خواتین کی شمولیت کے بغیر معاشی ہدف کا حصول ممکن نہیں

لیبر فورس میں عورتوں کی شمولیت کے معاملہ میں بھارت جی-20 ممالک میں سب سے پیچھے

پروفیسر ظفیر احمد، کولکاتا

سلامتی کا فقدان اور جنسی تفریق، خواتین کی ترقی کی راہ میں بڑی رکاوٹیں
آج ہمارے ملک میں لیبر فورس میں خواتین کی شراکت جی-20 ممالک میں سب سے کم یعنی محض بیس فیصد ہے۔ سلامتی کا فقدان، لیبر فورس میں خواتین کی شمولیت کو متاثر کرنے والے عوامل میں سے ایک ہے۔ 2004 میں ان کی شمولیت تیس فیصد تھی جو 2017 میں گھٹ کر بیس فیصد پر آگئی۔ 2047 تک ملک کو ترقی یافتہ ملک بنانے کے لیے لیبر فورس میں خواتین کی شمولیت کو بڑھانا ہوگا۔ ملک کی نصف آبادی کی شمولیت کے بغیر ہم اپنے ہدف کو حاصل نہیں کر پائیں گے۔ ایک ادارہ ’دی نَج انسٹیٹیوٹ‘ (The/Nudge Institute) کی حالیہ رپورٹ کے مطابق 2047 میں ملکی معیشت کو چودہ ٹریلین ڈالر تک بڑھانے کے لیے خواتین کی شمولیت کو ستر فیصد کرنا ہوگا، اور اس وقت تک ہمیں اپنے ورک فورس میں چالیس کروڑ خواتین کو شامل کرنا ہوگا جو خواتین کے ساتھ ہر شعبہ میں تفریق کی وجہ سے ناممکن ہے، کیونکہ ملک میں مردوں کے مقابلے خواتین کو تنخواہ و بھتہ بھی کم دیا جاتا ہے اور مردوں کے مقابلے میں محنتانہ بھی کم دیا جاتا ہے۔ جنسی تفریق، سلامتی کا فقدان اور بندشیں بھی ان کی راہ میں بڑی رکاوٹ ہیں۔ ایک خوش حال ملک بنانے کے لیے ہمیں تمام جگہوں پر خواتین کے تحفظ اور سلامتی کو اولیت دینی ہوگی۔ مودی کا جملہ ’بیٹی پڑھاو اور بیٹی بچاو‘ کا نعرہ محض نعرہ ہی رہ گیا ہے، کیونکہ بھاجپائی ایم پیوں اور ایم ایللوں کی بڑی تعداد خواتین کے ریپ اور قتل کے معاملات میں ملوث پائی گئی ہے۔ مودی کے ذریعے خواتین کو دی جانے والی عزت و اکرامات کا نعرہ ہوا ہوائی ہے، کیونکہ منواسمرتی کو دستور زندگی ماننے والی جماعت کے نزدیک خواتین ہمیشہ پست ہوتی ہیں۔ یہی وہ ذہنیت ہے جس کی وجہ سے خواتین کے ساتھ جنسی زیادتی، تشدد اور عصمت دری جیسے واقعات عام ہو گئے ہیں۔ ایک رپورٹ کے مطابق ملک میں فی گھنٹہ تین خواتین کی عصمت دری ہوتی ہے۔ اب خواتین اور گھر کے ذمہ دار ماننے لگے ہیں کہ خواتین کا اصل مقام اس کا گھر ہی ہے، جہاں انہیں چولہا چکی، بچوں کی پرورش اور بزرگوں کی دیکھ بھال کرنی چاہیے۔ کورونا وبا کے بعد خواتین کی شمولیت میں ضرور اضافہ ہوا ہے۔ ویسے خواتین کی ورک فورس میں شمولیت میں کمی کے بہت سارے اسباب ہیں۔ طلب کی موافقت میں مسئلہ یہ ہے کہ روزگار فراہم کرنے والے خواتین کو کام دینا نہیں چاہتے۔ کام کے مواقع بھی تیزی سے نہیں بڑھ رہے ہیں۔
زچگی کے وقت چھٹی کا قانون خواتین کی بھلائی کے لیے بنایا گیا تھا مگر مشکل یہ ہے کہ اب یہی خواتین کے روزگار کی فراہمی میں رکاوٹ بن رہا ہے۔ سپلائی کی موافقت میں سماجی اور تمدنی قاعدے ایسے عوامل ہیں جو خواتین کو گھر کے باہر کام پر جانے سے روکتے ہیں۔ خواتین گھر کے نوے فیصد کام کرتی ہیں جس کی انہیں کوئی اجرت نہیں ملتی۔ ایسا تناسب خواتین کے لیے بہت مضر ثابت ہو رہا ہے۔ افریقہ اور مغربی ممالک میں یہ تناسب زیادہ بہتر ہے، مگر جنوبی ایشیا میں ایسا نہیں ہے۔ ہماری خواتین زراعت میں بھی متحرک ہیں، جس کو کام کی مناسبت سے نہیں لیا جاتا اور اجرت بھی حسب حیثیت نہیں دی جاتی۔
نیشنل کرائم ریکارڈ بیورو (این سی آر بی) کے مطابق جنسی جرائم میں بیس فیصد کا اضافہ درج کیا گیا ہے۔ ڈیٹا اس سے کہیں زیادہ ہے کیونکہ پولیس والے بڑی آسانی سے ایف آئی آر درج نہیں کرتے۔ بہت سارے جرائم میں متاثرین کو اپنی بے حرمتی، بدگمانی اور پولیس تحقیقات پر بھروسے کی کمی ہوتی ہے۔ چنانچہ کلکتہ آر جی کار ہسپتال میں 2001 میں ہونے والے عصمت دری کے مقابلے میں کیسے تحقیقات کو غلط رخ پر ڈال دیا گیا اور مجرم سزا سے بچ گیا۔ مظلوم کو گنہگار سمجھنے کی سماجی روش اور خواتین مخالف سوچ کی وجہ سے وہ شکایت درج کرانے سے خوف کھاتی ہیں۔ اسی طرح آسام کے سلچر میڈیکل کالج ہسپتال میں طالبات اور خواتین ڈاکٹروں سے خواہش کی گئی ہے کہ وہ اندھیرا ہونے پر نہ نکلیں۔ یہ ہماری سماجی نفسیات کی تنہا مثال نہیں ہے، جس کا مطلب یہ ہے کہ خواتین کو ہمیشہ چوکس و چوکنا رہنا چاہیے کیونکہ باہر بدمعاشوں کی ٹولیاں شراب میں مست گھوم رہی ہوتی ہیں۔
