خواتین کومیراث کے حق سے محروم رکھنا اخلاقی و شرعی جرم

حقوق اللہ کے ساتھ حقوق العباد پر بھی توجہ ضروری

سمیہ عامر خان کلیان، مہاراشٹرا

دین اسلام میں علم میراث کی بہت زیادہ اہمیت ہے۔ میراث کی وجہ سے دولت و جائیداد نہ صرف حقیقی مستحقین تک پہنچتی ہے بلکہ ان خرابیوں کا بھی خاتمہ ہوتا ہے جو دولت و جائیداد کی وجہ سے پیدا ہوتی ہیں۔میراث کی تقسیم ایک اہم دینی فریضہ ہے۔ یہ نظام اتنا اہم کیوں ہے اس کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جاسکتا ہے کہ نماز کے متعلق کئی ساری تفصیلات قرآن میں نہیں بلکہ احادیث میں موجود ہیں، اسی طرح روزہ اور زکوٰۃ کے بھی کئی سارے مسائل وحی غیر متلو میں بیان کیے گئے ہیں۔ لیکن وراثت سے متعلق مکمل تفصیلات و مسائل کو مقدس کتاب قرآن میں بیان کیا گیا ہے۔
االلہ تبارک و تعالیٰ نے وارثوں کے کُل حصے قرآن میں متعین کر دیے ہیں۔ ساتھ ہی اللہ کے رسول ﷺ نے خود وراثت کی تقسیم کے فن کو نصف علم قرار دیا ہے۔حضرت ابن مسعودؓ سے روایت ہے کہ حضور اقدس ﷺ نے فرمایا تم علم فرائض (علم میراث) سیکھو اور لوگوں کو بھی سکھاؤ کیونکہ میں وفات پانے والا ہوں اور بلاشبہ عنقریب علم اٹھایا جائے گا اور بہت سے فتنے ظاہر ہوں گے یہاں تک کہ دو آدمی حصہ میراث کے بارے میں آپس میں جھگڑا کریں گے اور انہیں ایسا کوئی شخص نہیں ملے گا جو ان کے درمیان اس کا فیصلہ کرسکے۔
نبی ﷺ نے اس علم کو پڑھنے پڑھانے کی ترغیب دی ہے۔ چنانچہ ارشاد فرمایا ’’علمِ فرائض سیکھو اور لوگوں کو سکھاؤ کیونکہ یہ نصف علم ہے، اس کے مسائل لوگ جلدی بھول جاتے ہیں، یہ پہلا علم ہے جو میری امت سے اٹھالیا جائے گا۔‘‘ (ابن ماجہ) اسی طرح حضرت عمر فاروق ؓ نے فرمایا ’’میراث کے مسائل کو سیکھا کرو کیونکہ یہ تمہارے دین کا ایک حصہ ہے‘‘
اللہ تعالیٰ نے قرآن میں وراثت کے لحاظ سے وارثوں کے حصوں کو جس تفصیل سے واضح طور پر بیان کیا ہے اس تفصیل سے کسی اور عبادت کے احکام بیان نہیں کیے گئے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ میراث کو انہی حصوں کے مطابق تقسیم کرنا فرض ہے جو قرآن میں مذکور ہیں۔اللہ تبارک و تعالیٰ کا ارشاد ہے:
لِّلرِّجَالِ نَصِيبٌ مِّمَّا تَرَكَ ٱلْوَٰلِدَانِ وَٱلْأَقْرَبُونَ وَلِلنِّسَآءِنَصِيبٌ مِّمَّا تَرَكَ ٱلْوَٰلِدَانِ وَٱلْأَقْرَبُونَ مِمَّا قَلَّ مِنْهُ أَوْ كَثُرَ ۚ نَصِيبًا مَّفْرُوضًا سورہ (النساء آیت ٧)
ترجمہ: مردوں کا اس مال میں حصہ ہے جو ماں باپ اور رشتہ داروں نے چھوڑا ہو، اور عورتوں کا بھی اس مال میں حصہ ہے جو ماں باپ اور رشتہ داروں نے چھوڑا ہو اگرچہ تھوڑا ہو یا زیادہ، یہ حصہ مقرر ہے۔
