خواتین پر مظالم :اسباب اور تدارک

خاندانی نظام کی تباہی ، معاشرتی بگاڑ کا سبب۔ حل اسلامی تعلیمات میں مضمر

ڈاکٹر ساجد عباسی،حیدرآباد

اسلام میں عورتوں کی حفاظت کے لیے ہمہ جہتی اقدامات
کولکاتا میں آرجی کر گورنمنٹ ہاسپٹل کے سیمینارہال میں ۸ اور ۹ اگسٹ کی درمیانی شب ایک خاتون ٹرینی ڈاکٹر پر اس وقت قیامت ٹوٹ پڑی جب اس کی عصمت ریزی کے بعد بہیمانہ قتل کیا گیا ۔یہ بھی کہا جارہا ہے کہ پہلےبری طرح سے زخمی کرکے قتل کیا گیا اور بعد میں عصمت دری ہوئی ۔اس ہاسپٹل کے ساتھ منسلک میڈیکل کالج کے پرنسپل سندیپ گھوش سے بھی پوچھ تاچھ جاری ہے جس کے بارے میں یہ اطلاعات ہیں کہ اس کی سرکردگی میں میڈیکل طالبات اورخواتین کے ساتھ بدسلوکی کی جاتی رہی ہے۔اس واقعہ نے پورے ملک میں غم وغصہ کی لہر پیدا کی جس کی وجہ سے ملک بھر میں ڈاکٹروں نے احتجاج کیا۔ یہ واقعہ اس قدر اہمیت اختیارکرگیا کہ ممتا بنرجی کی حکومت بھی دباؤ میں دکھائی دے رہی ہے ۔اس واقعہ نے پورے ملک کے ضمیر کو جھنجھوڑکر رکھ دیا ہے۔ یہ سوال کیا جارہا ہے کہ ملک کی لڑکیوں اور خواتین پر حملوں میں غیر معمولی طور پر کیوں اضافہ ہوا ہے؟
اعداد وشمار :بھارت میں نیشنل کرائم ریکارڈز بیورو (NCRB)کے مطابق سالانہ ریپ کے ۳۳۰۰۰ کیس درج ہوتے ہیں ۔ اس کے مطابق اس وقت بھارت میں ہرروز ۹۰ ریپ یعنی عصمت دری کے واقعات رونما ہوتے ہیں یعنی ہر۱۵منٹ میں ایک کی شرح سے ریپ کے جرائم پیش آرہے ہیں ۔یہ تو وہ واقعات ہیں جن کی پولیس اسٹیشن میں یف آئی آر ندرج کرائی جاتی ہے ۔اندازہ کیا جاتا ہے کہ اس سے زیادہ ریپ کےوہ واقعات ہیں جو رپورٹ نہیں ہوتے اس لیے کہ لڑکیوں کی عزت ان کے والدین کو عزیز ہوتی ہے۔ وہ سمجھتے ہیں کہ مقدمات کی وجہ سے ان کی بیٹیوں کی مزید بدنامی ہوتی ہے جس سے ان کی شادیوں میں دشواری ہوسکتی ہے۔ریپ کے واقعات کی اتنی کثرت کے باوجود وہی واقعات ملکی سطح پر توجہ کا مرکز بن جاتے ہیں جن میں ریپ کے بعد وحشیانہ طریقے سے کسی لڑکی یا خاتون کوقتل کیا جاتا ہے ۔۱۶دسمبر ۲۰۱۲ءکی شب دہلی میں پیش آنے والا نربھیا کا واقعہ بھی اسی وجہ سے مشہورہوگیا تھا کہ چلتی بس میں اس لڑکی کو ریپ کرنے کے بعد شدید زخمی حالت میں پھینک دیا گیا جس کی چند دنوں کے بعد موت ہوگئی تھی ۔
اسباب :
