خواتین میں تحریک اسلامی: نئی ضرورتیں نئی جہتیں

مختلف میدانوں میں عورتوں کی شمولیت اور حرکیاتی رول میں اضافہ

رحمت النساء
محترم ذمہ داران جماعت، ارکان جماعت، اس عظیم تحریک کے پیارے بھائیو اور بہنو!

خواتین کے لیے بہت جلد ہندی میں ’’آبھا‘‘ کے نام سے ای۔ میگزین اور انگریزی و اردو میں2 قرآن اکاڈمیوں کے آغاز کا اعلان
میرے لیے یہ ایک بڑی ذمہ داری ہے کہ میں آپ کے سامنے ’’خواتین میں تحریکی اسلامی: نئی ضرورتیں نئی جہتیں‘‘ کے موضوع پر گفتگو کروں۔ اللہ تعالیٰ مجھے اس بات کو واضح انداز میں بیان کرنے کی توفیق دے جو ضروری اور متعلقہ ہو اور ہم سب کو سمجھنے کی صلاحیت دے تاکہ ہم اس پر عمل کر سکیں۔
کل قیم جماعت کی پیش کردہ رپورٹ میں آپ نے نوٹ کیا ہوگا کہ تحریک کی تاریخ کے پہلے سات دہائیوں کے مقابلے میں گزشتہ دہائی میں تحریک میں خواتین کی شمولیت میں نمایاں بہتری آئی ہے۔ ارکان کے پچھلے اجتماع کے مقابلے میں اب ہم اسٹیج پر، تنظیمی کمیٹیوں میں اور والنٹیروں کے طور پر خواتین کو کئی گنا زیادہ تعداد میں دیکھتے ہیں۔صرف تعداد ہی نہیں بلکہ تناسب میں بھی اضافہ ہوا ہے اور کردار کی نوعیت بھی بہتر ہوئی ہے۔ آئیے، دیکھتے ہیں کہ ہماری خواتین کس طرح اپنا تعاون دے رہی ہیں اور ملک کے مختلف حصوں میں مختلف میدانوں میں فعال رول ادا کر رہی ہیں۔
اگرچہ تحریک کے آغاز سے ہی خواتین کو تحریک میں شامل کرنے کی کوششیں کی گئیں لیکن ملت کی حالت کے سبب رفتار بہت سست تھی، تاہم گزشتہ کچھ سالوں میں مسلم خواتین کی موجودگی اور مختلف شعبوں میں شمولیت میں انقلابی ترقی ہوئی ہے اور اس کے پیچھے تین وجوہات ہیں:
1- مسلم لڑکیوں کو اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کے زیادہ مواقع مل رہے ہیں۔
2- شاہین باغ تحریک
3- کووِڈ کا دور جس نے نئے میڈیا کے ذرائع اور آن لائن سماجی تعلقات کو مزید مقبول بنایا۔
ان تمام شعبوں میں ہماری خواتین اور لڑکیاں یعنی جو جماعت اسلامی سے وابستہ ہیں اور ہمارے خاندانوں اور اداروں سے آئی ہیں، انہوں نے ابتدائی طور پر ہمارے بصیرت رکھنے والے قائدین کی کوششوں کے باعث کمیونٹی کی دیگر خواتین اور لڑکیوں کے مقابلے میں کہیں زیادہ ترقی کی ہے۔ خواتین کی سماجی اور سیاسی سرگرمیوں کی حمایت میں تیار کیا گیا لٹریچر اور ہمارے علماء و قائدین کے خطابات نے ہماری خواتین کے لیے راہیں ہموار کیں کہ وہ اندرونی و بیرونی الزامات اور رکاوٹوں کے باوجود بغیر کسی احساسِ کمتری کے آگے بڑھ سکیں۔
ہمیں ان خواتین کے رول کا بھی اعتراف کرنا اور ان کے لیے دعا کرنا چاہیے جنہوں نے ہمارے معاشرے میں تبدیلیاں لائیں اور تحریک کا پیغام دور دور تک پہنچانے میں پیش قدمی کی نیز زیادہ سے زیادہ خواتین کو اس عظیم تحریک سے جوڑنے میں کامیاب رہیں۔ یہ سب وہ اس لیے کر پائیں کیونکہ انہوں نے اندرونی و بیرونی رکاوٹوں سے نبرد آزما ہو کر ایک ایک کرکے ان کو عبور کیا۔
