
قتل سے پہلے قاتل کا پتہ، برطانوی حکومت کا نیا تحقیقی منصوبہ
مصنوعی ذہانت سے قتل کی پیش گوئی: قیام انصاف کی کوشش یا نگرانی کا نیا جال؟
زعیم الدین احمد ،حیدرآباد
دور جدید میں ٹیکنالوجی نے زندگی کے ہر شعبے پر اثر ڈالا ہے، پھر قانون نافذ کرنے والے ادارے اس سے کہاں الگ رہتے، لیکن قانون نافذ کرنے والے اداروں کو جہاں ٹیکنالوجی نے جرائم کی روک تھام میں مدد فراہم کی ہے، وہیں شخصی آزادی کو ختم کر دیا ہے۔ برطانیہ میں قانون نافذ کرنے والے اداروں نے مصنوعی ذہانت کے ذریعے جرائم کی روک تھام اور مجرموں کی شناخت کے نئے آلات متعارف کیے ہیں۔ ان آلات نے Predictive Policing کے تصورات کو جنم دیا ہے، ان ہی میں سے ایک منصوبہ ہے جو قتل کی پیشن گوئی کرسکتا ہے، آپ کہیں گے کہ یہ کیسے ممکن ہے کہ ایک شخص مستقبل میں کسی کا قتل کرے گا، اس بات کا اندازہ اب کیسے لگایا جا سکتا ہے؟ سننے میں تو یہ بات بڑی عجیب لگتی ہے لیکن برطانیہ میں اس بات کی تحقیق کی گئی اور اب یہ تجربے کے درجے میں ہے۔ اس کو مشین لرننگ کے الگورتھمز کے ذریعے مستقبل میں قتل کے مرتکب ہونے والے ممکنہ افراد کی نشاندہی کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ اس پروجیکٹ پر برطانیہ کے وزارتِ انصاف یعنی منسٹری آف جسٹس کام کر رہا ہے، اس منصوبے کا نام "شیرنگ ڈیٹا ٹو امپرو رسک اسسمنٹ” ہے۔ آئیے اس کے فوائد و نقصانات کو جاننے کی کوشش کرتے ہیں۔
تحقیقی منصوبے کا پسِ منظر
یہ پائلٹ پروجیکٹ سابقہ حکومت میں وزیراعظم کے دفتر کی ہدایت پر شروع ہوا۔ اس کا ایک ثانوی مقصد یہ معلوم کرنا ہے کہ کیا موجودہ ڈیٹا سیٹس اور جدید تجزیاتی طریقے مستقبل میں قتل کے اقدامات کو یا قاتلانہ ردِعمل کے امکانات کو پہلے سے جان کر اس کو روکنے میں معاون ثابت ہو سکتے ہیں؟ حکومت کا کہنا ہے کہ یہ پروجیکٹ فی الحال تحقیق کے مرحلے میں ہے اور تحقیقی حد تک ہی رہے گا، لیکن ہم سب جانتے ہیں کہ حکومتوں کا ارادہ کیا ہوتا ہے اور اس پر عمل درآمد کیسے کیا جاتا ہے، ابھی تو اس کا کوئی عملی نفاذِ پولیس یا عدالتی کارروائی میں نہیں کیا جارہا ہے، لیکن مستقبل قریب میں شاید کیا جائے۔
مقصد اور اہداف
اس کے کئی ایک مقاصد بیان کیے گئے ہیں:
1. شواہد کی فراہمی: ایسے ڈیٹا پر مبنی شواہد جمع کیے جائیں گے جو سنگین جرائم کے خطرات کو محسوس کرتے ہوئے اس کا مؤثر اندازہ پیش کرے۔
2. ریسک اسسمنٹ میں بہتری: موجودہ انسانی ذہانت پر مبنی اندازوں کے مقابلے میں بہتر، درست اور مربوط ماڈلز تیار کیا جاسکے۔
3. عوامی تحفظ میں اضافہ: قانون نافذ کرنے والے اداروں اور حکام کو بروقت ایکشن میں آنے کے لیے معلومات فراہم کرنا تاکہ ممکنہ جرائم کو بروقت روکا جا سکے۔
ڈیٹا کے ذرائع اور اس کا طریقہ کار
وہ ذرائع جہاں سے ڈیٹا حاصل کیا جائے گا؟
ادارے: وزارتِ انصاف،
HM Prison & Probation Service، گریٹر مانچسٹر پولیس، اور میٹروپولیٹن پولیس۔
ریکارڈز: اس کے لیے ملزمین کا، شواہد کا، مظلومین کا اور کیس سے متعلق افراد کا ڈیٹا استعمال کیا جائے گا۔ یہ ڈیٹا جیل خانوں سے، پولیس اسٹیشنوں سے اور عدالتوں سے لیا جائے گا۔
ملزمین کا بنیادی ڈیٹا: جیسے تاریخ پیدائش، جنس، قومیت، پی پی این سی شناختی کوڈ وغیرہ کو استعمال کیا جائے گا۔
