قیادت کی تلاش! موروثیت سے ملت کا اجتماعی نقصان

جو لوگ سنجیدہ کام کرتے ہیں، لوگ ان کی طرف توجہ نہیں دیتے۔ کسی شخصیت پر انحصار کرنا ناعاقبت اندیشی ہے۔ اجتماعی اور ملی اداروں کو بنیاد بنانا چاہیے اور اپنے خول سے باہر نکل کر وسعتِ افلاک میں پرواز کرنا چاہیے۔

سید محمد زبیر،مارکیٹ بھٹکل

آج ملت کے لیے سب سے اہم چیلنج قیادت کا مسئلہ ہے۔ اس ملک میں مسلمان آزادی سے پہلے جن مسائل کا سامنا کر رہے تھے آج وہی مسائل مزید بدترین صورت میں موجود ہیں۔ ہر نئی صبح ایک نئی آزمائش کی طرف دعوت دے رہی ہے، مگر مسلمانوں کو ان گردابوں سے آخرکار کون نکالے گا؟ مسیحا کی تلاش جاری ہے اور قیادت کا فقدان دکھائی دے رہا ہے۔ مسلمان اس ملک کی سب سے بڑی اقلیت ہیں، مگر مسلمانوں کی کشتی میں کوئی ملاح نظر نہیں آتا جو ان کی کشتی کو پار لگا سکے۔
مسلم پرسنل لا بورڈ تمام مسلمانوں کا نمائندہ ادارہ ہے، مگر اس کے حدود کار محدود ہیں۔ ذمہ داروں کے اثر و رسوخ اور تعلقات کی بنیاد پر اس بورڈ میں نمائندگی حاصل کی جاتی ہے۔ چھوٹے شہروں میں اس کے کئی نمائندے ہوتے ہیں، جبکہ بڑے شہروں میں ایک نمائندہ بھی نہیں ملتا۔ ملت کے اداروں کی بنیاد پر اس میں نمائندگی حاصل نہیں ہوتی۔
جمعیت علماء ہند، ہندوستان کے مسلمانوں کے ایک بڑے طبقے کی نمائندگی کرتی ہے، خاص طور پر شمالی ہندوستان میں سب سے زیادہ متحرک ہے اور مسلمان اپنے مسائل کے حل کے لیے اس سے کافی امیدیں وابستہ رکھتے ہیں۔ جمعیت نے کافی کارہائے نمایاں بھی انجام دیے ہیں اور اس کی سماجی خدمات کا دائرہ بھی کافی وسیع ہے۔ جمعیت نے ملک میں مسلمانوں کے مسائل کے حل، رفاہی اور سماجی خدمات اور جیلوں میں نظر بند سیکڑوں مظلومین کی رہائی کے لیے اہم کردار ادا کیا ہے۔
ماضی میں یہ ہمیشہ کانگریس کی پشت پناہی کرتی آئی تھی مگر ان کے آپس میں اختلافات کی وجہ سے کسی ایک پارٹی کے ساتھ وفاداری نہیں رہی، بلکہ بعض مقامات پر اس نے بی جے پی کی بھی حمایت کی ہے۔ اب یہ دو حصوں میں تقسیم ہو چکی ہے، ایک گروپ کی قیادت چچا مولانا ارشد مدنی اور دوسرے کی بھتیجے مولانا محمود مدنی کر رہے ہیں۔ یہ موروثیت ہے، جس میں قابل افراد کو نظر انداز کیا جاتا ہے اور خاندان کو بنیاد بنایا جاتا ہے۔ ملت میں بڑی تعداد میں قابل افراد موجود ہیں مگر انہیں موقع نہیں دیا جاتا۔ موروثیت میں مفاد پرستی کا زیادہ دخل ہوتا ہے جس کی وجہ سے قابل افراد کو نظر انداز کر دیا جاتا ہے۔
دہلی کے شاہین باغ میں دسمبر کی سخت سردی میں خواتین نے این آر سی اور این پی آر کے خلاف جو دھرنا دیا، جس میں بوڑھی خواتین اور بچے بھی شامل تھے، اس نے یہ ثابت کر دیا کہ ہمارے پاس مردوں کے علاوہ خواتین میں بھی قربانی دینے کا بے پناہ جذبہ موجود ہے۔ انہیں ڈرایا دھمکایا گیا مگر وہ اپنی جانوں کی پرواہ کیے بغیر میدان میں ڈٹی رہیں۔ یہ ایک پرامن احتجاج تھا جسے کافی مقبولیت ملی۔
مقامی سیاست ہو، قومی و ملی سیاست ہو، دینی و تحریکی قیادت کیوں نہ ہو، ہر جگہ کچھ مخصوص چہرے ہی نظر آتے ہیں۔ وہی پرانے چہرے عرصہ دراز سے ذمہ داریوں پر فائز ہیں۔ کوئی نوجوان اسامہ بن زید، مصعب بن عمیر، یا خالد بن ولید کی طرح نظر نہیں آتا۔ نوجوانوں کو نظر انداز کیا جاتا ہے اور وہ ملٹی نیشنل کمپنیوں میں اپنی صلاحیتیں صرف کرتے ہیں۔ یہ طبقہ ملت کے مسائل سے لاتعلق ہے اور انہیں ان مسائل سے کوئی دلچسپی نہیں ہوتی۔ البتہ ان اداروں کے لیے مالی امداد وصول کی جاتی ہے، لیکن ان کی صلاحیتوں سے فائدہ نہیں اٹھایا جاتا نہ ہی ان کے لیے مواقع فراہم کیے جاتے ہیں۔