۱) پورن فلمیں :حالیہ دنوں میں ریپ کے واقعات میں بے حداضافہ کی سب سے اہم وجہ یہ ہے کہ اس وقت فحش (پورن) فلمیں عام ہوگئی ہیں۔یہاں تک کہ اسکول کے بچے اور بچیوں تک ان فحش فلموں کی رسائی بہت آسان ہوچکی ہے۔پرانے وقتوں میں فحش لڑیچرکے ذریعے اورسینماہالوں میں دیکھی جانے والی فلموں کے ذریعے جنسی جذبات کو ابھارا جاتا تھا ۔ اس کے بعد ٹیلی ویژن کا زمانہ آیا جس پر لوگ گھر بیٹھے فلمیں دیکھنے لگے۔اس کے بعد فحش فلموں کا دور آیا جن کولوگ چھپ چھپ کردیکھا کرتے تھے لیکن آج کل انٹرنیٹ کے ذریعے فحش فلمیں بچوں اور بڑوں ہر ایک کے موبائل فون پر آسانی سے دستیاب ہیں ۔تنہائی ہو اورہاتھ میں موبائل ہواور دل میں فحش(پورن) دیکھنے کی نیت ہوتو پھر انسان اس لعنت سے بچ نہیں سکتا ۔پورن دیکھنا ایک اجتماعی لت کی شکل اختیار کرتاجارہا ہے۔ پورن ایک ایسی انڈسٹری بن گئی ہے جس میں اتنا تنوع پیدا کردیا گیا ہے کہ جس کو بھی اس کی لت لگ گئی وہ ہر وقت ھل من مزید کا مطالبہ کرنے لگتا ہے۔علامہ اقبال نے خوب کہا تھا :
بڑھ جاتا ہے جب ذوقِ نظر اپنی حدوں سے
ہوجاتے ہیں افکار پراگندہ و ابتر
پورن فلمیں دیکھنے والوں کو نت نئے فحش مناظران کو ایسے مقام پر پہنچادیتے ہیں جس سے کم درجے پر ان کے اندر شہوانیت پیدانہیں ہوتی ۔وہ اس مقام پر پہنچ جاتے ہیں کہ شہوانی لذت حاصل کرنے کے لیے وہ نت نئے طریقوں کا مطالبہ کرنے لگتے ہیں یہاں تک کہ جنسی تشدد سے ہی ان کو لذت ملنے لگتی ہے ۔اس مقام پر انسان جنسی درندہ بن جاتا ہے ۔اس لیے ہم خبروں میں دیکھ رہے ہیں کہ عصمت دری آج کل محض ایک جنسی عمل نہیں رہا بلکہ ناقابل بیان حدتک وحشیانہ انداز اختیارکرگیا ہے۔ ایسے واقعات بھی منظر عام پر آئے ہیں جہاں شادی کی پہلی رات ہی لڑکیاں جنسی تشدد کا نشانہ بن جاتی ہیں اور اپنی جان گنوادیتی ہیں ۔
۲) ہدایت کا فقدان :یہ اللہ کا شکر ہے کہ اسلام جیسی نعمت انسان کو مقصدِحیات عطاکرتی ہے۔اسلام سب سے پہلے اللہ کا تعارف پیش کرتا ہے اور کائنات میں انسان کی صحیح پوزیشن واضح کرتا ہے۔اسلام انسان کو بتلاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اس کو امتحان کے لیے پیدا فرمایا ہے تاکہ وہ یہ دیکھے کہ کون اپنے خالق (اللہ) کو بغیر دیکھے اس کی نشانیوں کو دیکھ کر اس کو پہچانتا ہے۔امتحان کا دوسرا حصہ یہ ہے کہ اللہ کو بحیثیت خالق پہچاننے کے بعد اس کی اطاعت (بندگی) اختیارکرے ۔اس امتحان کی دنیا کو عارضی بنایا گیا ہے ۔ حقیقی زندگی تو مرنے کے بعد ہوگی جہاں یا تو انسان جنت میں ہوگا یا جہنم میں ۔ایک مسلمان کے ذہن میں اللہ کا یہ تخلیقی منصوبہ واضح ہوتاہے اور اسلام نہایت وضاحت کے ساتھ بیان کرتا ہے کہ کیا حلال ہے اور کیا حرام ہے۔کیا جائز ہے اور کیا ناجائز۔