جب ہم اس دور میں خواتین کی ترقی کے بارے میں سوچتے ہیں تو سب سے پہلے جو بات میرے ذہن میں آتی ہے وہ دو قومی مہمات ہیں جنہیں ہم کامیابی سے منظم کرنے میں کامیاب ہوئے۔ دونوں مہمات نے اسلام کے حق میں نئے بیانیے قائم کرنے میں مدد کی۔ "مضبوط خاندان، مضبوط سماج” کے عنوان سے فروری 2021 میں ہونے والی مہم کے ذریعے ہم نے ملک بھر سے 2635 نئی باصلاحیت خواتین کی نشان دہی کی۔ اسی طرح "اخلاقیات ہی آزادی ہیں” کے عنوان سے ستمبر میں منظم کی جانے والی مہم کو ایک ضروری پہل کے طور پر وسیع پیمانے پر پذیرائی ملی اور دیگر کامیابیوں کے علاوہ ہم نے 6308 نئی باصلاحیت خواتین کی نشان دہی کی۔ ان مہمات اور دیگر باقاعدہ پروگراموں کے ذریعے ہم نے ہزاروں خاتون مقررین تیار کیے۔
اس دوران ایک اور بڑا قدم اس وقت اٹھایا گیا جب دو ای میگزینون کا آغاز کیا گیا، ایک اردو میں "ہادیہ” اور دوسرا انگریزی میں "عورا” کے نام سے۔ یہ رسالے تحریک کا پیغام پھیلانے کا ایک ذریعہ بننے کے ساتھ ساتھ اسلاموفوبک بیانیوں اور خاص طور پر مسلم خواتین سے متعلق بیانیوں کے خلاف جوابی بیانیے تشکیل دینے میں مددگار ثابت ہوئے ہیں۔ ان رسالوں نے نئے لکھنے والوں کی نشان دہی کرنے میں بھی اہم کردار ادا کیا ہے۔ ’عورا‘ کے ذریعے 225 انگریزی لکھنے والوں کی نشان دہی کی گئی اور ’ہادیہ‘ کے ذریعے 190 اردو لکھنے والوں اور بیس شعراء کی نشان دہی کی گئی۔ باقاعدہ تربیتوں اور خیالات کے تبادلے کی بدولت وہ اب اس قابل ہوگئی ہیں کہ جماعت اسلامی ہند کی دیگر مطبوعات میں بھی حصہ لے سکیں۔ آج کل ہم دیکھتے ہیں کہ ان کے کئی مضامین مرکزی ذرائع ابلاغ میں بھی شائع ہو رہے ہیں۔
ہمارے ایچ آر ڈی ڈیپارٹمنٹ کی منصوبہ بند کوششوں کی بدولت مختلف ورکشاپس کا انعقاد کیا گیا ہے تاکہ ہماری خواتین کارکنوں کی مہارتوں کو نکھارا جائے اور ان کی صلاحیتوں کو مختلف شعبوں میں استعمال کیا جا سکے۔ اب ہم دیکھتے ہیں کہ ہماری خواتین مختلف شعبوں میں جیسے کہ کاروباری سرگرمیاں، خدمت خلق، مشاورت وغیرہ میں مختلف این جی اوز اور دیگر پلیٹ فارموں کے ذریعے عام سماج میں، حتیٰ کہ خصوصی توجہ کے متقاضی اور ترقی پذیر حلقوں میں بھی فعال طور پر حصہ لے رہی ہیں۔ ہر زون میں اب ہماری ایسی خواتین موجود ہیں جو مین اسٹریم میڈیا کو بلا جھجھک خطاب کر سکتی ہیں۔
مسلم پیشہ ور خواتین پر مرکوز کوششوں کی بدولت مختلف علاقوں میں ان کے لیے پلیٹ فارمس تشکیل پائے، جس سے انہیں باقاعدہ رابطوں کے ذریعے اپنی صلاحیتوں اور مہارتوں کو ہمارے تحریکی مقاصد کو پوار کرنےکے لیے بروئے کار لانے میں مدد مل رہی ہے۔ شعبہ خواتین کی طرف سے این ایف جی آئی او کے قیام کی ابتداء اب باصلاحیت لڑکیوں کی نشان دہی اور انہیں قومی سطح پر متعارف کرانے اور انہیں خواتین کی مستقبل کی قیادت کے لیے بااختیار بنانے کے عمل میں تبدیل ہو چکی ہے۔
میں یہ اعلان کرتے ہوئے بھی بہت خوشی محسوس کرتی ہوں کہ ہم بہت جلد ایک اور ای-میگزین شروع کرنے جا رہے ہیں جو ہندی میں "آبھا” کے نام سے ہوگا اور ساتھ ہی خواتین کے لیے انگریزی اور اردو میں دو قرآن اکیڈمیز بھی شروع کی جائیں گی۔