نفیسہ لوہا والا اور تنیکا چکروتی نے 2021 کے ایک ریسرچ پیپرز میں ورک فورس میں خواتین کی شراکت پر تشدد کے خوف کے اثرات کا اندازہ لگایا ہے جس میں وضاحت کی گئی ہے کہ ایک ضلع میں جب ایک ہزار خواتین میں سے ایک کے خلاف جنسی تشدد ہوتا ہے تو تقریباً بتیس خواتین ورک فورس میں شمولیت کا ارادہ ترک کر دیتی ہیں۔ جس کا مطلب ہے کہ محض جرم ہی نہیں بلکہ تشدد کا خوف بھی خواتین کو آفیشل علاقے میں کام کرنے سے روکتا ہے، جو ایک طرح کی خود پر لادی ہوئی پابندی ہے۔
معمہ یہ ہے کہ کالجوں اور اعلیٰ تعلیمی اداروں میں خواتین کا رجسٹریشن بڑھ رہا ہے اور ان کا مظاہرہ بھی بہتر ہے۔ زیادہ تر میڈیکل کالجوں میں خواتین کی شمولیت پچاس فیصد سے زائد ہے، مگر پریکٹیس کرنے والے ڈاکٹروں میں خواتین کی شرکت پندرہ فیصد سے بھی کم ہے، جو ایک طرح کا قومی خسارہ ہے۔ ایسا محض بچے اور خاندان کی نگہداشت کی وجہ سے نہیں بلکہ کام کی جگہ پر سلامتی کی کمی بھی ہے۔ ملک میں خواتین کی ہمت افزائی کے لیے قانونی، مالی اور سماجی ضابطے ہونے چاہئیں۔ چند روزگار تو خواتین ہی کے لیے مختص کیے جائیں۔ ان کو ٹرانسپورٹ کی مفت سہولت دی جائے۔ طرز تمدن ایسا ہو جس سے خواتین اپنے لیے آزادی سے فیصلہ کر سکیں اور انہیں انکم ٹیکس میں رعایت ملے۔ سب سے اہم ہے کہ عوامی مقامات پر ان کے تحفظ کا مکمل انتظام ہو۔ اگر خواتین کو پبلک مقام پر جنسی تشدد کا خوف ستائے گا تو لیبر فورس میں ان کی شمولیت کی راہ میں ہمیشہ منفی اثرات مرتب ہوں گے۔
نربھیا معاملے کے بعد جنسی تشدد کے خلاف قانون کو بہت سخت بنایا گیا تھا۔ بچوں کے خلاف جرائم کے سخت قوانین ہیں، مگر حکومت بچوں اور خواتین کے خلاف ہونے والے جرائم کو بڑھنے سے روکنے میں ناکام ہے، جیسا کہ مذکورہ بالا رپورٹ کے مطابق خواتین کے خلاف جنسی تشدد میں اضافہ محض مزید تحفظ مہیا کرانے اور انصاف پانے تک ہی نہیں ہے۔ یہ ہماری معیشت پر منفی اثرات ڈالتا ہے جس سے خواتین کی لیبر فورس میں شمولیت کم ہوجاتی ہے۔ اس لیے ایسے مسائل پر سنجیدگی سے غور و فکر کی ضرورت ہے تاکہ روزگار، کمائی اور پیداوار میں اچھا خاصا اضافہ ہو سکے۔ ہمارے ملک کے آدھی انسانی وسائل اور اثاثے میں اضافہ کی موثر صلاحیت اور قوت کو نظر انداز کیا جا رہا ہے۔
سرکاری روزگاری میں خواتین کی شمولیت کے بہت ذرائع ہیں۔ مثلاً جاپان کے سابق وزیر اعظم شینزو آبے نے خواتین کی معیشت کو کافی آگے بڑھایا ہے۔ اس کے لیے حکومت نے اعلیٰ صلاحیت اور معیار کے پانچ لاکھ کریچ قائم کیے۔
آج ہمارے ملک کی بڑی آبادی درندہ صفت زانیوں اور قاتلوں کے ساتھ ہمدردی دکھا رہی ہے۔ ان کو سزائے موت یا پھانسی کے خلاف دلیلیں دی جا رہی ہیں، مگر نہیں دیا رہا ہے تو بھرپور اور طاقتور پیغام تاکہ کوئی درندہ صفت، انسانیت کو شرمسار کرتے ہوئے ایسی مجرمانہ حرکت نہ کرے۔ ملک میں ایسے سنگین اور گھناونے جرائم کرنے پر مردوں کو کوئی خوف نہیں ہوتا کیونکہ انہیں نتائج کا کوئی خوف نہیں ہے۔ اس لیے نہایت کمیاب (Rarest of the Rare) معاملات میں ہی سزائے موت دی جاتی ہے۔
آج ملک میں اوسطاً یومیہ نوے جنسی جرائم ہو رہے ہیں۔ دوسری بات قابل تشویش ہے کہ 2017 کے مقابلے میں 2018 میں ان زانیوں کے ذریعہ مظلوم کے قتل کے معاملے میں اکتیس فیصد کا اضافہ ہوا ہے۔ قرآن کا اعلان ہے کہ زانیہ عورت اور زانی مرد، دونوں میں سے ہر ایک کو سو کوڑے مارے جائیں، ان پر ترس کھانے کا جذبہ اللہ کے دین کے معاملے میں تم کو دامن گیر نہ ہو۔
اسلام نے زنا بالرضا کے راستے کو بند کر دیا ہے۔ خواتین پر زبردستی ایسی زیادتی ہوتی ہے تو مرد کو دستور کے حساب سزا دی جائے جو سخت ہوگی۔ ہمارے ملک میں عدالتیں چھوٹے بچوں کے ساتھ کی جانے والی درندگی جنسی جرائم پر موت کی سزا دیتی ہیں تو عصمت دری پر کیوں نہیں؟ جن ممالک میں کم سے کم جنسی جرائم ہوتے ہیں ان میں سعودی عرب، چین، شمالی کوریا اور سنگاپور وغیرہ ہیں، کیونکہ وہاں زانیوں کو پھانسی یا سزائے موت دی جاتی ہے۔
ہمارے ملک میں بھی عصمت دری کو سسٹم کی سختی ہی روک سکتی ہے۔ ملک میں ایسے درندہ صفت شخص کے لیے کوئی نرم گوشہ نہیں ہونا چاہیے۔ عصمت دری کے قانون کو موثر بنانے چاہیے اور اس کے ساتھ ساتھ اس کا ارتکاب کرنے والے درندوں کے لیے رحم کی اپیل پر پابندی ہونی چاہیے۔
***