وراثت کی سابقہ تقسیم میں قرآن مجید کی آیات کے علاوہ سنت رسول اور عملِ صحابہ سے بھی بہت سے دلائل سامنے آتے ہیں لیکن اختصار کے پیشِ نظر یہاں اس سلسلے کی صرف ایک حدیث پیش کی جاتی ہے۔ رسول اللہ ﷺ کا ارشاد ہے:
’’وراثت کے حصے پہلے ان کے مستحقین تک پہنچا دو پھر ان کو دینے کے بعد جو کچھ باقی بچے وہ مردوں میں سے میت کے زیادہ قریبی رشتے دار یعنی عصبہ کا حق ہے۔‘‘ (بخاری)
وارثت کے تعلق سے چند اہم اصول و ضوابط یہ ہیں :
۱۔ وراثت صرف مردوں ہی کا حصہ نہیں ہے بلکہ عورتیں بھی اس کی حق دار ہیں۔
۲۔ وراثت ہر حال میں تقسیم ہونی چاہیے خواہ وہ کتنی ہی کم کیوں نہ ہو۔
۳۔ وراثت کا قانون ہر قسم کے مال و ملکیت پر جاری ہوگا خواہ وہ منقولہ ہوں یا غیر منقولہ، زرعی ہوں یا صنعتی یا کسی اور مال کی صنف میں شمار ہوتے ہوں۔
۴۔ وراثت کا حق اس وقت پیدا ہوتا ہے جب وارث نے کوئی مال چھوڑا ہو۔ کوئی شخص کسی کی زندگی میں اس کا وارث نہیں ہو سکتا۔
۵۔ میت کے مال میں حصہ پانے کی بنیاد میت سے قریب ترین رشتہ ہے اس کی بنیاد مطلق رشتہ داری نہیں ہے اور نہ ہی رشتہ دار کی غربت و ضرورت ہے۔
٦۔ قریبی رشتہ دار کی موجودگی میں دور کے رشتہ دار وراثت نہیں حاصل کرپائے گا جس کی تفصیلات موجود ہیں ۔
۷۔ عصبہ میں مرد کا حصہ دو عورتوں کے برابر ہے یہ اس لیے کیونکہ مرد پر گھر کے اخراجات، بیوی بچوں کے نان و نفقہ اور بچوں کی تعلیم و تربیت کی ذمہ داری ہوتی ہے۔
میراث کا مسئلہ ہمارے معاشرے کا سنگین مسئلہ ہے۔ ہمارے معاشرے میں لوگ میراث کی تقسیم کے حوالے سے غفلت برتتے ہیں اکثر تو کرتے ہی نہیں اور اگر کوئی کرتا بھی ہے تو عام طور پر اس میں لڑکیوں کو میراث سے محروم کیا جاتا ہے۔بہنوں کو بہلا پھسلا کر اپنے حق میں بیان دلوا کر ان کا حصہ بھی لے لیا جاتا ہے، حالانکہ بسا اوقات وہ خود بھی ضرورت مند ہوتی ہیں لیکن مروت میں آکر معاشرے میں باتوں اور طعنوں سے بچنے کے لیے مجبوراً بھائیوں کے حق میں اپنا حصہ چھوڑ دیتی ہیں۔ لہٰذا عورتوں کو ان کے حق سے محروم کرنا یا معاشرتی دباؤ میں لاکر ان سے زبردستی حق لینا حرام ہے کیونکہ دلی رضامندی کے بغیر کسی کا مال لینا جائز نہیں ہے۔ یہ بات یاد رہے کہ لڑکیوں کو محروم کرکے یا کسی بھی جائز وارث کو محروم کرکے جو میراث تقسیم ہوگی وہ ناجائز اور حرام ہوگی۔
اللہ تعالیٰ نے واضح طور پر میراث کی تقسیم کا حکم بتادیا ہے، اور جو لوگ اس تقسیم کے مطابق میراث تقسیم نہیں کرتے ان پر سخت وعید فرمائی گئی ہے۔
سورہ النساء آیت 14 میں ارشاد باری تعالیٰ ہے: وَمَن يَعْصِ اللَّهَ وَرَسُولَهُ وَيَتَعَدَّ حُدُودَهُ يُدْخِلْهُ نَارًا خَالِدًا فِيهَا وَلَهُ عَذَابٌ مُّهِينٌ
ترجمہ: اور جو اللہ اور اس کے رسول کی نافرمانی کرے گا اور اس کی مقرر کی ہوئی حدود سے تجاوز کرے گا اسے اللہ آگ میں ڈالے گا جس میں وہ ہمیشہ رہے گا اور اس کے لیے رسوا کن سزا ہے۔