یہ انقلابی ترقی عظیم شمار کی جا سکتی ہے۔ اگر ہم تحریک کے آغاز کے نقطۂ نظر اور ہمارے ملک میں عمومی طور پر مسلم خواتین کی موجودہ حالت کا تجزیہ کریں۔ لیکن کیا یہ کافی ہے؟ کیا ہم اپنی تحریک میں خواتین کی ترقی پر مطمئن ہو سکتے ہیں؟ دیگر مسلم تنظیموں کے مقابلے میں ہم یہ بخوبی کہہ سکتے ہیں کہ جماعت اسلامی ہند کی خواتین بہت آگے ہیں اور ان کے پاس معاشرے میں اپنی ذمہ داریاں ادا کرنے کے لیے بہتر مواقع اور جگہیں ہیں لیکن جب ہم ان کا صحابیات، یعنی مسلم خواتین کی پہلی نسل کے ساتھ موازنہ کرتے ہیں تو کیا ہم کہیں قریب بھی نظر آتےہیں؟ اور موجودہ نسل کی ضرورتوں کو مدنظر رکھتے ہوئے، کیا ہم جو کچھ کر رہے ہیں اس پر قانع ہو سکتے ہیں؟ مجھے یقین ہے کہ آپ سب میرے ساتھ کہیں گے: ہمیں ابھی اور بہت کچھ کرنا ہے۔
بھائیو اور بہنو! جو کچھ بھی ہم نے اب تک حاصل کیا ہے وہ ہمارے پیش روؤں کی قربانیوں اور بے لوث جدوجہد کا نتیجہ ہے۔ ہم ان کی تیار کردہ کرسیوں پر بیٹھے ہیں، ان کے صاف کیے ہوئے راستوں پر چل رہے ہیں اور ان کے لگائے گئے منبروں سے بول رہے ہیں۔ اللہ ان کی کوششوں کو اعمال صالحہ کے طور پر قبول فرمائے۔ اب سوال یہ ہے کہ کیا ہم اس دنیا سے جانے سے پہلے یا کسی غیر متوقع وجہ سے غیر فعال ہونے سے پہلے کیا اپنا حصہ ڈالیں گے؟
ہمیں یہ جائزہ لینے کی ضرورت ہے کہ ہمارے سامنے کیا ضروریات اور چیلنجز ہیں۔ مسلمان ہونے کے ناطے ہمارے سامنے داخلی اور خارجی دونوں طرح کے چیلنجز ہیں۔ ہمیں بہت سے مواقع بھی حاصل ہیں۔ آئیے ان کا ایک ایک کر کے تجزیہ کریں اور دیکھیں کہ ہم کس طرح مزید آگے بڑھ سکتے ہیں۔
1- سب سے پہلے، جیسا کہ آپ سب جانتے ہیں، اسلاموفوبیا کو پھیلانے والے جو بیانیے اور مباحثے فضا میں ہیں، ان کا زیادہ تر محور مسلم خواتین، ان کا مقام، ان کے حقوق وغیرہ ہیں۔ شاہین باغ تحریک سے پہلے جو بیانیے تھے وہ مکمل طور پر تبدیل ہو چکے ہیں اور اب مسلم خواتین کو نشانہ بنا کر کمیونٹی کو بدنام کرنے اور ان کی شناخت کے ساتھ ان کی موجودگی کو دبانے کی کوششیں زیادہ ہو گئی ہیں۔ ہمیں اس کے خلاف مواد تیار کرنے کی ضرورت ہے، لیکن یہ کافی نہیں ہے۔ ہمیں نئے میڈیا اور مواصلاتی ذرائع کو زیادہ مؤثر طریقے سے استعمال کرنے کے لیے طاقتور ہونا چاہیے۔ جتنی تیزی سے بیانیے اور مباحثے پھیل رہے ہیں، اتنی تیزی سے ہم ان وسائل کو استعمال کرنا سیکھ کر ان کا مقابلہ نہیں کر رہے ہیں، لہذا مزید خواتین کو سامنے آ کر مثبت انداز میں متبادل بیانیے تیار کرنے اور پھیلانے میں حصہ لینا ہوگا۔ ہماری کمیونٹی میں ابھی بھی بہت سے لوگ سوشل میڈیا پلیٹ فارموں کا استعمال نتیجہ خیز طریقے سے کرنے میں ہچکچاہٹ محسوس کرتے ہیں۔ اس ڈیجیٹل خلیج کو صرف شعوری کوششوں کے ذریعے ہی کم کیا جا سکتا ہے۔
