اگر ہم جان لیں کہ ایک فرد ایک ایسی مصیبت میں گرفتار ہے جس سے اس کو نکالنا ہمارے ایمان کا تقاضا بن جائے وہیں ہم اگر یہ دیکھیں کہ وہ مشرکانہ اعمال میں ملوث ہے اور ہمارے دل میں اس کی اصلاح کا کوئی خیال بھی پیدا نہ ہو۔ ایک خاندان مفلسی کا شکار ہے لیکن اس میں اخلاقی برائیاں پائی جاتی ہیں۔ ہم اس کے پیٹ بھرنے کا تو انتظام کریں لیکن اس خاندان کی اصلاح کرنے کے بارے میں نہ سوچیں۔ایک غیر مسلم بیمار ہو اور اس کے علاج کا تو انتظام کیا جائے لیکن ہمارے دل میں یہ خیال بھی نہ گزرے کہ ہم اس کے سامنے اللہ کا تعارف پیش کریں، زندگی کا مقصد اس کو بتلائیں اور اس پر یہ واضح کریں کہ مرنے کے بعد کیا ہونے والا ہے؟ دنیاوی معاملات میں خیرخواہی برتی جائے اور اخروی خیرخواہی کا سرے سے فقدان ہو! یہ کیسے ممکن ہے؟ یہ رویّہ ظاہر کرتا ہے کہ ہماری خیرخواہی دراصل سچی نہیں ہے۔ہماری خیرخواہی ادھوری ہے جس سے خود ہمارے عقیدۂ آخرت پر سوال اٹھے گا۔ جب ہم کو یہ یقین ہو کہ کفر و شرک کا نتیجہ جہنم ہے تو یہ یقین ہمارے اندر اتنا دعوتی شعور تو پیدا کرے جو ہمیں لوگوں کو جہنم سے بچانے کے لیے حکمت کے ساتھ چند جملے کہنے پر آمادہ کرے۔اس بحث سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ خدمتِ خلق اور دعوت و اصلاح میں گہرا منطقی رشتہ ہے۔
حضرت محمد ﷺ ایسے حساس دل کے مالک تھے کہ مصیبت زدہ لوگوں کی مصیبت دیکھ کر بے چین ہو جاتے اور اپنی جانب سے اس مصیبت کو دورکرنے کی حتی المقدورکوشش فرماتے۔حضرت خدیجہؓ سے نکاح ہونے کے بعد ان کا مال اسی کام میں خرچ ہوتا چلا گیا۔یہاں تک کہ جب نبوت سے سرفراز کیا گیا تو آپ اپنی پہلی وحی کا تجربہ اپنی زوجہ محترمہ حضرت خدیجہؓ کے سامنے پیش کرکے فرمایا کہ مجھے اپنی جان کو خطرہ محسوس ہوتا ہے۔اس پر حضرت خدیجہؓ نے دلاسہ دیا اور کہا ”اللہ آپ کو ہرگز رسوانہ کرے گا۔ آپ صلہ رحمی کرتے ہیں،درماندوں کا بوجھ اٹھاتے ہیں،تہی دست کا بندوبست کرتے ہیں،مہمان نوازی کرتے ہیں اور لوگوں کی مصیبتوں میں مدد کرتے ہیں‘‘۔ حضرت محمد ﷺ نبوت سے قبل اس قدر خدمتِ خلق میں لگے رہتے کہ آپ کے سارے مالی وسائل اس میں خرچ ہو چکے تھے۔آپ کا حساس دل اس بات پر غم زدہ رہتا کہ اس معاشرے میں کمزوروں پر ظلم و ستم جاری تھا۔آپ خلوت میں اس بات پر غور و فکر فرماتے کہ معاشرے میں نانانصافی، غلاموں پر ظلم، جنگ وجدل،ڈاکہ زنی اور قتل وغارت گری کیوں ہو رہی ہے اور یہ کیسے ختم ہو سکتی ہے؟ کائنات کے مقصدِ تخلیق میں غور و فکر کرنے لگتے یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ نے ہدایت کا دروازہ آپ پر کھول دیا اور وحی کی صورت میں آپ کو وہ شاہِ کلید مل جاتی ہے جس میں کائنات سے متعلق سارے سوالوں کا جواب تھا اور اس میں سارے انسانی مسائل کا حل بھی تھا۔ اس لیے کہ جب لوگ اللہ اور یومِ آخرت پر ایمان لائیں گے تو اس میں اخروی کامیابی کے ساتھ ساتھ ایک ایسے معاشرہ کی ضمانت بھی تھی جس میں ظلم کی جگہ پر عدل و انصاف،جرائم کی جگہ پر امن و اطمینان اور خود غرضی کی جگہ باہمی ہمدردی پیدا ہوگی۔ دعوت الی اللہ سے اس انقلاب کا آغاز ہوتا ہے اور بالآخر اس سے ایک فلاحی ریاست وجود میں آتی ہے۔اس سے معلوم ہوا کہ دعوت الی اللہ کا موضوع تو اخروی فلاح کے گرد گھومتا ہے لیکن اس سے دنیا میں ایک ایسا معاشرہ وجود میں آتا ہے جس میں معاشی خوش حالی اور امن وانصاف حاصل ہوگا۔ جب لوگ اپنے آپ کو اللہ کے سامنے جواب دہ سمجھیں گے تو خود بخود معاشرہ سے ظلم،جرائم،ناانصافی اورحق تلفی کے امکانات کم سے کم تر ہوتے چلے جائیں گے۔اللہ کی رضا جوئی میں مال دار لوگ ناداروں پر مال خرچ کریں گے تو معاشی ناہمواری ختم ہوگی۔ لوگ معاشرتی برائیوں سے بچیں گے تو انسانی وسائل تباہی سے بچیں گے مثلاً شراب و جوے سے بچنے کی صورت میں ان کے مال محفوظ رہیں گے۔ صحت اور جان و مال کے نقصانات سے نجات ملے گی۔اس سے معلوم ہوا کہ مجرد خدمتِ خلق انسانی مسائل کا جزوی حل ہوسکتا ہے لیکن دعوت الی اللہ میں انسانی مسائل کا ہمہ گیر حل ہے۔ اس لیے خدمتِ خلق کو اصل مقصد بنانے کے بجائے اس کو دعوت الی اللہ کے اصل مقصد کو پورا کرنے میں ممد ومعاون بنانا چاہیے۔ ہمیں یہ یاد رکھنا چاہیے کہ دعوت الی اللہ یا شہادت علی الناس امتِ مسلمہ کا اصل مقصدِ وجود ہے۔اس مقصد کے حصول میں خدمتِ خلق کو ایک اہم ذریعہ بنانا چاہیے۔ انسانوں کی خدمت کرنے والے دوسروں کے مقابلے میں بہتر پوزیشن میں ہوتے ہیں جن کی بات سنی جاتی ہے۔محتاجوں کے دل میں خادمین کی قدر ونمنزلت ہوتی ہے۔ اگر حکمت و موعظت کے ساتھ دعوت دی جائے تو یہ وقت دعوت کے لیے بہت ساز گار ہوتا ہے۔
نبوت سے قبل حضرت محمد ﷺ کی زندگی خدمتِ خلق سے معمور تھی لیکن جب نبوت سے سرفراز ہوئے تو دعوت الی اللہ آپ کی ترجیحِ اوّل بن گئی۔اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ آپ نے دورِ نبوت میں خدمتِ خلق کا کام چھوڑ دیا تھا۔اول تو یہ ہے کہ نبوت ملنے کے بعد آپؐ کے پاس اتنا مال نہیں بچا تھا کہ اس کو لوگوں پرخرچ کرتے اس لیے اکثر آپؐ متمول صحابہ کو کمزور لوگوں پر خرچ کرنے کے لیے ابھارا کرتے تھے۔ چنانچہ حضرت ابوبکرؓ نے ایسے کئی غلاموں کو آزاد کرنے میں اپنی کثیر رقم خرچ کی تھی جو ایمان لانے کی پاداش میں ظلم و ستم کا شکار بنے تھے۔ اسلامی فتوحات کے بعد جب مالِ غنیمت کا خمس آپؐ کی خدمت میں پیش کیا جاتا تو سارا مال فقرأ و مساکین میں خرچ فرماتے۔ اسلامی ریاست کے سربراہ ہوکر بھی آپؐ نے فقر و فاقہ کی زندگی بسرکی تاکہ آپ کی حیاتِ طیبہ میں ایک فاقہ کش کے لیے بھی نمونہ موجود رہے۔
دعوت الی اللہ کے جذبے سے خالی ہوکر مجرد خدمتِ خلق کرنے کی صورت میں لوگوں کے قلوب میں خدمت کرنے والوں کے لیے چند لمحوں کے لیے عزت و احترام پیدا ہو سکتا ہے یا کسی رفاہی تنظیم کی قدر و منزلت پیدا ہو سکتی ہے لیکن کچھ عرصہ کے بعد ذہنوں سے یہ یادیں محو ہوجاتی ہیں۔ لوگ اتنی سی بات یاد رکھتے ہیں کہ کچھ فرشتہ صفت لوگوں نے ان مدد کی تھی بلکہ ہمارے ملک و معاشرے میں ہمارے غیر مسلم بھائی یہ عقیدہ رکھتے ہیں کہ بھگوان انسان کی شکل میں آکر ان کی مدد کرکے چلا جاتا ہے۔ دعوتی شعور کے ساتھ جب یہ کام کیا جائے تو ایک داعی کے ذہن میں یہ جذبہ کار فرما ہوتا ہے کہ اس خدمت کے ذریعے نہ میری شہرت مطلوب ہے اور نہ اس تنظیم کی جس کے بینر کے تحت میں یہ خدمت کا کام کر رہا ہوں بلکہ وہ چاہتا ہے کہ اس خدمت کے ذریعے لوگوں کے دلوں میں اللہ کی بڑائی قائم ہو۔ نبوت کے آغاز ہی میں سورۃ المدثر میں فرمایا گیا کہ : يَا أَيُّهَا الْمُدَّثِّرُ قُمْ فَأَنذِرْ وَرَبَّكَ فَكَبِّرْ وَثِيَابَكَ فَطَهِّرْ وَالرُّجْزَ فَاهْجُرْ وَلَا تَمْنُن تَسْتَكْثِرُ وَلِرَبِّكَ فَاصْبِرْ اے اوڑھ لپیٹ کر لیٹنے والے، اٹھو اور خبر دار کرو۔ اور اپنے رب کی بڑائی کا اعلان کرو اور اپنے کپڑے پاک رکھو اور ناپاکی سے دور رہو۔ اور احسان نہ کرو زیادہ حاصل کرنے کے لیے۔ اور اپنے ربّ کی خاطر صبر کرو۔ (سورۃ المدثر۱ تا ۷)
ان آیات میں منصبِ رسالت کے دو اہم کام بتلائے گئے ہیں۔ پہلا کام ہے انذار یعنی لوگوں کو اللہ کے تخلیقی منصوبے سے آگاہ کرکے ان کو برے انجام سے خبر دار کرنا۔ دوسرا کام یہ ہے کہ لوگوں کے دلوں سے جھوٹی عظمتوں کے بت ہٹا کر صرف اللہ کی کبریائی راسخ کرنا۔ پھر فرمایا گیا کہ داعی کا باطن اور ظاہر دونوں پاک ہونے چاہئیں۔ انسانیت کی خدمت ہو یا انسانیت کو اللہ کی طرف دعوت دینے کا فریضہ ہو اس کا مقصد دنیوی فوائد کا حصول نہ ہو اور نہ ذاتی شہرت یا بڑائی مقصود ہو۔ عام طور پر جب خدمتِ خلق کا کام کیا جاتا ہے تو خلق کے دل میں خدمت کرنے والے کی عظمت پیدا ہوتی ہے یا کسی تنظیم کی۔ ہونا تو یہ چاہیے کہ اللہ تعالیٰ کی عظمت دل میں پیدا ہو۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ خدمتِ خلق کے موقع پر اللہ کی عظمت کیسے پیدا کی جائے۔ قرآن میں اللہ تعالیٰ نے اہل جنت کی صفت یہ بیان فرمائی کہ وہ محتاجوں اور بھوکوں کو کھانا کھلا کر یہ کہتے ہیں کہ ہم اللہ کی رضا جوئی کی خاطر تم کو کھانا کھلا رہے ہیں اور ہم تم سے نہ تعریف سننا چاہتے ہیں اور نہ تمہارے شکریے کے طالب ہیں۔ وَيُطْعِمُونَ الطَّعَامَ عَلَى حُبِّهِ مِسْكِينًا وَيَتِيمًا وَأَسِيرًا إِنَّمَا نُطْعِمُكُمْ لِوَجْهِ اللَّهِ لَا نُرِيدُ مِنكُمْ جَزَاء وَلَا شُكُورًا (اور اللہ کی محبت میں مسکین اور یتیم اور قیدی کو کھانا کھلاتے ہیں اور ان سے کہتے ہیں کہ ہم تمہیں صرف اللہ کی خاطر کِھلا رہے ہیں، ہم تم سے نہ کوئی بدلہ چاہتے ہیں نہ شکریہ۔ سورۃ الدھر ۸، ۹۔
یعنی ہم اللہ کی توفیق سے تمہاری خدمت کے لیے حاضر ہوئے ہیں لہٰذا تم ہمارا نہیں بلکہ اللہ کا شکر ادا کرو۔ ہماری نہیں بلکہ اللہ کی بڑائی کا اعتراف کرو۔ان آیات میں خدمتِ خلق کرنے والوں کے لیے ایک نہایت ہی عمدہ نصیحت ہے کہ خدمت کے موقع پر اللہ کی ہستی کا تعارف پیش کیا جائے کہ اس کی توفیق سے ہم تمہارے پاس خدمت کے لیے آئے ہیں۔ اگر اللہ تعالیٰ ہمارے دلوں میں تمہارے لیے ہمدردی پیدا نہ کرتا تو ہم تمہارے پاس نہیں آتے۔لہٰذا تم کو چاہیے کہ ہمارا نہیں بلکہ اللہ کا شکر ادا کرو۔ وطن عزیز میں بھی ہمارے غیر مسلم بھائی خدمت کرنے والوں سے کہتے ہیں کہ تم بھگوان کی طرح ہو یا بھگوان ہو۔ ایسا کہنے کے پیچھے ان کا یہ عقیدہ ہے کہ خدا (بھگوان) انسان کی شکل میں زمین پر آکر لوگوں کی حاجات کو پورا کرتا ہے۔ میرا ایک غیر مسلم دوست مجھ سے ایک حادثہ کے بارے میں بتلا رہا تھا کہ ایک مرتبہ وہ اپنی فیملی کے ساتھ کار میں سفر کر رہا تھا کہ اچانک اس کی کار ایک حادثہ کا شکار ہوئی اور وہ کار سے باہر نکل کر بے ہوش ہوگیا۔ وہ مقام سنسان جنگل کا سا تھا۔اس نے کہا کسی نے گاڑی کو دیکھ کر مقامِ حادثہ سے زخمی حالت میں ہم سب کو قریب کے ہاسپٹل پہنچایا۔اس نے کہا کہ جس شخص نے مقامِ حادثہ سے پوری فیملی کو ہاسپٹل پہنچایا اس کا نام کرشنا تھا اور جس ڈاکٹر نے اس کی سرجری کی تھی اتفاق سے اس کا نام بھی کرشنا تھا۔ ان ناموں کی مماثلت سے اس کو یقین ہوگیا کہ کرشن جی نے ہی انسان کے روپ میں آکر اس کو بچایا ہے۔ میں نے کہا کہ بچانے کا کام وہی کرتا ہے جس نے ہم سب کو پیدا کیا اور ہمارے خالق کو انسانی شکل میں آنے کی ضرورت نہیں ہے بلکہ وہ کسی بھی انسان کے دل میں خیال ڈال کر اس سے کام لے لیتا ہے۔ اس دنیا میں تمام کام اسباب و علل سے انجام پاتے ہیں اور تمام اسباب ہمارےخالق کے ہاتھ میں ہوتے ہیں۔پھر میں نے اس کو قرآن کا ترجمہ پڑھنے کے لیے دیا۔