اللہ تعالیٰ نے قرآن میں تکرار اوروضاحت کے ساتھ فحش کو حرام قراردیاہے : قُلْ إِنَّمَا حَرَّمَ رَبِّيَ الْفَوَاحِشَ مَا ظَهَرَ مِنْهَا وَمَا بَطَنَ ۔ ۔اے محمدؐ، اِن سے کہو کہ میرے رب نے جو چیزیں حرام کی ہیں وہ تو یہ ہیں: بے شرمی(فحش) کے کام خواہ کھلے ہوں یا چھپے۔۔
(سورۃ الاعراف ۳۳)
ایک مسلمان کے لیے فحش سے بچنے کا سب سے بڑا محرک آخرت میں اللہ کی پکڑ اور اس کی سزا ہے۔جبکہ وہ لوگ جو اسلام کی نعمت سے محروم ہیں وہ شدید الجھن کا شکار ہیں کہ کیا جائز ہے اور کیا ناجائز ہے؟ کبیرہ گناہ کیا ہیں اور صغیرہ گناہ کیا ہیں؟نہ ہی ان کو خالق کا پتہ ہے اور نہ اس کے تخلیقی منصوبہ کا علم۔جس اخلاقی حس کو ان کی روح کا حصہ بنایا گیا تھا اس کو انہوں نے خواہشات نفس سے اتنا دبادیا کہ ان کی اخلاقی حس مر چکی ہے(سورۃ الشمس ۱۰) ان کو کچھ پتہ نہیں کہ کیا حلال ہے اور کیا حرام۔نہ ہی ان کے اندر آخرت کی جواب دہی کا احساس ہے جس کے بغیر انسان نہایت غیرذمہ دار بن کر اپنی خواہشات کو پوراکرنے کے لیے دوسروں کی زندگی کو جہنم بنانے لگتا ہے۔اسی لیے وہ درندہ بن کر چندلمحات کی لذت کے لیے ایک معصوم کی جان کو بے دردی سے ختم کردیتا ہے ۔ایسے درندے سماج کے لیے نہایت خطرناک ہیں۔
۳)ہندومذہب:
ہندو مذہبی کتابوں میں فحش کاموں کو ان کے دیوی دیوتاؤوں کی طرف منسوب کیا گیا ہے۔فحش قصوں سے ان کی کتابیں بھری پڑی ہیں ۔ان کے بابا بھی فحش کاموں میں آئے دن پکڑے جاتے ہیں ۔ان کے گرو واضح طور پر اپنے شاگردوں کو یہ نہیں بتاتے کہ زنا واقعی گناہ ہے یا نہیں اس لیے کہ فحش اور روحانیت ان کے نزدیک گڈمڈ ہوچکی ہے۔مثال کے طورپر رادھا اور کرشنا کے بغیر شادی کیے ایک ساتھ رہنے کی مثال کو live in relationship کے لیے جواز بنایا گیا ۔
۴)فیمینزم (Feminism):
لڑکیوں اورخواتین پر حملوں کی ایک اہم وجہ ان کے اندر پائے جانے والے غلط تصورات ہیں ۔آزادی نسواں یعنی feminism کی سوچ لڑکیوں کے اندر یہ احساس پیداکرتی ہے کہ وہ بھی لڑکوں سے کم نہیں ہیں ۔جیسے آزادی لڑکوں کو ہے اسی طرح کی آزادی لڑکیوں کو بھی ملنی چاہیے ۔وہ اپنی مرضی کے کپڑے پہن سکتی ہیں۔وہ تنہا سفرکرسکتی ہیں ۔وہ جہاں اورجب چاہے جاسکتی ہیں ۔اس طرح کی سوچ لڑکیوں کو غیر محفوظ بناکر ان کو درندہ صفت مردوں کی ہوس کا آسانی سے شکار بنادیتی ہے۔ اسلام خواتین کے لیے ایک عظیم قلعہ فراہم کرتا ہے اور خواتین کو کئی حفاظتی پہرے حاصل ہوتے ہیں۔ان کے لیے حجاب اور برقع ایسی نعمت ہے جس کی بدولت مسلم عورتیں غیر مسلم عورتیں کے مقابلے میں بہت زیادہ محفوظ ہوتی ہیں۔اللہ کی اطاعت کی وجہ سے ان کو اللہ تعالیٰ کی بھی حفاظت حاصل ہوتی ہے ۔ آزادی نسواں کی دلدادہ عورتیں تو شوہر کو بھی یہ حق دینے کے لیے تیارنہیں ہیں کہ وہ ان سے جب چاہے جنسی خواہش پوری کرے ۔ایسی عورتوں کے نزدیک ایک آدمی کا اپنی بیوی پر جنسی عمل کے لیے زبردستی کرنا بھی ریپ(Marital rape) ہے۔ایسی عورتیں گھر سے نکلتے وقت شوہر کی اجازت کو ضروری نہیں سمجھتیں۔وہ شوہر کی اطاعت کو بھی ضروری نہیں سمجھتیں ۔وہ شوہر کی مرضی کے برخلاف اپنی مرضی سے ملازمت کرسکتی ہیں تاکہ ان کو معاشی آزادی حاصل رہے۔ایسی عورتوں کی شادیاں اس غیر فطری رویے کو اختیارکرنے کی وجہ سے اکثر طلاق کا شکار ہوجاتی ہیں اور وہ single mother کی حیثیت سے ساری زندگی گزارنے لگتی ہیں ۔ ان کا یہ رویہ خود ان کو معاشرہ میں بہت غیر محفوظ بنادیتا ہے۔
۵)شراب نوشی :نشہ کی حالت میں اخلاقی حس کا نام و نشان بھی باقی نہیں رہتا۔ایک آدمی نشہ کی حالت میں عام حالت کے مقابلے میں انسانی وصف کھوکر نرا حیوان بن جاتا ہے اور اس کے عورتوں پر حملے کے امکانات بہت بڑھ جاتے ہیں ۔مزید یہ کہ نشہ کی حالت میں ایک آدمی معصوم اور نابالغ بچیوں کا بھی شکار کرتا ہے بلکہ حرمت والے رشتوں کا بھی لحاظ نہیں رکھتا ۔
۶)سیاست دانوں اورعدلیہ کی بے حسی : سیاست دانوں کی اکثریت بے راہ روی کا شکار ہوتی ہے اور ان کے دامن جرائم سے داغدار ہوتے ہیں اس لیے وہ ریپ جیسے گھناؤنے جرم کے خود بھی مرتکب ہوتے ہیں اور ریپ کے مجرمین کے لیے نرم گوشہ رکھتے ہیں۔ عدلیہ سے بھی گواہوں اورثبوتوں میں کسر کے نام پر ریپ کے ان مجرمین کو کلین چٹ مل جاتی ہے جو سیاسی اثر ورسوخ رکھتے ہیں جبکہ عام مجرمین کو بھرپور سزائیں سنائی جاتیں ہیں۔بسا اوقات شریر لڑکیاں معصوم لڑکوں اور مردوں پر ریپ کے جھوٹے الزامات لگا کر ان کو پھنساکر ان کے مستقبل اور ان کی عزت سے کھلواڑ کرتیں ہیں اور ان کو بلیک میل کرتی ہیں ۔
تدارک :
اسلام میں خواتین کی حفاظت کے لیے ہمہ جہتی اقدامات Multidimensional measuresکیے گئے ہیں۔اسلام کے نزدیک خاندان کی بڑی اہمیت ہے۔تمام مخلوقات میں دوسرے حیوانات کے مقابلے میں انسانی بچہ بہت کمزور ہوتا ہے۔اس کو صرف چلنا سیکھنے کے لیے سال ڈیڑھ سال لگ جاتا ہے اورتعلیمی مراحل سے گزرکر خودمکتفی ہونے تک کم ازکم ۲۰ سال لگ جاتے ہیں۔اگر ماں باپ دونوں یکسوئی کے ساتھ اپنے بچوں کی پرورش کرنے میں مخلص نہ ہوں تو بچوں پر برا اثر پڑتا ہے۔ ان کی تربیت میں کمی رہ جانے سے وہ اچھے شہر ی بن نہیں سکتے ۔ ان کا وجود معاشرہ کے لیے مضر اور خطرہ بن جاتا ہے۔اس کے لیے ماں باپ کا رشتہ ازدواج میں بندھا رہنا بہت ضروری ہے۔اس رشتہ کے علاوہ ہر ناجائز رشتہ انسانی نسل کی افزائش کے لیے بہت نقصان دہ ثابت ہوتا ہے ۔