2- دوسرے نمبر پر جنس سے متعلق بیانیے بشمول +LGBTQ نئے روپ اختیار کر چکے ہیں اور اب یہ سیاسی تحریکوں کی شکل میں تبدیل ہو گئے ہیں۔ ہم یہ نہیں کہہ سکتے کہ ان کا اثر ہماری خاندانوں اور اداروں پر نہیں ہے۔ ہمیں اس لہر کا مقابلہ کرنے کے لیے مزید مواد چاہیے، خاص طور پر نئی نسل کی زبان میں۔ میں یہ نہیں کہہ رہی ہوں کہ انہیں انگریزی میں ہونا چاہیے۔ ہر زبان میں پچھلے دس برسوں میں الفاظ کے ذخیرے میں زبردست تبدیلی آئی ہے۔ اس معاملے کا گہرائی سے سائنسی تجزیہ بھی ضروری ہے اور اس کے ساتھ ساتھ آسان توضیحات بھی فراہم کی جانی چاہئیں جو مختصر اور جامع ہوں۔ مزید خواتین اور لڑکیوں کو اس کام میں شامل ہونا چاہیے اور انہیں اس کام کے لیے وقت دینا ضروری ہے۔
3- تیسری بات: رسوم و رواج اور توہمات کی نئی شکلیں۔ یہ ایک دوسری انتہا ہے۔ ابھی تک پوری مسلم کمیونٹی ان رسوم و رواج سے مکمل طور پر باہر نہیں آئی ہے جو قرآن و سنت کی تعلیمات کے خلاف ہیں اور اب نئی شکلیں متعارف کرائی جا رہی ہیں جو خواتین کی ترقی کو روک رہی ہیں۔ بس شادیوں کی مثال لے لیں۔ آسان اور مسنون نکاح تو ہمارے حلقوں میں بھی اکثر لوگوں کی سوچ سے باہر ہے۔ صرف آگاہی اور ادب کی فراہمی ہی نہیں بلکہ اس علاقے میں کچھ جرأت مندانہ قدم اور انضباطی تدابیر کی ضرورت ہے تاکہ اس پر ضائع ہونے والا وقت، پیسہ اور وسائل مزید مفید کاموں میں استعمال کیے جا سکیں۔ ہمیں اپنے آپ کو اور پوری امت کو ان بڑی بڑی شادیوں سے بچانا ہوگا۔ ہمارے پاس بہتر کام کرنے کے لیے بہت کچھ ہے کیونکہ ہم خیر امت ہیں۔ ہمارے مرد و خواتین اور لڑکے و لڑکیاں رول ماڈل بن کر اس حوالے سے پہل کریں۔
4- چوتھی بات: مسلکی شدت پسندی اور وسیع المشربی کی کمی۔ اسلام کی خوبصورتی اس کی کثرت میں ہے۔ جیسا کہ ہم سب جانتے ہیں، جماعت اسلامی ہند کی پالیسی یہ ہے کہ فقہی مسلک سے متعلق مختلف آراء کے سلسلہ میں وسیع النظری سے کام لیا جائے۔ جو کچھ بھی واضح طور پر حرام ہے وہ حرام ہے اور اس تحریک سے جڑے ہر شخص سے توقع کی جاتی ہے کہ وہ اس میں بے شک دوسروں کے لیے ایک نمونہ بنے۔ اور باقی ہم اپنے کارکنان کو اس بات کی آزادی دیتے ہیں کہ وہ کسی بھی معتبر دلیل کی بنیاد پر جس مکتبہ فکر یا رائے کو چاہیں اختیار کریں۔ اس پر تمام افراد کو عملی طور پر عمل کرنا ہوگا۔ یہ بات مردوں اور عورتوں دونوں کے لیے درست ہے، لیکن جب خواتین کے مسائل کی بات آتی ہے تو ہمارے معاشرے میں سختی زیادہ ہوتی ہے۔ نتیجے کے طور پر امت ایک بڑی تعداد میں نوجوان خواتین کو کھو دیتی ہے اور وہ دوسری طرف استعمال ہو رہی ہیں۔ ہمیں یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ اس اسلاموفوبک دور میں جہاں عوامی مقامات پر پہچان، مواقع اور قبولیت کی کمی ہے، ہماری نوجوان نسل جو دنیا بھر میں مختلف آراء اور اجتہادات سے زیادہ متاثر ہو رہی ہے، قدرتی طور پر آسان راستہ اختیار کرے گی اگر آراء کی تعداد زیادہ ہو۔ لہذا امت کے رہنماؤں اور ہم سب کو اپنی باصلاحیت خواتین کو ضائع ہونے سے بچانے کے لیے تھوڑا زیادہ تحمل اور شمولیت کا مظاہرہ کرنا ہوگا۔ ہمیں قرآن و سنت سے کسی بھی معتبر دلیل کے بغیر چیزوں کو حرام قرار دینے میں احتیاط برتنی چاہیے۔ اس لیے اس شعبے میں مزید ادب، آگاہی اور علمی تحقیق کی ضرورت ہے۔