جنگ و حراست کے سابقہ ریکارڈز: جی ایم پی یعنی گریٹر مانچسٹر پولیس 2015 سے قبل کی گرفتاریوں اور حراست میں رکھے گئے افراد کی ساری تفصیلات اس میں شامل ہوں گی۔
ملزمین کی نفسیاتی کیفیات: اقدام خودکشی، خود زنی یعنی خود کو مارنا، نشے کی لت اور دیگر ذہنی علامات کی تفصیلات کا ڈیٹا لیا جائے گا۔
متاثرہ افراد کے سابقہ تجربات: یعنی جو لوگ کسی ظلم کا شکار ہوئے ہیں، ان کا ڈیٹا لیا جائے گا، گھریلو تشدد کا پہلا واقعہ، اس کی کیفیت، تاریخ وغیرہ ساری چیزیں اس کیس میں درج ہوں گی۔
تجزیاتی تکنیک: ریسرچ ٹیم مختلف مشین لرننگ جیسے لوجسٹک ریگریشن اور روایتی اعدادوشمار کے ماڈلز پر تجربہ کر رہی ہے تاکہ وہ ڈیٹا میں موجود پیٹرنز کو دریافت کرسکیں۔
فوائد
اس ٹیکنالوجی سے جن فوائد کا اندازہ لگایا جارہا ہے ان میں سے بعض یہ ہیں :
ایسے افراد کی یا مجرمین کی نشان دہی، جن سے خطرات زیادہ ہوں، ان کی بہتر شناخت کی جاسکے۔
1. درست نشاندہی:
اینالوگس اکیڈمک ماڈلز جیسا کہ لندن میٹ پولیس کے گھریلو قتل کی پیشین گوئی کرنے والے ٹول نے 71 فیصد اکیوریسی کے ساتھ مستقبل میں ہونے والے 77.6 فیصد قتل کا پتہ لگایا ہے، جس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ اس کی کارکردگی ڈیٹا پر مبنی رسک اسٹریٹیفکیشن کے روایتی طریقوں سے بہت بہتر ہے۔
2. وسائل کی مؤثر تقسیم: پروبیشن آفیسرز اور پولیس اہلکار ان افراد پر اپنی توجہ مرکوز کر سکتے ہیں جو دوبارہ پرتشدد جرائم کرسکتے ہیں، جن کا ریپوٹڈ رسک زیادہ ہو، اس سے یہ فائدہ ہوگا کہ اہلکار کمزور کمیونٹیوں میں حفاظتی اقدامات کو بہتر طور پر لاگو کرسکتے ہیں۔
3. بروقت مداخلت: ذہنی صحت اور نشے کے ریکارڈز کی بنیاد پر کم از کم 5 سے 8 گنا زیادہ پُر خطر کیسز کی نشاندہی کی جا سکتی ہے، جس سے مناسب طبی اور سماجی مدد فراہم کی جا سکے۔
فوائد یہ ہیں کہ اس سے جرائم پر بروقت مداخلت کی جاسکتی ہے، پولیس محکمہ میں وسائل کی بہتر تقسیم ممکن ہو پائے گی اور درست نشاندہی کی جاسکے گی۔
خطرات اور نقائص
آئیے اب جانتے ہیں کہ اس کے نقصانات کیا ہیں اور اس سے کون سے خطرات پیدا ہوسکتے ہیں۔
1. متعصب الگورتھمس اور امتیازی سلوک کا خطرہ: گرفتاریاں اور سزاؤں کا جو ڈیٹا ہے، اس میں نسلی و سماجی فرق پایا جاتا ہے، اس ڈیٹا میں اقلیتی اور غریب طبقوں پر زیادہ نگرانی کی گئی ہے، خطرہ یہ ہے کہ اس کے ذریعے سے ان پر مزید نگرانی کو بڑھایا جا سکتا ہے۔ اس ماڈل کے ناقدین کا کہنا ہے کہ یہ ماڈل "غریب اور اقلیتی طبقات پر قانونی شکنجے کو بڑھائے گا” اس ڈیٹا میں نسلی اور اقتصادی امتیازات پوشیدہ ہیں، جو ماڈلز میں منتقل ہو کر اقلیتی اور غریب طبقات کے خلاف غیر منصفانہ فیصلوں کا سبب بن سکتے ہیں۔
2. پرائیویسی کے مسائل: اس سے یہ بھی خطرہ ہے کہ اس سے پرائیویسی اور شہری آزادیوں کے مسائل پیدا ہوں گے۔ نفسیاتی صحت کے ریکارڈز، خودزنی یعنی خود کو مارنے کا جو ڈیٹا ہے اور گھریلو تشدد کی تفصیلات اس میں شامل کی گئی ہیں، جو فرد کی رضامندی کے بغیر ہے، ڈیٹا پروٹیکشن اور متاثرین کی جانکاری کے بغیر پروفائلنگ کی گئی ہے جس سے سنگین سوالات پیدا ہوسکتے ہیں۔ نفسیاتی اور ذاتی حساس ڈیٹا کے استعمال سے افراد کے نجی حقوق متاثر ہو سکتے ہیں؛ یہ انصاف میں اس کے غلط استعمال کی گنجائش کے خطرات کو مزید بڑھا دیتی ہے۔