ایک مرد اور عورت اگر بغیر شادی کیے ساتھ رہنے کا ارادہ کرتے ہوں تو اکثر یہ کوشش ہوتی ہے کہ جنسی تعلقات کے مزے توحاصل کیے جائیں لیکن اولاد کی ذمہ داری سے بری رہیں اور اگر مرضی کے برخلاف استقرارِ حمل ہوجائے تو مرد راہ فرار اختیار کرنے کی کوشش کرتا ہے تاکہ اس ناجائز بچے کی کفالت کی ذمہ داری اس کے سر پر نہ آجائے ۔یہ ایسی خود غرضی ہے کہ انسان لطف تو اٹھائے لیکن ذمہ داری اٹھانے سے بھاگ نکلے ۔اس کے بعد عورت کے لیے دو امکانات باقی رہ جاتے ہیں کہ وہ اسقاطِ حمل کروائے یا اس ناجائز بچے کو اکیلی ۱۸ سال تک پالتی رہے اور ماں کے ساتھ باپ کی بھی ذمہ داری ادا کرتی رہے۔ایسی صورت میں بچہ باپ کی شفقت اورپدرانہ نسبت و تربیت سے محروم رہتا ہےاور اس کی شخصیت غیر متوازن بن جاتی ہے ۔ اکثر ایسے بچے ا پنی تعلیم مکمل نہیں کرپاتے اور منشیات کے عادی ہوجاتے ہیں ۔ایسے بچوں میں مجرمانہ ذہینت پیداہونے لگتی ہے۔قتل کی وارداتیں ایسے ہی بچےبڑے ہوکر انجام دیتے ہیں ۔نام نہاد ترقی یافتہ ممالک میں خاندانی نظام تباہی سے دوچار ہے ۔ ایسے لوگ ملک کی باگ ڈور سنبھالتے ہیں تووہ دنیا کےامن کے لیے خطرہ بن جاتے ہیں ۔ایسے لوگ فحاشی ،زنا ،ہم جنسوں کے ساتھ بدکاری اوراستبدالِ جنس کو فروغ دینے والی ذہنیت کے حامل ہوتے ہیں ۔ایسے لوگ ظلم اور جنگ وجدل کے حامی ہوتے ہیں۔ اسی وجہ سے دنیا میں فساد وفتنہ بڑھتا جارہا ہے۔اس طرح جب خاندان تباہ ہوتے ہیں تو معاشرہ تباہ ہوتا ہےاور ایسا معاشرہ ایسے ملک کو پروان چڑھاتا ہے جو دنیا میں فساد فی ارض کا نقیب بن جاتا ہے۔
اسلام نے سب سے پہلے خاندان کے استحکام کے لیے ایسے معاشرتی احکام دیے ہیں جن سے معاشرہ میں مرد و زن کا اختلاط نہ ہو۔اللہ تعالیٰ نے مرد وزن کے درمیان بہت ہی قوی میلان رکھا ہے۔اس قوی میلان کا مقصدیہ ہے کہ ایک عورت اور مرد کےمابین مضبوط تعلق سے ایک مستحکم خاندان وجود میں آئے ۔فطری طور پر انسانوں میں حیوانات کے مقابلےمیں اس میلان کو بہت ہی زیادہ طاقتور رکھا گیا ہے تاکہ تادم حیات زوجین کے درمیان رشتہ ازدواج باقی رہے جس کی بدولت اگلی نسل کی اچھی طرح افزائش و تربیت ہو۔اگر مرد و زن کے درمیان اس طاقتورفطری جاذبیت کو اخلاقیات کا پابند نہ بنا یا گیا تو ناجائز رشتے قائم ہوں گے۔اس لیے پہلا حکم یہ دیا گیا کہ نظروں کی حفاظت کی جائے ۔اسلام کی خوبصورتی یہ ہے کہ اسلام نے بدنظری کو بھی گناہ ٹھیرایا۔ یہ پہلی دفاعی لائین ہے جو معاشرہ کو تباہی سے بچاتی ہے۔اسلام بدنظری سے بچنے کاخواتین سے پہلےمَردوں کو حکم دیتا ہے (سورۃ النور۳۰، ۳۱)