دارالعلوم دیو بند قدیم اور وقف دارالعلوم مدرسہ مظاہر العلوم سہارنپور وقف اور جدید، تبلیغی جماعت مولانا سعد اور شوری میں منقسم ہے۔ یہ مدارس اور دینی جماعتیں دو حصوں میں تقسیم ہو گئی ہیں۔ اداروں اور جماعتوں کی تقسیم میں موروثیت کا دخل ہے اور یہ سب خاندانی وراثت کی لڑائی ہے جس کا نقصان ملت جھیل رہی ہے۔
تبلیغی جماعت کا سیاست سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ یہ دینی فکر پیدا کرتی ہے اور ان لوگوں کو جو کبھی مسجد نہیں گئے، کبھی نماز نہیں پڑھی، تہجد گزار بنا دیتی ہے۔ جو چرس اور بھنگ پیتے تھے وہ روزہ دار بن گئے، مگر ملی مسائل، حالات اور سیاست سے اسے کوئی دلچسپی نہیں ہے، حالانکہ یہ بھی دین کا حصہ ہے۔
اہل حدیث کی بھی روشن تاریخ ہے۔ وہ قرآن و سنت کو بنیاد بنا کر خالص توحید کی طرف دعوت دیتے ہیں اور بدعات و خرافات کو ختم کرنے میں ان کا بڑا حصہ ہے۔ پہلے وہ عیسائیوں اور پنڈتوں سے مناظرہ کرتے تھے اب وہ مسلمانوں کے درمیان مناظرے کر رہے ہیں۔
جماعت اسلامی ہند اس ملک کی معروف اور منظم تنظیم ہے۔ یہ تنظیم مسلک سے بالاتر ہو کر کام کرتی ہے اور اس میں ہر مسلک کے لوگ شامل ہیں۔ اس کا بنیادی مقصد اقامت دین ہے اور اس کا ایک شورائی نظام ہے جس میں شوریٰ امیر کا انتخاب کرتی ہے۔ اس کا امیر چار سال کی مدت کے لیے ہوتا ہے اور اس میں موروثیت کا کوئی تصور موجود نہیں ہے۔ چار سال کے بعد پھر دوبارہ امیر کا انتخاب ہوتا ہے جس میں تقویٰ، علم و فہم اور قائدانہ صلاحیت کو دیکھا جاتا ہے۔ ان تمام خوبیوں کو دیکھتے ہوئے امیر کا انتخاب کیا جاتا ہے اور اس میں تاحیات کوئی امیر نہیں ہوتا۔ اس وقت امیر جماعت اسلامی ہند سید سعادت اللہ حسینی صاحب ہیں، جو نوجوان ہیں۔
ہمارے پاس ہزاروں رفاہی اور فلاحی ادارے موجود ہیں جو مقامی مسائل حل کرتے ہیں مگر ملت اپنے مسائل کو کیسے حل کرے یہ سمجھ سے بالاتر ہے۔ اس کے لیے جو ملی تنظیمیں ہیں، انہیں ان اداروں کا وزٹ کرنا چاہیے، اس سے ایک اعتماد کی کیفیت پیدا ہوگی اور دوسرے ملی اداروں کو تقویت ملے گی۔ تاج محل، لال قلعہ اور چار مینار دیکھنے کے لیے ہمیں فرصت ہے مگر مستقبل کے بارے میں ہمیں کوئی احساس نہیں ہے۔
جمعیت علماء ہند اور جماعت اسلامی ہند دونوں جماعتیں قابل ذکر ہیں۔ ان کی خدمات اور ہندوستانی مسلمانوں کے لیے ان کے لائحہ عمل کا جائزہ لینا چاہیے۔ کسی شخصیت پر انحصار نہیں کرنا چاہیے۔
ہم اداروں اور جماعتوں پر شخصیات کو ترجیح دیتے ہیں۔ مولانا سید سلمان الحسینی ندوی ہوں یا مولانا سجاد نعمانی ہوں یا کوئی قابل ذکر شخصیت، ان کے پرجوش خطابات سن کر انہیں نجات دہندہ سمجھا جاتا ہے۔
بابری مسجد کی شہادت کے بعد ملّی کونسل قائم ہوئی۔ وقت کے نازک حالات میں ملت اس کی طرف متوجہ ہوئی۔ لوگوں نے دامے درمے سخنے ان کی مدد کی مگر نتیجہ کیا نکلا؟ گرجنے والے جھاگ کی طرح بیٹھ گئے، کیونکہ یہاں بھی شخصیت کو بنیادی اہمیت دی گئی۔
جو لوگ سنجیدہ کام کرتے ہیں لوگ ان کی طرف توجہ نہیں دیتے۔ کسی شخصیت پر انحصار کرنا ناعاقبت اندیشی ہے۔ اجتماعی اور ملی اداروں کو بنیاد بنانا چاہیے اور اپنے خول سے باہر نکل کر وسعتِ افلاک میں پرواز کرنا چاہیے۔
***

 

***

 


ہفت روزہ دعوت – شمارہ 20 اکتوبر تا 26 اکتوبر 2024