قرآن سے خدمتِ خلق کرنے والوں کو جو رہنمائی ملتی ہے وہ یہ ہے کہ ہم اپنی ذات یا اپنی تنظیم کی بڑائی کے بجائے اللہ کی بڑائی کو پیش کریں کہ مصیبتیں اسی کے اذن سے ہی آتی ہیں اور جو مصیبت بھی آتی ہے اس کے پیچھے ہمارے خالق و مالک کی حکمت پوشیدہ ہوتی ہے اور مصیبیت کے دور کرنے کے سارے اسباب بھی اسی کے ہاتھ میں ہیں۔ جہاں سے بھی انسان کو مدد پہنچتی ہے وہ بھی اسی کے اذن سے پہنچتی ہے۔ بیماری سے شفا بھی اسی کے اذن سے ملتی ہے۔اس لیے حقیقی مشکل کشا ہمار اخالق و مالک ہے اسی لیے ہمیں بندگی اسی کی کرنی چاہیے اور اسی کا شکر ادا کرنا چاہیے اور اس کی ذات میں کسی کو شریک نہیں کرنا چاہیے۔ آسمانی آفت آنے پر جب ریلیف کا کام کیا جائے تو ریلیف ورکرس کو اس طرح کی دعوتی گفتگو کرنی چاہیے۔ مصائب کے مواقع پر دل نرم ہوتے ہیں۔اللہ کی طرف سے مصیبت آنے میں جو حکمتیں کار فرما ہیں وہ بھی ہمیں بیان کرنا چاہیے۔ سیلاب، طوفان، زلزلے اور دیگر تمام آفتیں اس کائنات کے خالق کے اذن سے ہی آتیں ہیں تاکہ لوگوں کے دل نرم ہوں اور وہ اپنے خالق کی طرف پلٹیں (سورۃ الانعام ۴۳) دنیا کی مصیبتیں انسانوں کو آخرت کے بڑے عذاب سے پہلے سنبھلنے اور اپنی اصلاح کرنے کا موقع فراہم کرتی ہیں (سورۃ السجدۃ ۲۱)۔
خدمتِ خلق کو دعوت الی اللہ کے لیے ممد و معاون بنانے کے لیے چند عملی اقدامات درج ذیل ہیں:
۱۔ اخلاص نیت کا اہتمام
خدمتِ خلق کے عمل کے دوران یہ واضح ہونا چاہیے کہ اس کا مقصد اللہ کی رضا کا حصول ہے نہ کہ ذاتی شہرت یا تنظیم کی تشہیر؟ لوگوں کی مدد کرتے ہوئے ان کو اس بات کا احساس دلایا جائے کہ یہ سب اللہ کی توفیق سے ممکن ہوا ہے لہٰذا حقیقی شکر ادا کرنے کا مستحق اللہ ہی ہے۔
۲۔ مصیبت زدگان کے دل نرم ہونے کا فائدہ اٹھانا
مصائب کے مواقع پر انسان کے دل زیادہ نرم ہوتے ہیں اور وہ نصیحت کو قبول کرنے کے لیے زیادہ تیار ہوتے ہیں۔ ایسے مواقع پر لوگوں کو حکمت کے ساتھ اللہ کی عظمت، اس کی ربوبیت اور انسان پر اس کے حقوق کی یاد دہانی کرائی جائے۔ یہ وضاحت کی جائے کہ مصیبتیں عموماً انسان کو اپنی اصلاح کا موقع فراہم کرنے کے لیے آتی ہیں۔
۳۔ اللہ کی حکمت اور عظمت کا ذکر
خدمت کرتے وقت اللہ کی صفات کو بیان کیا جائے، جیسے کہ وہی مشکل کشا ہے، وہی شفا دینے والا ہے اور تمام وسائل کا مالک ہے۔ مصیبتوں میں اللہ کی حکمتوں پر روشنی ڈالیں تاکہ لوگ اس کے قریب ہوں اور اس کی بندگی اختیار کریں۔