اگر اس لائین کو پار کیا جائے تو لازماً اگلی چیز جو پیش آتی ہے وہ ہے غیر محرم رشتوں کے درمیان رومانوی انداز کی بات چیت اور ملاقاتیں ۔اگر عورت کو غیر محرم سے بات چیت کی حاجت ہوتو وہ بہت ہی محتاط رویہ اختیار کرے تاکہ کسی عورت سے ایک مرد غلط توقعات نہ رکھنے لگے(سورۃ الاحزاب ۳۲)۔یہ دوسری دفاعی لائین ہے ۔اگر اس حد کو پارکرلیا جائے تو اگلا قدم تنہائی میں ہونے والی ملاقاتیں ہوتی ہیں ۔اس کو بھی اسلام نے سختی سے حرام قراردیا ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ”کوئی شخص کسی عورت کے ساتھ خلوت یعنی تنہائی میں ہوتا ہے تو ان کا تیسرا شیطان ہوتا ہے“۔یہ تیسری دفاعی لائین ہے۔ مردو زن کی آپس میں خلوت کی ملاقاتوں سے اسلام میں اس لیے روکا گیا کہ اس سے معاشرہ میں عورت کا کردار مشتبہ نہ ہو۔ اسی لیے عورت کو تنہا سفر کرنےسے روکا گیا ہے۔اسلام چاہتا ہے کہ عورت ہر طرح کے الزام و اتہام سے پاک رہےاور ان سارے امکانات کو ختم کردیا جائے جن سے اس کی پاک دامنی پر سوالات اٹھائے جائیں ۔اللہ تعالیٰ نے عورت کی عصمت کی حفاظت کے لیے اس کو نکاح سے قبل باپ اور بھائیوں کے حصارمیں رکھا ۔ نکاح کے بعد اس کو شوہر اور بیٹوں کا نیا حصار فراہم کیا ۔اسی بات کو علامہ اقبال نے بہت خوب کہا :
نہ پردہ، نہ تعلیم، نئی ہوکہ پرانی نسوانیتِ زن کا نگہبان ہے فقط مرد
اللہ تعالیٰ چاہتا ہےکہ ایک عورت اپنی عصمت کو قیمتی شے سمجھے اور اس کی حفاظت کرے اوراس کو ہرقسم کے اتہام والزام سے محفوظ رکھے ۔اس تیسری دفاعی لائین کو پارکرنے کے بعد کوئی چیز زنا جیسے عمل سے کسی مرد وعورت کو بچا نہیں سکتی ۔تنہائی کے لمحات میں اس زوردار صنفی میلان پر قابو رکھنا گویا ناممکن ہوجاتا ہے جس کو اللہ تعالیٰ نے ایک مضبوط خاندان کے وجود کے لیے مردو زن کے درمیان پیدافرمایا ۔شیطان جب تین دفاعی لائنوں کو پار کروا دیتا ہے تو اس کا مشن تقریباً پورا ہوجاتا ہے۔اس کے بعد ایک ہلکی سی جنبش ہی کافی ہوجاتی ہے ایسے جوڑے کو زنا کی کھائی میں دھکیل دینے کے لیے ۔ اسی لیے فرمایا گیا : وَلاَ تَقْرَبُواْ الزِّنَى إِنَّهُ كَانَ فَاحِشَةً وَسَاء سَبِيلاً ۔زنا کے قریب نہ پھٹکو، وہ بہت بُرا فعل اور بڑا ہی بُرا راستہ سورۃ (الاسراء۳۲)
