
خواتین کے خلاف جرائم میں ہولناک اضافہ نا قابل قبول:جماعت اسلامی ہند
وقف بل 2024 پر مشاورتی عمل کو بے معنی بنا دیا گیا: پروفیسر سلیم انجینئر
نئی دلّی: (دعوت نیوز ڈیسک)
بھارت میں معاشی عدم مساوات انتہا پر۔اقلیتوں کے خلاف بڑھتے ہوئے فرقہ وارانہ واقعات ۔ ریاستی ادارے بھی جانب دار!
جماعت اسلامی ہند کی قومی سکریٹری محترمہ رحمت النساء نے بین الاقوامی یومِ خواتین کے موقع پر ملک میں خواتین کے خلاف بڑھتے ہوئے جرائم پر شدید تشویش کا اظہار کیا ہے۔ انہوں نے جماعت اسلامی ہند کے مرکز میں منعقدہ ماہانہ پریس کانفرنس میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ نیشنل کرائم ریکارڈ بیورو (NCRB) کی تازہ ترین رپورٹ کے مطابق 2022 میں ہر ایک لاکھ خواتین میں 51 خواتین مختلف جرائم کا شکار ہوئیں جبکہ ملک میں ہر 16 منٹ میں آبرو ریزی کا ایک واقعہ رپورٹ ہوتا ہے۔ یہ صورتحال انتہائی تشویشناک اور نا قابلِ قبول ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ قتل کے ساتھ آبرو ریزی یا اجتماعی عصمت دری کے مقدمات میں سزا کی شرح 69.4 فیصد ہے، جبکہ دیگر زنا بالجبر کے مقدمات میں یہ شرح کم ہو کر 27.4 فیصد رہ جاتی ہے جو ہمارے نظامِ عدل کی ناکامی کو ظاہر کرتی ہے۔ حالیہ واقعات جیسے کولکاتا میں ایک میڈیکل ڈاکٹر کے ساتھ زیادتی اور قتل اور پونے میں بس میں ایک خاتون کے ساتھ زیادتی کے واقعات ہمارے ملک میں خواتین کی سلامتی کی نازک حالت کو ظاہر کرتے ہیں۔
محترمہ رحمت النساء نے مرکزی وزیر رکشا کھڑسے کی بیٹی کے ساتھ ہونے والی چھیڑ خانی کے واقعے کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ عام خواتین تو درکنار، وی آئی پیز بھی محفوظ نہیں ہیں۔ انہوں نے اس بحران کے اخلاقی پہلو پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ "چھیڑ خانی اور بد تمیزی کے ہزاروں غیر رپورٹ شدہ کیسز معاشرے میں گہرے اخلاقی زوال کی نشاندہی کرتے ہیں۔”
جماعت اسلامی ہند یہ سمجھتی ہے کہ حقیقی ترقی خواتین کی حفاظت، عزت اور ان کے جائز حقوق کے تحفظ میں مضمر ہے۔ قوانین کا مؤثر نفاذ ضروری ہے، لیکن اس کے ساتھ ساتھ سماجی اصلاح بھی لازمی ہے۔ پیغمبر اسلام حضرت محمد ﷺ نے فرمایا "تم میں سب سے بہتر وہ ہے جس کے اخلاق سب سے اچھے ہوں۔” ہم حکومت، تعلیمی اداروں اور سِول سوسائٹی سے مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ خواتین کے احترام کے ماحول کو فروغ دیں اور علامتی اقدامات سے آگے بڑھ کر خواتین کو ان کا جائز مقام دلانے کے لیے ٹھوس عملی اقدامات کریں۔
جماعت اسلامی ہند کے نائب امیر پروفیسر سلیم انجینئر نے پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے وقف ترمیمی بل 2024 پر جوائنٹ پارلیمانی کمیٹی (JPC) کے جانب دارانہ رویے پر اپنی مایوسی کا اظہار کیا۔ انہوں نے کہا "وسیع پیمانے پر عوامی مخالفت، لاکھوں اعتراضات اور تحفظات کے باوجود یہ بل آگے بڑھا دیا گیا جس سے مشاورتی عمل کو بے معنی بنا دیا گیا ہے۔ یہ بل وقف ایکٹ 1995 میں بڑی تبدیلیاں کرتا ہے اور وقف جائیدادوں کے انتظام میں حکومت کی مداخلت کو بڑھاتا ہے۔ ہم یہ واضح کرنا چاہتے ہیں کہ وقف جائیدادیں حکومت کی ملکیت نہیں بلکہ مذہبی امانتیں ہیں۔ وقف کے نظام کو کمزور کرنے یا اس پر ریاستی کنٹرول بڑھانے کی کوئی بھی کوشش ناقابلِ قبول ہے۔”