۴۔ عملی خدمت کے ذریعے اعتماد پیدا کرنا
مصیبت زدہ افراد کے ساتھ ہمدردی اور ان کی مشکلات میں عملی طور پر مدد کرنے سے داعی کے لیے ان کے دلوں میں جگہ بن جاتی ہے۔ اس اعتماد کے بعد ان کے دل و دماغ کو دعوت الی اللہ کے لیے تیار کرنا زیادہ آسان ہو جاتا ہے۔
۵۔ خدمت کے ساتھ دعوتی مواد فراہم کرنا
مدد فراہم کرتے ہوئے لوگوں کو قرآنی تعلیمات، دعائیں اور حکمت آمیز مواد بھی مہیا کریں۔ مثال کے طور پر بھوکوں کو کھانا کھلاتے وقت اللہ کے فضل اور رزق کی نعمت پر روشنی ڈالیں اور قرآن کے آسان تراجم یا مختصر دعوتی کتابچے تقسیم کریں۔
۶۔ اللہ کا شکر ادا کرنے کی تلقین
خدمت کے دوران یہ وضاحت کریں کہ ہماری مدد اصل میں اللہ کے حکم سے ہے اور ہمیں اللہ کا شکر ادا کرنا چاہیے نہ کہ کسی انسان کو خدائی کا درجہ دینا چاہیے؟ اس طرح لوگوں کے دلوں میں اللہ کی عظمت قائم کی جا سکتی ہے۔
۷۔ رفاہی کاموں کے ذریعے روابط کا قیام
خدمتِ خلق کا عمل دعوت کا دروازہ کھولتا ہے۔ انسانوں کی مدد کے ذریعے ان کے ساتھ تعلق قائم کریں، ان کی مشکلات کو سمجھیں اور مناسب وقت پر ان کے ساتھ اللہ کی توحید اور آخرت کی حقیقت پر بات کریں۔
۸۔ خدمت کو دین کی جامعیت سے جوڑنا
یہ واضح کیا جائے کہ اسلام نہ صرف انسانیت کی خدمت کا حکم دیتا ہے بلکہ روحانی اصلاح اور آخرت کی کامیابی کو بھی ضروری قرار دیتا ہے۔ لوگوں کو اس حقیقت کی طرف متوجہ کریں کہ دنیاوی مشکلات وقتی ہیں جبکہ آخرت کی ناکامی دائمی نقصان ہے۔
۹۔ اجتماعی دعوتی منصوبے
رفاہی تنظیمیں اپنے منصوبوں میں دعوتی حکمت عملی کو شامل کریں۔ خدمت کے ہر پروگرام کے ساتھ دعوتی تقریبات، درس یا سوال و جواب کے سیشنز رکھے جائیں تاکہ مدد حاصل کرنے والے افراد کو اسلام کے بارے میں جاننے کا موقع ملے۔
۱۰۔ دعوت کے لیے بہترین اخلاق کا مظاہرہ
خدمت کرتے وقت بہترین اخلاق اور حسنِ سلوک روا رکھا جائے۔ آپ کے رویے اور عمل سے یہ واضح ہونا چاہیے کہ آپ اللہ کے بندے ہیں جو دوسروں کی خدمت کے ذریعے اس کی خوشنودی حاصل کرنا چاہتے ہیں۔
خدمتِ خلق کو دعوت کے ساتھ جوڑنے کا مطلب یہ ہے کہ انسان کی جسمانی ضروریات پوری کرنے کے ساتھ ساتھ ان کی روحانی اور اخلاقی ضرورت کو بھی پورا کیا جائے۔ خدمت کا مقصد انسانوں کو اللہ کے قریب کرنا اور آخرت کی کامیابی کے راستے پر ڈالنا ہونا چاہیے۔ یہی جذبہ و احساس خدمتِ خلق کو دعوت الی اللہ کے لیے ممد و معاون بناتا ہے۔

 

***

 


ہفت روزہ دعوت – شمارہ 12 جنوری تا 18 جنوری 2024