اس آیت مبارکہ میں فرمایا گیا ہے کہ زنا کے قریب بھی مت پھٹکو یعنی زنا کے سارے مقدمات سے بچو جو زنا کے لیے راستہ ہموارکرتے ہیں جیسے، بدنظری، رومانوی گفتگو اور خلوت میں ملاقاتیں وغیرہ۔مزید فرمایا گیا کہ یہ فحش اور برا راستہ ہے یعنی اس کا انجام دنیا میں بھی بہت برا ہوتا ہے۔ NCRB کی ۲۰۲۰ء کی رپورٹ کے مطابق بھارت میں ہر دسواں قتل ناجائز تعلقات کے سبب ہوا۔ نظروں سے حفاظت کے احکامات کے ساتھ ہی اسلام نے پردے کے احکامات نازل فرمائے ہیں(سورۃ النور۳۱) اس لیے کہ انسانی معاشرہ میں مرد وزن کے درمیان اختلاط کو مکمل طور پر ختم نہیں کیا جاسکتا ۔ مثلاً حج و عمرہ جیسی عبادات کے مواقع پربھی مردو خواتین طواف و سعی میں بہت قریب ہوجاتے ہیں۔وہاں پر کوئی نہیں چاہتا کہ مقدس و مبارک سفر کی اتنی صعوبتوں اور خرچ کو اور ان سے بڑھ کر ثواب ِکثیر کو انسان ایک نظر بد سے ضائع کروادے اور گناہ سمیٹے۔ مرد وزن کے اختلاط کے باوجود وہاں پر نظروں کی شدت سے حفاظت کی جاتی ہے بالخصوص جب خواتین کے چہرے کھلے رکھے جاتے ہیں۔غالباً یہ اللہ کی طرف سے امتحان ہوتا ہے کہ چہرے بھی کھلے ہوں اور نظر بھی نہ پڑے۔پردے کے احکامات کے سلسلے میں دو مقاصد پیش ِ نظر ہوتے ہیں :
ایک یہ ہے کہ عورت کی زینت و خوبصورتی اور جسمانی خدوخال ظاہر نہ ہوں جس سے کہ مردوں کے خیالات پراگندہ ہوجائیں (سورۃ النور۳۱) دوسری وجہ یہ ہے کہ جن مردوں کے اندر شر پسندی ہو ان کو اگر موقع مل جائے تو وہ خواتین کی عصمت پر حملہ نہ کریں(سورۃ الاحزاب ۵۹) ایک باحجاب خاتون اوردوسری ایسی خاتون جو مختصر اور تنگ لباس پہن کر جسمانی ساخت کو نمایاں کرنے والی ہو ان دونوں میں بلا کا فرق ہوتا ہے۔ایک شہوت پرست شخص جس کے اعصاب پر خواہشِ نفس سوار ہو تو وہ باحجاب عورت کے مقابلے میں بے پردہ عورت کی طرف ہی مائل ہوگا۔ باحجاب خاتون میں اس کے لیے کوئی جاذبیت نہیں رہے گی۔اس طرح حجاب خواتین کو شرپسندوں کے شر سے محفوظ رکھتا ہے۔اس کے بعد اسلام کی اگلی دفاعی لائین ہےکہ زنا کو قابل تعزیر جرم قرار دیا جائے(سورۃ النور۲) آج کل سیکولر معاشرہ میں زنا بالرضا کو قانونی طورپر جائز قرار دیا گیا ہے۔چنانچہ بغیر شادی کے لڑکے اور لڑکیاں ایک ساتھ رہنے کا رواج (live in relationship) اب بڑھنے لگا ہے۔دراصل یہ مرد کی خود غرضی ہے اور لڑکی کا استحصال ہے جس کا ایک لڑکی شکار ہو کر اپنی عزت کو داؤ پر لگا دیتی ہے اور ہر وقت ایک ناجائز بچے کی حاملہ بننے کا خطرہ لے کر زندگی گزارنے لگتی ہے۔جس نے انسان کو بنایا ہے وہی جانتا ہے کہ عورت اور مرد کے درمیان رشتوں کے کیا حدود قائم کیے جائیں۔ أَلَا يَعْلَمُ مَنْ خَلَقَ وَهُوَ اللَّطِيفُ الْخَبِيرُ۔کیا وہی نہ جانے گا جس نے پیدا کیا ہے؟حالانکہ وہ باریک بین اور باخبر ہے۔ (سورۃالملک ۱۴)
