نوید ابن فیضی، بنگلور
اجتماع کی روشنیوں سے تحریک کی راہوں کا تعین
14 نومبر 2024 بروز جمعرات شہر بنگلور، عربک کالج روڈ، مقامی جماعت کے چھ ارکان پر مشتمل ہمارا گروپ اقبال صاحب کی قیادت میں بنگلور سٹی ریلوے اسٹیشن پہنچا۔ اس گروپ میں محترم اقبال صاحب، بشیر احمد صاحب، محمد شریف صاحب، سراج الدین صاحب، خلیل الرحمٰن صغیر صاحب اور راقم یعنی ریاض الرحمن نوید شامل تھے۔ مقامی جماعت عربک کالج روڈ میں کل 31 ارکان جماعت ہیں جن میں مرد سترہ خواتین اٹھارہ اور این آر آئی چھ شامل ہیں۔ امیر مقامی محترم ظفر الحسن صاحب نے اجتماعی سفر کرنے والوں کے چھ چھ افراد کا گروپ بنایا اور ہر گروپ کا امیر سفر متعین کیا۔ بعض رفقاء ذاتی طور پر ایک دن پہلے اجتماع کے لیے نکل چکے تھے اور بعض نے عذر شرعی کی وجہ سے اجازت لے لی تھی۔
اسٹیشن پر ہر طرف ارکان جماعت مرد و خواتین نظر آ رہے تھے جسے دیکھ کر خوشی محسوس ہو رہی تھی۔ وقت مقررہ سے کچھ تاخیر پر ٹرین پلیٹ فارم پر پہنچی۔ مسافر اپنی اپنی ریزرو سیٹوں پر بیٹھ گئے۔ ایک اندازے کے مطابق تقریباً دو سو ارکان اسی ٹرین میں سوار تھے۔ رفقاء نے مغرب و عشاء کی نمازیں ٹرین میں ادا کیں۔ نماز سے فارغ ہونے کے بعد بعض رفقاء اپنے ساتھ لائے ہوئے توشے اٹھائے ہر رفیق کے پاس جاتے اور انہیں کھانے میں شریک ہونے کی درخواست کرتے۔ یہ اپنائیت قابل دید رہی۔ اللہ رفقاء کے رزق میں برکت عطا فرمائے۔
ٹرین اپنی منزل کی طرف رواں دواں تھی۔ ہر اسٹیشن پر رکتی، کچھ لوگ اترتے کچھ لوگ سوار ہوتے۔ انسان بھی اپنی حقیقی منزل کی طرف محو سفر ہے۔ کچھ لوگ دنیا سے رخصت ہو رہے ہیں اور کچھ دنیا میں مسافر بن کے آ رہے ہیں۔ انسانی زندگی اور ٹرین کے سفر کی یہ مماثلت غور طلب بھی ہے اور لمحہ فکر بھی۔
کاچی گوڑہ اسٹیشن پر اترنے کے بعد ایس آئی او کے نوجوانوں کی رہنمائی میں بذریعہ بس (جس کا معقول انتظام رہا) ہم سب اجتماع گاہ پہنچے۔ خوبصورت باب الداخلہ سے گزرتے ہوئے رفقاء کے چہروں پر حیرت و خوشی جھلک رہی تھی۔ وادی ہدیٰ ایک خوبصورت بستی میں تبدیل ہوچکا تھا۔ ساٹھ ایکڑ پر محیط خیموں کی اس بستی کی ہر شاہراہ اپنے مرحوم قائدین کے نام سے منسوب تھی۔ ہماری قیام گاہ شاہراہ محمد سراج الحسنؒ (سابق امیر حلقہ کرناٹک و سابق امیر جماعت اسلامی ہند) کے نام سے موسوم تھی۔
ضروریات سے فارغ ہو کر ہم ٹھیک ساڑھے آٹھ بجے مولانا ابوالاعلیٰ مودودیؒ آڈیٹوریم میں پہنچ گئے۔ تقریباً پندرہ ہزار ارکانِ جماعت جو ملک کے مختلف مقامات سے شریک تھے، پورے اطمینان کے ساتھ اپنی اپنی نشستیں سنبھالے بیٹھے ہوئے تھے۔ امیر جماعت اور ذمہ داران مرکز بھی پندرہ منٹ پہلے ہی اسٹیج پر تشریف فرما تھے۔ جماعت کی بہت سی خصوصیات میں سے ایک وقت کی پابندی بھی ہے۔