لیکن سخت افسوس کی بات ہے کہ اس قدر سخت وعید کے ہوتے ہوئے بھی مسلمانوں نے یہودیوں جیسی جسارت کے ساتھ خدا کے قانون کو بدلا اور اس کی حدوں کو توڑا۔ اس قانون وراثت کے معاملے میں جو نافرمانیاں کی گئی ہیں وہ خدا کے خلاف کھلی بغاوت کی حد تک پہنچتی ہیں۔ کہیں عورتوں کو میراث سے مستقل طور پر محروم کیا جاتا ہے، کہیں صرف بڑے بیٹے کو میراث کا مستحق ٹھہرایا جاتا ہے، کہیں سرے سے تقسیم میں میراث ہی کے طریقے کو چھوڑ کر "مشترکہ خاندانی جائیداد” کا طریقہ اختیار کرلیا جاتا ہے اور کہیں پر عورتوں اور مردوں دونوں کا حصہ برابر کردیا جاتا ہے ۔یہ ایک بہت بڑا المیہ ہے کہ مسلمان صدیوں سے قانون وراثت کے معاملے میں حدود اللہ کو پامال کرتے آرہے ہیں۔ایسا نہیں ہے کہ اس میں صرف جاہل اور ان پڑھ طبقہ ہی ملوث ہے بلکہ بسا اوقات اچھے خاصے دیندار قسم کے لوگ بھی اس جرم کے مرتکب ہوتے نظر آتے ہیں،مختلف بہانوں سے ماں، بہن، بیٹی اور دوسرے حق داروں کو میراث سے محروم کر دیا جاتا ہے۔ آج کل نماز،روزہ و زکوٰۃ پر زیادہ توجہ دی جا رہی ہے لیکن بندوں کے حقوق سے غفلت برتی جا رہی ہے۔ اس پر توجہ دینے کی ضرورت ہے۔
قرآن میں وراثت کی ادائیگی کو حدود اللہ قرار دیا گیا ہے اور اس کی ادائیگی پر جنت کی بشارت دی ہے اور ادائیگی نہ کرنے پر جہنم کی سزا سنائی ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: تِلْكَ حُدُوْدُ اللّٰهِ ؕ وَمَنْ یُّطِعِ اللّٰهَ وَرَسُوْلَهٗ یُدْخِلْهُ جَنّٰتٍ تَجْرِیْ مِنْ تَحْتِهَا الْاَنْهٰرُ خٰلِدِیْنَ فِیْهَا ؕ وَذٰلِكَ الْفَوْزُ الْعَظِیْمُ (النساء : ۱۳) ترجمہ: یہ اللہ کی مقرر کی ہوئی حدیں ہیں جو اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرے گا اسے اللہ ایسے باغوں میں داخل کرے گا جن کے نیچے نہریں بہتی ہوں گی اور ان باغوں میں وہ ہمیشہ رہے گا اور یہی بڑی کامیابی ہے۔‘‘
اسلام تو عورتوں کو حق وراثت دیتا ہے لیکن مرد اس معاشرے میں عورتوں کا حق غصب کر جاتے ہیں۔جوں جوں محروم طبقوں میں اپنے حقوق کی بیداری کی لہر پیدا ہوگی تو عورتیں بھی اپنا حق مانگیں گی۔ قرآن میں بیان کردہ حقوق سے ملک کی اکثر آبادی کو محروم رکھا جارہا ہے۔جتنا عورت کو اس کے حق سے محروم رکھا جائے گا اتنی ہی اس کے دل میں مذہب اور مذہب کے ذمہ داروں سے بیزاری پیدا ہوگی اور کہیں وہ وقت بھی نہ آجائے کہ عورتوں کا ہاتھ ان طبقات کے گریبان تک جا پہنچے جو انہیں ان کے حق سے محروم رکھتے ہیں اور خالق حقیقی تو ان سے ضرور پوچھے گا کہ تم نے کیوں عورتوں کو ان کے حق وراثت سے محروم رکھا۔ جیسے قرآن مجید میں آتا ہے کہ جب زندہ دفنائی گئی بچی سے پوچھا جائے گا کہ تجھے کس جرم کی سزا میں قتل کیا گیا؟ اسی طرح عورت کے حقوق غصب کرنے والے مردوں سے بھی سوال ہوسکتا ہے کہ انہوں نے کیوں عورتوں کو وراثت میں حصہ نہیں دیا؟ کسی بھی مسلمان کے لیے یہ زیب نہیں دیتا کہ وہ اپنی بہن اور بیٹی کو وراثت کے حق سے محروم رکھے۔ اکثر پڑھی لکھی مسلمان عورتیں بھی محض معاشرے کے دباؤ میں آکر بھائیوں کے لیے اپنا حق وراثت معاف کر دیتی ہیں لیکن یہ معافی دل سے نہیں ہوتی۔
ہم سب پر یہ ماؤں بہنوں اور بیٹیوں کا قرض ہے اور ضرورت اس امر کی ہے کہ ہماری تمام اسلامی تنظیمیں عوام کو اسلامی قانون وراثت کے مطابق حصوں کی شرعی تقسیم کا علم سکھائیں اور معاشرے میں ذرائع ابلاغ کے ذریعے یہ بات عام کی جائے کہ عورت کو اس کے حق وراثت سے محروم نہ رکھا جائے۔ تاکہ یہ بات واضح ہوجائے کہ دین اسلام کا نظام میراث سب سے اچھا نظام ہے اور یہ تمام امت مسلمہ کی ذمہ داری ہے کہ وہ وراثت کی صحیح تقسیم کو اپنے معاشرے میں جاری کرے اور اللہ کی مقرر کردہ حدود کو پامال کرنے سے باز رہے۔
یہ بات بھی یاد رہے کہ میراث تقسیم نہ کرنے اور مستحقین کو محروم رکھنے کے کئی خطرناک پہلو ہیں جن میں میراث کھانے والے گناہ گار ہوتے ہیں۔ میراث کو قرآن و سنت کے مطابق تقسیم نہ کرنا اور دیگر وارثوں کا حق مارنا کفار، یہود، نصاریٰ، ہندوؤں اور غیر مسلم اقوام کا طریقہ ہے۔ اس کے علاوہ میراث کو شرعی طریقے پر تقسیم نہ کرنا اللہ اور اس کے رسول کی نافرمانی ہے۔ یہ صریح فسق ہے، اور ایسا شخص فاسق ہے اور گناہِ کبیرہ کا مرتکب ہے۔ خاص طور پر برسہا برس اس پر اصرار کرنا اور توبہ نہ کرنا تو اور بڑا گناہ اور اللہ تعالیٰ سے بغاوت کے مترادف ہے۔ میراث شریعت کے مطابق تقسیم نہ کرنے والا دوزخ میں داخل ہوگا۔ جو میراث کا مال کھا جاتا ہے اس کی دعائیں قبول نہیں ہوتیں۔ شریعت کے مطابق مال (وراثت) تقسیم کرنا اسلامی حکومت کی ذمہ داریوں میں سے ایک ذمہ داری ہے، لہٰذا جو حکومت اس طرف توجہ نہیں دیتی، وہ اپنے فرائض میں کوتاہی کرتی ہے۔ نبی ﷺ نے فرمایا جس نے کوئی بھی مال حق کے ساتھ لیا تو اس میں برکت ڈالی جائے گی اور جس نے بغیر حق کے مال لیا تو اس کی مثال اس شخص کے جیسی ہے جو کھاتا ہے لیکن سیر نہیں ہوتا۔ حضرت عبداللہؓ بن مسعود سے روایت ہے کہ علم میراث، طلاق اور حج کو سیکھو یہ تمہارے دین میں سے ہے۔ وہ مزید فرماتے ہیں کہ علم میراث کو سیکھو، عنقریب آدمی اس علم کا محتاج ہو گا جس کو وہ جانتا تھا، یا ایسی قوم میں ہو گا جو علم نہیں رکھتے۔
اللہ تعالیٰ ہم سب کو دین کے تمام احکام پر عمل کرنے والا اور دین شریعت کے مطابق صحیح فیصلے کرنے والا بنائے اور حق کو غصب کرنے جیسے فعل بد سے بچائے۔ آمین یا رب العالمین
***

 

***

 


ہفت روزہ دعوت – شمارہ 07 جنوری تا 13 جنوری 2024