ہمیں ایک اور انتہا سے بھی محتاط رہنا ہے جو ملت کے نوجوانوں میں دیکھنے کو ملتی ہے، یعنی تمام بنیادی آداب اور اصولوں سے مکمل آزادی کا رجحان۔ ہمیں اپنی نوجوان خواتین اور لڑکیوں کو ایسی رجحانات سے بچانے کے لیے حکمت کے ساتھ بر وقت رہنمائی فراہم کرنی ہوگی۔ یہ صرف اس صورت میں ممکن ہے جب ہم انہیں اپنے ساتھ لے کر چلیں، نہ کہ انہیں الگ کر کے؟ ان کے ساتھ مثبت طور پر جڑ کر ہم نوجوانوں کو ان خیالات، رجحانات اور روشوں سے بچا سکتے ہیں جو اسلام کی تعلیمات کے خلاف ہیں۔
5- پانچویں بات: رسائی اور خواتین کے لیے مناسب جگہیں: یہ ایک ناقابل تردید حقیقت ہے کہ اس تحریک نے شروع سے ہی ہماری لڑکیوں کے لیے تعلیمی اداروں میں رسائی کے اقدامات کیے۔ وہ خواتین جو ملک بھر میں تحریک کی قیادت کر رہی ہیں وہ زیادہ تر ان اداروں کی پیداوار ہیں، لیکن وقت کی ضرورت یہ ہے کہ کمیونٹی کی لڑکیوں کو بہتر طور پر پیشہ ورانہ طور پر اہل اساتذہ اور علماء تک رسائی زیادہ ملے۔ انہیں اچھے کتب خانوں اور دیگر تعلیمی مراکز تک بھی زیادہ رسائی کی ضرورت ہے۔
اسی طرح ہماری مساجد میں خواتین کے لیے جگہوں کا دوبارہ جائزہ لیا جانا چاہیے۔ حقیقت میں ہم اپنی مساجد میں خواتین کے لیے مناسب جگہیں فراہم کر کے بہت کچھ کر سکتے ہیں۔ یہ خواتین اور بچوں کے لیے زیادہ آرام دہ اور پرکشش جگہیں ہونی چاہئیں۔ اس پر شعوری طور پر کوششیں ہونی چاہئیں تاکہ یہ جگہیں خواتین کی تربیت اور ان کے empowerment کے لیے استعمال ہو سکیں۔
ایک اور اہم شعبہ کھیلوں اور تفریحات کا ہے۔ ہمیں اسلامی طور پر خواتین اور لڑکیوں کے کھیلوں میں حصہ لینے کے لیے خواتین دوست میدان قائم کرنے کی ضرورت ہے۔ صحت کے کلب، جمناسٹی سنٹرز اور دیگر جسمانی سرگرمی کے مراکز کو منتخب مقامات پر قائم کیا جا سکتا ہے تاکہ زیادہ خواتین کو اپنی طرف متوجہ کیا جا سکے اور ہماری خواتین کی صحت کا خیال رکھا جا سکے۔ ان جگہوں پر ہماری لڑکیوں اور خواتین کے لیے ان کے ثقافتی اور ادبی ہنر دکھانے کے لیے پلیٹ فارمس بنائے جانے چاہئیں کیونکہ باہر کے پلیٹ فارمس ان کے لیے بالکل مناسب نہیں ہیں۔
6- چھٹی بات: ذہنیت اور خاندانی ماحول میں تبدیلی: اس دور میں حتیٰ کہ گھر بیٹھ کر بھی ہماری خواتین تحریک میں بہت کچھ حصہ ڈال سکتی ہیں۔ گھر سے کام کرنے کا رجحان آج کل بہت بڑھ چکا ہے اور ہندوستان کے دیہی علاقوں کی بہت سی خواتین امریکہ یا یورپ میں قائم ملٹی نیشنل کمپنیوں کے لیے کام کر رہی ہیں۔ یہ ایک ایسا موقع ہے جسے ہماری وہ خواتین جو گھر سے باہر کام کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہیں، فائدہ اٹھا سکتی ہیں اور تحریک کو اس کی بہت ضرورت ہے۔ ہم اپنے اداروں سے بہت سی عالمات پیدا کرتے ہیں، لیکن ان میں سے زیادہ تر کا استعمال نہیں ہو پاتا اور شادی کے بعد وہ غائب ہو جاتی ہیں۔ بہت سے ہنر صحیح طریقے سے استعمال نہیں ہو پاتے اور وہ سست ہو جاتے ہیں۔ اس کے لیے گھر میں معاون ماحول کی ضرورت ہے۔ گھر کے کاموں کے لیے ایک مناسب شیڈول ہونا چاہیے جس میں پڑھائی، تحقیق، نئی مہارتوں کا سیکھنا اور اس تحریک کی عظیم مقصد کے لیے کچھ کرنا شامل ہو۔ میری عزیز بہنو! ہمیں اپنے مینو اور پکانے کے انداز پر دوبارہ غور کرنے کی ضرورت ہے۔ جو کچھ ہم اکثر گھنٹوں کی محنت کے بعد تیار کرتے ہیں، وہ زیادہ تر غذائیت سے کم ہوتا ہے۔ کم وسائل میں زیادہ سے زیادہ فائدہ اٹھانا ہماری تربیت کا حصہ ہونا چاہیے، خاص طور پر کھانا تیار کرتے وقت۔ یہی حال لباس اور خریداری کا بھی ہے۔ ہمارے بچوں اور نوجوان لڑکوں کی رہنمائی اور کونسلنگ کی ضرورت ہے تاکہ وہ اس سلسلے میں معاون بن سکیں۔ چونکہ اب زیادہ لڑکیاں اعلیٰ تعلیم حاصل کر رہی ہیں اور ملازمت اختیار کر رہی ہیں، شادی سے پہلے ہی دلہنوں کو اس بات کے لیے تیار کرنا ضروری ہے کہ وہ اسلامی اصولوں کے مطابق خاندانی زندگی میں نئے چیلنجز کو حکیمانہ اور ہمدردانہ انداز میں کس طرح سنبھالیں۔ مجموعی طور پر ہمیں اپنے خاندانوں کو وقت کی درست منصوبہ بندی اور گھریلو کاموں کے انتظام کے بارے میں آگاہ کرنا ہوگا تاکہ خواتین اور لڑکیاں تحریک کی سرگرمیوں میں مزید وقت گزارسکیں اور اپنے کاموں میں زیادہ فعال طور پر حصہ لے سکیں۔
7- ساتویں بات: خواتین کو مرکزی کمیٹیوں میں شامل کرنا: جماعت اسلامی ہند کی پالیسی کے مطابق ہم خواتین کو تمام مرکزی کمیٹیوں اور پلیٹ فارموں بشمول شوریٰ میں شامل کرنا چاہتے ہیں۔ یہ ان کے لیے جماعت کی پالیسیوں کو بہتر طریقے سے سمجھنے، اپنے ہنر کو ترقی دینے اور زیادہ مؤثر طریقے سے اپنا کردار ادا کرنے کے لیے ضروری ہے۔ الحمدللہ، یہ بات بیشتر حلقوں میں ہو رہی ہے اور ہمارے امرائے حلقہ اس کی حوصلہ افزائی کر رہے ہیں۔ یہ ہماری ملت میں ایک معمول بننا چاہیے نہ کہ نایاب بات۔
1- ایک توجیہ یہ پیش کی جاتی ہے کہ کمیٹیوں کے لیے تجربہ کار یا اہل خواتین کو تلاش کرنا مشکل ہے۔ لیکن ہمیں یہ بات سمجھنی ہوگی کہ تجربہ صرف مواقع فراہم کرنے سے آتا ہے۔ تعلیم کے حوالے سے ہماری تحریک کا ایک سنہری تاریخ ہے جہاں بہت سے منصوبے پیشہ ورانہ طور پر اہل افراد کے بغیر بلکہ ان لوگوں کی محنت سے چلائے گئے جو سیکھنے اور کام کرنے کے لیے تیار تھے۔ اس کے علاوہ ہمیں یہ بھی یاد رکھنا چاہیے کہ آج کے دور میں ہمارے پاس تحریک میں زیادہ تعلیم یافتہ اور باصلاحیت خواتین موجود ہیں۔ مسئلہ انہیں پہچاننے کا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ، بیرونِ تحریک سے مزید اہل خواتین کو اپنی طرف متوجہ کرنے کے لیے شعوری کوششیں کی جانی چاہئیں۔
2- ایک اور مسئلہ میٹنگز کے انعقاد میں مشکلات ہو سکتی ہیں۔ اگر صرف مردوں کو شامل کیا جائے تو میٹنگیں کہیں بھی اور کسی بھی وقت ہو سکتی ہیں، لیکن جب خواتین شامل ہوں تو ہمیں کئی باتوں کا خیال رکھنا پڑتا ہے۔ اگر اللہ کے رسول ﷺ اپنے زمانے میں کم وسائل کے باوجود خواتین کو شامل کرتے تھے تو ہمیں بھی کوئی عذر نہیں تراشنا چاہیے بلکہ صرف امکانات پر غور کرنا چاہیے۔ یہ درست ہے کہ ابتدائی طور پر مشکلات پیش آئیں گی لیکن صرف اس میں شامل ہو کر ہمارے مرد اور خواتین سیکھیں گے کہ کیسے آگے بڑھا جائے اور ایک دوسرے کے کام کو مکمل کرتے ہوئے تعاون کیا جائے، جیسا کہ قرآن میں اللہ نے فرمایا ہے:
وَالْمُؤْمِنُونَ وَالْمُؤْمِنَاتُ بَعْضُهُمْ أَوۡيَآءُ بَعۡضٍۢ يَأْمُرُونَ بِٱلْمَعْرُوفِ وَيَنۡهَوْنَ عَنِ ٱلْمُنۡكَرِ وَيُقِيمُونَ ٱلصَّلَوٰةَ وَيُؤۡتُونَ ٱلزَّكَٰوةَ وَيُطِيعُونَ ٱللَهَ وَرَسُولَهُ أُو۟لَـٰٓئِكَ سَيَرْحَمُهُمُ ٱللَّهُ إِنَّ ٱللَّهَ عَزِيزٌۭ حَكِيمٌۭ (التوبہ:71)
ترجمہ: "مؤمن مرد اور مؤمن عورتیں ایک دوسرے کے ولی ہیں، وہ اچھائی کا حکم دیتے ہیں اور برائی سے روکتے ہیں، نماز قائم کرتے ہیں، زکوة دیتے ہیں، اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرتے ہیں۔ یہی لوگ ہیں جن پر اللہ رحم کرے گا۔ بے شک اللہ غالب حکمت والا ہے۔”
8- آٹھویں بات: نئے طریقوں اور اسالیب کو اپنانے کی ضرورت: ہم اپنے روایتی کام کے طریقوں میں بہت آرام دہ اور فعال ہیں لیکن ہمارے سامنے کئی ایسے میدان ہیں جنہیں ہم نے ابھی تک مکمل طور پر دریافت نہیں کیا ہے۔ مثال کے طور پر موجودہ بھارتی معاشرہ ہم سے توقع کرتا ہے کہ ہم زیادہ سے زیادہ خدمتِ خلق میں مشغول ہوں۔ جہاں بھی ہم کام کرتے ہیں یہ ہمارے مشن کے حق میں زبردست فائدہ دیتا ہے۔ حالیہ قدرتی آفات کے دوران کیرالا کے شہر وائناڈ میں جماعت اسلامی ہند کی خواتین سب سے پہلے پہنچیں اور وہ ہر جگہ نظر آئیں۔ انہیں ہر طرف سے زبردست سراہا گیا اور اس سے ہمارے پیغام کے فروغ کے لیے نئے دروازے کھل گئے۔ ایک سیاسی جماعت کے رہنما نے کہا کہ یہ معمولی خواتین نہیں ہیں، یہ فرشتے ہیں۔ خدمتِ خلق بھی ایک ایسا موقع ہے جس سے ہمیں تربیت حاصل ہو سکتی ہے، اگر ہم اسے صحیح طریقے سے استعمال کریں۔
ایک اور میدان جہاں ہمیں ابھی زیادہ توجہ دینے کی ضرورت ہے وہ ہندوستانی سماج میں گہرا نفوذ ہے۔ اس کے لیے زیادہ اعتماد اور حوصلہ پیدا کرنا ضروری ہے تاکہ ہم اپنی ہندوستانی بہنوں کے ساتھ قدرتی طریقے سے مشترکہ مسائل پر کام کر سکیں اور پلیٹ فارموں جیسے سدبھاؤنا منچ، دھارمک جن مورچہ وغیرہ کے ذریعے ان کے ساتھ مل کر کام کر سکیں۔ چونکہ ہمارے پاس حتمی سچائی یعنی اسلام موجود ہے، ہمیں کسی سے بھی بات کرنے میں نہ تو ہچکچانا چاہیے اور نہ ہی اعتماد کھونا چاہیے۔ ہمارے پروگراموں کو چائے کی پیالی میں طوفان نہیں بننا چاہیے۔ یہ بہت ضروری ہے کہ ہم عوام تک پہنچیں اور دوسری کمیونٹی کی بہنوں کے ساتھ بات چیت اور تعلقات بڑھائیں۔ کاروبار اور انٹرپرینیورشپ، مشاورت بشمول ٹیلی مشاورت، آن لائن ٹیوشن اور بچوں کے لیے اسلامی کلاسز وغیرہ ایسے شعبے ہیں جن میں ہماری خواتین بآسانی مشغول ہو سکتی ہیں۔