کل ہند اجتماعِ ارکان کا یہ پانچواں عظیم الشان اجتماع تھا۔ اس اجتماع میں افتتاح سے اختتام تک کل نو سیشنز منعقد ہوئے۔ یہ سیشنز درج ذیل تھے: افتتاحی سیشن، لیڈرشپ سیشن، فکری سیشن، تنظیمی سیشن، وابستگان سیشن (یہ عمومی سیشن تھا) متوازی سیشن، تحریکی سیشن، این آر آئی سیشن اور اختتامی سیشن۔
جماعت اسلامی ہند کے اجتماعات کا مقصد اپنے کاموں کا جائزہ لینا، احتساب کرنا، افہام و تفہیم کو فروغ دینا، مشورے حاصل کرنا اور ارکان کے درمیان باہمی تعلقات کو مضبوط بنانا ہوتا ہے۔ اس مرتبہ جماعت نے مختلف حلقوں کے کاموں کی آگاہی اور تعارف کے لیے ایک منفرد انداز میں "ادراک” نامی شوکیس پیش کیا جس میں مختلف ریاستوں نے اپنے ترجیحی کاموں کو ماڈلز، چارٹس اور بینرز کے ذریعے پیش کیا۔ ہر ریاست نے اپنی بہترین صلاحیتوں کا مظاہرہ کیا، مگر گجرات حلقے نے وہاں کی مکدر فضا میں جس صبر اور خلوص کے ساتھ اپنے کام انجام دیے ہیں، انہیں بڑے ہی پُرکشش انداز میں پیش کیا۔ حقیقتاً یہ شوکیس "ادراک” ملک بھر میں جماعت کے کاموں کی خاموش روداد تھی، جس نے ایک صحت مند سماج کی تعمیر میں جماعت اسلامی ہند کے کردار کو نمایاں کیا۔
رات کا منظر بڑا حسین تھا؛ پوری بستی روشنی میں نہائی ہوئی تھی۔ مختلف زبانوں اور تہذیبوں کے قافلے، لیکن سب کا مقصد اور نصب العین ایک تھا۔ سب یوں گھل مل گئے گویا ایک ہی خاندان کے افراد ہوں۔ یہ رشتہ ایمان کا رشتہ ہے، جو خونی رشتے سے بھی بڑھ کر ہے۔ یہی اسلام کی خوبی ہے۔ سادگی اور نظم و ضبط ایسا کہ چاہے کھانے کی لائن ہو یا کوئی اور مقام، سب ایک ہی قطار میں کھڑے تھے، گویا "ایک ہی صف میں کھڑے ہو گئے محمود و ایاز”۔
یہ تین دن ہم اپنے خوابوں کی بستی میں گزار رہے تھے؛ وہ خواب جو ہر رکن جماعت کا خواب ہے۔ تحریک کا مقصد ہی ایک ایسے سماج کی تعمیر ہے، جہاں عدل و انصاف ہو، اللہ تعالیٰ کی بڑائی و کبریائی ہو، ہمدردی اور خیر خواہی ہو، اخلاص اور للٰہیت ہو، امن و سکون ہو، خوشی و مسرت ہو اور سکون و اطمینان ہو۔ جہاں خوشگوار مناظر اور ترقی و خوشحالی ہو۔ یہی ہمارا خواب ہے اور ہم اس ملک کو اسی طرح بنانا چاہتے ہیں۔ اس کی جھلک ہم نے ان تین دنوں میں وادی ہدیٰ کی پرنور بستی میں دیکھی۔ جہاں روحانیت اور جدت دونوں موجود تھیں۔ ہم اس عارضی بستی میں باہر کی دنیا سے بے خبر ہو کر کھو سے گئے تھے۔ اللہ کرے یہ خواب ہماری زندگی میں شرمندۂ تعبیر ہو۔