انہوں نے کہا کہ حکومت کو چاہیے کہ وہ اس بل کو واپس لے اور موجودہ وقف قوانین کے مؤثر نفاذ پر توجہ دے تاکہ مسلم ورثے اور اداروں کے تحفظ کو یقینی بنایا جا سکے۔ پروفیسر سلیم انجینئر نے ان نام نہاد سیکولر جماعتوں پر بھی تنقید کی جنہوں نے پارلیمنٹ میں اس بل کی حمایت کی۔ انہوں نے آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ (AIMPLB) اور دیگر مسلم تنظیموں کی جانب سے اس قانون کو آئینی، قانونی، جمہوری اور پُر امن طریقے سے چیلنج کرنے کی حمایت کی اور AIMPLB کی جانب سے 13 مارچ کو جنتر منتر پر احتجاج کی کال کی مکمل تائید کی۔ انہوں نے تمام انصاف پسند شہریوں سے اپیل کی کہ وہ بڑی تعداد میں اس احتجاج میں شریک ہوں۔ "ہندوستان میں بڑھتی ہوئی معاشی عدم مساوات” کے موضوع پر بات کرتے ہوئے انہوں نے انڈس ویلی کی سالانہ رپورٹ 2025 کا حوالہ دیا اور کہا "یہ رپورٹ ظاہر کرتی ہے کہ ملک کی مجموعی دولت کا بڑا حصہ دس فیصد امیر طبقے کے پاس ہے، جبکہ پچاس فیصد سے زیادہ غریب طبقہ بنیادی ضروریات کے لیے بھی جدوجہد کر رہا ہے۔ دولت سرمایہ داروں اور شہری اشرافیہ کے درمیان مرکوز ہو رہی ہے جبکہ کمزور طبقات مزید کمزور ہو رہے ہیں۔” انہوں نے حکومت سے مطالبہ کیا کہ وہ غربت کے خاتمے اور وسائل کی منصفانہ تقسیم کو ترجیح دے جس کے لیے ترقی پسند ٹیکس نظام، سماجی فلاحی منصوبے اور بنیادی سہولیات تک رسائی کو یقینی بنانے کے لیے پالیسی ترامیم کی ضرورت ہے۔
مذہبی اقلیتوں کے خلاف بڑھتے ہوئے فرقہ وارانہ واقعات اور نفرت انگیز جرائم” کے حوالے سے انہوں نے کہا ’’ہم اقلیتوں کے خلاف بڑھتے ہوئے تشدد اور فرقہ وارانہ جرائم کی شدید مذمت کرتے ہیں۔ مدھیہ پردیش میں دو افراد کی برسر عام تذلیل اور پولیس حراست میں تشدد، راجستھان میں پولیس چھاپے کے دوران ایک نومولود بچی کی دردناک موت اور مہاراشٹر کے چکاہلی کُدالواڑی علاقے میں دکانوں کی منظم مسماری جیسے واقعات، ریاستی اداروں کے جانب دارانہ اور غیر انسانی رویے کو ظاہر کرتے ہیں۔‘‘
انجینئر سلیم نے کہا کہ مسلمانوں کو سیاسی مقاصد کے لیے بدنام کیا جا رہا ہے۔ انہوں نے حکومت، قانون نافذ کرنے والے اداروں اور عدلیہ سے مطالبہ کیا کہ وہ آئین کا احترام کریں اور سب کو انصاف فراہم کریں۔
آخر میں انہوں نے ملک کے عوام سے اپیل کی کہ وہ فرقہ وارانہ تقسیم اور فسطائیت کے خطرے کے خلاف مزاحمت کریں۔ ’’تنوع میں وحدت‘‘ ہمارا قومی شعار ہے اور تمام شہریوں کو جمہوری اور آئینی اقدار کی بحالی کے لیے مل کر کام کرنا چاہیے تاکہ ایک منصفانہ معاشرہ تشکیل دیا جا سکے۔
***
ہفت روزہ دعوت – شمارہ 16 مارچ تا 22 مارچ 2025