!خواب ہو کر رہ گئی ہیں کیسی کیسی صحبتیں

بزرگ رکن جماعت جناب شاہد حسین سے ایک ملاقات

نعمان بدر فلاحی
ریسرچ اسکالر، شعبہ عربی ، علی گڑھ مسلم یونیورسٹی

پچھلے دنوں جب 92 سالہ بزرگ رکن جماعت اسلامی ہند جناب شاہد حسین صاحب سے علی گڑھ میں بالمشافہ ملاقات کا شرف حاصل ہوا تو یقینی طور پر ان کے تجربات، احساسات اور تحریکی جذبات کی حدت سے میرا یہ عاصی اور خاکی وجود بھی قدرے منور ہوا۔ عنفوان شباب کے بالکل ابتدائی ایام کا تذکرہ کرتے ہوئے موصوف نے بتایا:
’’میں 1948ء میں میٹرک کے بعد پاکستان کی بحری فوج (Navy) میں ملازم ہوگیا تھا۔ یہ بات 1949ء اور 1950ء کی ہے۔ میں کراچی میں مقیم تھا اور تربیت (Training) کے مرحلے سے گزر رہا تھا ۔ اسی زمانے میں، میں مولانا ابوالاعلیٰ مودودیؒ (25؍ ستمبر 1903ء- 22؍ ستمبر 1979ء) کے مضامین اور کتابوں کا مطالعہ شروع کر چکا تھا اور وہاں جماعت اسلامی سے منسلک افراد کے رابطہ میں تھا۔ اتفاق سے اِسی دوران مولانا مودودیؒ تقریباً 20 ماہ کی اسیری کے بعد رہا ہو کر تنظیمی دورے پر کراچی تشریف لائے تھے۔ وہاں مولانا کے متعدد پروگرام ہوئے جن میں پہلی بار ان کو قریب سے دیکھنے اور گفتگو سننے کا موقع ملا۔ یہ وضاحت کرتا چلوں کہ مسئلہ کشمیر سے متعلق جھوٹے الزامات کے تحت محمد علی جناح کی وفات کے بعد مولانا کو پہلی مرتبہ اکتوبر 1948ء میں پاکستانی حکومت نے گرفتار کیا تھا۔ بہر حال مولانا کراچی تشریف لائے تو وہاں ان کا شایان شان استقبال کیا گیا اور متعدد مقامات پر جلسے اور پروگرامس منعقد ہوئے جس میں میری بھی شرکت ہوئی تھی۔ مجھے یاد آتا ہے کہ مولانا مودودیؒ کی تقریر کوئی بہت زیادہ جوشیلی اور جذباتی نہیں ہوتی تھی بلکہ وہ صاف صاف، ٹھہر ٹھہر کر اور روانی سے بولتے تھے۔ ان کی گفتگو یا تقریر بہت منظم، مربوط اور مدلل ہوتی تھی۔ زبان بہت اعلیٰ، نفیس اور ادبی نقطہ نظر سے بڑی معیاری استعمال کرتے تھے۔ ان کی تحریروں کے بعد اب ان کی تقریر سنی تو سچ بتاؤں میں تو ان کا مرید ہوگیا۔
پھر اتفاق ایسا ہوا کہ میں 1951ء میں ملازمت سے مستعفی ہوکر واپس ہندوستان چلا آیا اور کلکتہ میں مستقل سکونت اختیار کرلی۔ جماعت اسلامی سے وابستگی برقرار رہی اور بالآخر 1960ء میں باضابطہ جماعت اسلامی ہند کا رکن بن گیا۔ مولانا کی تمام کتابوں کا رفتہ رفتہ مطالعہ کرلیا تھا۔ تفہیم القرآن کا پہلا ایڈیشن میرے پاس موجود ہے۔ کراچی کے زمانہ قیام کے دوران میاں طفیل محمد صاحب سے بھی ملاقات ہوئی تھی جو مولانا کے بعد جماعت اسلامی پاکستان کے دوسرے امیر رہے ہیں۔