3. شفافیت کی کمی: اس میں شفافیت اور جواب دہی کی کمی پائی جاتی ہے، ماڈل کے پیرامیٹرز، اس کی قدر اور ویلیڈیشن کے نتائج کو عوام سے چھپایا جا سکتا ہے، آزاد آڈٹ یا رپورٹنگ کی صورت میں غلطیوں اور امتیازات کو دور کرنا مشکل ہوگا۔ اس میں غلطیوں اور جانب داری کی نشان دہی کرنا اور بھی مشکل ہو جاتا ہے۔
4. غلط نشان دہی کا خطرہ: ہم سب جانتے ہیں کہ قتل ایک غیر معمولی واقعہ ہے؛ یہ کوئی عام سی بات نہیں ہے، اس ماڈل میں فالس یعنی غلط نشان دہی کا تناسب زیادہ ہوتا ہے، جس سے ایک بے گناہ فرد پر غلط الزامات یا غیر ضروری نگرانی کا خطرہ بڑھ جائے گا۔
یہ وہ خطرات ہیں جو ان ماڈلز میں پائے جاتے ہیں، یعنی تعصب و امتیازی سلوک، پرائیویسی کے مسائل، شفافیت کی کمی اور غلط نشاندہی کے خطرات پیدا ہوتے ہیں۔
چند عملی سفارشات
تین چار عملی سفارشات ہیں، جنہیں لازمی طور پر اپنایا جانا چاہیے۔
1. آزاد آڈٹ: معاملات کی تہہ تک جانے والی جانچ اور الگورتھم کی جانب داری کا باقاعدہ انسداد ہو، تاکہ یہ ماڈل شفاف اور ذمہ دارانہ خطوط پر قائم رہ سکے۔
2. مقامی کمیونٹی کی شمولیت: متاثرہ کمیونٹیز کے نمائندے اس پراجیکٹ کی نگرانی میں شامل ہوں، تاکہ فیصلوں میں سماجی انصاف کے پہلو کو بھی برقرار رکھا جا سکے۔
3. قانونی فریم ورک: ڈیٹا پروٹیکشن رولز مثلاً جی ڈی پی آر کے تحت اجازت نامے حاصل کیے جائیں اور استعمال کی حدود بھی مقرر ہوں۔ جی ڈی پی آر یعنی "جنرل ڈیٹا پروٹیکشن ریگولیشن” یہ یورپی یونین کا ایک ضابطۂ قانون ہے جو 25 مئی 2018 کو نافذ ہوا۔ اس کا مقصد یورپی یونین کے اندر اور باہر کام کرنے والے اداروں کے ذریعے افراد کے ذاتی ڈیٹا کی حفاظت کو مضبوط بنانا اور ایک مشترکہ فریم ورک فراہم کرنا ہے۔
4. انسانی نگران: AI کی پیشنگوئیوں کو حتمی فیصلہ نہیں ماننا چاہیے؛ آفیسروں اور سماجی جہد کاروں کو حتمی منظوری کی اجازت لازمی ہونی چاہیے۔
آخری بات
اس اے آئی کے پروجیکٹ کو، اگر مناسب شفافیت، جواب دہی اور انسانی نگرانی کے تعاون سے آگے بڑھایا جاتا ہے، تو یہ سنگین جرائم کی روک تھام میں اہم کردار ادا کر سکتا ہے۔ تاہم، اس ماڈل میں پوشیدہ تعصبات، پرائیویسی کے مسائل اور غلط نشان دہی کے خدشات کو نظرانداز کرنا نہ صرف غلط نتائج کا باعث بنے گا بلکہ سماجی بھروسے کو بھی مجروح کرے گا۔ لہٰذا پالیسی سازوں، تحقیق کاروں اور حکومتی اداروں کے لیے ضروری ہے کہ وہ ان خطرات کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے شفاف، منصفانہ اور مؤثر تعمیری حکمتِ عملی اپنائیں۔
***
اے آئی کے پروجیکٹ کو، اگر مناسب شفافیت، جواب دہی اور انسانی نگرانی کے تعاون سے آگے بڑھایا جاتا ہے، تو یہ سنگین جرائم کی روک تھام میں اہم کردار ادا کر سکتا ہے۔ تاہم، اس ماڈل میں پوشیدہ تعصبات، پرائیویسی کے مسائل اور غلط نشان دہی کے خدشات کو نظرانداز کرنا نہ صرف غلط نتائج کا باعث بنے گا بلکہ سماجی بھروسے کو بھی مجروح کرے گا۔ لہٰذا پالیسی سازوں، تحقیق کاروں اور حکومتی اداروں کے لیے ضروری ہے کہ وہ ان خطرات کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے شفاف، منصفانہ اور مؤثر تعمیری حکمتِ عملی اپنائیں۔
ہفت روزہ دعوت – شمارہ 27 اپریل تا 03 مئی 2025