ناجائز تعلقات،شوہر اور بیوی کے دلوں میں ایسے شکوک پیدا کرتے ہیں کہ ان کا ذہنی سکون غارت ہوجاتا ہے۔ دولت کی کثرت اور عیش وعشرت کے سارے سامان ہونے کے باوجود بے سکونی ان کے گھرکو جہنم بنادیتی ہے ۔مرد بیوی پر شک کرتا ہے تو بیوی مرد پر شک کرنے لگتی ہے۔ ایک مسلم گھر میں جو باہمی اعتماد اور اطمینان و سکون ہوتا ہے اس کی کوئی قیمت نہیں ہوتی ۔
آج کے دور میں پورن فلمیں دیکھ کر نوجوان اپنی نوجوانی کی عمر میں ہی نا مردی کا شکار ہو رہے ہیں۔دراصل ان فلموں کو دیکھنے سے ان کی جنسی توقعات اتنی بڑھ جاتی ہیں کہ وہ عام شکل و صورت اور خدوخال رکھنے والی بیویوں سے نارمل ازدواجی تعلقات قائم کرنے کے قابل نہیں رہتے۔ یہ اللہ کی طرف سے فحش فلموں کو دیکھنے والوں کے لیے ایسی سزا ہے جو ان کو اس دنیا میں دی جاتی ہے۔جنسی مسائل کو حل کرنے والے مصلحین بے شمار تجربات کے بعد تھک ہار کر وہی حل پیش کر رہے ہیں جو فی الواقع اسلام پیش کرتا ہے۔حل یہ پیش کیا جاتا ہے کہ جو لوگ پورن فلمیں دیکھ کر اپنی بیویوں کے لیے نااہل بن جاتے ہیں وہ فوری طور پر ان فلموں سے مکمل اجتناب کریں تاکہ ان کا ذہن نارمل حالت میں آجائے۔
ان حالات میں اسلام کی تعلیمات بہت بڑی نعمت محسوس ہوتی ہیں۔اسلام مردو زن کے اختلاط پر جتنی پابندیاں عائد کرتا ہے کہ اسی قدر ازدواجی زندگی کو پر لطف بنا دیتا ہے ۔ اللہ تعالیٰ کا ارشادہے: مَنْ عَمِلَ صَالِحًا مِّن ذَكَرٍ أَوْ أُنثَى وَهُوَ مُؤْمِنٌ فَلَنُحْيِيَنَّهُ حَيَاةً طَيِّبَةً وَلَنَجْزِيَنَّهُمْ أَجْرَهُم بِأَحْسَنِ مَا كَانُواْ يَعْمَلُونَ۔جو شخص بھی نیک عمل کرے گا خواہ وہ مرد ہو یا عورت، بشرطیکہ ہو وہ مومن، اسے ہم دنیا میں پاکیزہ زندگی بسر کرائیں گےاور آخرت میں ایسے لوگوں کو ان کے اجر ان کے بہترین اعمال کے مطابق بخشیں گے۔ (سورۃ النحل ۹۷)

 

***

 آج کے دور میں پورن فلمیں دیکھ کر نوجوان اپنی نوجوانی کی عمر میں ہی نا مردی کا شکار ہو رہے ہیں۔دراصل ان فلموں کو دیکھنے سے ان کی جنسی توقعات اتنی بڑھ جاتی ہیں کہ وہ عام شکل و صورت اور خدوخال رکھنے والی بیویوں سے نارمل ازدواجی تعلقات قائم کرنے کے قابل نہیں رہتے۔ یہ اللہ کی طرف سے فحش فلموں کو دیکھنے والوں کے لیے ایسی سزا ہے جو ان کو اس دنیا میں دی جاتی ہے۔جنسی مسائل کو حل کرنے والے مصلحین بے شمار تجربات کے بعد تھک ہار کر وہی حل پیش کر رہے ہیں جو فی الواقع اسلام پیش کرتا ہے۔حل یہ پیش کیا جاتا ہے کہ جو لوگ پورن فلمیں دیکھ کر اپنی بیویوں کے لیے نااہل بن جاتے ہیں وہ فوری طور پر ان فلموں سے مکمل اجتناب کریں تاکہ ان کا ذہن نارمل حالت میں آجائے۔


ہفت روزہ دعوت – شمارہ 08 ستمبر تا 14 ستمبر 2024