مولانا مودودیؒ سے دوسری اور آخری ملاقات مشرقی پاکستان (موجودہ بنگلہ دیش) کے شہر ’ڈھاکہ‘ میں ہوئی تھی جب 1964ء میں مولانا مودودی ؒ مولانا بھاشانی کے ساتھ جنرل ایوب کے مقابلے میں عہدہ صدارت کے لیے فاطمہ جناح کی حمایت کرر ہے تھے اور اسی مہم کے تحت فاطمہ جناح کے حق میں رائے عامہ کو ہموار کرنے کے لیے مشرقی پاکستان کے دورے پر تھے۔ ڈھاکہ میں میری ملاقات جناب خرم جاہ مراد مرحوم سے بھی رہی ہے جو ایک زمانے میں وہیں مقیم تھے اور 1971ء میں پاکستان کے ٹوٹ جانے کے بعد گرفتار بھی ہوگئے تھے ۔ خرم مراد [3؍نومبر 1932ء – 19؍ دسمبر 1996ء] انتہائی خلیق، شفیق، مہمان نواز اور پرہیز گار انسان تھے۔ ان کی گفتگو اور تقریروں میں تربیت، تزکیہ اور تذکیر کا پہلو بہت غالب رہتا تھا۔ ان کی صحبت میں دل نرم اور آنکھیں بہتی تھیں۔ خدا نے ان کی زبان میں بڑی تاثیر رکھی تھی۔ ایسے ہی لوگوں کے بارے میں شاعر نے کہا ہے ؎
خواب ہو کر رہ گئی ہیں کیسی کیسی صحبتیں
میں آج عمر کے اس آخری پڑاؤ پر اِن بزرگ ہستیوں کے بارے میں سوچتا ہوں تو خود پر فخر ہوتا ہے کہ مجھے نہ صرف یہ کہ ان کو دیکھنے، ان کی باتیں سننے اور ان کی مجالس میں بیٹھنے کا موقع نصیب ہوا بلکہ مجھے ان کی خدمت کا بھی شرف حاصل ہوا۔ کیا خبر رب العزت اپنے ان نیک بندوں کی صحبت اور خدمت کے طفیل مجھے بھی اپنی رحمتوں سے نواز دے‘‘
جناب شاہد حسین صاحب نے بتایا کہ ان کی ولادت ریاست بہار کے ضلع سیوان میں واقع موضع ’بہو آرا ‘ میں 1931ء میں ہوئی۔ والد جناب نذیر احمد صاحب کلکتہ میں پولیس انسپکٹر تھے۔ بعد میں انہوں نے دودھ کا کاروبار شروع کیا تو وہ بھی اسی کاروبار سے وابستہ ہوگئے۔ کلکتہ میں جماعت کے مقامی اجتماعات میں درس قرآن اور تقریر وغیرہ کی ذمہ داری انجام دیتے رہے ہیں۔ علاوہ ازیں جماعت کے کل ہند اجتماعات میں بھی شرکت کرتے۔ غیر مسلموں تک اسلام کی دعوت پہنچانے کے لیے 90 کی دہائی میں جماعت سے منسلک بعض احباب کے تعاون سے کلکتہ میں ’’اسلامک انفارمیشن اینڈ گائیڈنس سنٹر‘‘ قائم کیا تھا جس کے ذریعہ قرآن مجید کا انگریزی اور بنگلہ ترجمہ اور دیگر لٹریچر عام لوگوں میں تقسیم کیا گیا۔ بنگال کے سابق امیر حلقہ مرحوم عبدالفتاح صاحب اور معروف صحافی جناب سید علی صاحب مرحوم ان کے احباب اور رفیقوںمیں شامل رہے ہیں۔ میٹ کاف اسٹریٹ، لال بازار، کلکتہ میں سکونت تھی مگر اب تقریباً پانچ برس سے اپنی بیٹیوں کے پاس علی گڑھ میں مقیم ہیں۔
گفتگو کے دوران بزرگ موصوف نے مجھ سے پوچھا: ’’کیا آپ رکن جماعت ہیں؟‘‘
میں نے جواب دیا: ’’رکن تو نہیں ہوں البتہ جماعت سے وابستہ ہوں اور اس کے پروگراموں میں شرکت کرتا ہوں‘‘ زیر لب مسکراتے ہوئے بولے ’’شکل و صورت اور بات چیت سے تو آپ رکن جماعت ہی معلوم ہوتے ہیں، کتنا اچھا ہوتا کہ آپ رکنیت کا فارم بھی بھر دیتے‘‘
***

 

***

 


ہفت روزہ دعوت – شمارہ 07 مئی تا 13 مئی 2023