 

***

 نیشنل کرائم ریکارڈ بیورو (این سی آر بی) کے مطابق جنسی جرائم میں بیس فیصد کا اضافہ درج کیا گیا ہے۔ ڈیٹا اس سے کہیں زیادہ ہے کیونکہ پولیس والے بڑی آسانی سے ایف آئی آر درج نہیں کرتے۔ بہت سارے جرائم میں متاثرین کو اپنی بے حرمتی، بدگمانی اور پولیس تحقیقات پر بھروسے کی کمی ہوتی ہے۔ چنانچہ کلکتہ آر جی کار ہسپتال میں 2001 میں ہونے والے عصمت دری کے مقابلے میں کیسے تحقیقات کو غلط رخ پر ڈال دیا گیا اور مجرم سزا سے بچ گیا۔ مظلوم کو گنہگار سمجھنے کی سماجی روش اور خواتین مخالف سوچ کی وجہ سے وہ شکایت درج کرانے سے خوف کھاتی ہیں۔ اسی طرح آسام کے سلچر میڈیکل کالج ہسپتال میں طالبات اور خواتین ڈاکٹروں سے خواہش کی گئی ہے کہ وہ اندھیرا ہونے پر نہ نکلیں۔ یہ ہماری سماجی نفسیات کی تنہا مثال نہیں ہے، جس کا مطلب یہ ہے کہ خواتین کو ہمیشہ چوکس و چوکنا رہنا چاہیے کیونکہ باہر بدمعاشوں کی ٹولیاں شراب میں مست گھوم رہی ہوتی ہیں۔


ہفت روزہ دعوت – شمارہ 08 ستمبر تا 14 ستمبر 2024