اجتماع کے دوران ایک افسوسناک خبر سنائی گئی کہ وجئے واڑہ کے سابق ناظمِ ضلع کرشنا، شاکر حسین صاحب (عمر 53 سال) جو شریکِ اجتماع تھے، انتقال کر گئے۔ إنا لله وإنا إليه راجعون۔ یہ خبر سنتے ہی تمام رفقاء کے چہروں پر کرب کے آثار نمایاں ہوگئے۔ ایک طرف جدائی کا غم تھا تو دوسری طرف موت پر رشک۔ قافلۂ حق کا ایک رفیق کتنا خوش نصیب تھا کہ آخری دم تک اللہ کے دین کی اقامت کی جدوجہد میں مصروف رہا اور اپنے عہد پر قائم رہا۔
(مِنَ الْمُؤْمِنِينَ رِجَالٌ صَدَقُوا مَا عَاهَدُوا اللَّهَ عَلَيْهِ ۖ فَمِنْهُمْ مَنْ قَضَىٰ نَحْبَهُ وَمِنْهُمْ مَنْ يَنْتَظِرُ وَمَا بَدَّلُوا تَبْدِيلًا) (الأحزاب: 23)
آج اجتماع کا آخری دن تھا۔ پروگرام مختصر لیکن پورے اجتماع کا نچوڑ تھا۔ امیر جماعت کی ولولہ انگیز اور پرعزم تقریر نے ارکان کے دلوں کو گرما دیا۔ انہوں نے "جرأت” کا مخفف یوں بیان کیا:
• جدوجہد، جس میں جہاد اور جہد مسلسل شامل ہے۔
• رفاقت، جس میں باہمی تعلقات کی مضبوطی، خیرخواہی، اور ایمان و مقصدِ زندگی کی ہم آہنگی شامل ہے۔
• استقامت، جس میں باطل کے سامنے ڈٹ جانا اور مشکلات و آزمائشوں میں صبر کے ساتھ ثابت قدم رہنا شامل ہے۔
• تربیت، جس میں ذاتی تربیت، تزکیہ، تعلیم، اور تذکیر شامل ہے۔
اختتام سے پہلے امیر جماعت اور تمام ارکان جماعت نے اپنے عہد کو دہرایا، جو ہمارے اس قافلے میں شامل ہونے کی بنیاد ہے۔ سر جھکائے، رب کے سامنے کانپتے ہونٹوں اور نم آنکھوں سے اطاعت و فرماں برداری، دین کی اقامت، صبر و استقامت، خلوص و للٰہیت اور گناہوں سے بچنے کا عہد دہرایا گیا۔
اللہ تعالیٰ ہم سب کو اس عہد پر پورا اترنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین۔
اب رختِ سفر باندھنے کا وقت تھا۔ قافلے اپنی اپنی منزلوں کی طرف روانہ ہونے لگے۔ چند گھنٹوں میں یہ بستی ویران ہو جائے گی، رنگ و رونق ماند پڑ جائے گی، اور یہ عارضی بستی ختم ہو جائے گی۔ یہ دنیا بھی ایک عارضی بستی ہی تو ہے، جو ایک دن ویران ہو جائے گی۔ اس کی رونقیں ماند پڑ جائیں گی اور انسانی قافلے اپنی آخری منزل کی طرف کوچ کر جائیں گے۔ بقاء صرف ذاتِ باری تعالیٰ کو حاصل ہے۔
کلُّ مَنْ عَلَيْهَا فَانٍ۔ وَيَبْقَىٰ وَجْهُ رَبِّكَ ذُو الْجَلَالِ وَالْإِكْرَامِ۔
***
***
اب رختِ سفر باندھنے کا وقت تھا۔ قافلے اپنی اپنی منزلوں کی طرف روانہ ہونے لگے۔ چند گھنٹوں میں یہ بستی ویران ہو جائے گی، رنگ و رونق ماند پڑ جائے گی، اور یہ عارضی بستی ختم ہو جائے گی۔ یہ دنیا بھی ایک عارضی بستی ہی تو ہے، جو ایک دن ویران ہو جائے گی۔ اس کی رونقیں ماند پڑ جائیں گی اور انسانی قافلے اپنی آخری منزل کی طرف کوچ کر جائیں گے۔ بقاء صرف ذاتِ باری تعالیٰ کو حاصل ہے۔
ہفت روزہ دعوت – شمارہ 08 دسمبر تا 14 دسمبر 2024