خلاصہ کے طور پر: چاہے ہم اسے تسلیم کریں یا نہ کریں، خواتین کے لیے ہر میدان میں آسمان تیزی سے وسیع ہو رہا ہے۔ اگر ہم نئے اوزاروں کو استعمال کرنا نہیں سیکھتے، نئے رجحانات کا بغور مشاہدہ نہیں کرتے اور جو مواقع ہمارے سامنے ہیں ان کو استعمال کرنے کے لیے خود کو تیار نہیں کرتے تو ہم تاریخ میں بہت پیچھے رہ جائیں گے۔ آج کی دنیا میں خواتین سماجی، اقتصادی اور سیاسی زندگی کے ہر میدان میں داخل ہو رہی ہیں۔ ہمیں ان میدانوں میں اپنی خواتین کی ضرورت ہے تاکہ ہم ان کے ساتھ مل کر کام کر سکیں۔ اس کے لیے، ہمیں مساوی طور پر یا اس سے بھی زیادہ تیار ہونا چاہیے۔
آخر میں، میں اپنی بہنوں اور بیٹیوں سے ایک بات کہنا چاہوں گی: خاندان، ہمارا اولین ترجیحی مقام ہے۔ جو بھی چیز اس نظام کو نقصان پہنچاتی ہے، اسے روکنا ضروری ہے۔ لیکن خاندان کو بہانہ نہیں بنانا چاہیے۔ ہمیں یہ سیکھنا ہوگا کہ خاندان، بچوں کے ساتھ ساتھ اپنی تحریک اور اسلامی ذمہ داریوں کو توازن اور ترجیح کے ساتھ کیسے منظم کریں۔ اس کے لیے ہمیں قربانی دینے کے لیے تیار رہنا ہوگا۔ ہم اپنی بہنوں کی فلسطین میں قربانیوں کو سراہتے ہیں۔ ہم اپنے خطبوں میں صحابیات، جیسے خدیجہؓ، عائشہؓ، اسماء ؓ، ام عمارہؓ وغیرہ کی قربانیوں کی مثالیں دیتے ہیں۔ ان خواتین کو بھی مشکلات اور رکاوٹوں کا سامنا تھا۔ ان میں سے بیشتر کے بچے تھے، کچھ طلاق شدہ تھیں، اکثر غریب تھیں اور اپنی اور اپنے خاندان کی زندگی کے لیے روزی کمانا پڑتا تھا۔ پھر بھی وہ ضرورت کے مطابق صف اول میں تھیں۔ مکہ سے مدینہ تک جب حالات بدلے تو وہ اس کے لیے بھی تیار تھیں۔ ہم ان کے ساتھ جنت الفردوس میں جانے کی خواہش رکھتے ہیں۔ ان کے ہاتھ میں ان کی قربانیوں کا طویل ریکارڈ ہوگا۔ ہمارے پاس کیا ہے؟ یہ فکر ہمیشہ ہمارے ساتھ ہونی چاہیے۔ پھر اللہ ہمارے لیے نئے راستے اور دروازے کھولے گا۔ سوال یہ ہے: کیا ہم تبدیلی کے لیے تیار ہیں؟ جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے: إِنَّ اللَّهَ لَا يُغَيِّرُ مَا بِقَوْمٍ حَتَّىٰ يُغَيِّرُوا مَا بِأَنْفُسِهِمْ "یقیناً اللہ کسی قوم کی حالت نہیں بدلتا جب تک وہ اپنی حالت کو نہ بدلے۔” (الرعد:11)
آئیے، ہم اپنے عہد کے چیلنجوں کا مقابلہ کریں، ہمارے سامنے جو مواقع ہیں ان کا فائدہ اٹھائیں اور اسلامی اقدار کو اپناتے ہوئے احسان کے ساتھ کام کریں۔ اللہ کرے یہ کانفرنس میرے اور آپ کے اندر ایک تحریک پیدا کرے تاکہ ہم اس سمت میں سوچیں اور کام کریں۔
ہر شیشہ ٹوٹ جاتا ہے پتھر کی چوٹ سے
پتھر ہی ٹوٹ جائے جس سے وہ شیشہ تلاش کر

 

***

 یہ اصلاً محترمہ رحمت النساء قومی سکریٹری جماعت اسلامی ہند کی انگریزی میں کی گئی ایک تقریر ہے جو انہوں نے کل ہند اجتماع ارکان 2024 کے دوسرے دن وابستگان کے سیشن میں کی تھی۔ اس میں انہوں نے تحریکی کام کی نئی جہتوں اور درپیش چیلنجوں کے حوالے سے عصر حاضر میں خواتین کے حرکیاتی رول کی اہمیت کو اجاگر کیا ہے۔ اسلام پسند خواتین کے لیے بالعموم اور تحریکی خواتین کے لیے بالخصوص اس کی افادیت کو ملحوظ رکھتے ہوئے اس کا ترجمہ پیش کیا جا رہا ہے۔ (ادارہ)


ہفت روزہ دعوت – شمارہ 08 دسمبر تا 14 دسمبر 2024